عثمان خان
معاون قلم کار
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے فلسفۂ اخلاق پر جو کچھ بحث کی ہے وہ کسی حد تک حکماے یونان سے ماخوذ ہے، لیکن ساتھ ہی انھوں نے اس پر خاطر خواہ اضافہ بھی کیا ہے۔ ان کے بیان کردہ فلسفۂ اخلاق کے ابتدائی اصول ابنِ مسکویہ کی کتاب تہذیب الاخلاق سے مستفاد ہیں، جو اصلاً حکماے یونان کے فلسفۂ اخلاق کا خلاصہ ہے۔ مثال کے طور پر انھوں نے ابنِ مسکویہ کے مثل اخلاق کی قسمیں بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’خُلق کے بنیادی ارکان چار ہیں: علم، غضب، شہوت اور عقل۔ ان ہی قوتوں کے اعتدال کا نام حسنِ خُلق ہے۔ علم کی قوت کے اعتدال کا نام حکمت ہے۔ غضب کی قوت اگر افراط وتفریط سے پاک ہو تو اس کو شجاعت کہتے ہیں۔ قوت کے مختلف مظاہر ہیں۔ ہر مظہر کا نام جدا ہے۔ مثلاً خود داری، دلیری، آزادی، علم، استقلال، ثبات، وقار۔ یہ قوت جب اِفراط کی طرف مائل ہوتی ہے تو تہوُّر(مذموم شجاعت) بن جاتی ہے اور اس سے غرور، نخوت، خود پرستی، خود بینی وغیرہ پیدا ہوتی ہے اور تفریط کی طرف جھکتی ہے تو ذلت پسندی، کم حوصلگی، بے طاقتی اور دِنائَت کے قلب میں ظاہر ہوتی ہے۔ شہوت کی قوت میں جب اعتدال ہوتا ہے تو اسے عِفّت کہتے ہیں۔ یہی صِفَت مختلف سانچوں میں ڈھل کر مختلف ناموں سے پکاری جاتی ہے، مثلاً جود، حیا، صبر، درگزر، قناعت، پرہیزگاری، لطیف مزاجی، خوش طبعی، بے طمعی وغیرہ۔ جب افراط وتفریط کی طرف مائل ہوتی ہے تو حرْص، طمع، بے شرمی، فضول خرچی، ریا، اوباشی، رندی، تملّق، حسد، رشک وغیرہ جیسے اوصاف پیدا ہوتے ہیں۔ عقل کی قوت معتدل رہتی ہے تو حسنِ تدبیر، جودتِ ذِہْن اور اصابتِ رائے پیدا کرتی ہے۔ جب اس میں افراط آتا ہے تو مکر، فریب، حیلہ سازی، عیاری کی صفات پیداہوتی ہیں اور تفریط ہوتی ہے تو حماقت، سادہ پن، نافہمی، عاقبت نااندیشی جیسے اوصاف رونما ہوتے ہیں‘‘۔(۱) فلاسفہ کے درمیان ایک مسئلہ یہ زیرِ بحث رہا ہے کہ اخلاق میں اصلاح وفساد کی قابلیت ہے یا نہیں؟ بہ الفاظِ دیگر انسان بالطبع شریر پیدا ہوتا ہے یا شریف؟ اس سلسلے میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے ارسطو کی رائے اختیار کی ہے کہ بداخلاقی یا خوش اخلاقی کوئی چیز انسان کی طبعی اور جبلّی نہیں، جو کچھ ہے تعلیم وتربیت کا اثر ہے۔ چونکہ تربیت کی بنیاد بچپن میں پڑتی ہے اس لیے انھوں نے بچوں کی اخلاقی تربیت کے موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے۔ یہ حصہ بھی ابنِ مسکویہ کی کتاب تہذیب الاخلاق سے ماخوذ ہے۔ ان موضوعات پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے جابہ جا اضافے کیے ہیں اور قیمتی معلومات پیش کی ہیں۔ مثال کے طور پر ابنِ مسکویہ نے اخلاقی امراض کی آٹھ قسمیں بیان کی ہیں: تہوّر، جُبُن، حرص، جُمود، سفاہت، بلاہت، جوراور ذلت۔ ان میں سے صرف اوّلُ الذکر دو امراض کے علاج کے طریقے بتائے ہیں، بقیہ سے تعرض نہیں کیا ہے، جب کہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے تمام اخلاقی امراض کا استقصا کیا ہے اور ایک ایک مَرَض کی حقیقت وماہیت، تشخیص اور علاج کے طریقے تفصیل سے تحریر کیے ہیں۔ انھوں نے حسد، جاہ پرستی، ریا، عُجْب، غرور، غضب، بُخْل، غیبت، کِذْب، فضول گوئی، چغل خوری، مزاح وغیرہ میں سے ایک ایک کا مستقل عنوان قائم کیا ہے اور اس پر فلسفیانہ انداز سے بحث کی ہے۔ اِحیاء العلوم کا ایک اہم باب ذمّ الغرور کے عنوان سے ہے۔ اس میں انھوں نے علماے زُہَّاد، حجّاج، اصحاب ِمال اور دیگر طبقات کی اخلاقی خرابیوں پر تفصیل سے لکھاہے۔ بعض اخلاقی اوصاف میں بڑا دقیق اورنازک فرق ہوتا ہے، کہ ان میں امتیاز کرنا دشوار ہوتا ہے، مثلاً بخل اور کفایت شعاری، سخاوت اور اسراف، پست ہمتی اور قناعت، دنائت اور تواضع، غرور اور خود داری۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے نہایت نکتہ سبخی سے ان کا تجزیہ کیا ہے اور ان کے درمیان فرق کی وضاحت کی ہے۔ اخلاقی امراض کی تشخیص کے بعد دوسرا مرحلہ ان کے علاج کا ہے۔ حکماے یونان نے اس کے دو طریقے قرار دیے تھے۔ ایک علاج بالضد کا طریقہ ہے، یعنی جس وصف کا مرض ہواس کے برعکس وصف سے اس کا علاج کیا جائے۔ مثلاً کوئی شخص بخل میں مبتلا ہو تو اسے بہ تکلف سخاوت کا عادی بنایا جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تمام امراض کی بنیاد دو چیزیں ہیں: غضب اور جبن۔ اس لیے کوئی بھی اخلاقی مرض ہو، پہلے غضب اور جبن کا علاج کرنا چاہیے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ علاج کے پہلے طریقے کے معاملے میں حکماے یونان سے متفق ہیں۔ اس لیے اس موضوع پر تفصیل سے اظہارِ خیال کرتے ہیں، لیکن دوسری رائے کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک ہر مرض کے اسباب جدا ہیں، چنانچہ وہ ہر مرض کے ذیل میں بڑی باریکی کے ساتھ اس کے مخصوص اسباب بیان کرتے ہیں، پھر اس کا علاج بتاتے ہیں۔ غیبت، غیظ وغضب اور حسد وغیرہ پر انھوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ اس لائق ہے کہ اسے بار بار پڑھاجائے۔ فلسفۂ اخلاق کا ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ اخلاق کی غرض و غایت کیا ہے؟ اچھائی کیوں اختیار کی جائے اور برائی سے کیوں بچا جائے؟ عموماً اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اس کامقصد لذائذِ جنت کا حصول اور شدائدِ جہنم سے ن جات ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کو اس سے اتفاق نہیں ہے۔ ان کے نزدیک جنت کا حصول اور جہنم سے نجات بلاشبہہ تقویٰ کا لازمی نتیجہ ہے، لیکن یہ مقصود نہیں۔ مقصودِ اصلی رضاے الٰہی کا ح صول ہے۔ موجودہ دور میں اخلاقی زوال اپنی انتہا کو پہنچ گیاہے۔ کسی بھی معاملے میں اخلاق کی پابندی نہیں کی جاتی۔ یہ ملک کے تمام طبقات کا حال ہے اور افرادِ امتِ مسلمہ کا بھی کوئی استثنا نہیں ہے۔ مال دار ہوں یاغریب، تجارت پیشہ ہوں یا مزدور، سیاست داں ہوں یا عوام، روایتی علما ہوں یا دانش ور سب اس کا شکار ہیں۔ ایسے میں شدید ضرورت اس بات کی ہے کہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے ان افکار کو عام کیا جائے اور انھوں نے اخلاق کی درستی کی جو تدابیر بتائی ہیں، ان کو روبہ عمل ل ایا جائے۔
کیمیاے سعادت
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی اہم تصنیف، اکسیرِ ہدایت ہے جو عربی زبان میں لکھی گئی تھی لیکن بعد میں خود ہی اس کا ترجمہ فارسی میں’’کیمیاے سعادت‘‘ کے نام سے کیا۔ کیمیاے سعادت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی عربی کی تصنیف ’’احیاء العلوم الدین‘‘ کا فارسی زبان میں ترجمہ و خلاصہ ہے۔ اس عظیم کتاب کا موضوع اخلاقیات ہے اور یہ کتاب حسبِ ذیل چار عنوانات اور چار ارکان پر مشتمل ہے۔ ہر رکن دس اصولوں پر مشتمل ہے۔(۲)
