صوفی جمیل الرحمان عباسی
مدیر ماہنامہ مفاہیم و ناظمِ شعبۂ تحقیق و تصنیف، فقہ اکیڈمی
عہدِابو العباس السفاح (۱۳۲ تا۱۳۶ھ)
ابو العباس عبد اللہ بن محمد بن علی بن عبد اللہ بن عباس،حضور کریم ﷺ کے چچازاد بھائی اور ترجمان و مفسرِ قرآن حضرت عبد اللہ بن عباس رضی للہ عنہما کے پڑپوتے تھے۔ عباسیوں کی تحریک انھی کے دور میں بنو امیہ کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہوئی اور ۱۳۲ ھ میں خلافتِ بنو امیہ کا خاتمہ ہوا۔ یہ پہلے عباسی خلیفہ بنے اور ابو العباس السفاح کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کا دور چار سال پر محیط رہا جس میں وہ زیادہ تر داخلی طور پر مخالفین کو کچلنے میں مصروف رہے۔ ۱۳۶ ھ میں ان کا انتقال ہوا۔
عہدِ ابوجعفرمنصور (۱۳۷تا۱۵۷ )
یہ پہلے عباسی خلیفہ ابو العباس کے بڑے بھائی تھے اور اس کی وصیت کے نتیجے میں خلیفہ بنائے گئے۔ ان کا نام بھی عبد اللہ ہی تھا۔ یعنی عبد الله بن محمد بن علی بن عبد الله بن عباس،یہ ابو جعفر منصور کے نام سے مشہور ہوئے۔ خلافتِ عباسیہ کو منظم کرنے کا سہرا انھی کے سر ہے۔ ابو جعفر منصور کے دور میں سنہ ۱۳۸ ھ میں شاہِ روم قُسطنطین پنجم نے مَلَطیہ کے محاذ پر حملہ کیا اور شہر فتح کر لیا۔ خلیفہ نے اپنے چچا صالح بن علی بن عبد اللہ بن عباس کو مَلَطیہ کے محاذ پر روانہ کیا اور ان کے ساتھ اپنے دوسرے چچا عباس بن علی بن عبد اللہ بن عباس کو مامور کیا۔ ان دونوں نے ۱۳۹ ھ میں شہر فتح کیا اور شہرپناہ کی تعمیر کی۔ ۱۴۰ ھ میں حسن بن قحطبہ اور عبد الوہاب بن ابراہیم الامام بن محمد بن علی بن عبد اللہ بن عباس نے روم کے بعض علاقوں پر حملہ کیا۔ دوسری جانب سے شاہِ روم خود مقابلے پر آیا۔ لیکن باقاعدہ لڑائی نہ ہوئی۔ اس کے بعد ابو جعفر منصور کچھ اندرونی بغاوتوں کو کچل نے میں مصروف رہے جبکہ دوسری طرف سے بھی کوئی حملہ نہ ہوا تو ۱۴۹ ھ میں عباس بن محمد نے روم کے بعض علاقوں پر حملہ کیا،حسین بن قحبطہ اور محمد بن اشعث بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ محمد بن اشعث راستے ہی میں انتقال کر گئے۔ ۱۵۳ ھ کے موسمِ گرما میں معیوف بن یحی الحجوری نے بعض رومی علاقوں پر حملہ کر کے کئی قلعے فتح کر لیے۔ انھوں نے قدیم رومی ساحلی شہر اللاذقیہ فتح کیا اور ہزاروں جنگی قیدی ہاتھ آئے۔ ۱۵۵ ھ میں شاہِ روم نے خلیفہ ابو جعفر منصور کی خدمت میں صلح کی درخواست کی جو منظور کر لی گئی۔ ابن الاثیر اور امام طبری نے اس کا ذکر بغیر تفصیل کے کیا۔ ۱۵۸ ھ میں ابو جعفر منصور حجِ بیت اللہ کے لیے گئے۔ دورانِ سفر انھوں نے اپنے قریبی لوگوں کو بتایا کہ میری پیدائش ذی الحجہ میں ہوئی تھی اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ذی الحجہ ہی میں میرا انتقال ہو گا اور لگتا ہے کہ یہ اسی حج کے موقعے پر ہو گا۔ چنانچہ ذی الحجہ کی ۶ یا ۷ تاریخ کو مکہ مکرمہ میں ان کا انتقال ہوا اور جنت المعلّٰی میں مدفون ہوئے۔ مرنے سے پہلے انھوں نے سرداران سےاپنے ولیٔ عہد محمد بن عبد اللہ کی بیعت کی تجدید کی۔
