سلیم احمد (۱۹۲۷۔۱۹۸۳ء)
معروف نقاد
سب سے پہلے میں اکادمی ادبیات پاکستان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے ایک ایسے اہم اجتماع میں، جس میں ملک کی مقتدر ترین سیاسی، علمی، ادبی اور تہذیبی شخصیتیں موجود ہیں، ایک اتنے ہی مہتمم بالشان موضوع پر مجھے اپنے ناچیز خیالات کے اظہار کا موقع فراہم کیا۔ اس سے مجھے جو مسرت ہوئی اس کو ظاہر کرنے میں بخل سے کام لیے بغیر مجھے اعتراف ہے کہ جب مجھے اکادمی کا دعوت نامہ ملا تو اسے قبول کرنے میں جھجک اور تذبذب کا شکار ہو گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے اپنے موضوع کی نزاکتوں اور پیچیدگیوں کا علم تھا۔ میں جانتا تھا کہ جو موضوع مجھے تفویض کیا گیا ہے وہ طرح طرح کے اختلافات کو آوازیں دیتا ہے اور اس پربات کرنا خود کو تنازعات کی بجلیوں کی زد میں کھلا چھوڑ دینے کے مترادف ہے۔
شاید میں اس تذبذب سے باہر نہ نکل سکتا، اگر مجھے یہ یقین نہ ہوتا کہ ہر انسان کی سچائی اس کی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے اور لکھنے والا اگر اپنی صداقت کے ساتھ ہے تو پھر اسے کسی چیز سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں آپ سے جو باتیں کہوں گا، وہ صرف وہی باتیں ہوں گی جومیرے ضمیر میں زندہ ہیں اور جن کومیں نے اپنے محدود تجربے اور اس سے بھی زیادہ محدودتر علم میں درست پایا ہے۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد میں اپنے موضوع کی طرف پیش قدمی کرتا ہوں۔
ہمارا موضوع نظریاتی ریاست میں ادیب کا کردار ہے۔ معاف کیجیے، اس سلسلے میں جو پہلی بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اپنی مجرد صورت میں مجھے اس سوال سے کوئی دلچسپی نہیں۔ دراصل مجھے جس سوال سے دلچسپی ہے وہ میرے ذہن میں ایک اور طرح آتا ہے۔ فرض کیجیے، میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ ایک نظریاتی ریاست کا شہری ہوں اور ازراہِ عنایت آپ بھی یہ تسلیم کر لیں کہ میں ایک ادیب ہوں تو میرا سوال یہ ہوگا کہ مجھے جس نظریاتی ریاست کی شہریت کا شرَف حاصل ہے، اس میں میرا کردار کیا ہوگا؟ بات دراصل یہ ہے کہ میرے نزدیک ہر سچا خیال ایک شخصی اعتراف ہوتا ہے۔ ہم جو کچھ سوچتے ہیں، اگر وہ واقعی سوچنا ہے تو ہمارے تجربات کا حاصل ہوتا ہے، جس میں ہمارے محسوسات، جذبات، یہاں تک کہ تعصبات اور ترجیحات سب شامل ہوتے ہیں۔ ہم اپنے تجربات کو مربوط اور منظم کرکے یا ان کی تعمیر کے ذریعے ایک پورا نظامِ خیال مرتب کر سکتے ہیں مگر وہ ہمارے تجربے سے کبھی آزا دنہیں ہو سکتا اور نہ ہونا چاہیے۔ ورنہ بہ صورتِ دیگر وہ سوچنے کے نام پر نہ سوچنے کا عمل ہوگا۔
اب یہ سوال کہ ایک مخصوص نظریاتی ریاست میں میرا کردار کیا ہوگا، مجھے یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ میرا اپنا نظریہ کیاہے اور وہ ریاست کے نظریے سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔ فرض کیجیے اس کا جواب نفی میں ہے۔ میرا نظر یہ کچھ اور ہے، ریاست کا نظریہ کچھ اور ہے۔ اس صورت میں مجھے یہ فیصلہ کرنا پڑےگا کہ میں ریاست کا وفادار ہوں یا اپنے نظریے کا۔ اب اگر میں ریاست کی وفاداری میں اپنے نظریے سے دست بردار ہو جاؤں تو میرے لیے یہ امن وعافیت کا راستہ ہوگا لیکن اس کے ساتھ ہی میر ے ادیب ہونے کی حیثیت بھی ختم ہو جائےگی۔ کیونکہ اپنے نظریے یا بہ الفاظِ دیگر اپنے تجربے سے غداری کرکے میں ادیب نہیں رہ سکوں گا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ میں اپنے نظریے سے وفاداری پر قائم رہوں۔ اس صورت میں مجھے یہ فیصلہ کرنا پڑےگا کہ ریاست سے میرا تعلق کیا ہوگا؟ میرا خیال ہے کہ ایمان داری اور سچائی کا راستہ یہ ہے کہ میں ادب کے ساتھ اس ریاست کی شہریت اسے واپس کردوں اور جہاں سینگ سمائیں نکل جاؤں۔ یقینا یہ میرے لیے زیادہ عزت کا راستہ ہوگا کہ میں ریاست کے اندر رہتے ہوئے اس کے قانون کے تحت وہ مراعات حاصل کرتے ہوئے جو اس کے وفادار شہریوں کا حق ہیں، ریاست کے خلاف سازشیں کروں یا اس کے دشمنوں کا آلہ کار بن جاؤں اور اس ریاست میں انتشار اور افتراق کی آگ بھڑکانے کی کوشش کروں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں ایک سچے ادیب کی زندگی بسر کرنے کی بجائے ایک بزدل اور سازشی کی زندگی بسر کر رہا ہوں جوانسانی اور اخلاقی نقطۂ نظر سے ایک قابلِ مذمت اور سیاسی اور قانونی نقطۂ نظر سے ایک قابلِ تعزیر زندگی ہے۔
یہ صورت اس وقت پیدا ہوگی جب ریاست کے نظریے اور میرے نظریے میں اختلاف ہو۔ دوسری ممکنہ صورت یہ ہے کہ میرے اور ریاست کے نظریے میں مطابقت اور ہم آہنگی ہو۔ میرے خیال میں یہی وہ صورتِ حال ہے جو ہمارے موضوع کا صحیح تعین کرتی ہے اور زیادہ صاف لفظوں میں مجھے یہ کہنا چاہیے کہ یہ سوال خلا میں نہیں اٹھایا گیا ہے، اس کے پیچھے حقیقت کی ٹھوس زمین موجود ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے نزدیک پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے اور اس لیے بعض لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس نظریاتی ریاست میں ادیب کا کردار کیا ہوگا؟ جیسا کہ میں نے ابتدا میں عرض کیا، میں اس کاایک شخصی جواب ہی دے سکتا ہوں، مجھے قطعی طورپریہ اصرار نہیں ہوگا کہ دوسرے بھی اسے تسلیم کریں۔ لیکن میں اپنے شخصی جواب کو عقل اور فہم کی عدالت میں اس طرح پیش کروں گا کہ جو لوگ میرے استدلال سے متاثر ہوکر میرے خیال میں شریک ہونا چاہیں، انھیں میری طرف سے ہر ممکنہ سہولت فراہم کی جائے۔
آپ مجھے معاف کریں۔ مجھے اس بات سے اختلاف ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے۔ اس بات پر اگر آپ چونک پڑیں تو مجھے حیرت نہیں ہوگی لیکن میں آپ سے درخواست کروں گا کہ میری پوری بات سننے سے پہلے آپ برہم نہ ہوں۔ میں جانتا ہوں جو خیالات فیشن بن جاتے ہیں ان کے خلاف کوئی بات کہنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ یقین کیجیے کہ ہماری عافیت فیشن کی پیروی میں نہیں، سچائی کی مطابقت میں ہے۔ نظریاتی ریاست ایک جدید اصطلاح ہے جو اشتراکی ریاستوں کے قیام کے ساتھ وجود میں آئی ہے۔ اشتراکی ریاستیں بورژوا ریاستوں کے مقابلے پر جو عوام کی اکثریت کے فیصلے کے سوا اور کسی اصول کی تابع نہیں ہیں، اس بات کا اعلان کرتی ہیں کہ وہ ایک مربو ط اور منظم طریقے کی تابع ہیں۔ اب کچھ لوگوں نے یہ دیکھ کر کہ پاکستان اسلام کو اپنی بنیاد تسلیم کرتا ہے، نیک نیتی لیکن سادہ دلی سے پاکستان کو نظریاتی ریاست قرار دیا ہے۔
مجھے اس بات پر بنیادی اعتراض یہ ہے کہ اسلام ایک دین ہے، نظریہ نہیں ہے۔ دین خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے جب کہ نظریے انسانی دماغوں کی پیداوار ہوتے ہیں۔ پاکستان اگر اسلام کو تسلیم کرتا ہے تو پاکستان ایک دینی ریاست ہے، نظریاتی ریاست نہیں۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ یہ لفظی اختلاف ہے۔ نظریے اور دین میں بہت سی ایسی مماثلیں موجود ہیں کہ ایک کی بجائے دوسرا لفظ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اس خیال کے پیچھے مجھے کچھ لوگوں کا یہ اضطراب بھی جھانکتا نظر آتا ہے کہ ذہنِ عالم کی موجودہ فضا میں ’’دینی ریاست‘‘ کا لفظ استعمال کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ دین کا لفظ لوگوں کو چونکاتا ہے جب کہ نظریے کا لفظ وہ آسانی سے قبول کر لیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نظریے کا لفظ استعمال کرکے اس سے اسلام مراد لی جائے تو اس میں کیا حرج ہے۔ مطلب تو آم کھانے سے ہے، آم کو املی کہہ دیا تو کیا فرق پڑتا ہے۔ میں اس استدلال کے زور کو تسلیم کرتا ہوں لیکن اس کے باوجود اپنی بات پر قائم رہنا چاہتا ہوں۔
