ابنِ عباس
معاون قلم کار
عَنْ أَبي أَيوبِ رضِيَ اللَّه عَنْهُ أَنَّ رسولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: «مَنْ صَامَ رَمَضانَ ثُمَّ أَتَبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كانَ كصِيَامِ الدَّهْرِ» (صحیح مسلم) ’’سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شَوَّال کے چھے روزے بھی رکھے تو وہ گویا ہمیشہ کا روزے دار ہے‘‘۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ :«مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَأَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ» (المعجم الأوسط) ’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شعبان کے چھے روزے رکھے تو وہ گناہوں سے اس دن کی طرح صاف ہو جائے گا جب اسے اس کی ماں نے جنا تھا‘‘۔
عَنْ ثَوْبَانَ أَنَّ رَسُولَ اللَّه ﷺ قَالَ: «جعلَ اللهُ الحسنةَ بعشرِ أمثالها» صِيَامُ رَمَضَانَ بِعَشَرَةِ أَشْهُرٍ، وَصِيَامُ السِّتَّةِ أَيَّامٍ بِشَهْرَيْنِ، فَذَلِكَ صِيَامُ السَّنَةِ يَعْنِي رَمَضَانَ وَسِتَّةَ أَيَّامٍ بَعْدَهُ(صحيح الترغيب) ’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ، نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے نیکی کا اجر دس گنا بڑھایا ہے ۔ماہِ رمضان کے روزے اجر میں دس مہینے کے روزوں کے برابر ہیں ۔ جب کہ (عید الفطر کے بعد شوال کے) چھے روزے اجر میں دو مہینے کے برابر ہیں اس طرح رمضان اور اس کے بعد کے چھے روزوں کا اجر سال بھر کے روزوں کے برابر ملے گا‘‘۔
رمضان کے بعد ماہِ شوال میں چھے روزے رکھنا ایک مستحب عمل ہے ۔ بعض لوگ امام مالک کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ آپ ان روزوں کو مکروہ قرار دیتے تھے، علامہ ابن عبد البر المالکی رحمہ اللہ نے الاستذكار میں حضرت امام کے قول کی یہ توجیہ کی ہےکہ اگر روزے رکھنے والا ان روزوں کو رمضان کے روزوں کا لازمی حصہ تصور کر کے یہ روزے رکھے یا عید کے دن کا بھی روزہ رکھ کر شوال کے چھے روزوں کو رمضان سے ملا دے تو یہ طرزِ عمل موجبِ کراہت ہے ۔ ماہِ رمضان اور شوال کے چھے روزوں کا بڑھتا چڑھتا اجر ، اس قرآنی اصول کے مطابق ہے کہ ﴿مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا﴾ (الانعام:160) ’’جو کوئی نیکی لے کر آئے گا تو اس کے لیے اس جیسی دس نیکیوں کا اجر ہے‘‘ ۔ بعض روایتوں میں ان روزوں کا اجر ہمیشہ کے روزے کے برابر بتایا گیا جب کہ بعض روایتوں میں سال بھر کے روزوں کے برابر ، مندرجہ بالا آیت کی رو سے یہ ایک سال کا اجر ہی بنتا ہے لیکن اسے صیام الدہر کے برابر قرار دینے کی وجہ تو یہ ہے کہ جب مسلمان ہر سال رمضان کے بعد یہ عمل کرتا رہے گا تو اسے عمر بھر کا اجر حاصل ہو کر رہے گا اور اس ہر رمضان کے بعد شوال کے چھے روزے رکھنے کی اشارت پائی جاتی ہے۔ (واللہ اعلم) ملا علی القاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ روزے عید کے اگلے دن سے، ایک تسلسل کے ساتھ رکھے جا سکتے ہیں لیکن چند روز کے وقفے سے رکھنا بہتر ہے تا کہ شوال کے روزوں کا رمضان کا حصہ قرار پانے کا احتمال بھی نہ رہے۔
امام ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ نے شوّال کے روزوں کے درج ذیل فوائد نقل کیے ہیں:
۱: ان روزوں کے اہتمام سے سال بھر یا عمر بھر کے روزوں کا ثواب ملتا ہے۔
۲: جس طرح فرض نماز کے پہلے یا بعد کچھ سنت و نفل رکعت مشروع کی گئی ہیں جو فرض کی تکمیل کرتی ہیں تو شوال کے چھے روزے رمضان کے روزوں کے لیے سنن و نوافل کی مانند ہیں جو اس کی تکمیل کرتے ہیں اور گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنتے ہیں ۔
۳: رمضان کے بعد شوال کے روزے ، رمضان کے روزوں کی قبولیت کی نشا نی ہیں اس لیے کہ جب اللہ تعالیٰ بندے کا عمل قبول کرتا ہے تو اسے مزید عمل صالح کی توفیق دیتا ہے۔
۴: شوال کے روزوں میں شکرگزاری پائی جاتی ہے ۔رمضان کے روزے اور قیام کی برکت سے مسلمان کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔ پھر عید الفطر کے دن بھی مسلمانوں کے لیے عام معافی و مغفرت کا اعلان کیا جاتا ہے تو اس احسانِ عظیم کے شکرانےکے طور پر شوال کے روزے رکھنے چاہییں۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ سے جب کہا گیا کہ آپ قیام اللیل میں اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں جب کہ اللہ نے تو آپ کی اگلی پچھلی مغفرت کر دی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں‘‘ ۔تو ہمیں رمضان کے شکرانے میں مزید روزے رکھنے چاہییں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے احکامِ رمضان کے ذیل میں ﴿لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ (البقرة: 185) کا فرمان بھی جاری کیا ہے۔ بعض اسلاف نیک عمل پر شکر کا خاص اہتمام کرتے اگر انھیں قیام کی توفیق ہوتی تو اگلے دن شکرانے میں روزہ رکھ لیتے۔
۵: یہ روزے تقرب الی اللہ کا ذریعہ ہیں۔ اس لیے کہ رمضان ختم ہونے سے قربِ الہی کی تلاش ختم نہیں ہوتی چنانچہ حدیث میں آتا ہے «اَلصَّائِمُ بَعْدَ رَمَضَانَ كَالْكارِّ بَعْدَ الْفَارِّ» (الجامع الصغیر) ’’رمضان کے بعد روزے رکھنے والا ایسے ہے جیسے میدانِ جنگ سے فرار ہونے والا واپس پلٹ آئے‘‘۔
۶: حدیث میں قرآن ختم کر کے دوبارہ شروع کرنے والے قاری کی فضیلت بیان ہوئی ہےپس رمضان کے روزوں سے فراغت کے بعد شوال کے روزے شروع کرنے والا صائم قرآن کے دور کی ابتدا کرنے والے قاری سے مشابہ ہے۔