لاگ ان

جمعہ 20 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 22 نومبر 2024

لاگ ان

جمعہ 20 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 22 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 20 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 22 نومبر 2024

جمعہ 20 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 22 نومبر 2024

صوفی جمیل الرحمان عباسی
مدیر ماہنامہ مفاہیم و ناظمِ شعبۂ تحقیق و تصنیف، فقہ اکیڈمی

صلیبی جنگوں سے پہلے عالمِ اسلام کی صورت حال

پچھلی قسط میں ہم نے خلافتِ عباسیہ کے پہلے دور کا ذکر کیا تھا جو قوت وشوکت والا تھا۔ یہ ۱۳۲ سے ۲۴۷ ہجری (۷۴۹ – ۸۶۱ عیسوی) تک محیط ہے۔ اس کا خاتمہ المتوکل کے دور کے خاتمے پر ہوتا ہے۔ دوسرا دور ۲۴۷ ۔ ۶۵۶ ھ۔(۸۶۲ ۔ ۱۲۵۸ عیسوی) تک پھیلا ہوا ہے جس کا خاتمہ سقوطِ بغداد پر ہوتا ہے۔اگرچہ عباسی دور کی ابتدا ہی میں خلافت کے مرکزی ادارے سے آزاد ریاست اندلس ( ۱۳۸ ھ ۷۵۵ عیسوی ) اور اس کے بعد چند مزید ریاستیں قائم ہو چکی تھیں۔لیکن دوسرے دور میں تحریکوں اور ریاستوں کی بھر مار ہو گئی۔ ان ریاستوں میں باہم لڑائیاں جاری رہا کرتیں جن سے امتِ مسلمہ بہت کمزور ہوئی۔ منگولوں اور صلیبیوں کے حملے مسلمانوں کے اسی ضعف کا نتیجہ تھے۔بطور نمونہ ہم چند ریاستوں کا ذکر کرتے ہیں اس سے صلیبی جنگوں کے سلسلے کو سمجھنے میں سہولت ہو گی۔

ریاستِ طولونیہ (۲۵۴۔ ۲۹۲ ھ / ۸۶۸۔ ۹۰۵ ء)

مصر عباسیوں کے ترک امیر احمد بنِ طولون نے اپنی آزاد حکومت قائم کر لی۔ بعد میں انھوں نے شام پر بھی قبضہ کر لیا۔ طولونیہ نے روم کے خلاف جہاد میں بھی حصہ لیا۔ابتدا میں یہ عباسیوں کے دوست رہے لیکن بعد میں کچھ عرصہ دشمنی رہی۔

قرامِطہ (۲۸۷۔ ۴۷۰ ھ /۹۰۰۔ ۱۰۷۷ عیسوی)

قرامطہ باطنی فرقہ تھا۔ یہ شام ، عراق، حجاز اور بحرین کے بعض علاقوں پر ایک عرصہ قابض رہے۔ یہ ایک گمراہ فرقہ تھا۔ انھوں نے مکہ پر قبضہ کر کے حاجیوں پر ظلم و ستم کیے۔قبیلہ بنو عبد القیس سے تعلق رکھنے والے سردار عبد اللہ العیونی نے عباسیوں اور سلجوقیوں کی مدد سے ان کا خاتمہ کیا اور بحرین میں سلطنت عیونیہ کی بنیاد رکھی۔

فاطمی خلافت (۲۹۷ – ۵۶۷ ھ ـ/۹۰۹ – ۱۱۷۱ ء)

یہ رافضی شیعہ تھے جو فاطمی ہونے کے دعوے دار تھے ۔ یہ خود کو خلیفہ اور امیر المومنین کہلاتے۔ان کی تحریک کی ابتدا یمن سے ہوئی اور یمامہ، بحرین مصر، قیروان اور پورے شمالی افریقہ پر قابض ہو گئے۔ اہلِ سنت سے خاص دشمنی رکھتے تھے۔ صلاح الدين ایوبی کے ہاتھوں ان کا خاتمہ ہوا۔

