لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

مولانا حافظ حماد احمد ترکؔ
نائب مدیر، ماہنامہ مفاہیم، کراچی

بندر گاہ پر ایک چھوٹا بحری جہاز لنگرانداز تھا جس کا ایک حصّہ پل کی مانند بندر گاہ سے ملا ہوا تھا اور گاڑیاں قطار در قطار جہاز میں کھڑی ہو رہی تھیں۔ جب جہاز بھر گیا تو اس پل نما حصّے کو اٹھا دیا گیا اور جہاز روانہ ہوا۔ بالائی منزل پر نشستوں کا بھی انتظام تھا۔ ہم وہاں جا کر بیٹھ گئے۔ قہوے کا دور شروع ہوا تو گائیڈ نے کیمرہ نکال لیا اور تصاویر اتارنی شروع کیں۔ قہوے کے بعد اکثر دوست جہاز کے عرشے پر کھڑے ہو کر سمندر کا نظارہ کرنے لگے۔ تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد دوسری طرف اترے اور ایک بار پھر زمینی سفر شروع ہوا۔ پہلا قیام ایک بہت ہی قدیم درخت کے پاس ہوا۔ سینکڑوں سال پرانے اس درخت کی شاخیں دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ درخت نسبتاً بلندی پر واقع تھا اور منظر بہت دلکش تھا۔ اب تک کی چار قسطوں سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ اس موقعے کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے ہم نے کیا کیا ہو گا۔ ہم اپنے قارئین کو ہرگز یہ نہیں کہہ رہے کہ یہاں بھی ہم نے قہوہ پیا اور یہ تو بالکل بھی نہیں بتائیں گے کہ ایک نہیں بلکہ قہوے کے دو دور چلے۔ بہرحال؛ یہاں سے روانہ ہونے لگے تو کچھ لوگ نظر آئے جن کے کندھوں پر بہت بڑے بڑے اور خوبصورت رنگوں والے توتے بیٹھے ہوئے تھے(توتا ت کے ساتھ ہی درست ہے ماہرینِ لسانیات کے نزدیک، ط سے لکھنا غلط ہے)۔ سیاح ان توتوں کو کندھے پر بٹھا کر تصویویں کھنچواتے ہیں اور اس کی اجرت ان لوگوں کو دیتے ہیں۔ ترکی میں توتے کو ’’پپگان‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں جو کہ عربی سے ترکی میں آیا۔ عربی میں اسے ’’ببغاء‘‘ کہتے ہیں۔

اس مقام سے آگے بڑھے تو تقریباً آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد چیئر لفٹ والے مقام پر رکے جسے ’’اولوداغ‘‘ (بلند چوٹی) کہتے ہیں لیکن چیئر لفٹ (جسے وہ لوگ ٹیلی فیرک کہتے ہیں) مرمّتی اُمور کے سبب بند تھی۔ ہماری اگلی منزل ’’اولوجامی‘‘ (بلند مسجد) تھی جہاں ہم نے نمازِ ظہر ادا کرنی تھی۔ وضو کر کے مسجد میں داخل ہوئے اور نمازِ ظہر ادا کی۔ یہاں بھی نماز کے بعد حسبِ معمول تلاوت ہوئی۔

تلاوت کے بعد مسجد کا دورہ شروع کیا۔ مسجد کا دورہ کرانے کے لیے ہم آپ کو مسجد سے باہر لے جاتے ہیں۔ اولوجامی کے احاطے میں داخل ہوتے ہی ایک کشادہ صحن نظر آتا ہے۔ دونوں طرح کے وضوخانے موجود ہیں۔ ایک تو جدید طرز کا جس میں کئی افراد کی گنجائش ہے۔ یہ اسی طرح کا وضو خانہ ہے جیسا ہماری مساجد میں ہوتا ہے۔ دوسرا وضوخانہ قدیم طرز کا ہے جسے شادریوان کہتے ہیں اور اس کی تفصیل گزشتہ اقساط میں گزر چکی ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ مسجد سلطان بایزید اول کے حکم پر ۱۳۹۶ سے ۱۴۰۰ء کے درمیان مکمل ہوئی جبکہ داخلی دروازے پر تختی ۱۳۹۹ء کی ہے۔ یعنی تقریباً چھے سو سال پرانی تعمیر ہے۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی ایک فوارہ نظر آتا ہے۔ چھت پر نظر ڈالیں تو متعدد گنبد ہیں اور ہر گنبد خطاطی سے مزین ہے۔ پوری مسجد میں خطاطی کے تقریباً ۲۰۰ نمونے موجود ہیں جن میں قرآنی آیات، احادیث، اذکار اور علما و فقہا کے اسماے گرامی تحریر ہیں۔ اگر محراب کی طرف رخ کریں تو مسجد کے بائیں کنارے پر عثمانی دور کا غلافِ کعبہ موجود ہے جسے برکت کے لیے وہاں رکھا گیا ہے۔ خلفاے اربعہ کے نام مختلف محرابوں پر سب سے اونچے لکھے ہوئے ہیں۔ ائمۂ اربعہ کے نام بھی نمایاں ہیں۔ آیات کے طغروں میں بھی ایک خاص ربط ہے۔ سامنے ﴿فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ﴾ لکھا ہوا ہے اور پلٹ کر دیکھیں تو ﴿وَاللَّهُ مِن وَرَائِهِم مُّحِيطٌ﴾ درج ہے۔ تقریباً ہر ستون پر کوئی نہ کوئی نمونہ خطاطی کا موجود ہے۔ مسجد کا بیرونی حصہ پتھروں کا بنا ہوا ہے جو قدیم ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی مضبوط اور خوبصورت ہے۔ مسجد کا بہت تفصیلی دورہ کر کے باہر کی طرف روانہ ہوئے۔