عہدِخلیفہ مہدی (۱۵۹تا۱۶۹ھ)
محمد بن عبد اللہ،اپنے والد ابو جعفر منصور کے انتقال کے بعد خلیفہ بنے اور المہدی کے لقب سے مشہور ہوئے۔ ان کے دور میں روم کے ساتھ چپقلش جاری رہی۔ ۱۵۹ ھ میں انھوں نے عباس بن محمد بن علی بن عبد اللہ بن عباس کو مامور کیا جنھوں نے رومی علاقوں پر قبضہ کیا اور بہت سارا مالِ غنیمت حاصل کیا۔ ۱۶۱ ھ میں ثمامہ بن ولید اپنے لشکر کو لے کر دابق کے مقام پر پہنچے،رومی لشکر سے ان کا ٹکراؤ ہوا لیکن مسلمان آگے نہ بڑھ سکے۔ ۱۶۲ ھ میں حسن بن قحطبہ نے روم کے بعض علاقے فتح کیے اور بہت سوں کو قیدی بنایا۔ اسی سال یزید بن ابی اسَید السُلَمی نے قالیقلا کی طرف سے روم پرحملہ کیا اور رومی فوجوں کو شکست دی اور بہت سا مالِ غنیمت اور جنگی قیدی حاصل کیے۔ (ابنِ کثیر) ۱۶۳ ھ میں خلیفہ مہدی نے اپنے بیٹے ہارون الرشید کو روم پر حملے کا حکم دیا۔ خالد بن برمک اور حسین بن قحطبہ بھی لشکر میں شامل تھے۔ جب لشکر بغداد سے روانہ ہوا تو خلیفہ مہدی لشکر کے ساتھ چلے یہاں تک کہ لشکر روم کی سرحدوں میں داخل ہو گیا۔ یہاں سے خلیفہ مہدی بیت المقدس کی زیارت کے لیے روانہ ہوئے جب کہ لشکر روم کی حدود میں پیش قدمی کرتا رہا۔ اس حملے میں مسلمانوں نے مصیصہ اور طرسوس کے نزدیک صمالو (سمالو) کے علاقے کو فتح کیا اور بہت سے جنگی قیدی ہاتھ آئے۔ ۱۶۵ ھ میں ہارون الرشید نے ایک لاکھ کے لشکرِ جرّار کے ساتھ روم پر حملہ کیا اور ان کی فوج کو شکستِ فاش دی۔ ہزاروں رومی مقتول ہوئے اور ہزاروں قیدی بنائے گئے۔ جانوروں اور سازو سامان کی صورت میں کثیر مالِ غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ مسلمان لشکر پیش قدمی کرتا ہوا خلیجِ قسطنطنیہ تک جاپہنچا۔ ان دنوں روم کی بادشاہی الیون ( لیو ثالث) کی بیوی رینی کے ہاتھ تھی جو اپنے بیٹے کی نیابت کر رہی تھی۔ روم کی طرف سے صلح کی درخواست آئی۔ جو ہارون نے قبول کر لی۔ ستر ہزار دینار سالانہ زرِ تاوان پر تین سال کے لیے صلح کا معاہدہ کیا گیا۔ ۱۶۶ھ میں ہارون اپنی فاتح فوج کے ساتھ واپس لوٹے۔ (الکامل فی التاریخ) ۱۶۸ ھ میں جبکہ مدتِ معاہدہ کی تکمیل کو چند ماہ باقی تھے،روم نے صلح کے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ اس بار یزید بن بدر البطال کو روم کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا گیا جو جزیرہ کے حاکم تھے۔ انھوں نے کئی علاقے تاراج کیے اور کامیاب واپس لوٹے۔ ۱۶۹ ھ میں خلیفہ مہدی کا انتقال ہوا۔