سلطنتِ سامانیہ(۲۶۱۔ ۳۹۰ ھ / ۸۷۴۔۱۰۰۰ ء)

سامانیہ فارسی رافضی شیعہ خاندان تھا۔ عہدِ مامون میں یہ سمرقند اور فرغانہ وغیرہ کے امیر تھے۔ بعد میں انھوں نے خراسان، سجستان اور رَے وغیرہ پر بھی قبضہ کر لیا۔ طبرستان میں قائم زیدیہ حکومت پر اور صفاریہ پر بھی قبضہ کیا۔ غزنویوں اور ترکوں کے ہاتھوں ان کی ریاست کا خاتمہ ہوا۔

آل بُوَیہ (۳۳۴۔ ۴۴۷ ھ / ۹۴۵۔ ۱۰۵۵ ء)

آل بُوَيْہ، دَیلم کے علاقے سے آیا ہوا ایک شیعہ خاندان تھا۔ اس کے جد پہلے عباسی فوج کے افسر بنے۔ پھر رے،ہمذان، اصفہان طبرستان اہواز وغیرہ پر ان کا غلبہ ہوا، پھر بغداد پر ان کا اثر و رسوخ ایسا قائم ہوا کہ خلیفہ ان کے زیرِدست ہو گیا۔ ان کا دور سو سال سے کچھ اوپر ہے۔ اس دوران خلیفہ کے پاس کوئی اختیار نہ تھا۔ وہ برائے نام سلطان تھے اور بُوَیہ امرا اصل حاکم تھے جو اپنی مرضی سے نظام سلطنت چلاتے اور خلفا کو تبدیل کرتے رہتےتھے۔

سلجوقی دور (۴۳۲۔ ۵۸۳ ھ / ۱۰۴۰۔ ۱۱۸۷ ء)

آلِ سلجوق ترکستان کا ایک ترک سنی قبیلہ تھا۔ اس نے سامانیوں کے حکومت کے زوال کے بعد طبرستان، کرمان، دَیلم، خوارزم، اصفہان ، نیشاپور اور رَے وغیرہ پر قبضہ کر لیا۔ طغرل بک کو اپنا بادشاہ بنا کر انھوں نے اپنی مملکت کے قیام کا اعلان کر دیا۔۴۴۸ ہجری میں طغرل بك بغداد میں داخل ہوئے اور رافضی شیعہ بنو بُوَیہ کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ ان کی حکومت عراق، ماوراء النہر،کرمان،خراسان، ایران، کردستان شام، ایشیاے کوچک تک پھیلی ہوئی تھی۔سلاجقہ؛ عباسی خلفا کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آتے تھے اور ایک طرح سے ان کے محافظ کا کردار ادا کرتے تھے۔

خوارزم شاہی دور (۴۷۰۔۶۲۸ ھ /۱۰۷۷۔ ۱۲۳۰ ء)

انوشتكين خراسان کے علاقے میں سلجوقوں کا ایک وفادار ترک مملوک اور کماندار تھا۔ سلجوقیوں نے اسے خوارزم کا حکمران بنا دیا اور اسے خوارزم شاہ کا لقب عطا کیا۔ بعد میں وہ خودمختیار ہو گیا۔ اس کے بعد اس کی اولاد اس علاقے پر حکومت کرتی رہی۔ رفتہ رفتہ خراسان، رے، ما وراء النہر،كرمان سند اور غزنی پر ان کی حکومت قائم ہو گئی۔ غوریوں کی سلطنت کا خاتمہ انھی نے کیا، جبکہ ان کی حکومت کا خاتمہ منگولوں کے ہاتھوں ۶۲۸ ھ ـ/۱۲۳۰ عیسوی میں ہوا۔

سلطنتِ غزنویہ (۳۴۹ – ۵۷۹ ھ/۹۶۰ – ۱۱۸۳ ء)

