اداریہ
مدیر ماہ نامہ، مفاہیم
ابتداے رمضان آواز لگوائی جاتی ہے: ’’اے طالب ِخیر! آگے بڑھ، اور اے طالبِ شر! پیچھے ہٹ‘‘۔ تو رمضان میں کرنے کے بس دو ہی کام ہیں، خیر اور نیکی میں آگے بڑھنا اور شراور برائی سے پہلو بچانا !نیکی میں جلدی کرنا اور نیکی میں دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا عام حالات میں بھی پسندیدہ ہے لیکن رمضان کے ذیل میں رسول اللہﷺنے بطورِ خاص اس کا ذکر فرمایا: ’’پس اللہ تمہارے تنافس(نیکی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش) کو دیکھتا ہے اور فرشتوں پر تمہارے ذریعے فخر جتلاتا ہے۔ پس اللہ کو اپنی طرف سے نیکی دکھاؤ ‘‘۔(مسند الشامیین)
دورانِ رمضان نفل کا اجر و ثواب فرض اور ایک فرض کا اجرو ثواب ستر فرض کے برابر دیا جاتا ہے۔ لہذا، نیکی میں محنت کا اصل میدان عباداتِ اربعہ کے فرائض اور سنن و نوافل ہیں۔ اولین فرض تو نمازِ پنجگانہ ہے۔ رسول ﷺ کے فرمان کے مطابق آداب و شرائط کے ساتھ ان کی پابندی کرنے والے کے ساتھ مغفرت و بخشش کا وعدہ ہے اور ایسا نہ کرنے والے کے ساتھ کوئی وعدہ نہیں ہے۔ رمضان میں کوشش کی جائے کہ اچھی طرح سے وضو کر کے، تعدیلِ ارکان و آداب اور خشوع و خضوع کے ساتھ، مردمسجد میں باجماعت اور خواتین گھر کے اندرونی حصے میں بر وقت نماز ادا کریں۔فرض اور واجب نمازوں کے بعد، رمضان کا خصوصی وظیفہ نمازِ تراویح ہے جس میں رب کے حضور کھڑے ہو کر اس کا کلام سنا جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ایمان و اخلاص کی پابندی پر سابقہ گناہوں کی مغفرت کی نوید سنائی ہے‘‘۔(صحیح بخاری )نمازِ تراویح کے ساتھ نمازِ تہجد کا اہتمام بھی کرنا چاہیے چاہے اتنی دیر جتنی دیر میں دو رکعت نماز پڑھی جا سکے۔رسول اللہ ﷺ نے اس کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:’’رات کی نماز نہ چھوڑنا چاہے بکری کا دودھ نکالنے کی دیر ہی کیوں نہ پڑھو‘‘(المعجم الأوسط)۔ رمضان میں بالخصوص یہ کوشش کرنی چاہیے کہ نمازوں کے ساتھ متصل سننِ موکدہ اور غیر موکدہ اور نمازوں سے متصل نوافل نہ چھوٹنے پائیں۔ اس کے علاوہ تحیۃ الوضو،تحیۃ المسجد، صلاۃ اوابین، نماز اشراق، نماز چاشت اور صلاۃ تسبیح کا اہتمام بھی کرنا چاہیے۔
زکاۃ
یہ مالی عبادت صاحبِ نصاب پر فرض ہے۔ اگرچہ رمضان میں زکاۃ کی ادائی ضروری تو نہیں لیکن اگر رمضان میں زکاۃ ادا کر دی جائے تو اس کا اجر وثواب بڑھا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح صدقۂ فطر، ایک واجب مالی عبادت ہے۔نمازِ عید سے پہلے پہلے اس کی ادائی لازم ہے۔ لیکن بہتر ہے کہ اس سے بھی پہلے کر دی جائے تاکہ مساکین عید کی تیاری کر سکیں۔ رمضان میں آپ ﷺ کی سخاوت عروج پر ہوتی اور آپ ﷺ لوگوں کو خیر پہنچانے میں چلتی ہوا سے زیادہ تیز ہو جایا کرتے تھے،،(بخاری)۔ ایک روایت میں رمضان میں صدقے کو افضل قرار دیا گیا ہے۔(سننِ ترمذی) رمضان میں سخاوت کی ایک صورت افطار کی ضیافت ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جس نے کسی روزے دار کو اِفطار کرایا تو اس کے لیے روزے دار کے اجر کے برابر اجر ہے بغیر اس کے کہ (افطار کرنے والے) روزے دار ے کے اجر میں سے کمی کی جائے‘‘۔(سننِ ترمذی)اسلاف کی خدمت ِ روزے دار کے انداز مختلف تھے۔ بعض اوقات لوگوں کو دعوتِ افطار پر بلاتے، بعض افطار کا سامان بھجوا دیتے، بعض حضرات مسجد میں افطار کا سامان رکھوا دیتے۔بعض اِفطار کے ساتھ کپڑے کا جوڑا بھی پیش کرتے۔صدقہ و خیرات اور افطار میں جہاں پڑوسی اور رشتے داروں کا خیال رکھنا ضروری ہے وہاں آفت زدہ اور مظلوم مسلمانوں کے ساتھ بھی اس اس ضمن میں تعاون کرنا چاہیے۔
حج
فرائض میں سے ایک اہم فرض حج ہے۔ اگرچہ حج بعد از رمضان، اپنے مخصوص دنوں ہی میں ادا کیا جاتا ہے۔ یہاں ذکر کرنے کا مفاد یہ ہے کہ اگر کسی پر حج فرض تھا اور اب تک وہ نہیں کر سکا تو اسے چاہیے کہ رمضان کی ساعتوں میں اب تک کی کوتاہی پر توبہ و استغفار کر کےپہلی فرصت میں فریضۂ حج کی ادائی کی نیت و ارادہ کر لے۔رمضان میں عمرے کا اجر و ثواب حج کے برابر ملتا ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’رمضان کا عمرہ حج کے برابر ہے‘‘۔ (سننِ ترمذی ) پس اگر حالات اجازت دیتے ہوں تو رمضان میں عمرہ کر لینا چاہیے لیکن اس سے حج کی فرضیت ساقط نہ ہو گی۔
روزہ
فرائض میں سے ایک اہم ترین جس کا موقع ہمیں اس وقت میسر ہے وہ رمضان کے روزے رکھنا ہے۔ اس فرض کو ہر حال میں ادا کیا جائے۔ بعض حضرات کسی ایسے عذر کی بنا پر روزہ چھوڑ دیتے ہیں جس کا شریعت نے لحاظ نہیں کیا مثلاً سالانہ امتحانات یا دس، بیس کلو میٹر کا سفر وغیرہ تو معلوم ہونا چاہیے کہ اس طرح کے عذرِ لنگ پر روزہ ترک کرنے سے انسان گناہ گار ہوتا ہے۔اگرچہ بعد میں ایک دن کی قضا تو کرنا پڑے گی لیکن اس سے رمضان میں ملنے والے اجر کے برابر ملنا ناممکن ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جس نے کسی شرعی رخصت کے بغیر رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑ دیا تو ہمیشہ روزہ رکھنا بھی (اجر میں )اس ایک دن کے برابر نہیں ہو سکتا‘‘۔ (سننِ ابنِ ماجہ)ماہِ رمضان میں ظاہر ہے کہ نفل روزے رکھنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ لیکن رمضان کے بعد نفلی روزے رکھنے کی نیت ابھی سے کر لینی چاہیے۔
تلاوتِ قرآن اور ذکر و مناجات