عہدِ موسی الہادی (۱۶۹تا۱۷۰ھ)
خلیفہ مہدی کی وصیت اور ولایتِ عہدی کے مطابق موسی محمد ہادی بن مہدی خلیفہ بنے۔ انھوں نے تقریباً ایک سال حکومت کی۔ ان کے دور میں معیوف بن یحی نے روم پر حملہ کیا اور اُشنہ شہر تک پہنچ گئے۔ انھوں نے بہت سا مالِ غنیمت اور جنگی قیدی حاصل کیے۔
عہدِ ہارون الرشید (۱۷۰ تا ۱۹۳)
موسی الہادی کے انتقال کے بعد ان کے بھائی اور خلیفہ مہدی کے بیٹے ہارون الرشید خلیفہ بنے۔ حج کثرت سے کرتے اور حج پر جاتے تو سینکڑوں اہلِ علم اور فقہا کو ساتھ لے جاتے اور جب حج پر نہ جاتے تو تین سو افراد کو اپنے خرچ پر حج کے لیے روانہ کرتے۔ روزانہ سو رکعت نفل ادا کرتے۔ انتہائی سخی تھے۔ محدث محمد بن حازم سےرو رو کر احادیثِ رسولﷺ سنا کرتے۔ علماے کِرام کی عزت کرتے اور خود ان کے ہاتھ دھلایا کرتے۔ ابنِ سمَّاك زاہد سے وعظ سنتے اور قاضی ابو یوسف سے فقہ میں راہنمائی پاتے۔ بدعتی فرقوں اور زنادقہ کاتعاقب کرتے اور بعض اوقات زنادقہ کو قتل کی سزا اپنے ہاتھ سے دیتے۔ (ابنِ کثیر) ان کے دور میں روم کے ساتھ لڑائیاں جاری رہیں اور اکثر یہ گرمیوں کے موسم میں ہوا کرتیں اس لیے انھیں صائفہ کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہ موسمِ سرما میں روم کے علاقے خاصے ٹھنڈے ہوتے تھے۔ ۱۷۱ ھ میں سلیمان بن عبد اللہ البکاء کو حملے کے لیے روانہ کیا گیا جبکہ ۱۷۲ ھ میں اسحاق بن سلیمان بن علی کو روم پر حملے کے لیے بھیجا گیا۔ ۱۸۲ ھ میں ہارون الرشید خود فوج کی کمان کرتے ہوئے حملہ آور ہوئے۔ انھوں نے صفصاف کا قلعہ فتح کیا۔ اسی سال عبد الملک بن صالح نے حملہ کیا اور انقرہ تک پہنچ گئے۔ اگلے سال یعنی ۱۸۲ ھ میں عبدالرحمن بن عبد الملک بن صالح نے حملہ کیا اور اصحابِ کہف کے علاقے (افسُوس) تک کو فتح کیا۔ اسی سال روم نے اپنی قیادت قسطنطین بن الیون سے لے کر اس کی ماں رینی کو سونپ دی۔ ۱۸۳ ھ میں خزری قبائل نے آرمینیا پر چڑھائی کی اور بڑی تعداد میں مسلمانوں کو قیدی بنا لیا۔ ہارون نے خزیمہ بن خازم اور یزید بن مزید کو ادھر روانہ کیا جنھوں نے قومِ خزر کو پسپا کیا۔ ۱۸۶ ھ میں امیر المؤمنین،ہارون الرشید اپنے دو بیٹوں،عبد اللہ بن ہارون المامون،محمد بن ہارون الامین اور علما و فقہا کی ایک جماعت کے ساتھ حج پر تشریف لے گئے۔ جبکہ چھوٹے بیٹے قاسم بن ہارون المؤتَمَن اپنی عملداری کے علاقے میں تھے۔ بیت اللہ شریف میں انھوں نے ولی عہدی کا ایک طویل پروانہ لکھوایا جس میں ولی عہدی کے ساتھ،اتفاق کی تاکید اور ناچاقیوں کا سدِّباب کر نے کی کوشش بھی کی گئی۔ ارکانِ سلطنت،صاحبزادگان اور جماعتِ فقہا و علما کو گواہ بنا کر اس معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ بعد میں یہ معاہدہ علما کے حوالے کیا گیا کہ وہ حاجیوں کے مجمعِ عام میں اس کو پڑھ کر سنا دیں۔ اس تحریر کے مطابق امیر المؤمنین نے اپنے درمیانے بیٹے محمد بن ہارون المعروف الامین (ابنِ زبيده) کو اپنا ولیٔ عہد قرار دیا اور الامین کے بعد بڑے بیٹے عبد اللہ بن ہارون المعروف المامون (ابنِ امِّ ولد،مراجل) کو ولیٔ عہد مقرر کیا جبکہ المامون کا ولیٔ عہد چھوٹے بیٹے قاسم بن ہارون المعروف المؤتَمَن (ابنِ امِّ ولد) کو مقرر کیا گیا تھا۔ (تاریخِ شاکر،تاریخِ طبری) ۱۸۷ ھ میں روم نے رینی اغسطہ کو معزول کیا اور اس کی جگہ نقفور بادشاہ بنا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ شخص جبلہ بن ایہم الغسانی کی اولاد میں سے تھا۔ جو مرتد ہو کر روم فرار ہو گیا تھا۔ نقفور نے مسلمانوں سے کیا گیا معاہدہ بھی توڑ دیا جو ملکہ رینی کے دور میں ہوا تھا۔ نقفورنے ہارون کو خط لکھا کہ ہماری ملکہ نے خواتین کی روایتی بے وقوفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تم سے صلح کی اور تمہاری پیش قدمی کو تسلیم کیا اور کثیر مال تمہارے حوالے کیا جس کے تم حقدار نہ تھے۔ میرا خط ملتے ہی تم وہ مال مجھے واپس ارسال کرو بلکہ اپنی طرف سے کچھ فدیہ بھی روانہ کرو ورنہ تلوار ہمارے درمیان فیصلہ کرے گی۔ ہارون نے مختصراً لکھا کہ میرا جواب عنقریب تمھیں مل جائے گا۔ اس کے بعد خلیفہ نے اپنے صاحبزادے قاسم بن ہارون رشیدالمعروف المؤتَمَن کو روم پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ رومی فوج قلعہ بند ہو گئ اور مسلمانوں نے قرّہ قلعے کا محاصرہ کر لیا جبکہ عباس بن محمد بن اشعث نے سنان قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ جب رومی مشکلات کا شکار ہوئے تو انھوں نے صلح کی درخوست کی جو اس شرط پر منظور ہوئی کہ تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ اس کے بعد ہارون خود فوج کی قیادت کرتے ہوئے روم کی جانب روانہ ہوئے اور باب ہرقلہ کی جانب سے کئی سرحدی علاقے فتح کر لیے اور بہت سا مالِ غنیمت حاصل کیا اور یہاں سے نقفورشاہِ روم کو خط لکھا کہ تاوانِ صلح کی جو رقم تم سالانہ بھیجتے ہو وہ ارسال کرو۔ شاہِ روم نے اس مطالبے کو پورا کرتے ہوئے صلح کی تجدید کر لی تب مسلمان حملہ آور واپس ہوئے۔ ہارون ابھی رقہ کے مقام تک ہی پہنچے تھے کہ معلوم ہوا کہ نقفورنے صلح توڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔ (معارک بین العربِ و الروم ۲۰ ، ۲۱) ۱۸۸ ھ میں مسلمانوں نے صفصاف کے علاقے کی طرف سے پھر حملہ کیا۔ یہاں شاہِ روم خود مقابلے پر آیا لیکن زخمی ہو کر پسپا ہوا۔ اس جنگ میں ہزاروں رومی مارے گئے۔ (الکامل) ۱۸۹ ھ میں قاسم بن ہارون الرشید مرج دابق میں مقیم رہے۔ اس سال خلیفہ نے مسلمان قیدیوں کا فدیہ روانہ کر کے قیدی آزاد کروائے یہاں تک کہ کوئی مسلمان قید میں نہیں رہ گیا۔ ۱۹۰ ھ میں خلیفہ ہارون پھر روم کی طرف روانہ ہوئے اور تیس روزہ محاصرے کے بعد ہرقلہ کو فتح کر لیا۔ اس کے علاوہ داؤد بن عیسی بن موسی نے بھی کئی رومی علاقے فتح کیے۔ خلیفہ نے آگے بڑھ کر طوانہ پر بھی قبضہ کر لیا۔ شاہِ روم نقفورنے صلح کی درخواست کی۔ مسلمان فوجوں کی واپسی کے لیے تاوان ادا کیا اور اپنے قیدیوں کو چھڑانے کے لیے فدیہ ادا کیا۔ (تاریخِ شاکر ، ۵، ۱۵۷)
۱۹۱ ھ میں اہلِ قبرص نے صلح کے معاہدے سے انحراف کیا۔ سزا کے طور پرمعیوف بن یحی نے قبرص پر حملہ کیا اور سترہ ہزار غلام مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ ۱۹۱ ھ ہی میں یزید بن مخلد الہبیری نے دس ہزار کی فوج کے ساتھ روم پر حملہ کیا۔ لیکن وہ رومیوں کے گھیرے میں آگئے۔ پچاس جانوں کی قربانی دے کر مسلمان نکلنے میں کامیاب ہوئے البتہ کماندار یزید اس جنگ میں شہید ہوگئے۔ اس کے بعد روم نے مرعش کی طرف سے مسلمانوں کے علاقوں پر حملہ کیا لیکن مار کھا کر پیچھے بھاگے۔ ۱۹۲ ھ میں ہارون الرشید نے ثابت بن نصر بن مالک کو سرحدوں کی نگہداشت پر مامور کیا۔ وہ رومی سرحدوں میں داخل ہوئے اور مطمورہ کا شہر فتح کیا۔ اس کے بعد مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان صلح ہو گئی۔ (ابنِ کثیر و تاریخِ شاکر ، ۵ ، ۱۵۷ ،۱۶۰) اپنی زندگی کے آخری ایام میں ہارون نے ایک خواب دیکھا جس سے انھوں نے اپنی موت کے قریب ہونے کا اندازہ کر لیا۔ جب وہ خراسان کے سفر پر روانہ ہوئے تو طوس سے گزرتے ہوئے بیمار پڑ گئے۔ چنانچہ انھوں نے طوس میں قیام کیا۔ جس گھر میں وہ مقیم تھے وہاں انھوں نے اپنی قبر کھدوائی اور اس قبر پر تلاوت قرآن کا ایک ختم کرایا۔ اس دوران وہ قبر کے کنارے بیٹھے موت کی سختیوں کو یاد کرتے رہے۔ اسی گھر میں ان کا انتقال ہوا اور اپنی بنوائی ہوئی قبر میں مدفون ہوئے۔ (ابنِ کثیر)
عہدِ خلیفہ الامین (۱۹۳تا ۱۹۸ھ)
ہارون رشید کے انتقال کے بعد ان کی وصیت کے مطابق ان کے درمیانے بیٹے محمد بن ہارون الامین خلیفہ بنائے گئے۔ عبد اللہ بن ہارون المامون اور قاسم بن ہارون المؤتَمَن اپنی ولایت کے علاقوں پر موجود تھے۔ انھوں نے اپنے والد کی وصیت کے مطابق محمد الامین کو تہنیت اور اطاعت گزاری کا پیغام بھیجا۔ لیکن بدقسمتی سے نئے خلیفہ اس معاہدے پر کاربند نہ رہ سکے جو انھوں نے اپنے باپ کے سامنے حرمِ مکی میں کیا تھا۔ قاسم بن ہارون المؤتَمَن اپنے والد کے دور سے الجزیرہ اور رومی محاذات پر والی تھے اور روم کے ساتھ کئی جنگوں میں بھی حصہ لے چکے تھے۔ ۱۹۴ ھ میں امین نے پہلے قاسم کو معزول کیا۔ پھر کچھ عرصے بعد اپنے بیٹے موسی کی ولی عہدی کا اعلان کر دیا۔ اس پر عبد اللہ بن ہارون المامون نے بغداد سے رابطہ منقطع کر دیا۔ اس کے جواب میں محمد الامین نے عبد اللہ بن ہارون المامون پر فوج کشی کی اور خراسان کی طرف بھی ایک لشکر روانہ کیا۔ اس جنگ میں الامین کی فوجوں کو شکست ہوئی۔ اس کے بعد چند سال باہمی جنگ و جدل جاری رہا۔ اس دوران مختلف علاقوں کے امرا عبد اللہ بن ہارون المامون سے بیعتِ خلافت بھی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ محمد الامین کی حکومت بغداد تک محدود ہو گئی اور ۱۹۷ ھ کے حج کا خطبہ بھی المامون کے نام کا پڑھا گیا۔ ۱۹۸ ھ میں عبد اللہ بن مامون کی فوجیں اس کے کماندار طاہر بن حسین کی قیادت میں بغداد پر قابض ہو گئیں۔ محمد الامین ایک مکان میں روپوش پائے گئے جنھیں فوجیوں نے قتل کر دیا۔ اس طرح محمد الامین کا دور ختم ہوا۔ اس عرصے میں روم کے ساتھ کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ اس کی ایک وجہ تو مسلمانوں کا باہمی انتشار تھا۔ دوسری طرف سلطنتِ روم بھی اسی قسم کے حالات سے گزر رہی تھی۔ ۱۹۳ ھ میں قیصر نقفورایک بغاوت کو کچلتے ہوا مارا گیا۔ اس کے بعد کئی سال تک روم کو استحکام نصیب نہیں ہوا۔
عبداللہ بن ہارون المامون (۱۹۸تا ۲۱۸ ھ )
المامون،صاحبِ علم شخص تھے۔ علمِ فقہ،علمِ فرائض کے علاوہ علمِ حدیث میں مہارت رکھتے تھے۔ بعض دفعہ اپنی یاداشت سے درجنوں احادیث سند کے ساتھ بیان کرتے تھے اور اپنے خطبوں میں احادیث سند کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ قرآنِ پاک کے حافظ تھے اور رمضان میں تلاوتِ قرآن کے ۳۳ دور مکمل کرتے تھے۔ یہ تشیع کی طرف مائل تھے۔ علماے کرام کے نزدیک یہ تفضیلِ علی رضی اللہ عنہ کے قائل تھے لیکن دیگر اصحابِ کرام رضی اللہ عنہم کی مذمت نہیں کرتے تھے۔ مامون اہلِ تشیع کے آٹھویں امام علی الرضا بن موسى الكاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علی زين العابدين بن حسين بن علی بن ابی طالب سے ملے اور انھیں اپنا ولیٔ عہد مقرر کر دیا۔ اس پر عباسی خاندان میں ان کی مخالفت شروع ہو گئی۔ یہاں تک کہ اہلِ بغداد نے مامون کے چچا اور ہارون الرشید کے بھائی ابراہیم بن مہدی سے بیعتِ خلافت کر لی۔ علی الرضا بن موسی کے انتقال کے بعد ابراہیم بھی شکست کھا گئے اور مامون کی خلافت مستحکم ہو گئی۔ مامون نے بغداد میں بیت الحکمت کے نام سے ادارہ قائم کیا جو یونانی علوم عربی میں منتقل کرنے کا کام کرتا تھا لیکن بشر مریسی کے زیرِ اثر خلیفہ خود اعتزالی فکر سے متاثر ہو گئے اور خلقِ قرآن کے عقیدے کے پِرْچارَکْ بن گئے۔ ان کا ابتدائی دور،روم کے ساتھ جنگوں سے خالی ہے۔ سوائے یہ کہ افریقہ کے امیر زیادۃ اللہ الاغلب نے ۲۰۱ اور ۲۰۲ ھ میں بحرِ روم کے بعض رومی جزائر پر حملہ کر کے فتح اور کثیر مالِ غنیمت حاصل کیا۔ مامون کے دور میں رومی جنگوں کا سلسلہ اس دور کے آخری سالوں سے شروع ہوتا ہے۔ ۲۱۵ ھ میں المامون خود ایک فوج لے کر روم کی طرف روانہ ہوئے۔ وہ دابق،انطاکیہ،مصیصہ اور طرسوس سے ہوتے ہوئے انقرہ تک پہنچے۔ پہلے تو آپ نے شہر کے آدھے حصے پر بزورِ قوت قبضہ کیا اس کے بعد اہلِ شہر نے صلح کرتے ہوئے باقی شہر بھی مسلمانوں کے حوالے کر دیا۔ یہاں سے خلیفہ واپس ہوئے اور دمشق چلے گئے۔ یہاں انھیں اطلاع ملی کہ طرسوس پر شاہِ روم تَوفیل بن میخائل نے حملہ کر کے بہت سارے مسلمانوں کو شہید کر دیا ہے۔ اس پر المامون نے اپنے بھائی،ابو اسحاق بن رشید کو ساتھ لے کر دوبارہ روم پر حملہ کیا اور تیس قلعے فتح کیے۔ دوسری طرف مامون کے وزیر یحی بن اکثم نے طوانہ پر حملہ کیا اور رومیوں کو سخت سزا دی۔ بہت ساروں کو قتل کیا اور بڑی تعداد غلام بنائی گئی۔ (تاریخ شاکر، ج: ۵، ص:۲۳)
۲۱۷ ھ میں المامون نے روم پر حملہ کیا اور لُؤْلُؤَه شہر کا محاصرہ کیا جو بے نتیجہ رہا۔ ۲۱۸ ھ میں مامون نے اپنے بیٹے عباس بن مامون کو طوانہ شہر کی طرف روانہ کیا جنھوں نے شہر کی منہدم دیواروں کی تعمیر کروائی۔ اسی دوران مامون نے بغداد میں اپنے نائب کو خط لکھا کہ علماے کرام اور محدثین کو جمع کر کے،قرآنِ مجید کے مخلوق ہونے کے بارے میں ان کی رائے لی جائے اور جو قرآن کو مخلوق نہ کہے اسے سزا دے کر میرے پاس بھیج دیا جائے۔ کئی علماے کرام نے اس نظریے کا انکار کیا۔ جس پر انھیں مختلف قسم کی سزائیں دی گئیں اور پھر انھیں خلیفہ کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے رومی محاذوں کی طرف روانہ کر دیا گیا۔ ان میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی تھے۔ آپ نے اللہ کی جناب میں دعا فرمائی تھی کہ خلیفہ مامون کا ان سے آمنا سامنا نہ ہو۔ اسی دوران مامون ایک لشکر لے کر خود روم کی طرف روانہ ہوئے اور اعلان کیا کہ اس بار ہم قسطنطنیہ تک پہنچے بغیر واپس نہ آئیں گے۔ جب وہ لُؤْلُؤَه کے نزدیک پہنچے تو شاہِ روم نے صلح کی درخواست کی لیکن مامون نے صلح کرنے سے انکار کر دیا اور آگے بڑھتے رہے۔ جب طرسوس کے نزدیک پہنچے تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی دعا قبول ہوئی اور مامون وفات پا گئے۔ (ابنِ کثیر)