مولانا محمد اقبال
رکن شعبۂٔ تحقیق و تصنیف
آیاتِ مبارکہ کی تفسیر
آیاتِ مذکورہ کی تفسیر میں علامہ صابونی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ﴿وَ اذکُرِ اسْمَ رَبِّکَ﴾ أي صلِّ لربك، ’’ اور اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کیا کرو ‘‘یعنی اپنے پروردگار کی رضا کے لیے نماز کا اہتمام کرو۔ ﴿بُکرَةً وَّ أَصِیلًا﴾ وأكثر من عبادته وطاعته أي في أول النهار وآخره، في الصباح والمساء، ’’ صبح اور شام کو ‘‘یعنی اپنی عبادات میں دن کے آغاز اور اختتام میں اضافہ کرو۔ ﴿وَ مِنَ الَّیلِ فَاسجُد لَه﴾ أي ومن الليل فصلِّ له، متهجداً مستغرقاً في مناجاته، ’’ اور کچھ رات کو بھی اس کے آگے سجدے کیا کرو ‘‘یعنی رات کے ایک حصے میں نماز کا اہتمام کرو اور اپنی دعا ومناجات میں مشغول رہا کرو۔ ﴿وَ سَبِّحهُ لَیلًا طَوِیلًا﴾ أي وأكثر من التهجد والقيام لربك في جناح الظلام والناس نيام، ’’ اور رات کے لمبے وقت میں اس کی تسبیح کرو ‘‘یعنی رات کے اندھیرے میں اس وقت تہجد کی نماز میں کھڑے ہو جبکہ لوگ سو رہے ہوں۔ (صفوة التفاسير)
﴿وَ اذکُرِ اسمَ رَبِّکَ بُکرَةً وَّ أَصِیلًا﴾ ’’ اور اپنے پروردگار کے نام کا صبح و شام ذکر کیا کرو ‘‘۔ یعنی دن کے آغاز اور اختتام میں۔ پس ان اوقات میں فرض نمازیں اور سنتیں، ذکر، تسبیح، تہلیل اور تکبیر سب داخل ہیں۔ (تفسیرِ سعدی)
﴿وَ اذکُرِ اسمَ رَبِّکَ بُکرَةً وَّ أَصِیلًا﴾ ’’ اور اپنے پروردگار کے نام کا صبح و شام ذکر کیا کرو ‘‘۔ یعنی آپ اپنی شان اور طاقت کے مطابق دعوت الی اللہ اور ذکر اللہ کی طرف بشمول تمام انواع و اقسام کےمتوجہ رہا کیجیے۔ اور اس میں رہنمائی ہے اس بات کی طرف جس میں لوگوں کی باتوں پر صبر کرنے سے مدد ملتی ہے۔ اور’’ البکرة ‘‘اور’’ الأصیل ‘‘سے مراد دن کے تمام اوقات ہیں، یعنی ان کا اعراض تمھیں روک نہ دے حق کی طرف بار بار دعوت سےدن کے شروع کے حصے میں اور آخر کے حصے میں۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں تمام نمازیں داخل ہیں، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ أَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیلِ إِنَّ الحَسَنٰتِ یُذهِبنَ السَّیِّاٰتِ ذٰلِکَ ذِکرٰی لِلذّٰکِرِینَ وَ اصبِر فَإِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیعُ أَجرَ المُحسِنِینَ﴾ (۱۱۴ ۔ ۱۱۵)’’ اور ( اے پیغمبر) دن کے دونوں سروں پر اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کرو۔ یقینا ًنیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں، یہ ایک نصیحت ہے ان لوگوں کے لیے جو نصیحت مانیں۔ اور صبر سے کام لو، اس لیے کہ اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا ‘‘۔ (تفسیرِابنِ عاشور)
’’ پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انھیں کی اس عمل کی طرف رہنمائی فرمائی جو صبر و ثبات کے واسطے معاون ہے ۔ پس فرمایا: ﴿وَ اذکُرِ اسمَ رَبِّکَ بُکرَةً وَّ أَصِیلًا، وَ مِنَ الَّیلِ فَاسجُد لَه وَ سَبِّحهُ لَیلًا طَوِیلًا﴾ البکرة: دن کا ابتدائی حصہ، والأصیل : دن کا آخری حصہ، اس سے مراد ہر ہر گھڑی میں اللہ کی یاد پر مداومت اختیار کرنا ہے ۔ یعنی اے نبی مکرم! آپ ہمیشگی اختیار کریں دن کے ابتدائی حصے میں اورآخری حصے میں اللہ تعالیٰ کی یاد اور ذکر پر، اسی طرح فجر، ظہر اور عصر کی نمازپر مداومت و تسلسل کے ساتھ قائم رہا کیجیے ‘‘۔ (تفسیر الوسیط)