رمضان چونکہ قرآن کا مہینا ہے اور اس میں دیگر اعمال کی طرح تلاوت کا اجر و ثواب بھی زیادہ کر دیا جاتا ہے تو رمضان میں بکثرت تلاوت کرنی چاہیے۔ سلَفِ صالحین رمضان میں تلاوتِ قرآن پر خاص توجہ دیتے تھے۔ بعض؛ مہینے میں تین دور مکمل کرتے، بعض؛ مہینے میں ساٹھ دور مکمل کرتے اور بعض؛ تیس دور مکمل کرتے۔ ہم ان بزرگوں تک تو نہیں پہنچ سکتے لیکن بساط بھر زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت کرنی چاہیے۔درود شریف کی احادیث میں بہت فضیلت آئی ہے۔آپﷺ نے فرمایا:’’جو مجھ پر درود پڑھنا بھول گیا وہ جنت کے راستے سے بھٹک گیا‘‘۔(سنن ابنِ ماجہ)صبح و شام دس بار درود پڑھنے کو رمضان اور غیر رمضان میں معمول بنانا چاہیے کہ اس سے شفاعتِ رسولﷺ کی امید ہے:’’جو مجھ پر دس بار صبح اور دس بار شام درود پڑھے گا، قیامت والے دن اسے میری شفاعت حاصل ہوگی‘‘۔(مجمع الزوائد )اسی طرح رمضان میں ذکر کا اہتمام کرنا چاہیے۔ رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا:روزے داروں میں زیادہ اجر پانے والا کون ہے؟فرمایا:’’ان میں سے اللہ کا زیادہ ذکر کرنے والا‘‘۔(مسندِ احمد)کوشش کرنی چاہیے کہ نمازِ فجر کے بعد سے نمازِ اشراق تک بیٹھ کر یا چلتے پھرتے اللہ کا ذکر کیا جائے۔ اسی طرح نمازِ عصر کے بعد سےنمازِ مغرب تک کا وقت یا اس کا کوئی ایک حصہ ذکر کے لیے مخصوص کیا جائے۔اس لیے کہ ان اوقات میں ذکر کرنے کی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ چلتے پھرتے بھی ذکر کرنے کی کوشش کی جائے۔رمضانِ کریم میں کثرت سے دعا کرنی چاہیے۔اس لیے کہ احادیث کے مطابق حالتِ روزہ میں بوقتِ افطار، روزے دار کی دعا قبول ہوتی ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے:’’روزے دار کی دعا رد نہیں کی جاتی‘‘۔(مسندِ احمد )
اجتنابِ شر
اب ہم دوبارہ نداے رمضانی کی طرف آتے ہیں۔ تو دوسری ندا یہ تھی کہ ’’اے برائی کے چاہنے والے! پیچھے ہٹ‘‘۔نبی کریمﷺ نے فرمایا:’’روزہ ڈھال ہے جب تک تم اسے توڑ نہ دو‘‘۔ (سننِ دارمی) توڑنے سے مراد یہی ہے کہ روزے کے منافی کوئی قول و فعل نہ کیا جائے۔حدیث میں آتا ہے :’’ کتنے ہی روزے داروں کو بھوک کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘۔(سننِ ابنِ ماجہ) امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ یا تو وہ ہیں جو حرام روزی سے روزہ افطار کرتے ہیں یا پھر غیبت وغیرہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یا پھر وہ لوگ ہیں جو اپنے اعضا و جوارح کو حرام کاری سے نہیں بچاتے۔ رمضان کا اہم وظیفہ حرام اشیا اور حرام افعال سے بچنا ہے۔ حرام کمائی، جوا، سٹہ، لاٹری، رشوت یا سودی معاملے میں ملوث ہونا، کسی سے قرض یا ادھار لے کر ہڑپ کر جانا، ناچ گانااور فحاشی عریانی کے مناظر دیکھنا، گالم گلوچ کرنا، چغلی یا غیبت میں مشغول رہنا، یہ وہ تمام امور ہیں جن کے ارتکاب سے روزہ ناقص ہو جاتا ہے‘‘۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’جو جھوٹی بات اور غلط کام کرنا نہ چھوڑے اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ بھوکا پیاسا رہے‘‘۔(صحیح بخاری)