مسجد سے باہر نکلتے ہیں تو قریب ہی بازار ہے۔ یہاں ایک مشہور ریستوران ’’اسکندر کباب‘‘ میں ظہرانے کے لیے نشستیں حاصل کیں۔ عملے کا رویہ اور اخلاق قابلِ تعریف تھا۔کھانا پیش کرنے سے قبل سرخ رنگ کا مشروب پیش کیا گیا جو صرف ذائقے میں ہی نہیں بلکہ تاثیر میں بھی بہت عمدہ تھا۔ اسکندر کباب دراصل ایک ترک سوغات ہے۔ ایک چھوٹے تھال میں روغنی روٹی کے ٹکڑے بچھائے جاتے ہیں اور اوپر باریک کٹے ہوئے گوشت کے پارچے ہوتے ہیں جن پر تیز گرم دیسی گھی یا مکھن انڈیلا جاتا ہے۔ بلاشبہہ ترکی میں جتنے بھی ترک روایتی کھانے کھائے گئے ان میں سب سے بہترین اسکندر کباب تھا۔

یہاںسے روانہ ہوئے تو اگلی منزل فتحِ بورصا پینوراما تھی۔ تقریباً ویسا ہی پینوراما جیسا استنبول میں تھا۔ البتہ فتحِ قسطنطنیہ پینوراما زیادہ بڑا اور اچھا تھا۔ اس پینوراما میں بھی مجاہدین کے ہتھیار اور وردیاں رکھی ہوئی تھیں۔ بالائی منزل پر فتحِ بورصا کی منظر کشی بہت مہارت کے ساتھ کی گئی تھی۔ ایک جانب کائی سپاہی اورسردار عثمان غازی کا خیمہ تھا اور دوسری جانب فصیل اور اس پر تعینات بازنطینی سپاہی منظر کا حصہ تھے۔اس کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کے بانی عثمان غازی رحمہ اللہ کے مزار پر حاضری دی۔ اس کے بعد فاتحِ بورصا اورخان بن عثمان غازی کی قبر پر حاضر ہوئے۔ مزار پر پہرےداروں کا لباس قدیم عثمانی فوج کے لباس جیسا تھا اور ہاتھوں میں عثمانی طرز کی تلواریں تھیں۔ متعین اوقات میں یہ پہرےدار تبدیل ہوتے ہیں اور ان کی تبدیلی کا منظر بہت دلچسپ ہوتا ہے۔ مزار پر موجود زائرین کی بہت بڑی تعداد راستے کے دونوں طرف قطار میں کھڑی ہوتی ہے اور درمیان سے یہ سپاہی گزرتے ہوئے جاتے ہیں۔ مزار کے احاطے میں وہ توپیں بھی رکھی گئی تھیں جو فتحِ بورصا میں استعمال ہوئیں۔ عالمِ اسلام کی معروف جنگوں کے احوال کا مطالعہ کیا جائے تو عربوں اور ترکوں میں ایک بات یکساں نظر آتی ہے کہ عرب اور ترک فاتحین جنگ کی منصوبہ بندی اور جنگی چالوں کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ بالخصوص ترک فاتحین کا یہ مزاج رہا کہ دشمن کو اس محاذ پر شکست دی جائے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو، اور وہ وسائل اختیار کیے جائیں جن کا دفاع ان کے بس میں نہ ہو۔ خیر، مزار کے احاطے میں ہی توپوں سے ذرا آگے بڑھیں تو وسیع جگہ موجود ہے جہاں سے پورے شہر کا منظر نظر آتا ہے۔ ہم نےبورصا کی مسلمان آبادی کو دیکھ کر بے اختیار ان اولوالعزم مجاہدین کی ہمت کوخراجِ تحسین پیش کیا جن کے توکل، جذبۂ جہاد اور بہترین حکمتِ عملی نے ظالم بازنطینی حکمران کے چنگل سے لوگوں کونکالا اور اسلام کی آزاد اور انصاف پسند فضا میں جینے کا موقع دیا۔ اب بات نکل ہی آئی ہے تو اس چوٹی پر کھڑے کھڑے آپ کو بورصا کی فتح کا قصہ بھی سنائے دیتے ہیں۔