مادیت کے اس دور میں جب انسانی زندگی مادی آلائشوں سے آلودہ ہوچکی ہے، باطن کی دنیا حرص و ہوس اور خواہشاتِ نفسانی کی اسیر ہو چکی ہے، مجموعی حیثیت سے انسانی روحیں بیمار ہیں، ایسے میں بیمار روحوں کو شفا یاب ہونے، باطن کو نورِ ایمان سے منور کرنے کا واحد علاج یادِ الٰہی ہے۔ آیاتِ مذکورہ میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے غفلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ صبح و شام اللہ کا ذکر کرنا چاہیے۔
رمضان المبارک میں قیام اللیل کا اہتمام
ویسے ایک مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی یاد اور کے سامنے اپنی عاجزی کے اظہار کا ہر وقت استحضار ہونا چاہیے مگر رمضان المبارک کا مہینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی یاد اور اپنے نفس کے خلاف جہاد کے لیے ایک بہترین موقع ہے۔ یہ مبارک مہینا صبر و تحمل کا مہینا ہے۔ یہ نفسِ انسانی پر غیر معمولی اثرات ڈالتا ہے۔ اس میں دنیوی تحریصات و ترغیبات کے مقابلے میں قوت و طاقت میں بے انتہا اضافہ ہوتا ہے۔ اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ رمضان خیر و صلاح اور تقویٰ و طہارت کا موسم ہے۔ ماہِ صیام میں ذکر و اذکار اور تلاوتِ کلامِ پاک کی کثرت ہونی چاہیے۔ دن کے اوقات میں روزہ جبکہ رات میں قیام یعنی تراویح میں قرآن کی تلاوت کا سماع ہونا چاہیے۔ احادیث میں اس کی کثرت سے ترغیب دی گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِﷺ، قَالَ: «مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ» (صحیح مسلم)’’ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس آدمی نے ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان کی رات کو قیام کیا تو اس کے سارے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے ‘‘۔ قیامِ رمضان یعنی تراویح کے آغاز کے متعلق اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’ رسول اللہﷺ رات کے درمیانی حصے میں نکلے، آپﷺ نے مسجد میں نماز پڑھی تو کچھ آدمیوں نے بھی آپﷺ کے ساتھ نماز پڑھی تو صبح لوگ اس کا تذکرہ کرنے لگے۔ رسول اللہﷺ دوسری رات نکلے تو پہلی رات سے زیادہ لوگ جمع ہوگئے اور انھوں نے بھی آپﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، لوگوں نے صبح کو اس بات کا ذکر کیا۔ تیسری رات میں مسجد والے بہت زیادہ جمع ہوگئے تو آپﷺ باہر نکلے، لوگوں نے آپﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر جب چوتھی رات ہوئی تو مسجد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھر گئی تو آپﷺ مسجد والوں کی طرف نہ نکلے، مسجد والوں میں سے بعض حضرات نے الجماعۃ الجماعۃ کی ندائیں بلند کیں! رسول اللہﷺ پھر بھی ان کے پاس تشریف نہ لائے، یہاں تک کہ آپﷺ فجر کی نماز کے لیے نکلے تو جب فجر کی نماز ادا کی گئی تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف آپﷺ متوجہ ہوئے، پھر تشہد پڑھا اور فرمایا: اما بعد! تمہاری آج کی رات کی حالت مجھ سے چھپی ہوئی نہ تھی لیکن مجھے ڈر لگا کہ کہیں تم پر قیامِ رمضان یعنی تراویح فرض نہ کردی جائے پھر تم اس کے پڑھنے سے عاجز آجاؤ ‘‘۔ (صحیح مسلم) جبکہ اس روایت کو نقل کر کے امام ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول نقل فرمایا: ’’ حالانکہ رسول اللہﷺ رمضان میں قیام کی ترغیب دیا کرتے تھے سوائے اس کے کہ اس پر زور نہ دیتے تھے۔ پس ترغیب کے طور پر فرماتے تھے: ’’ جو آدمی رمضان میں ایمان اور ثواب سمجھ کر قیام کرے تو اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ‘‘۔ رسول اللہﷺ وصال فرما گئے اور آپﷺ کا یہ حکم اسی طرح باقی رہا۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت اور حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آغاز میں اسی طرح یہ حکم باقی رہا، یہاں تک کہ حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت پر لوگوں کو جمع کیا اور وہ اُن کو تراویح پڑھاتے تھے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم باقاعدہ جماعت کے ساتھ رمضان المبارک میں تروایح پڑھنے کے لیے اکھٹے ہوئے ‘‘۔ اسی طرح امام زید بن علی رحمہ اللہ نے اپنے آبا و اجداد کی سند سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ حکم روایت کیا ہے: عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه أَنَّه أَمَرَ الَّذِيْ یُصَلِّيْ بِالنَّاسِ صَلَاةَ الْقِیَامِ فِيْ شَهْرِ رَمْضَانَ أَنْ یُّصَلِيَّ بِهِمْ عِشْرِیْنَ رَکْعَةً، یُّسَلِّمُ فِيْ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ وَیُرَاوِحَ مَابَیْنَ کُلِّ أَرْبَعِ رَکْعَاتٍ۔ (مسندالإمام زیدبن علی)’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو حکم دیا جو لوگوں کو رمضان المبارک کے مہینے میں نمازِ تراویح پڑھاتے تھے کہ وہ ان کو بیس رکعات نماز پڑھائیں۔ ہر دو رکعتوں کے درمیان سلام پھیرے اور ہر چار رکعتوں کے درمیان آرام کے لیے کچھ دیر وقفہ کرے ‘‘۔ لہٰذا تراویح کی نمازسنتِ مؤکدہ ہے۔ خلفاے راشدین، صحابۂ کرام، تابعین، تبع تابعین، ائمۂ مجتہدین اور سلَفِ صالحین رضی اللہ عنہم اجمعین سے پابندی سے تراویح پڑھنا ثابت ہے۔ حضورﷺ نے تین دن تراویح کی جماعت قائم فرمائی تھی لیکن اس اندیشے سے تراویحِ با جماعت کا مستقل اہتمام نہیں فرمایا کہ کہیں فرض نہ ہوجائے۔ مگر حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم انفرادی طور پر یا کبھی دو دو چار چار مل کر جماعت کے ساتھ تراویح پڑھ لیتے تھے۔ یہ سلسلہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت کے اوائل تک برقرار رہا پھر آپ رضی اللہ عنہ نے باضابطہ جماعت کے ساتھ تراویح کا مستقل نظم بنا یا جو آج تک قائم ہے۔ یہی سنت ہے، اسی پر اجماعِ امت ہے اور اسی پر چاروں فقہی مذاہب کا فتویٰ اور عمل ہے۔ یہ ایک متوارث ومتواتر عمل ہے، صدرِ اول سے آج تک امت بیس رکعت تراویح کی قائل ہے اور چودہ سو سال سے حرمین شریفین اور مسجدِ اقصیٰ میں بیس رکعت ہی پڑھی جاتی ہے۔ لہٰذا وہ حضرات جو رمضان المبارک میں نفسِ نمازِ تراویح یا بیس رکعات یا باجماعت تراویح کے قائل نہیں ہیں، ان کا موقف درست نہیں ہے، جبکہ ان کے لیے مذکورہ دلائل کافی ہونے چاہییں۔ اللہ تعالیٰ آنے والے ماہِ صیام میں ہمیں اپنے اوقات کو اپنے پروردگار کی یاد میں بسر کرنے اور کثرتِ تلاوتِ کلامِ پاک اور قیام اللیل کی توفیق عطا فرمائیں۔