لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

مولانا حافظ حماد احمد ترکؔ
نائب مدیر، ماہنامہ مفاہیم، کراچی

آج ۱۵ نومبر ہے اور استنبول میں ہماری پہلی صبح ہے۔ کل کا دن تو سفر کی تھکن کی نذر ہو گیا تھا۔ آج اس ولولے کے ساتھ کہ استنبول کی سڑکوں پر دن گزرے گا اور عثمانی یادگاروں سے آنکھوں کو فرحت پہنچے گی، رہائش گاہ سے باہر نکلے۔ سورج اب تک تاریکی کی چادر اوڑھے روپوش تھا۔ غالباً ہم سے پہلے استنبول میں اترنا اسے گوارا نہ ہوا ہو گا۔ باہر نکلے تو نیم تاریکی کا عالم تھا۔ موسم کافی سرد تھا۔ گردن میں گلوبند نہ ہوتا تو بادِ زمہریر (سرد ہوا) دم نہ مارنے دیتی۔ جیسے ہی دروازہ کھولا تو دروازے کے سامنے ایک سبزی فروش دکان سجائے بیٹھا تھا۔ ذرا آگے جھانک کر دیکھا تو نظر آیا کہ پورا بازار لگا ہوا ہے۔ آج دراصل پیر کا دن تھا اور یہاں ہر پیر کو پیر بازار لگتا ہے۔ گاڑیوں کی آمدورفت اور چیخ پکار اسی سبب سے تھی جس کا ذکر گزشتہ قسط میں ہوا۔ ایک معمولی سبزی سے لے کر، گرم مسالے، پھل، برتن، گوشت، صابن، بالٹیاں الغرض قسم قسم کی اشیا سجائے یہ تاجر طلوعِ فجر سے قبل ہی شہر کے کونے کونے سے امڈ آئے تھے اور بوقتِ فجر یہ بازار پوری آب و تاب پر تھا۔ اسی اندھیرے میں ملازم اپنی اپنی ملازمتوں کے لیے بھی جاتے ہوئے نظر آئے۔ ہم نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ناشتے کے لیے ضروری خریداری کی اور واپس رہائش گاہ میں آ کر ناشتے کی تیاریوں میں مشغول ہو گئے۔ ناشتہ کر کے باہر آئے اور مشورہ ہوا تو یہی طے پایا کہ پیدل سفر کیا جائے۔ چنانچہ سلطان فاتح مسجد کی طرف سفر شروع ہوا۔ صبح کا وقت تھا اس لیے بے شمار لوگ اپنے اپنے کاموں کے لیے ادھر ادھر جا رہے تھے۔ اکثر لوگ پیدل سفر کر رہے تھے۔ ہم ذرا سا آگے بڑھے تو اطفائیہ کا دفتر نظر آیا۔ یہ زمانۂ قدیم کا فائر برگیڈ اسٹیشن تھا جو نسبتاً بلندی پر واقع تھا۔ یہاں پر سرکاری محکمے کے افراد بلندی سے استنبول شہر کا جائزہ لیتے تھے اور جہاں کہیں آگ لگی نظر آئے اسے بجھانے کے لیے دوڑ پڑتے تھے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ استنبول میں آگ بہت زیادہ لگتی تھی۔ کیوں لگتی تھی اس کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔ بہرحال اب وہ جدید سہولیات سے آراستہ فائر برگیڈ کا دفتر ہے۔ اس سے تھوڑا سا آگے ایک اونچی سی دیوار نظر آئی۔ بتایا گیا کہ یہ درحقیقت پانی کی گزرگاہ ہے جس کے ارد گرد دو دیواریں ہیں اور یہاں سے پورے شہر کو پانی فراہم کیا جاتا تھا۔ اسی دیوار کے ساتھ ایک قہوہ خانہ روایتی طرز کا بنا ہوا تھا۔ایسے قہوہ خانے دیکھ کر بے وجہ ہی وہاں بیٹھ جانے کو جی چاہتا ہے۔ یوں تو ہمارے ہندوستانی سیاح جب بھی عثمانی دور کے استنبول میں آئے انھوں نے ان قہوہ خانوں کو خصوصی موضوع بنایا۔ یہ قہوہ خانے اسی دور کی یادگار ہیں جو ہر کچھ فاصلے پہ نظر آتے ہیں۔ یہاں ہمہ وقت قہوہ دستیاب رہتا ہے۔ پیشکش بھی بہت خوب ہوتی ہے۔ کانچ کی چھوٹی چھوٹی مگر دیدہ زیب پیالیوں کو ترتیب کے ساتھ سجا کر پیش کیا جاتا ہے۔ قہوہ پھیکا ہی بنایا جاتا ہے۔ کوئی چینی استعمال کرنا چاہے تو الگ سے فراہم کی جاتی ہے۔ یہ منظر ایک لمحے کے لیے قہوہ نوشوں کو عظیم عثمانی دور میں دھکیل دیتا ہے خاص کر اس وقت جب آپ نے کسی قدیم سفرنامے میں ان قہوہ خانوں اور ان کی رونقوں کا قصہ پڑھا ہوا ہو۔ بلا مبالغہ اس سارے پس منظر میں یہ قہوہ کئی طرح لطف و لذت کا باعث بنتا ہے۔

قہوہ خانے سے ذرا آگے ایک چھوٹا سا بازار تھا جسے بُریان بازار کہتے ہیں۔ بازار سے گزر کر پھر سڑک کی طرف واپس آئے تو وہاں ایک یادگار نظر آئی۔ یہ یادگار ۱۵ جولائی ۲۰۱۶ء میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کی تفصیل اور اس موقعے پر شہید ہونے والے ترکوں کی تھی۔ ایک چھوٹا سا تالاب تھا جس کے کنارے پر مجسمے بنائے گئے تھے جنھیں وضو کرتا ہوا دکھایا گیا تھا۔ ان مجسموں میں سے ایک مجسمے کو عمامے اور جبے میں ملبوس دکھایا گیا تھا جو وہاں کے علما کا لباس ہے۔ مقصود اس سے یہ تھا کہ ناکام فوجی بغاوت میں درحقیقت ان نمازی مسلمانوں اور ان کی سرپرستی کرنے والے علما کا نمایاں کردار ہے۔ ترکی زبان میں جولائی کو’’تیموز‘‘ کہتے ہیں اور جہاں کہیں اس بغاوت سے جانی یا مالی نقصان ہوا وہاں یادگار کے طور پر ۱۵ تیموز رسمِ انگریزی میں لکھا ہوا ہوتا ہے۔ شہدا کی اس یادگار کے ساتھ ایک کتبہ بھی نصب تھا جس پر درج ذیل معلومات تحریر تھیں: ’’سراج خانہ، ۱۵ جولائی، ۱۵ جولائی کی رات باغی استنبول کی مرکزی بلدیہ پر حملہ آور ہوئے اور گولیاں چلانے لگے، گولیوں کی بوچھار ان لوگوں پر کی گئی جو اپنے وطن کے دفاع میں نکلے تھے۔ جس دوران اس سانحے کے شہدا اور سپاہیوں کا مقابلہ کرنے والے رضاکاروں کی تصاویر اور سرکاری کیمروں سے حاصل شدہ فلمیں دیکھی گئیں تو اس عظیم تاریخی منظر کو بھی کیمروں میں محفوظ پایا گیا (یعنی یہ منظر کہ ایک طرف گولیاں چل رہی ہیں اور دوسری طرف یہ لوگ وضو کر رہے ہیں) ۔ ہمارے محبِ وطن بہادروں کے پاس اس بغاوت کے مقابلے کی کوئی تیاری نہیں تھی سوائے اس کے کہ وہ جذبۂ ایمانی سے سرشار تھے اور وضو سے اپنے ایمان میں اور اضافہ کر رہے تھے ‘‘۔ اس کے بعد ذرا نیچے سرخ رنگ میں نمایاں کر کے یہ جملہ لکھا گیا تھا: ’’ایسا اس لیے ہوا کہ یہ لوگ موت سے خائف نہیں تھے بلکہ یہ بے وضو مرجانے سے ڈرتے تھے ‘‘۔ اس کے بعد لکھا تھا: ’’ہم اس جدوجہد پر اپنے شہدا اور رضاکاروں کے مشکور و ممنون رہیں گے ‘‘۔