ارطغرل غازی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات پر ان کے بیٹے عثمان غازی رحمۃ اللہ علیہ ۱۲۸۱ء میں اپنے قبیلے ’’کائی‘‘ کے سردار بنے۔ مختلف جنگوں اور فتوحات کے نتیجے میں عثمان غازی نے جو خطہ فتح کیا،۱۲۹۹ء میں اس پر عثمانی سلطنت کے قیام کا اعلان کر دیا۔ عثمان غازی نے سلطنت قائم کی تو ان کی رعایا ۴۰۰ خیموں پر مشتمل تھی۔ عثمانی فوج وقتاً فوقتاً حملے کر کے اپنی سلطنت بڑھاتی رہی لیکن مضبوط معاشی نظام کے لیے کسی بڑے محاذ پر کامیابی ضروری تھی۔ شیر کم ہی شکار کے لیے نکلتا ہے، لیکن جب نکلتا ہے تو سب سے مضبوط ہرن کو ہدف بناتا ہے۔عثمان غازی کی نظرِ انتخاب نے بورصا جیسے عظیم شہر کو ہدف بنایا۔ ایسی فوج کے لیے؛جس کے پاس جنگی اسباب نہ ہونے کے برابر تھے، انتہائی مضبوط فصیل اور اسلحے سے لیس بازنطینی فوج کا مقابلہ آسان نہ تھا۔ قلعے کی فصیل۳۴۰۰ میٹر لمبی تھی جس پر ۱۴ چوکیاں تھیں اور چھے دروازے تھے۔ فصیل میں شگاف کے لیے کوئی سامانِ حرب نہیں تھا۔ عثمان غازی نے براہِ راست حملہ کرنے کے بجائےایک طویل المیعاد منصوبہ بنایا۔ بورصا شہر کے گرد جتنی آبادیاں اور شہر تھے سب پر ایک ایک کر کے قبضہ کیا۔ اس طرح بورصا کو دیگر بازنطینی شہروں سے الگ کر دیا۔ اب بھی بورصا کے پاس سالوں تک کا جنگی سامان اور غذائی اجناس کا ذخیرہ تھا اس لیے ان میں زیادہ تگ و دو نظر نہ آئی۔ بورصا کے لیے امداد کا ایک اہم متوقع ذریعہ بحرِ مرمرہ کی آبی گزرگاہ تھی۔ عثمان نے بحرِ مرمرہ کے ایک اہم جزیرے ’’کالولیمنی‘‘ پر قبضہ کیا۔ اس طرح بورصا کا قسطنطنیہ سے بحری تعلق منقطع ہو گیا۔ ایک اور بڑا اقدام عثمان غازی نے یہ کیا کہ بورصا کو نیقیہ جیسے اہم شہر سے جدا کرنے کے لیے’’تریکوکا‘‘ نامی قلعے پر قبضہ کر لیا۔ یوں شمالِ مشرق میں بورصا کی امداد کے تمام ممکنہ راستے مسدود ہو گئے۔ اب عثمانی سپاہیوں نے بورصا کے قریبی علاقوں، تجارتی مراکز اور اہم مقامات کو نشانہ بنایا اور ۱۳۱۷ء میں ان کے حملوں میں تیزی آگئی۔ عثمانی سپاہیوں کا مقصد بورصا کی بازنطینی فوج کو مشتعل کر کے انھیں جنگ پر اکسانا تھا، کیونکہ جنگ ہوگی تو ان کے وسائل میں کمی آئے گی اور وسائل میں اضافے اور کمک کے ذرائع مسدود ہوں گے تو ریاست بہت جلد کمزور پڑ جائے گی۔ کیوں۔۔۔ حیران ہو گئے نا آپ! تو سوچیں، جب بازنطینی اس جنگی چال سے واقف ہوئے ہوں گے تو ان پر کیا گزری ہوگی۔ اب بورصا شہر ایک جزیرے کی طرح تھا جس سے ہر روز بہت سے شہری نقل مکانی کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔ تقریباً چار سال بعد یعنی ۱۳۲۱ء میں صورتِ حال مکمل طور پر عثمانیوں کے حق میں تھی۔ لیکن آپ بورصا کی جنگی طاقت کا اندازہ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ اس طویل جنگی منصوبہ کے بعد بھی بورصا کی فوج نے عثمانیوں کو چنداں اہمیت نہ دی اور بورصا کی حکومت چلتی رہی۔ اب عثمان غازی نے باقاعدہ شہر کے محاصرے کا فیصلہ کیا اور اپنے بیٹے اورخان کو محاصرے کا حکم دیا۔ خود عثمان نے جنگی حکمتِ عملی کے تحت دو مضبوط قلعے تعمیر کروائے۔ جب محاصرہ طویل ہوگیا اور اہلِ شہر محاصرے سے تنگ آگئے تو انھوں نے ہتھیار ڈالنے پر آمادگی ظاہر کی۔ دس سال طویل محاصرے سے مضمحل بازنطینی افواج نے عام معافی کی شرط پر قلعے کے دروازے کھول دیے اور عثمانی فوج ۶ اپریل ۱۳۲۶ء کوبغیر کسی مقابلے کے شہر میں داخل ہوگئی۔ عثمان غازی اس وقت انتہائی بیمار تھے۔ اورخان نے اپنے والد کو فتح کی خبر سنائی تو انھوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اورخان کو وصیت کی کہ اس شہر کو دارالحکومت بنایا جائے۔عثمان غازی فتحِ بورصا کے چند ماہ بعد ہی وفات پاگئے۔ بورصا طویل عرصے تک سلطنتِ عثمانیہ کا دارالحکومت بنا رہا۔ یہ تھا فتحِ بورصا کا ایمان افروز واقعہ۔ اب روانگی کا وقت ہوا چاہتا ہے لہذا مزار کے احاطے سے باہر چلتے ہیں۔

مزار کے باہر آلاتِ حرب و ضرب کی دکانیں نظر آئیں جہاں عثمانی ٹوپیاں، تلواریں، خنجر اور دیگر جنگی اوزار فروخت کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ یہاں سے واپسی کا سفر شروع ہوا۔ راستے میں ایک مقام پر ’’ایفام‘‘ نامی تعلیمی ادارے کا دورہ کیا۔ترکی کے معروف عالم شیخ احسان شِن اوجاق کی سرپرستی میں قائم اس ادارے کی عمارت تو بہت چھوٹی تھی لیکن عزائم بہت بلند تھے۔ ادارے کا نصب العین بزبانِ ترکی درج تھا جس کا ترجمہ یوں کیا جا سکتا ہے: ’’ایفام؛اسلام کو کشمیریؔ میں، علم کو کوثریؔ میں،فکر کو ندویؔ اور نجیب فاضلیؔ میں، زہد کو علی حیدر آفندیؔ میں، فراست کو عبد الحمیدؔ ثانی میں اور جہاد کو امام شاملؔ میں دیکھتا ہے‘‘ ۔ یہ تمام شخصیات مختلف شعبوں میں ایفام کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ادارہ مختلف النوع تعلیمی خدمات انجام دیتا ہے، مختصر دورانیے کے کورس بھی معمول کی سرگرمی ہیں۔ یہاں ایک نوجوان منتظم؛ استاذ حمزہ سے ملاقات ہوئی۔ بہت رواں اور شستہ عربی میں گفتگو کر رہے تھے۔ان سے گفتگو کرتے ہوئے تھوڑی دیر میں اندازہ ہو گیا کہ علم دوست شخصیت ہیں اور تعلیم و تعلم ہی ان کا مشغلہ ہے۔ حیرت انگیز بات یہ تھی ترکی میں موجود یہ شخص اکابرِ دیوبند بالخصوص حضرت تھانوی علیہ الرحمۃ کا ایسا عاشق تھا کہ کیا کہنے۔ ایک صاحب بتانے لگے کہ یہ حضرت حکیم الامت کی اردو کتابوں کو کھول کر حسرت سے ان کے صفحات پلٹتے رہتے ہیں اور اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کتابوں کا ترجمہ ہوجائے۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے بھی کچھ عرصہ قبل اس ادارے کا دورہ کیا تھا۔ استاذ حمزہ؛ حضرت قبلہ شیخ الاسلام صاحب کے بھی انتہائی معتقد تھے۔ ایک تحفہ بھی ان کے لیے ہمارے حوالے کیا۔ ایفام کا دورہ مکمل کر کے ایک بار پھر استنبول کی طرف رواں دواں ہو گئے۔ پہلے زمینی سفر کیا پھر ایک مقام سے بحری سفر شروع ہوا۔ گاڑی کو فیری میں کھڑا کیا اور خود بحری جہاز کے اوپری حصے میں آ گئے۔ استنبول پہنچتے ہوئے رات کافی ہو چکی تھی اس لیے جلد ہی سو گئے۔

جاری ہے

لرننگ پورٹل