لاگ ان

جمعہ 20 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 22 نومبر 2024

لاگ ان

جمعہ 20 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 22 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 20 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 22 نومبر 2024

جمعہ 20 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 22 نومبر 2024

عثمان خان‏
معاون قلم کار

ایُّہا الولد

امام غزالی رحمہ اللہ کی یہ کتاب نصائح اور مواعظِ حسنہ پر مبنی ہے جو انھوں نے اپنے شاگرد کو لکھ کر ارسال کیے۔واقعہ یہ ہوا کہ امام غزالی رحمہ اللہ کے ایک شاگرد جس نے کئی سال امام غزالی رحمہ اللہ کے پاس رہ کر علم حاصل کیا تھا اورتمام علوم سے بھر پور فائدہ اٹھایا تھا،اس کے دل میں ایک خیال پیدا ہوا کہ میں نے اتنے علوم حاصل کیے ان میں سے نہ جانے کون سا آخرت میں میرے کام آئے گا اور میری قبر کو رشن کرے گااور کون سے ایسے علوم ہیں جو آخرت میں میرے لیے نقصان کا باعث ہوں گے۔اگر مجھے یہ بات پتا چل جائے تو میں مضر علوم سے کنارہ کش ہو جاؤں۔اس شاگرد نے یہ تمام سولات امام صاحب کو لکھ بھیجے اور اُن سے اِن کا حل دریافت کیا۔ اس کے ان سوالات کے جواب میں امام صاحب نے یہ رسالہ تصنیف کیا۔(۱) امام صاحب نے اس کتاب نصیحت میں جن اہم امور کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے وہ درج ذیل ہیں:

آداب و شرائطِ شیخ تصوف کی حقیقت بندگی، توکل اور اخلاص کی اصل
مناظرے کے اصول مریض کی اقسام نصیحت کے آداب
وعظ کی حقیقت مطالعے کی تلقین امرا وباشاہوں سے دوری اختیار کرنے کا بیان
تعلق مع اللہ پیدا کرنے کا طریقہ خوراک کے ذخیرے کی ممانعت نماز کے بعد کی دعا کا اہتمام(۲)

یہ کتاب ایک ایسی جامع نصیحت ہے جو ہر استاد کو اپنے طالبِ علم کو فارغ التحصیل ہونے کے بعد لازمی کرنی چاہیے۔ اس میں آفاتِ علم و نفس کا جامع تجزیہ کر کے اس کا بہترین اور سہل علاج تجویز کیا گیا ہے۔اس کتاب کے اندر طالبِ علم کو مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ تعلق مع اللہ کومضبوط بنانے کی نصیحت کی گئی ہے۔

مشکوٰۃ الانوار

اس کتاب کی وجہِ تالیف یہ ہےکہ امام غزالی رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ’’انوارربانی‘‘کے راز مجھ کو بتائیے جن کی طرف صرف ظاہری آیاتِ قرآنیہ اور احادیث اشارہ کرتی ہیں۔مثلا جیسے سورۂ نور میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ اللہ زمین و آسمان کا نور ہے۔آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ نورِ خداوندی کو چراغ اور زیتون کے درخت سے تشبیہ دی گئی۔(۳) امام غزالی نے اس کو جواب میں یہ رسالہ لکھ کے ارسال کردیا۔ یہ ایک دقیق علمی کتاب ہے جس میں تصوف اور فلسفے کی اصطلاحات کا جگہ جگہ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ کتاب عام آدمی کے لیے سمجھنے کے اعتبار سے بہت مشکل ہے۔ اس کے موضوعات درج ذیل ہیں:

اقسامِ نور حقیقتِ نور حقیقتِ حقائق صلاحیتوں میں فرق مراتب کی ضرورت
ارواحِ بشریہ کا بیان عقل کی رویت یکساں نہیں ہے آیات کی مثالوں کا بیان(۴)

مجموعی طور پر یہ ایک دقیق علمی کتاب ہے جس میں امام صاحب نے نورِ خداوندی پر لطیف اور عمدہ بحث کی ہے۔ یہ مباحث عامیوں کے لیے نہیں بلکہ ان افراد کے لیے ہیں جومیدانِ عقل کے شہسوار ہوں۔عامیوں کے لیے لازم ہے کہ اس نوعیت کی کتب سے احتراز کریں اور اگر پڑھنا ضروری ہو تو کسی قابل عالم سے جو اِن مسائل پر عبور رکھتا ہودرساً پڑھیں۔

بدایۃالہدایۃ

امام غزالی رحمہ اللہ کا یہ رسالہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ عبادات کا ہے، دوسرا حصہ اخلاق کا ہے۔ عبادات میں جو مسائل بیان ہوئے ہیں وہ سب کے سب امام شافعی رحمہ اللہ کے مذہب کے مطابق ہیں لیکن دیگر مذاہب ے تعلق رکھنے والے حضرات کے لیے بھی اس رسالے میں یہ جاذبیت ہے کہ اس رسالے میں جو دعائیں اور اذکار بیان ہوئے ہیں وہ سب نبی کریم ﷺ سے منقول ہیں۔دوسرا حصہ ان اخلاق کے بیان کا ہے جوعام طور پر مضر ہیں۔اختصار کے باوجود اس حصے میں نہایت سود مند مضامین شامل ہیں۔(۷) اس رسالے میں درج ذیل مضامین شامل ہیں:(۶)

حصہ اوّل: عبادات کے آداب کا بیان

آدابِ طہارت آدابِ صلاۃ آدابِ امامت آدابِ جمعہ آدابِ صیام

حصہ دوم: اخلاقیات

اجتنابِ معاصی کا بیان دل کے گناہوں کا بیان آدابِ طلبہ کا بیان
آدابِ صحبت و معاشرت با خداو بندگان خدا کا بیان بیان رعایت حقوق و محبت

یہ کتاب ایک مومن کے لیے عظیم خزانہ سے کم نہیں۔ اس کتاب کے اندر عبادات کے مسائل، مصالح اور دیگر فوائد کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کاعمدہ بیان ہے۔ آج ہم جس اخلاق باختہ معاشرے میں جی رہے ہیں اس کی ضرورت ہے کہ اسے اسلام کے اعلٰی و ارفع اخلاقیات سے منوّر کیا جائے۔ہمارے معاشرے میں جو شہوات زور پکڑ رہی ہیں اور معاشرے میں جنسی انارکی پھیل رہی ہے۔ اس کتاب میں اس مسئلے کا عمدہ حل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے حلقے قائم ہوں جہاں امام صاحب کی کتب کا مطالعہ کرایا جائے۔ اگر ایسے حلقے گلی گلی، محلے محلے شروع ہوگئے تو ہم اپنے معاشرے کے اخلاق میں مثبت تبدیلی بہت جلد محسوس کریں گے۔

منہاج العابدین

منہاج العابدین امام غزالی رحمہ اﷲ کی آخری تصنیف ہے۔ اس کتاب میں عبادت، علم، عمل،استقامت،اخلاص،توبہ اورعبادت پر اُبھارنے والی او ر اس میں رکاوٹ بننے والی باتوں اور حمدوشکر کو ترتیب سے بیان کیا گیا ہے۔منہاج العابدین کوہم امام غزالی کی باقی کتب سے یوں مختلف کہہ سکتے کہ اس کی ترتیب میں تنوع وجدت ہے۔ آپ نے اپنی علمی وعملی زندگی کانچوڑ اس میں بیان کیاہے۔ امام غزالی خودفرماتے ہیں کہ اگراس کتاب پرعمل کیاجائے تویہ’’منہاج العابدین‘‘(عبادت گزاروں کا راستہ) ہے۔ امام غزالی نے اس کتاب کے ذریعے دنیاکی بے ثباتی اورفکرِ آخرت کادرس دیا ہے۔ آپ کتاب کے آخرمیں اپنا مدعاومقصود یوں بیان فرماتے ہیں:’’ہم نے آخرت کے راستے پر چلنے کے متعلق بیان کاارادہ فرمایاتھا، الحمدﷲ اس کتاب کے ذریعے ہم اپنے مقصدمیں بخوبی کامیاب ہوگئے ہیں۔ اب جس کادل چاہے عمل کرے ورنہ صرف علم اس کے لیے آفت بن جائے گا۔(۷)’’یہ کتاب امام غزالی کی پوری زندگی کی تعلیمات وارشادات کاخلاصہ اورفنِ تصوف کانچوڑ ہے۔اس کتاب مین درج ذِیل سات موضوعات ہیں جنھیں امام صاحب نے ’’گھاٹیوں‘‘ سے ملقب کیا ہے۔ 

علم کی گھاٹی توبہ کی گھاٹی
عوائق و موانع کی گھاٹی عوارض کی گھاٹی
بواعث یعنی عبادت پر ابھارنے والی چیزوں کی قوادح یعنی ان چیزوں کی جو عبادت میں خرابی پیدا کرتی ہیں
حمد و شکر کی گھاٹی(۸)

یہ ایک عمدہ کتاب ہے جو ایک سالک کو عبادت میں پیش آنے والی مشکلات کا سامنا کرنا سکھاتی ہے اور اسے اللہ کی اطاعت اور سنتِ رسول ﷺ پر ابھارتی ہے۔ امام غزالی صوفیٔ محض نہیں تھے، وہ انسان کی نفسیات پر گہرا عبور رکھتے تھے۔ اس کتاب میں انھوں نے انسان کے نفس کی جانب سے اسے پھسلانے کے لیے جوکچھ حیلے بہانے بن سکتے تھے انھیں بیان بھی کیا اور ساتھ ساتھ اس کا علاج بھی تجویز فرمایا ہے۔

نصیحۃ الملوک

’’اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے، حکومت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتا ہے۔ آج کل ہمارے ملک میں حکومت کی کھینچا تانی جاری ہے۔ جو پہلے ہنس رہے تھے، آج رو رہے ہیں اور جو آج ہنس رہے ہیں، وہ کل روئیں گے۔ اس دنیا کی حکمرانی اور کامیابی دائمی ہے نہ ہی زوال اور ناکامی۔ یہ دنیا کا تاج و تخت بس جھولے کی ایک سواری ہے،جس پر لوگوں نے باری باری چڑھنا اور اترنا ہے۔ جس کے چڑھنے کی باری ہوتی ہے، وہ خوشی سے خوب چھلانگیں لگاتا ہے اور جس نے اترنا ہوتا ہے، اسے بلا اختیار رونا آرہا ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں خود بخود بندے کا ذہن اُن قیمتی نصائح کی طرف چلا گیا، جو گزشتہ دور میں ہمارے بزرگ اپنے وقت کے حکمرانوں کو بہت ہی دردِ دل کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔ مشہور عالم، فقیہ اور صوفی بزرگ ابو حامد محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ ( المتوفی ۵۰۵ھ ) نے تو اپنے وقت کے بادشاہ محمد بن ملک شاہ سلجوقی کو بہت ہی مخلصانہ انداز میں، انتہائی قیمتی مواد پر مشتمل پورا ایک رسالہ لکھا تھا، جو اصل تو فارسی زبان میں تھا لیکن اب اس کا عربی ترجمہ ہی دستیاب ہے، جو بیروت کے مشہور ناشر دارالکتب العلمیہ نے ’’ التبر المسبوک فی نصیحۃ الملوک‘‘ کے نام سے ایک سو بتیس صفحات میں شائع کیا ہے‘‘۔(۹)

مشہور محدث اور صوفی بزرگ حضرت شیخ عبدالحق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ( المتوفی ۱۰۵۲ھ) کی تصنیفات میں بھی ان کے ایک رسالے کا تذکرہ ملتا ہے، جس کا نام ’’ ترجمۃ الاحادیث الاربعین فی نصیحۃ الملوک والسلاطین ‘‘ ہے۔ اس موضوع پر متفرق بھی جتنی نصائح اور واقعات عربی میں ملتے ہیں، ان سے باآسانی ایک جامع کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ پھر یہ نصائح ایسی جامع ہیں کہ دین و دنیا کے ہر گوشے پر محیط ہونے کے ساتھ ساتھ ان میں ہر خاص و عام کے لیے عبرت کا بہت بڑا سامان موجود ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کچھ نہ کچھ ’’بادشاہ ‘‘ ہوتا ہے اور اس کے ماتحت اُس کی ’’رعایا‘‘ بھی ہوتی ہے۔ کوئی شخص کسی ادارے ‘ محکمے ‘ شہر یا گاؤں کا ’’بادشاہ ‘‘ ہوتا ہے اور کوئی صرف اپنے گھر کا۔ اس لیے ان نصائح کو یہ سوچ کر نہیں پڑھنا چاہیے کہ یہ صرف ملکی سطح کے حکمرانوں کے لیے ہیں اور ہمیں ان کی کوئی ضرورت نہیں، بلکہ ہم میں سے ہر ایک ان ہدایات و تعلیمات کا محتاج اور ضرورت مند ہے۔ بہرحال! اس سلسلے کے چند ایمان افروز نمونے اردو ترجمے(۱۰) کی شکل میں یہاں قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں :

(۱)…امیر المومنین سیدنا حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو خط لکھا اور اس میں درخواست کی کہ آپ مجھے کچھ نصیحت اور وصیت فرمائیں لیکن بات مختصر اور جامع ہو، بہت طویل نہ ہو، حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا نے ان کو یہ مختصر خط لکھا :

سلام علیک! أما بعد فإني سمعت رسول اللّٰه ﷺ یقول: مَنِ التمس رضاء اللّٰه بسخط الناس کفاه اللّٰه مونة الناس و من التمس رضاء الناس بسخط اللّٰه و کله اللّٰه إلی الناس والسلام علیک

’’ سلام ہو تم پر۔ اما بعد! میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی اللہ کو راضی کرنا چاہتا ہے لوگوں کو اپنے سے خفا کر کے، تو اللہ لوگوں کی طرف سے اُسے کافی ہو جاتے ہیں یعنی اُسے لوگوں سے بے نیاز کر دیتے ہیں، اور جو کوئی بندوں کو راضی کرنا چاہے گا اللہ کو ناراض کر کے تو اللہ تعالیٰ اس کو لوگوں کے سپرد کر دیں گے یعنی انھی لوگوں کے ذریعے پھر اس کی ذلت کا سامان ہو گا‘‘۔(۱۱) 