عنوانات
تصنیف کے مضامین کے لحاظ سے عنوانات بنیادی طور پر چار ہیں:
نفس کی پہچان، اللہ تعالی کی پہچان، دنیا کی پہچان، آخرت کی پہچان۔
ارکان
چار باتوں کا جان لینا اس کے ارکان ہیں۔ ہر رکن کے اندر دس دس فصلیں ہیں۔
عبادات
پہلے رکن میں عبادت کا بیان ہے۔ اس میں دس اصلیں ہیں۔ پہلی اصل اہلِ سنت کے اعتقاد پر مشتمل ہے۔ دوسری طلبِ علم پر۔ تیسری اصل میں طہارت کا بیان ہے۔ چوتھی میں نماز کا ذکر ہے۔ پانچویں میں زکوٰۃ کا بیان ہے۔ چھٹی اصل میں روزے کا بیان ہے۔ ساتویں میں حج کے مسائل بیان ہوئے ہیں۔ آٹھویں میں تلاوتِ قرآنِ مجید کے آداب بیان ہوئے ہیں۔ نویں اصل ذکر، دعاؤں اور وظائف پر مشتمل ہے۔ دسویں میں ترتیبِ اوراد و وظائف ہے۔
معاملات
دوسرا رکن معاملات کے آداب میں ہے۔ یہ بھی دس اصولوں پر مشتمل ہے۔ اصلِ اوّل کھانے کے آداب پر ہے۔ دوسری میں آدابِ نکاح ہیں۔ تیسری میں تجارت اور پیشے کے آداب بیان ہوئے ہیں۔ چوتھی اصل طلبِ حلال کے بیان میں ہے۔ پانچویں میں صحبت کا بیان ہے۔ چھٹی میں گوشہ نشینی کا بیان ہے۔ ساتویں اصل آدابِ سفر کے بیان میں ہے۔ آٹھویں راگ اور حال کے بیان پرہے۔ نویں اصل امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکے آداب کے بیان میں ہے۔ دسویں اصل رعیت پروری اور بادشاہی کے بیان پر ہے۔
مُہلِکات (ہلاک کرنے والی اشیا)
تیسرا رکن مہلکات کے بیان میں ہے۔ یہ بھی دس اصولوں پر مشتمل ہے۔ اصلِ اوّل ریاضِ تنفس کے بیان میں ہے۔ دوسری پیٹ اور شرم گاہ کی شہوت کے علاج میں ہے۔ تیسری اصل گفتگو کی حرص اور آفاتِ زبان کے بیان میں ہے۔ چوتھی اصل غصہ اورگالم گلوچ وغیرہ کے علاج میں ہے۔ پانچویں اصل محبتِ دنیا کے علاج میں ہے۔ چھٹی محبتِ مال کے علاج کے بیان میں ہے۔ ساتویں طلَبِ رتبہ و حشمت کے علاج میں ہے۔ آٹھویں اصل عبادات میں ریاونفاق کے علاج میں ہے۔نویں اصل تکبر اور خودستائی کے علاج کے بیان میں ہے۔ دسویں اصل غرور و غفلت کے علاج کے بیان میں ہے۔
مُنجِیات (نجات دینے والی اشیا)
چوتھا رکن منجیات کے بیان میں ہے۔ یہ بھی دس اصولوں پر پھیلا ہوا ہے۔ پہلی اصل توبہ کے بیان میں ہے۔ دوسری صبر و شکر کے بیان میں۔ تیسری خوف و رجاکے بیان میں۔ چوتھی درویشی اور زہد کے بیان میں۔ پانچویں اصل نیت، اخلاص اور صدق کے بیان میں، چھٹی اصل مراقبہ و محاسبہ کے بیان میں۔ ساتویں اصل تفکر کے بیان میں۔ آٹھویں اصل توحید اور توکل کے بیان میں ہے۔ نویں محبت اور عشقِ الٰہی میں۔ دسویں موت کو یاد کرنے اورموت کے حال میں ہے۔(۳)
اہمیت
اس کتاب کا موضوع اخلاقیات ہے اور اس کی بنیاد دین پر ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ مشکل سے مشکل بات کو چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی سہولت سے سمجھادیتے ہیں۔ استدلال کی غرض سے قرآنی آیات اور حدیثِ نبوی ﷺ سے کلام کو مزین کرتے ہیں۔ بعض فقرات کے آخری فعل بود، باشد، شد، گشت وغیرہ حذف کر دیتے ہیں جس سے کلام میں حسن پیدا ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی فلسفیانہ نکتے کو واضح کرنے کے لیے اس کی تشریح بھی کردیتے ہیں لیکن تفصیل میں غیر ضروری چیزیں شامل نہیں ہونے دیتے۔
آداب الاخلاق
