ماہر القادری (۱۹۰۷ – ۱۹۷۸ء)
معروف شاعر
طاقوں میں سجایا جاتا ہوں، آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں |
تعویذ بنایا جاتا ہوں، دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں |
جزدان حریر و ریشم کے، اور پھول ستارے چاندی کے |
پھر عطر کی بارش ہوتی ہے، خوشبو میں بسایا جاتا ہوں |
جس طرح سے طوطے مینا کو، کچھ بول سکھائے جاتے ہیں |
اس طرح پڑھایا جاتا ہوں، اس طرح سکھایا جاتا ہوں |
جب قول و قسم لینے کے لیے، تکرار کی نوبت آتی ہے |
پھر میری ضرورت پڑتی ہے، ہاتھوں پہ اُٹھایا جاتا ہوں |
دل سوز سے خالی رہتے ہیں، آنکھیں ہیں کہ نم ہوتی ہی نہیں |
کہنے کو میں اِک اِک جلسے میں، پڑھ پڑھ کے سنایا جاتا ہوں |
نیکی پہ بدی کا غلبہ ہے، سچائی سے بڑھ کر دھوکا ہے |
اک بار ہنسایا جاتا ہوں، سو بار رُلایا جاتا ہوں |
یہ مجھ سے عقیدت کے دعوے، قانون پہ راضی غیروں کے |
یوں بھی مجھے رسوا کرتے ہیں، ایسے بھی ستایا جاتا ہوں |
کس بزم میں مجھ کو بار نہیں، کس عُرس میں میری دُھوم نہیں |
پھر بھی میں اکیلا رہتا ہوں، مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں |