اداریہ
مدیر ماہ نامہ، مفاہیم
غزوۂ حنین میں کسی صحابی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ ثقیف کے خلاف بد دعا کریں تورحمتِ محمدی کو یہ گوارا نہ ہوا بلکہ یوں دعا کی: «اَللَّهُمَّ اهْدِ ثَقِيفًا» ’’اے اللہ! قبیلۂ ثقیف کو ہدایت دے‘‘ ۔ لیکن یہی رسولِ رحیم علیہ السلام رمضان میں مغفرت نہ کرا سکنے والے کو تباہی کی بد دعا کے ساتھ، جبریل علیہ السلام کی دعاے پھٹکار پر آمین بھی فرماتے ہیں تو سوچوکتنی بڑی بد نصیبی اور کتنا بڑا جرم ہے کہ نیکیوں کے موسمِ بہار اور نیکیوں کے بازار سے ’’خریدار نہیں ہوں‘‘ کی شانِ متکبرانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے گزرا جائے۔ رسولِ خدا ﷺ نے رمضان کی آمد پر کس کس طرح سے متوجہ کیا۔ کہیں تو فرمایا کہ اس میں آسمانوں کے دروازے کھول دیے جاتے اور کہیں فرمایا اس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور حینِ رمضان کو ئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا۔ دوزخ کے دروازے اس طرح بند کر دیے جاتے ہیں کہ کو ئی دروازہ کھولا نہیں جاتا۔ سرکش شیطان پابندِ سلاسل کر دیے جاتے ہیں۔ اس طرح نیکی کے راستے کھل جاتے ہیں۔ نیکی کرنا اسی طرح آسان ہو جاتا ہے جس طرح موسمِ بہار میں پھلنا پھولنا اور پھر آوازیں لگوائی جاتی ہیں: ’’اے نیکی کے چاہنے والے! آگے بڑھ‘‘ ۔ تو جب نیکیوں کا موسم یہ سماں باندھ لے تو پھر اعمال کی محنت کے علاوہ کو ئی دوسرا کا م جچتا نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «افْعَلُوا الْخَيْرَ دَهْرَكُمْ، وَتَعَرَّضُوا لِنَفَحَاتِ رَحْمَةِ اللَّهِ، فَإِنَّ لِلَّهِ نَفَحَاتٍ مِنْ رَحِمَتِهِ يُصِيبُ بِهَا مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ» ’’اپنے وقتوں میں نیکیاں کیا کرو اور اس طرح رحمتِ الہٰی کے جھونکو ں کا سامنا کرو پس بے شک اللہ کی رحمت کی گھٹائیں چلتی ہیں جو وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے بھیجتا ہے‘‘ ۔ ایک روایت میں مزید امید دلائی گئی: «لَعَلَّ أَحَدَكُمْ أَنْ يُصِيبَهُ مِنْهَا نَفْحَةٌ لَا يَشْقَى بَعْدَهَا أَبَدًا» ’’شاید تم میں سے کسی پراس بادِ صبا کا گزر ہو جائے تو اس کی بدبختی ہمیشہ کے لیے دور ہو جائے‘‘ ۔ (مجمع الزوائد)تو بہارِ رمَضانی کے جھونکے سے اپنے اعمال نامے کی کھیتیاں لہلہانے کے لیے بازوے عمل کی آستینیں چڑھا لینی چاہیے، ’’پیش کر غافل عمل کو ئی اگر دفتر میں ہے‘‘ کے مطابق محنت کو اپنا شعار بنانا چاہیے۔ ابھی تو ہم نے سردیوں کے بے مشقت چھوٹے چھوٹے سرمائی دن گزار ے ہیں اور لمبی لمبی سرمائی راتوں کی بے تکان استراحتوں کے مزے لوٹے ہیں۔ ابھی تو ہم تازہ دم ہیں اس لیے رمضان کی برکات کے حصول کے لیے محنتِ شاقہ کا عزم پختہ کر لینا چاہیے۔
رمضان کی برکات کے حصول کی دو لازمی شرطیں ’آداب و معمولات‘ ہیں۔ آداب سے شروع کرتے ہیں تومعروف بات ہے کہ صرف کھانےاور پینے سے رکنے کا نہیں بلکہ فضولیات اور بےہودہ کاموں سے رکنے کا نام روزہ ہے۔ حدیث میں آتا ہےکہ جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کی حدود کو پہچانا اور اس کی حدود و آداب کی محافظت کی تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب تو روزہ رکھے تو اپنے سمع وبصر اور زبان کو محارم سے روزہ رکھوا، پڑوسی کو تکلیف دینے سے اجتناب کر اور شور شرابے سے الگ ہو کر سکینت اور وقار کا راستہ اختیار کر، تو روزے کے آداب کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ بعض روزے داروں کو روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ رمضان کے معمولات کی طرف آئیں تو سب سے اہم چیز تعلق مع القرآن ہے۔ اس ضمن میں تراویح سے آگے بڑھ کرتلاوتِ قرآن کا خاص اہتمام کرنا چاہیے۔ اسلاف کا رمضان میں تلاوتِ قرآن کا شوق دیدنی ہوتا تھا۔ جب رمضان شروع ہوتا تو امام مالک رحمہ اللہ تمام کام چھوڑ کر تلاوتِ قرآن کی طرف متوجہ رہتے اور حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ بھی ایسا ہی کیا کرتے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ رمضان میں ساٹھ دور مکمل کیا کرتے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ رمضان میں ہر دن ایک قرآن ختم کرتے تھے۔ بعض لوگ قرآنِ کریم کی درس و تدریس کی جانب متوجہ ہوتے۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ رمضان میں قرآنِ کریم کی درس و تدریس کا خاص اہتمام کیا کرتے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما جب بصرہ کے امیر تھے تو وہ لوگوں کو جمع کرتے اور انھیں فقہ کی تعلیم دیا کرتے۔ بعض سلَف رمَضانِ کریم میں حدیث شریف سے لو لگاتے۔ شیخ حسن بن محمد الشافعی کے بارے میں روایت ہے کہ وہ ہر سال رمضان میں صحیح بخاری کا حفظ برقرار رکھنے کے لیے اس کا ختم کرتے تھے۔
نبی کریم ﷺ کی سخاوت رمضان میں اپنے عروج پر ہوا کرتی، لہٰذا نفلی صدقہ و خیرات کا رمضان میں بہت اہتمام کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ اس ماہ میں نفل کا اجر فرض کے برابر دیا جاتا ہے اور کسی روزے دار کو افطار کرانے پر، روزہ رکھنے والے کے برابر اجر دیا جاتا ہے چاہے یہ افطار ایک گھونٹ پانی یا لسی پہ کیوں نہ ہو اور رہی یہ بات کہ کو ئی کسی روزے دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا دے تو اسے دوزخ سے نجات کی بشارت دی گئی ہے۔ امام ابنِ شہاب زہری رحمہ اللہ رمضان میں لوگوں کو کھانا کھلانے کا بہت اہتمام کیا کرتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہر شام کسی مسکین کو افطار کرایا کرتے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مسجد میں کھانا رکھوا دیا کرتے کہ یہ عبادت میں مشغول لوگوں کی سہولت کے لیے ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے استاد حماد بن ابی سلیمان رحمہ اللہ ہر شام پچاس بندوں کو افطار کرایا کرتے اور جب عید الفطر کی(یعنی چاند)رات ہوتی تو ہر ایک کو کپڑوں کا ایک جوڑا بھی عنایت کرتے۔ رمضان کا ایک اہم کام ذکر اللہ میں محنت کرنا ہے اس لیے کہ ذکر کی برکت سے روزے کا اجر بھی بڑھا دیا جاتا ہے اور رمضان کی برکت سے خود ذکر کا اجر بھی بڑھا دیا جاتا ہے۔
رمضان کا ایک اہم کام دعا ہے اس لیے کہ رمضان میں افطار اور سحر کے علاوہ حالتِ صیام میں بھی دعائیں خاص طور پر قبول کی جاتی ہیں۔ اسی طرح ختمِ قرآن کے موقعے پر بھی دعا کی خاص فضیلت وارد ہوئی ہے۔ ایک حدیث میں رمضان مبارک میں چار کاموں کی ترغیب وارد ہوئی ہے:کلمۂ طیبہ لا الہ الا الله کا ورد، استغفار کا اہتمام، جنت کا سوال اور دوزخ سے پناہ مانگنا، تو ان امور کا اہتمام کرنے کی کو شش کرنی چاہیے۔ رمضان کے آخری عشرے میں نبی اکرم ﷺ رمضان کے ابتدائی دنوں سے زیادہ محنت کیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ آخری عشرے کی راتوں کو زندہ رکھتے اور تمام اہلِ خانہ کو بھی جگایا کرتے تھے۔ ان دنوں میں اعتکاف کرنا اور لیلۃ القدر کو تلاش کرنا بھی ایک اہم کام ہے۔ یہ ہے رمضان کی جان توڑ محنت جس کے بعد جب رمضان کی آخری رات آتی ہے تو مسلمانوں کی مغفرت کر دی جاتی ہے اور انھیں یہ اصول بتایا جاتا ہے: العامل إنما يوفى أجره إذا قضى عمله ’’مزدوری کرنے والا جب کام ختم کر لے تو اس کو اجر دیا جاتا ہے‘‘ ۔ پھر جب وہ عید گاہ کی طرف چلتے ہیں تو مغفورا لهم کی سند سے انھیں نوازا جاتا ہے۔ بقول ابنِ عباس رضی اللہ عنہ، فرشتے راستوں میں کھڑے ہو کر ایسی آواز لگاتے ہیں جنھیں جن و انس کے سوا سب سن سکتے ہیں: ’’اے امتِ محمد! چلو،چلو اپنے ربِّ کریم کی بارگاہ میں جو تمھیں اجرِ جزیل اور مغفرتِ عظیم سے نوازے گا‘‘۔دعا ہے کہ اللہ ہمیں رمضان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور نبیٔ کریم اور جبریلِ امین علیہما السلام کی بد دعا سے محفوظ رکھے۔ آمین