یہ کتاب حضو ر ﷺ کے اخلاقِ مبارکہ اور معجزات پر مبنی ہے۔ اس کتاب میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے ظاہری پاکیزگی کے حصول کے ساتھ ساتھ باطنی پاکیزگی پر زور دیا ہے۔ اور باطنی پاکیزگی کے حصول کا زریعہ سنتِ رسول ﷺ کو قرار دیا ہے۔(۴) امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اس ظاہر و باطن کی کشمکش کو بہت خوبصورتی کے ساتھ واضح کیا ہے۔ امام فرماتے ہیں: جاننا چاہیے کہ ظاہری آداب، باطنی آداب کے عنوان ہوتے ہیں اور اعضاے ظاہری کی حرکتیں، دلی خیالات کاثمرہ ہوا کرتی ہیں، اور ظاہری اعمال باطنی اَخلاق کے نتائج ہوتے ہیں۔ جس کا سینہ انوارِ الٰہی سے منوّر نہیں ہوتا اس کے ظاہری اعضا پر بھی اخلاق و آدابِ نبوی ﷺ کی چمک نظر نہیں آتی۔(۵)
اس کتاب کی وجہِ تالیف بیان کرتے ہوئے امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ میں نے کوشش کی کہ نبی کریم ﷺ کے اخلاقِ حمیدہ ذکر کر دیے جائیں جو صحیح اسناد کے ساتھ روایت کیے گئے ہیں۔ لیکن اسناد کو باوجہِ طوالت ترک کردیا گیا ہے۔ ان اخلاق کو جمع کرنے کی وجہ یہ کہ ان اخلاق کو معلوم کر کے انسان کا ایمان تازہ ہوجائے گا۔ اخلاق کے بعد آپ ﷺ کے معجزات ذکر کروں گا۔ جو صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔ تاکہ اخلاق کا بیان مکمل ہوجائے۔(۶)امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب کو بنیادی طور پر ۱۳ بیانوں میں تقسیم کیا ہے۔ ہم ذیل میں ان کو نقل کرتے ہیں:
پہلا بیان: اللہ تعالی نے حضور ﷺ کو آدابِ قرآنی سے جو مؤدب فرمایا اس کا تذکرہ۔
دوسرا بیان: حضور ﷺ کے ان اخلاقِ حمیدہ کا ذکر جو علماے احادیث کی کتب سے منتخب کیے گئے ہیں۔
تیسرا بیان: حضور ﷺ کے ان اخلاق و آداب کے ذکرمیں جو حضرت ابو البختری نے روایت کیے ہیں۔
چوتھا بیان: آنحضرت ﷺ کی گفتگو اور خندہ پیشانی کا ذکر۔
پانچوں بیان: حضور ﷺ کے کھانا کھانے کے آداب کا ذکر۔
چھٹا بیان: حضور ﷺ کے آداب و اخلاق برائے لباس کا تذکرہ۔
ساتواں بیان: آنحضرت ﷺ کا قدرت کے باوجود مجرموں کے قصور معاف کرنے کا بیان۔
آٹھواں بیان: آنحضرت ﷺ کا بری باتوں کودیکھ کر چشْم پوشی کا بیان۔
نواں بیان: آنحضرت ﷺ کی جود و سخاوت کا بیان۔
دسواں بیان: آنحضرت ﷺ کی شجاعت کا بیان۔
گیارھواں بیان: آنحضرت ﷺ کی تواضع کا ذکر۔
بارھواں بیان: آنحضرت ﷺ کے حلیۂ مبارک کا بیان۔
تیرھواں بیان: آپ ﷺ کے ان معجزات کا ذکر جن سے آپ ﷺ کی صداقت ثابت ہوتی ہے۔(۷)
یہ ایک عمدہ تصنیف ہے جو عشقِ رسول ﷺ اور سنت کی اتباع کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ ضرورت اس امْر کی ہے کہ ایسی کتب کو نصابِ تعلیم کا حصہ بنایا جائے تاکہ نئی نسل اعلیٰ اخلاق سے مزّین ہو سکے۔
حواشی:
۱) غزالی، ابو حامد، احیاء العلوم، بیروت، جلد: ۳، ص۳۹-۴۰
۲) غزالی، ابو حامد، کیمیاے سعادت، اردو ترجمہ : محمد سعید نقشبندی، مطبوعہ 1999، پروگریسو بکس، لاہور، ص۳۵، ۳۶
۳) ایضاً
۴) یہاں یہ بات واضح رہے کہ باطنی پاکیزگی سے مراد وہ نہیں جو باطنیہ فرقہ کے لوگ لیتے تھے بلکہ اس سے مراد قلب کی صفائی اور روحانی بیماریوں کا علاج ہے۔
۵) الغزالی، ابو حامد محمد، آداب الاخلاق، اردو ترجمہ بحوالہ مجموعہ رسائل امام غزالی، مطبوعہ 2004، دارالاشاعت، کراچی، جلد ۱ ، ص469
۶) ایضاً، ص 470
۷) الغزالی، ابو حامد محمد، آداب الاخلاق، اردو ترجمہ بحوالہ مجموعہ رسائل امام غزالی، مطبوعہ 2004، دارالاشاعت، کراچی، جلد ۱ ، ص469