الپتگین سامانیوں کے مملوک اور ان کی طرف سے غزنی کے گورنر تھے۔ان کے بعد سبگتگين گورنر بنے جنھوں نے اپنا دائرہ اقتدار وسیع کیا۔ سبگتگين کے پوتے سلطان محمود غزنوی نے سلطنت کو مستحکم کیا اور سامانیوں کی حکومت کو ختم کیا۔انھوں نے ماورا لنہر، اصفھان، ایران کے کچھ علاقے اورخراسان سے لے کر ہندوستان اور کشمیر تک اپنی مملک کو پھیلایا۔

سلطنتِ غوری(۵۴۳ – ۶۸۶ ھ /۱۱۴۸ – ۱۲۸۷ ء)

غور ہرات اور غزنی کے درمیان کا ایک علاقہ ہے۔ یہ غزنویوں کے زیرِ تسلط تھا ۔ غزنویوں کی طرف سے عز الدين حسين یہاں کے گورنر تھے جو بعد میں خود مختار ہو گئے۔ سلطنتِ غزنی کے کمزور ہونے پر انھوں نے ۵۸۲ ھ میں غزنی اور دیگر علاقوں پر قبضہ کیا اور ہندوستان پر بھی کامیاب حملے کیے۔

سلطنتِ زنگی (۵۱۱ – ۶۶۰ ھ ـ/۱۱۲۷ – ۱۲۶۱ ء)

یہ ایک ترک خاندان تھا عماد الدین زنگی اس کے بانی تھے۔ عماد الدین زنگی کے والد سلجوقیوں کے مملوک تھے جو ایک بڑے کماندار بن گئے تھے۔ عماد الدین زنگی کو سلجوقی سلطان تُتُش بن الپ ارسلان نے موصل کا والی بنایا جہاں سے انھوں کئی سال رومیوں کے خلاف جہاد کیا اور مسلمانوں کے بعض علاقے ان سے آزاد کروائے۔ان کی موت کے بعد موصل کی حکومت ان کے بیٹے سيف الدين غازی کے حصے میں آئی۔یہاں ان کی اولاد حاکم رہی۔ یہاں تک کہ ۶۶۰ ھ ـ/۱۲۶۱ ء میں منگولوں نے اس کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ دوسرے بیٹے نور الدين محمود زنگی کے حصے میں حلب کی حکومت آئی۔ صلاح الدين ایوبی انھی کے ایک سالار تھے۔ نور الدین زنگی اور صلاح الدین نے صلیبی جنگوں میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ نور الدین زنگی کے انتقال کے بعد یہ علاقہ صلاح الدین ایوبی کے زیرِ اقتدار آ گیا۔

سلطنتِ ایوبی ( ۵۶۷ – ۶۴۸ ھ/۱۱۷۱ – ۱۲۵۰ ء)

ایوبی خاندان ایک کرد خاندان تھا جو آذربائیجان سے ہجرت کر کے عراق میں آباد ہوا۔اس کے ایک سپوت نجم الدین ایوب ابتدا میں تکریت اور بعد میں موصل اور دمشق کے والی بنے نجم الدین ایوب اور ان کے بھائی اسد الدین شیرکوہ نور الدین زنگی کے اہم امیر تھے۔نجم الدین کے بیٹے یوسف بن ایوب تھے جو صلاح الدین کے نام سے مشہور ہوئے۔اسد الدین شیر کوہ نور الدین زنگی کی طرف سے مصر کے والی تھے۔اسد الدین کی موت کے بعد نور الدین زنگی کی طرف سے صلاح الدین کو مصر کا والی بنا دیا گیا۔کچھ عرصے بعد وہ مصر کے مستقل حاکم بن گئے اور نور الدین زنگی کی موت کے بعد دمشق ، بلادِ شام، حجاز ، یمن، تیونس اور سوڈان وغیرہ بھی آپ کے زیرِ نگیں آ گئے۔ ۵۸۹ /۱۱۹۳ میں صلاح الدین کا انتقال ہوا۔ ان کے کچھ عرصے بعد ان کی ریاست کا خاتمہ ہوا اور مملوکوں نے حکومت سنبھالی۔

جاری ہے

لرننگ پورٹل