اس مقام سے آگے بڑھے تو شہزادہ مسجد نظر آئی جس کا سرسری ذکر پہلی قسط میں ہو چکا۔ فاتح بلدیہ کی تیسری چوٹی پر موجود یہ مسجد سلطان سلیمان القانونی کے حکم پر معمار سنان نے تعمیر کی۔ اس کی تعمیر ۱۵۴۸ء میں مکمل ہوئی۔ معمار سنان کی تعمیر کردہ یہ پہلی مسجد تھی۔ سلطان سلیمان نے اپنے بیٹے ’’شہزادہ محمد‘‘ کی یاد میں یہ مسجد بنوائی جس کا انتقال ایک جنگ سے واپسی پر ۱۵۴۳ء میں ہو گیا تھا۔ عثمانی طرزِ تعمیر کا شاہ کار یہ مسجد وسیع احاطے پر قائم ہے جس میں درس گاہیں، مسافر خانہ اور مزار شامل ہیں۔ اسی کے احاطے میں سلطان سلیمان کا بیٹا محمد اور سلطان سلیمان کی بیٹی مہرماہ سلطان کا شوہر یعنی سلطان سلیمان کا داماد رستم پاشا مدفون ہیں۔ ہم اس مسجد میں داخل نہیں ہو سکے، بس باہر سے ہی مسجد کی زیارت کی اور پھر آگے کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستے میں ایک جگہ سلطان محمد فاتح اور ان کے وزرا کے مجسمے نظر آئے۔ سلطان کو گھوڑے پر سوار اور ان کے وزرا کو ساتھ کھڑے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ یہاں سے آگے بڑھے تو جامعہ استنبول کی عمارت نظر آئی۔ یہ جامعہ ۱۴۵۳ء میں سلطان محمد فاتح نے تعمیر کروائی تھی۔ جامعہ کے احاطے کے ساتھ چلتے چلتے ایک مقام پر استنبول کارڈ لینے کے لیے رک گئے۔ پس منظر میں ایک مسجد نظر آ رہی تھی لیکن بند تھی، قریب سے نہیں دیکھ سکے، غالباً بایزید مسجد تھی۔

جس دوران کارڈ خریدنے والوں کی قطار ختم ہوتی ہے اس دوران ہم آپ کو استنبول کارڈ کا قصہ بھی سنائے دیتے ہے۔ استنبول کارڈ استنبول میں مقیم شہریوں اور سیاحوں دونوں کے لیے انتہائی مفید کارڈ ہے۔ یہ اے ٹی ایم کارڈ کی طرح ایک کارڈ ہے جس میں کسی بھی مقررہ دکان یا مشین سے لوڈ کروایا جا سکتا ہے۔ سیاحوں کا کارڈ ان کے پاسپورٹ نمبر کے تحت رجسٹرڈ ہوتا ہے۔ بس، ٹرام یا ٹرین میں سفر کرنا ہو یا کسی تفریحی مقام میں ٹکٹ کی ادائی کرنی ہو، مقررہ جگہ پر ایک لمحے کے لیے رکھیں اور واپس اٹھا لیں۔ خود بخود کٹوتی ہو جائے گی۔ وقت بھی بچتا ہے اور کرایہ پوچھنے اور بقایا لینے کی زحمت بھی نہیں ہوتی۔ حتی کہ بعض مقامات پر عوامی بیت الخلاء بھی اس کارڈ سے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ استنبول کارڈ حاصل کرنے کے بعد ہمارا رخ گرینڈ بازار کی طرف تھا۔ گرینڈ بازار دنیا کے ان قدیم بازاروں میں سے ایک ہے جو دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے کشش کا مرکز ہے اور صدیوں سے آباد اور بارونق ہے۔ تقریباً چار ہزار دوکانوں اور پچاس سے زائد راہداریوں پر مشتمل یہ بازار ہمہ وقت ہزاروں سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہتا ہے۔ اسے دنیا کا پہلا جامع بازار (جسے انگریزی میں mall کہہ سکتے ہیں) ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس بازار کا آغاز سلطان محمد فاتح کے عہدِ حکومت میں ۱۴۵۵ء میں ہوا۔ سلطان کے اس منصوبے کے تحت بازار میں مختلف مقامات پر مساجد اور مسافر خانے بھی تعمیر کیے گئے۔ بازار کی گلیوں کو اس مقام پر واقع مشہور تاجر کے نام سے موسوم کیا گیا۔ گرینڈ بازار کی تعمیر و تزئین آج بھی عثمانیوں کے اعلیٰ ذوق اور فنِ تعمیر میں زبردست مہارت کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ اس بازار سے نکل کر یُمنی مارکیٹ پہنچے۔ بس یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ استنبول کا اردو بازار ہے۔ تہہ خانے میں بھی متعدد مکتبے ہیں اور پہلی منزل پر بھی، جن میں ترکی، انگریزی اور عربی کتب بکثرت دستیاب ہیں۔

یہاں سے ہمارا رخ اس منزل کی طرف ہو گیا جس کی زیارت کے لیے آج گھر سے چلے تھے۔ بلاشبہہ آج کے استنبول میں اگر اسلامی سیاحتی مقامات کی فہرست بنائی جائے تو تین مقامات سرِ فہرست ہوں گے۔ اول سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا مزار شریف، دوم سلطان محمد فاتح کی مسجد اور مزار، سوم آیا صوفیہ۔ ہماری مراد مؤخرالذکر مقام یعنی آیا صوفیہ ہے۔ آیا صوفیہ کی عمارت انتہائی قدیم عمارت ہے جس کی تاریخ تقریباً ۱۵ صدیوں کو محیط ہے۔ اس کی تعمیر بازنطینی دور میں ہوئی اور عیسائیوں کی مرکزی عبادت گاہ کے طور پر معروف رہی۔ سلطان محمد فاتح نے فتحِ قسطنطنیہ کے بعد اسے مسجد میں تبدیل کر دیا۔ اس سے کلیسا کی علامات کو ہٹا کر اسلامی رنگ سے مزین کیا۔ جگہ جگہ عیسائیت کی نمائندہ شکلیں بنی ہوئی تھیں ان پر رنگ پھروا دیا اور قرآنی آیات کی خطاطی آویزاں کی۔ تقریباً ۵۰۰ سال تک آیا صوفیہ میں نمازِ باجماعت جاری رہی تاآنکہ سقوطِ سلطنتِ عثمانیہ کے بعد اتاترک نے اس کی مسجد والی حیثیت ختم کر کے اسے عجائب گھر بنا دیا۔ اس کی دیواروں سے کھرچ کھرچ کر اسلامی نشانیاں ہٹائی گئیں اور قدیم عیسائی تصاویر پھر سے سامنے آ گئیں۔ اب اس میں ہر طرح کے لوگ آنے لگے اور جوتوں سمیت اس میں گھومنے لگے۔ کئی نیک سیرت لوگ اس کی زیارت کو آتے لیکن مسجد میں جوتوں سمیت داخلہ اور مسجد کی پامالی میں حصہ لینا انھیں گوارا نہ ہوتا اور وہ اس دعا کے ساتھ نم ناک لوٹ جاتے کہ اے خداوند! اسے اس کی سابقہ حالت پر لوٹا دے۔ بالآخر وہ وقت آیا اور ۲۰۲۰ء میں ترک حکومت نے ایک عدالتی حکم نامے کے تحت آیا صوفیہ کو دوبارہ مسجد قرار دیا اور اسے باجماعت نماز کے لیے کھول دیا۔ اس وقت سے اب تک الحمدللہ اس مسجد میں ہزاروں زائرین آتے ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں۔ اس مسجد کا مکمل نام آیا صوفیہ کبیر ہے۔ نمازِ ظہر کے وقت ہم آیا صوفیہ پہنچے تھے چنانچہ زائرین کی قطار میں شامل ہو کر مسجد میں داخل ہو گئے۔ حسبِ معمول نمازِ باجماعت کے بعد امام صاحب نے تلاوت فرمائی۔ تلاوت کے بعد ہم نے مسجد کا مختصر دورہ کیا۔ دائیں طرف ایک بلند مقام پر مؤذن کی جگہ مختص تھی۔ عموماً تمام مساجد میں مؤذن کے لیے الگ جگہ مختص ہوتی ہے۔ اس سے آگے خطیب کے لیے کئی درجات پر مشتمل بلند منبر تھا۔ مختلف سمتوں میں قرآنی آیات کی خطاطی آویزاں تھی۔ کہیں کہیں عیسائی علامات بھی نظر آ رہی تھیں۔ کسی جگہ صلیب کا نشان اور کسی جگہ کوئی تصویر۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ کلیسا کے بنائے گئے صدارتی مقام اور قبلے کے رخ میں زیادہ فرق نہیں تھا اس لیے اسے مسجد میں تبدیل کرنا نسبتاً آسان تھا۔ محراب کے اوپر یہ قرآنی آیت لکھی تھی: ﴿كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ﴾ یہی آیت متعدد مساجد میں محراب پر لکھی ہوئی نظر آئی۔ مسجد سے باہر آئے تو سامنے ایک سیمِت والا نظر آیا۔ سیمت ایک روایتی ترک سوغات ہے جو ڈبل روٹی سے مشابہ لیکن گولائی میں بنی ہوتی ہے۔ اس پر بکثرت تِل جڑے ہوتے ہیں۔ ترک عموماً سیمت کھاتے نظر آتے ہیں، کہیں راہ چلتے اور کہیں اثناے مجلس۔ سیمت کھانے کے بعد ہمارا رخ استنبول کے اہم ترین میوزیم ’’توپ کاپی‘‘ کی طرف ہو گیا۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ آج مرمتی امور کی وجہ سے میوزیم بند ہے۔ چنانچہ ہم لوٹ آئے اور قارئین کو بھی اس کے بارے میں کچھ بتانے سے قاصر ہیں، یہ کہانی پھر سہی۔ ہاں، اتنا ضرور بتائے دیتے ہیں کہ آپ میں سے کوئی استنبول جائے تو ضرور یہاں کا دورہ کرے۔ یہاں پر نبیٔ اکرمﷺکے تبرکات بھی موجود ہیں، صحابہ کے آثار بھی اور دیگر خلفا و سلاطین کی اشیا بھی۔ اس میوزیم سے سمندر کا نظارہ بہت عمدہ اور فرحت بخش ہے۔ یہاں اور کچھ نہ بھی ہو تب بھی اس منظر کے لیے یہاں تک آنا گھاٹے کا سودا نہیں۔

آیا صوفیہ کے بالکل سامنے ایک اور مشہور مسجد سلطان احمد مسجد ہے جسے انگریزی میں Blue Mosque بھی کہتے ہیں۔ ساری دنیا اس مسجد کو استنبول کی علامت قرار دیتی ہے جیسے شاہ فیصل مسجد اسلام آباد کی علامت ہے۔ بحرِمرمرہ کے کنارے واقع یہ مسجد بھی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ نمازِ عصر کے وقت ہم مسجد میں داخل ہوئے۔ مسجد کا اکثر حصہ مرمتی امور کی وجہ سے بند تھا، بہت تھوڑا سا حصہ نماز کے لیے کھلا ہوا تھا۔ اس چھوٹی مگر انتہائی خوب صورت مسجد کے حسن کی بڑی وجہ اس کی سبز اور نیلی ٹائلیں ہیں جن پر سورج کی کرنیں طرح طرح کے رنگ سجاتی ہیں۔ اسی سبب سے اسے نیلی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ سلطان احمد اول کے عہد میں ۱۶۱۷ء میں اس مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی۔ اسے معمار سنان کی تعمیر کردہ شہزادہ مسجد کی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے۔ تعارفی کتبے پر لکھا ہے کہ اس کے چھے مینار ہیں۔ اور یہ اپنے عہد میں مسجدِحرام کے بعد دوسری مسجد تھی جس کے چھے مینار تھے۔ اس کی تعمیر کے بعد مسجدِحرام میں ایک اور مینار کا اضافہ کر دیا گیا۔ مسجد سے نکلے تو ساحلِ سمندر کی طرف جانا طے پایا۔ اس کے لیے استنبول کارڈ استعمال کرتے ہوئے ٹرام میں سوار ہو گئے۔ ٹرام کے اسٹیشن سے قبل ایک مقام ’’یری بَتان‘‘ کے نام سے تھا جس میں بازنطینی دور کی باقیات تھیں۔ یہ کسی محل کے لیے فراہمیٔ آب کا نظام تھا، لیکن یہ مقام بھی مرمت کے لیے بند کیا ہوا تھا۔

اگلی منزل ’’ایمی نو نو‘‘ تھی۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ کراچی کا کیماڑی تھا جہاں چھوٹے بڑے جہاز لنگر انداز تھے۔ انواع و اقسام کے کھانے مچھلی سے تیار شدہ موجود تھے۔ ہم نے صرف مچھلی کے سینڈوچ پر اکتفا کیا۔ یہاں سے آگے بس میں اَکسرائے پہنچنا تھا جہاں دیگر حضرات بھی ہمارے منتظر تھے۔ عشائیہ انھی کے ساتھ طے تھا اور عشائیے کے لیے ایک یمنی ہوٹل ’’حضْرَموت‘‘ کا انتخاب کیا گیا تھا۔ یمن کے روایتی کھانوں کے لیے بلا شبہہ یہ ایک عمدہ انتخاب تھا۔ مختلف قسم کے کھانوں اور بالخصوص روٹی کی عمدگی کا جواب نہیں تھا۔ عملے کا اخلاق بھی قابلِ تعریف تھا۔ اگرچہ یہ تمام ذائقے لاجواب اور شاندار تھے لیکن کھانے کے اختتام پر جو کچھ انھوں نے پیش کیا وہ قطعی غیر متوقع تھا۔ استنبول میں اگر حضرموت ہوٹل والے سارے کھانے بند کر دیتے اور صرف یہی ایک پیشکش باقی رکھتے تو کچھ عجیب نہ ہوتا۔ اس آخری نعمت کو دیکھ کر بے اختیار فیض کا مصرع زبان پر آ گیا کہ ’’جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے‘‘ اور ’’جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے‘‘ ۔ خیر ہمارا قرار بے وجہ نہیں تھا۔ دو دن سے جس شے کی تلاش تھی اور جس کے حصول کی قطعاً کچھ امید نہ بچی تھی کون جانتا تھا کہ وہ یہاں اکسرائے کے حضرموت میں وافر دستیاب تھی۔ لیکن رمضان میں کھانے پینے کا اتنا ذکر مناسب نہیں لہٰذا اس نعمت کا ذکر عید پر اٹھائے رکھتے ہیں۔

جاری ہے

لرننگ پورٹل