ہمارا زمانہ فتنہ ٔالفاظ کا زمانہ ہے۔ ہم لفظ کو ایک بےوقعت چیز سمجھ کر اس کی جگہ دوسرا لفظ رکھتے ہیں، اس کا نتیجہ ہمیشہ یہ نکلتا ہے کہ لفظ کے ساتھ حقیقت بھی بدل جاتی ہے۔ آم کو املی کہتے کہتے ایک وقت ایسا آتا ہے جب ہمیں املی ہی کھانی پڑتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمارا دین کو دین کہنے سے شرمانا کوئی ایسی بات نہیں ہے جسے اختیار کرنا لازمی سمجھ لیاجائے۔ اس کے علاوہ جب میں پاکستان کو ایک دینی ریاست کہتا ہوں تو اس کا ایک اور مقصد بھی ہوتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ایک طرف تو اسے اشتراکی ریاستوں سے بالکل الگ کر دیا جائے اور دوسری طرف ان ریاستوں سے جو نام نہاد طور پر غیرنظریاتی ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔
ہم کہہ چکے ہیں کہ غیرنظریاتی ریاستیں وہ ہیں جنہیں اشتراکی بورژوا جمہوری ریاستیں کہتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ان ریاستوں کے وجود میں آنے سے پہلے یورپ ایک طویل وعریض مسیحی ریاست کی حیثیت رکھتا تھا۔ بورژوا جمہوری ریاستیں مذہب کے خلاف ایک مسلسل اور بتدریج بغاوت کا نتیجہ ہیں۔ یہی بغاوت تھی جس نے ایک تاریخی عمل کے ذریعے یہ تصور پیدا کیا کہ دین کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور دین ہر فرد کا ایک شخصی معاملہ ہے۔ اس تصور کے ذریعے پہلے ریاست کو دین کی بالادستی سے آزاد کرایا گیا اور پھر افراد کی شخصی زندگی میں بھی دین کا جو حشر ہونا تھا ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم غیرنظریاتی ریاستوں کو لادینی ریاستیں کہہ سکتے ہیں۔
اب پاکستان ان لادینی ریاستوں سے اس وجہ سے مختلف ہے کہ وہ دین اور سیاست کی دوئی کو تسلیم نہیں کرتا۔ اور ریاست کو دین کے تابع رکھنا چاہتا ہے۔ اس طرح وہ اشتراکی ریاستوں سے اس بنا پر الگ ہے کہ وہ انسانوں کے بنائے ہوئے کسی ایک رخے، ناقص اور محدود زمانی اور مکانی تناظر میں تشکیل پانے والے نظریے کا نہیں بلکہ دین کا پابند ہے۔ اب غالباً وقت آ گیا ہے کہ میں دین اور نظریے کے فرق کو ممکنہ وضاحت سے بیان کر دوں۔ دین؛ اگرہم اس کے عناصرِ ترکیبی کا تجزیہ کریں تو چار چیزوں کا مجموعہ ہوتا ہے:
(۱) عقائد (۲) عبادات (۳) اخلاقیات (۴) ایمان
نظریے کا لفظ ان چاروں عناصرمیں سے کسی ایک کا بھی پوری طرح احاطہ نہیں کرتا اور اگر کھینچ تان کر اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا جائے تو بڑے مضحِک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ مثلاً کہنے کو کہا جا سکتا ہے کہ اشتراکی نظریے میں جدلیاتی مادیت کی فلسفیانہ اساس عقائد کے مترادف ہے۔ جبکہ معاشی نظام اور اس سے متعلقہ احکام اخلاقیات کے مساوی ہیں۔ شاید کوئی منچلا یہ بھی کہہ دے کہ یومِ مئی اور یوتھ فیسٹیول جیسی چیزوں کوعبادت کا درجہ حاصل ہے اور اشتراکی جس جوش اور جذبے سے کام کرتے ہیں اسے ایمان کہا جا سکتا ہے۔ اس طرزِ استدلال کو تسلیم کر لیا جائے تو اشتراکیت تو بڑی چیز ہے، ہاکی کے کھیل کو بھی پورا دین وایمان ثابت کیا جا سکتا ہے۔ دراصل دین اور نظریے میں چار بنیادی فرق ہوتے ہیں جن کی وجہ سے دین کو نظریہ نہیں کہا جا سکتا۔
(۱) دین خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے جب کہ نظریے انسانوں کے ساختہ ہوتے ہیں۔
(۲) دین دائمی ہوتا ہے جبکہ نظریے ہر انسانی چیز کی طرح آنی فانی ہوتے ہیں۔
(۳) دین کا مرکز خدا ہوتا ہے جب کہ نظریے ہمیشہ انسانوں کو مرکز بناتے ہیں۔
(۴) دین حیاتِ دنیوی کے ساتھ حیات ِاخروی سے بھی وابستہ ہوتا ہے جب کہ نظریے صرف حیاتِ دنیوی سے تعلق رکھتے ہیں۔