مولانا محمد اقبال
رکن شعبۂٔ تحقیق و تصنیف
سورةحم السجدة ،آیت:۳۰
’’جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہمارا رب اللہ ہے، اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے تو ان پر بیشک فرشتے (یہ کہتے ہوئے) اتریں گے کہ : نہ کوئی خوف دل میں لاؤ، نہ کسی بات کا غم کرو، اور اس جنت سے خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا‘‘ ۔
تفسیر
آیتِ مذکورہ میں اللہ تعالیٰ نے ان خوش قسمت افراد کا تذکرہ فرمایا ہےجنھوں نے ایک دفعہ دین حق کو قبول کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اس ایمان و ایقان پر مرتے دم تک قائم و دائم رہے ،تو موت کے وقت ان پر فرشتے اترتے ہوئے یہ خوش خبری سنائیں گے کہ تم ہر گز خوف نہ کرو اور جنت جیسی عظیم الشان نعمت جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا اس پر خوش و خرم رہو ۔ اس آیتِ مبارکہ میں نجاتِ اُخروی کے لیے ایمان و اسلام پر استقامت اور مداومت شرط قرار دی گئی ہے۔حضرت سعید بن عمران رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب مذکورہ آیت حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے تلاوت کی گئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: هُمُ الَّذِينَ لَمْ يُشْرِكُوْا بِاللهِ شَيْئًا (تفسیر الطبری ، ج : ۲۱، ص:۴۶۴) ’’یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ایمان لانے کے بعد اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں بنایا‘‘ ۔ اسی طرح امام مجاہد رحمہ اللہ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا﴾ قال: أَسْلَمُوْا ثُمَّ لَمْ يُشْرِكُوْا بِه ٖ حَتَّى لَحِقُوا بِه . ( تفسیر الطبری ، ج: ۲۱، ص:۴۶۵) ’’جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہمارا رب اللہ ہے، اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے ،یہ درحقیقت وہ لوگ ہیں جو مسلمان ہوئے پھر شرک سے آلودہ نہیں ہوئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ سے جا ملے‘‘ ۔
اس آیتِ مبارکہ کی ایک تفسیر یہ کی گئی ہے کہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور پھر اس کے تقاضوں کی تکمیل کی یعنی اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری پر قائم و دائم رہے تو ان پر موت کے وقت فرشتے (یہ کہتے ہوئے) اتریں گے کہ : نہ کوئی خوف دل میں لاؤ، نہ کسی بات کا غم کرو، اور اس جنت سے خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ چنانچہ حضرت ابو زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا﴾قال: عَلَى عِبادَةِ اللهِ وعلى طاعَتِه ،( تفسیر الطبری ، ج : ۲۱،ص:۴۶۶) ’’جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہمارا رب اللہ ہے، اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے ،یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور فرمانبرداری پر قائم رہے‘‘ ۔یعنی یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے صرف زبانی اقرار نہیں کیا بلکہ عمل کے ذریعے اس کا ثبوت بھی فراہم کیا اور عبادت و فرمان برداری پر مداومت اختیار کی۔ اس آیت ِمبارکہ میں جہاں اہلِ ایمان کو جنت کی خوشخبری دی گئی ہے وہاں یہ بات بھی بتلائی گئی ہے کہ اس کا دار و مدار عبادات و طاعات کی ہمیشگی اور مداومت پر ہے۔اس سے یہ واضح ہو تا ہے کہ اہلِ ایمان کے لیے پسندیدہ یہ ہے کہ وہ خیر کے جن کاموں سے وابستہ رہتے ہیں انھیں مستقل مزاجی اور مداومت کے ساتھ جاری رکھنے چاہییں ۔کیونکہ اعمالِ صالحہ میں مستقل مزا جی اور مداومت ایک ایسا وصف ہے جس کی بدولت بظاہر ایک چھوٹے عمل سے وہ نتائج حاصل ہوتے ہیں جو ایک بڑے عمل سے جسے جاری نہ رکھا جائے حاصل نہیں ہوتے۔شریعت کی نظر میں وہ قلیل عمل جس پر مداومت اور مستقل مزاجی کے ساتھ عمل ہوتا ہو ان اعمال کثیرہ سے کہیں بہتر ہے جنھیں مستقل بنیادوں پر جاری نہ رکھا جاسکے۔ جناب رسول اللہﷺ کی سیرت میں ہمیں یہ اصول ملتا ہے کہ حضورﷺ تمام کاموں میں مداومت پر کاربن رہے ہیں۔آپ ﷺ نے جس کام جس موقعے پر کیا پھر اس پر برابر قائم ر ہے یہاں تک کہ اسے سنت کا درجہ مل گیا ،کیونکہ سنت کے معنیٰ یہی ہیں کہ ہر وہ کام جسے حضورﷺ نے شروع فرمایا اور پھر اس پر مواظبت (مداومت) فرمائی۔ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتی ہیں: «سَدِّدُوا وَقَارِبُوا، وَاعْلَمُوا أَنْ لَنْ يُدْخِلَ أَحَدَكُمْ عَمَلُهُ الْجَنَّةَ، وَأَنَّ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللهِ أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ» (بخاری شریف) ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اعمال میں میانہ روی اختیار کرو اور عمل کرتے رہو ، تم میں سے محض کسی کا عمل اسے جنت میں نہیں داخل کرسکے گا اور بیشک میرے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جس پر ہمیشگی کی جائے خواہ کم ہی کیوں نہ ہو‘‘ ۔
رسول اللہ ﷺ کے اس قولِ مبارک میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ اعمال کی کثرت مطلوب نہیں ہے بلکہ عمل پر مداومت مطلوب ہے کہ انسان جس کارِ خیر کا آغاز کرے تو مستقل مزاجی سے اسے بجالاتا رہے ، کبھی اسے چھوڑے نہیں۔چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما جب کسی کو نصیحت فرماتے تھے تو یہ ارشاد فرماتے تھے: عليكَ بِتَقْوَى اللَّهِ والاِسْتِقَامَة ( زہرة التفاسير ، دار الفكر العربی،ج:۷ ،ص: ۳۷۶۲) ’’اپنے اوپر تقویٰ اور نیک اعمال پر مداومت لازم کر لیں‘‘ ۔
چونکہ رمضان المبارک کا بابرکت مہینا ابھی ابھی گزرا ہے اور اس کے اثرات اب بھی باقی ہیں ، لہذا ہونا تو یہ چاہیے کہ اس مہینے میں شروع کیے گئے نیک اعمال کو مستقل بنیادوں پر جاری رکھا جائے ۔ اگر وہ تمام معمولات جاری رکھنا مشکل ہیں تو کم ازکم تھوڑے ہی سہی کسی نہ کسی درجے میں انھیں جاری رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ وقتی جوش و جذبے کی بنیاد پر جو عمل بجالایا جائے وہ مستقل طور پر جاری نہیں رکھا جاتا اور اس کا فائدہ بھی اتنا نہیں ہوتا ،البتہ اگر اس پر تھوڑی بہت محنت کی جائے تو اسے اپنے معمولات کا حصہ بنانا مشکل نہیں ہے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ اللہ رب العزت کی توفیق سے رمضان المبارک میں جن نیک اعمال کا آغاز کیا تھا انھیں اپنی زندگی کے دیگر شب و روز کے معمولات کا حصہ بنائیں اور کسی نہ کسی درجے میں ان سے وابستگی برقرار رکھیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ رمضان المبارک میں ہماری طرف سے کیے گئے چند ٹوٹے پھوٹے اعمال کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائیں اور اس کے بعد بھی ہمیں نیک اعمال کی توفیق بخشیں۔آمین