(۲)…اپنی حکومت کو خلافتِ راشدہ کے طرز پر عد ل و انصاف سے چلانے والے عظیم حکمران حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے منصب ِ خلافت پر فائز ہونے کے بعد اپنے وقت کے عظیم محدث و مفسر حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس خط روانہ کیا کہ وہ انصاف کرنے والے حکمران کے اہم اوصاف اور امتیازی خصوصیات لکھ کر ان کو بھیج دیں، چنانچہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے ان کے نام اپنے خط میں لکھا :’’اے امیر المومنین! آپ جان لیجیے اللہ رب العزت نے امامِ عادل (انصاف پسند حکمران)کو ہر ٹیڑھے کو سیدھا کرنے والا، ہر ظالم کو راہِ راست پر لانے والا، ہر فاسد کی اصلاح کا ذریعہ، ہر ضعیف کی قوت، ہر مظلوم کے لیے انصاف اور ہر غم زدہ کی پناہ گاہ بنایا ہے۔اے امیر المومنین! امامِ عادل (انصاف پسند حکمران)اُس چرواہے کی طرح ہے جو اپنے اونٹوں پر شفقت کرنے والا اور ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنے والا ہو، جو ان کے لیے بہترین چراگاہ کا متلاشی رہتا ہو، ہلاکت کی چراگاہوں سے انھیں دور رکھتا ہو، درندوں سے ان کی حفاظت کرتا ہو اور گرمی و سردی کی تکلیف سے انھیں بچاتا ہو۔اے امیر المومنین!امامِ عادل (انصاف پسند حکمران)اُس باپ کی طرح ہوتا ہے جو اپنی اولاد پر شفقت کرتا ہے، کم عمری کی حالت میں ان کے لیے دوڑ دھو پ کرتا ہے، بڑے ہونے کی حالت میں ان کو تعلیم دیتا ہے، زندگی بھر اُن کے لیے روزی کماتا ہے اور مرنے کے بعد انھیں کے لیے جمع کر جاتا ہے۔اے امیر المومنین! امامِ عادل (انصاف پسند حکمران)اُس شفیق نیک اور اپنے بیٹے کے ساتھ مہربان ماں کی طرح ہے، جس نے اسے بڑی مشقت کے ساتھ پیٹ میں رکھا، بڑی مشقت کے ساتھ اسے جنا اور بچپن میں اسے پالا۔ اُس کے جاگنے سے وہ ماں خود بھی جاگتی ہے، اُس بچے کے سکون سے اسے بھی سکون ملتا ہے، کبھی اسے دودھ پلاتی ہے اور کبھی چھڑاتی ہے، اس کے آرام سے خوش ہوتی ہے اور اس کی تکلیف سے خود بھی غم زدہ ہو جاتی ہے۔ اے امیر المومنین! امامِ عادل (انصاف پسند حکمران)یتیموں کا والی، مسکینوں کی خاطر ذخیرہ کرنے والا ہوتا ہے، وہ اُن کے چھوٹوں کی پرورش کرتا ہے اور بڑوں کی کفالت کرتا ہے۔ اے امیر المومنین! امامِ عادل (انصاف پسند حکمران)اس دل کی طرح ہے جو پسلیوں کے درمیان ہے، جس کی درستی سے تمام اعضا درست رہتے ہیں اور اس کے بگڑنے سے تمام اعضا بگڑ جاتے ہیں۔اے امیر المومنین! امامِ عادل (انصاف پسند حکمران)اللہ اور بندوں کے درمیان منتظم ہوتا ہے، اللہ کا کلام سیکھتا ہے اور بندوں کو سکھاتا ہے، اللہ کو دیکھتا ہے اور انھیں دکھاتا ہے، اللہ کا مطیع ہوتا ہے اور انھیں مطیع بناتا ہے۔لہٰذا اے امیرا لمومنین! آپ ان چیزوں میں جن کا اللہ نے آپ کو مالک بنایا ہے اُس غلام کی طرح مت ہو جائیں جس کو اس کے آقا نے امین بنا دیا اور اس سے اپنے مال کی حفاظت چاہی اور اس نے مال تباہ و برباد کر دیا، اہل و عیال کو دھتکار دیا اور گھر والوں کو محتاج بنا دیا اور اس کے مال کو تقسیم کر دیا۔اے امیر المومنین! یہ بھی جان لیں کہ اللہ رب العزت نے کچھ حدود نازل فرمائی ہیں، تاکہ ان کے ذریعے بے حیائی اور برے کاموں سے روکا جائے، تو کیا حال ہو گا اگر حاکم ہی ان برائیوں کا مرتکب ہو ؟ اور یہ کہ اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کے لیے قصاص کو زندگی کا ذریعہ بنایا ہے تو کیا حال ہو گا اگر وہی شخص قاتل بن جائے جو ان سے قصاص لینے والا ہو۔اے امیر المومنین!موت اور اس کے بعد کو اور اُس وقت اپنے بے یارو مددگار ہونے کو یاد کریں، لہٰذا موت اور اُس کے بعد سخت گھبراہٹ کے وقت کے لیے سامان جمع کرلیں۔اے امیر المومنین! جان لیں کہ آپ کے لیے آپ کے اُس گھر کے علاو ہ جس میں آپ ہیں ایک گھر اور ہے، جس میں آپ کو طویل مدت تک ٹھہرنا ہے، آپ کے احباب آپ کو تنِ تنہا اس گھر کے ایک گڑھے کے سپرد کر کے آپ سے جدا ہو جائیں گے۔ لہٰذا اُس دن کے لیے آپ ایسے اعمال تیار کر لیں جوآپ کا ساتھ دیں، وہ ایسا دن ہو گا جس دن آدمی اپنے بھائی سے، اپنی ماں سے، اپنے باپ سے، اپنی بیوی سے اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔اے امیر المومنین!یاد کریں کہ جب قبروں میں موجود مردے زندہ کیے جائیں گے اور جو کچھ دلوں میں ہے وہ سب ظاہر ہو جائے گا اور تمام چھپے ہوئے راز کھل جائیں گے۔ نامۂ اعمال انسان کے کسی چھوٹے عمل کو چھوڑے گا اور نہ ہی بڑے عمل کو۔اے امیر المومنین! اپنے مقررہ وقت کے آنے سے پہلے اور زندگی کی امیدوں کے ختم ہو جانے سے پہلے آپ مہلت کے وقت میں ہیں۔ آپ نہ تو جاہلوں جیسا فیصلہ کریں نہ ہی لوگوں کو ظالموں کے راستے پر چلائیں اور نہ ہی طاقت ور لوگوں کو کمزوروں پر مسلط ہونے دیں کہ یہ ظالم لوگ کسی مومن کے بارے میں نہ تو رشتے داری کا لحاظ رکھتے ہیں اور نہ ہی کسی عہد و وعدہ کا۔یاد رکھیں! آپ ہی اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائیں گے اور ساتھ ہی اُن لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی برداشت کریں گے جنھوں نے آپ کے کہنے پر گناہ یا ظلم کیا۔ آپ اُن لوگوں کے دھوکے میں ہرگز نہ آئیں جو ایسے مال سے عیش کرتے ہیں جس میں آپ کا نقصان ہے اور وہ لوگ آپ کی آخرت کو برباد کر کے دنیا کی لذتوں میں مزے اڑاتے ہیں۔ آپ اپنی آج کی طاقت کو نہ دیکھیں بلکہ اپنی اُس وقت کی حالت کو دیکھیں جب آپ موت کے جال میں پھنسے ہوں گے یا پھر اُس وقت کو یاد رکھیں جب آپ فرشتوں اور انبیا علیہم السلام کے مجمعے میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوں گے، اس حال میں کہ تمام چہرے اللہ حیّ و قیوم کے سامنے جھکے ہوں گے۔اے امیر المومنین! میں آپ کو ویسی نصیحت تو نہیں کر سکا جیسے مجھ سے پہلے عقل مند لوگوں نے اپنے وقت کے حکمرانوں کو کی تھی،لیکن میں نے شفقت اور آپ کی خیر خواہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آپ اس خط کو اُس مہربان طبیب کی طرح سمجھیں جو مریض کو کڑوی دوائیں صرف اس لیے پلاتا ہے کہ اُسے مریض کی عافیت اور صحت کی اس سے ہی امید ہوتی ہے‘‘۔

اس مقام پر اس مضمون کا اختتام ہوا۔ مذکورہ بالا صفحات میں ہم نے امام غزالی رحمہ اللہ کی کل آٹھ کتبِ تصوف کا ایک خاکہ پیش کیا۔ اب ہم اس مضمون کا حاصل ذیل میں بیا ن کرتے ہیں۔

خلاصۂ کلام

امام غزالی ایک حقیقت پسند اور غیر جانبدار شخصیت کے مالک تھے،حقائق تک رسائی کے لیے آپ نے مروجہ علوم وفنون کا از سر نو جائزہ لیا۔آپ نے تقلید ورسوم کو پھر سے پرکھا،مذاہب وفرق کی دقَّت نظر سے چھا ن بین کی،آپ کے نزدیک حقیقی علم چاہے وہ دنیاوی یا دینی اعتبارسے ہو اپنی تہہ میں اذعان و یقین کے پیمانے رکھتا ہے،اس کے اثبات کے لیے معجزات و خوارق کی نہ صرف ضرورت نہیں بلکہ جو بات اس طرح علم کی زد میں آجائے تو وہ نظریات یا عقائد مزید کھل اور نکھر کر سامنے آجاتے ہیں۔ چنانچہ آ پ نے ان تمام دنیاوی علوم کی تعلیم کو جائز اور ضروری قراددیا جو معاشرتی اعتبار سے لازمی ہیں جب کہ یونانی فلاسفر، لادینی عناصر، شریعت اور تصوف میں توازن،جاہل صوفیا کا رد اور گمراہ فرقوں کے عقائد کے تصورات پر آپ نے تنقید کی۔ آپ کے مطابق ہر علم کا اپنا ایک معیار ہے اور اپنے اثبات کے لیے اسے کسی بیرونی سہارے کی ضرورت نہیں۔

آپ رحمہ اللہ کےتصوف کی طرف مائل ہونے کی وجہ اس طائفہ کے اخلاق وعادات،روشن خیالی اور روشن ضمیری ہے کیونکہ تصوف وسلوک کی راہ پر گامزن ہونے کی شرط اول یہ ہی ہے کہ انسان کو خواہشات و جذبات کے احساسات سے اوپر اُٹھنا ہوگا، عقل وفکر اور ذہن و قلب کو ریا ضتوں اور مجا ہدوں سے اس طرح صقیل اور چمکانا ہوگا کہ ان پر انوار الہیہ منعکس ہوسکیں ان کا اپنا تجربہ یہ ہے کہ جب انھوں نے اس راہ کو اپنایا تو دین کے حقائق اس طرح منکشف ہوئے کہ کوئی اس میں اشکال باقی نہ رہا اور ساتھ ہی نظری علوم و فنون کی گرہیں بھی کھلتی چلی گئی۔

ہمارا معاشرہ بھی آج طرح طرح کی گمراہیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ہمارے معاشرے کے تمام امراض کا حل تعلیمات غزالی میں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کچھ فدائیانِ غزالی آگے بڑھیں اور زبان اور قلم کی طاقت سے غزالی کے افکار کو پورے معاشرے میں پھیلا دیں۔ ایسا کرنے سے ہمارے معاشرے کے ظاہری و باطنی امراض کا خاتمہ ہوگا اور ہمارا معاشرہ مستحکم اخلاقی بنیادوں پر کھڑا ہوسکے گا ان شاءاللہ۔

*****

حوالہ جات
(۱) الغزالی، ابو حامد محمد، ایّہاالولد، اردو ترجمہ بحوالہ مجموعہ رسائل امام غزالی، مطبوعہ 2004، دارالاشاعت، کراچی، جلد ۱،ص۱۴۹
(۲) ایضا،ص۱۴۸-۱۴۷
(۳) الغزالی، ابو حامد محمد، مشکوٰۃ الانوار، اردو ترجمہ :حبیب الرحمن صدیقی، بحوالہ مجموعہ رسائل امام غزالی، مطبوعہ 2004، دارالاشاعت، کراچی، جلد ۱،ص۳۹۸
(۴) ایضا، ص۳۹۶
(۵) الغزالی، ابو حامد محمد، بدایۃالہدایۃ، اردو ترجمہ :غلام احمد صاحب، بحوالہ مجموعہ رسائل امام غزالی، مطبوعہ 2004، دارالاشاعت، کراچی، جلد ۲،ص۳۲۱
(۶) ایضا
(۷) https://www.rekhta.org/ebook-detail/minhaj-ul-aabideen-imam-mohammad-ghazali-ebooks?lang=ur
(۸) الغزالی، ابو حامد محمد، منہاج العابدین، اردو ترجمہ:محمد سعید احمد، مطبوعہ 2013، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ص40
(۹) https://www.alqalamonline.org/index.php/kalma-e-haq-maulana-mansoor-ahmad/10376-654-kalma-e-haq-suno-aye-hkmurano
(۱۰) یہ تفصیلات اور ترجمہ مولانا منصور احمد صاحب کے برقی مضمون’’سنو اے حکمرانو‘‘سے ماخوذہے۔ اس کا حوالہ اوپر دے دیا گیا ہے۔یہ مضمون کلمہ حق، شمارہ 654 میں بھی شائع ہو چکا ہے۔
(۱۱) سنن ترمذی، ابواب الزہد

لرننگ پورٹل