مولانا نایاب حسن قاسمی
رکن شیخ الہند اکیڈمی، دارالعلوم دیوبند
مکتوباتِ شیخ الاسلام
یہ چار جلدوں پر مشتمل آپ کے خطوط کا مجموعہ ہے، جسے آپ کے معتقد ومعتمدِ خصوصی مولانا نجم الدین اصلاحی نے مرتب کیا ہے، یہ مکتوبات متنوع معلومات کا گنج شائگاں ہیں اور ان سے آپ کی بلند وبالا شخصیت بھی نکھرکر سامنے آتی ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ مولانا حسین احمد مدنی علیہ الرحمۃ کی ذات اسلامی فضائل اور دینی اوصاف وکمالات کی جامعیت کے لحاظ سے اپنے دور میں ایک بے مثال شخصیت کی حیثیت رکھتی تھی، آپ اسلامی وعربی علوم وفنون، سلوک ومعرفت اور تصوف وسلوک کے ایک ناپیدا کنار سمندر تھے۔ قدرت نے آپ کے اندر علم وعمل کی جملہ خوبیاں جمع کردی تھیں، یہی وجہ ہے کہ آپ کے مکتوبات میں ان کی جھلکیاں بھرپور انداز میں پائی جاتی ہیں، یہ خطوط وہ ہیں جو آپ نے مختلف اوقات میں اپنے مریدین، معتقدین، دوستوں، عزیزوں، رشتے داروں اور شاگردوں کو لکھے ہیں، ان خطوط کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے: ایک حصہ تو ان خطوط کا ہے، جن میں علمی، دینی یا معاشرتی سوالات کے جوابات دیے گئے ہیں۔ آپ کے دوست، اعزہ اور نیاز مند اکثر کسی نہ کسی مسئلے میں آپ کی رہ نمائی کے خواہاں ہوتے اور آپ کو خط لکھا کرتے تھے، آپ ان کے خطوط کو اولاً انتہائی توجہ سے پڑھتے اور پھر حسبِ حال انھیں ان کے سوالات کے جوابات لکھ کر بھیج دیا کرتے تھے، آپ کے زیادہ تر خطوط ایسے ہی ہیں اور یہ بات بلاکسی شبہے کے کہی جاسکتی ہے کہ وہ آپ کی علمیت اور وسعتِ نظری کا اعلیٰ نمونہ ہیں، ان خطوط کو دیکھ کر کوئی بھی انسان آپ کی معلومات کی کثرت اور علم وفضل کی بے کرانی کا معترف ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، ان میں تفسیرو حدیث، فقہ وفتاویٰ، علم کلام وعقائد، سلوک ومعرفت، تاریخ وسیر اور اقتصادیات واخلاقیات کے ٹھوس حقائق پر سیر حاصل اور بصیرت افروز گفتگو کی گی ہے اور کمال تو یہ ہے کہ اکثر وبیشتر خطوط دورانِ سفر یا ایامِ اسیری میں انتہائی عجلت میں اور قلم برداشتہ لکھے گئے ہیں؛ مگر اس کے باوصف وہ مستقل مضمون اور علمی وتحقیقی شہ پارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
جب ہم مولانا مدنی کے مکتوبات کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ذہانت بھی آزادؔعلیہ الرحمۃ کے ہم قدم ہے۔ کسی بھی مسئلے پر لکھتے وقت آپ نے قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کا جائزہ لیا ہے، مشائخ اور اولیاے کرام کے ملفوظات کو انھی کے الفاظ میں بیان کیاہے، جہاں کہیں کتابوں کے حوالے آئے ہیں، وہاں ان کی عبارتیں انھی کے الفاظ میں نقل کی ہیں اور بعض اوقات ان کے صفحے تک نوٹ کرتے چلے گئے ہیں، اسی طرح اشعار کے استعمال میں بھی مولانا مدنی علیہ الرحمۃ نہ صرف مولانا آزاد علیہ الرحمۃ کے شریک ہیں؛ بلکہ یک گونہ ان پر فوقیت بھی رکھتے ہیں، مولانا مدنی علیہ الرحمۃ کے خطوط میں فارسی کے ساتھ اردو کے بہترین اشعار اور غزل کے اشعار بھی بہ کثرت پائے جاتے ہیں اور صرف اسی قدر نہیں؛ بلکہ ہندی کے بھی نرم ونازک اور رسیلے اشعار خاصی تعداد میں ان کے خطوط میں موجود ہیں۔ مجموعہٴ مکتوبات کے کچھ خطوط ایسے بھی ہیں، جو بالکل ذاتی اور نجی نوعیت کے ہیں، ان میں جہاں اس وقت کے سیاسی مسائل پر گفتگو کی گئی ہے اور مولانا نے اپنے سیاسی نظریات کی وضاحت کی ہے، ہوسکتا ہے ہر پڑھنے والا اس سے متفق نہ ہو، کہ یہ ممکن بھی نہیں؛ مگر پھر بھی ان کی اس اہمیت سے مجالِ انکار نہیں ہوسکتی کہ وہ اپنے زمانے کے ”شیخ الاسلام“ کے افکارِ سیاسی کے بلاواسطہ ترجمان ہیں اور تاریخی دستاویز بھی۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ خطوط کسی بھی شخصیت کا آئینہ ہوتے ہیں،جس میں اس کا اصلی چہرہ نظر آتا ہے، کوئی بھی آدمی کسی کی خوبیوں اور خرابیوں سے صحیح واقفیت حاصل کرنا چاہتا ہو، تو وہ اس کے خطوط کا مطالعہ کرنے کے بعد کسی بھی فیصلہ کن پوزیشن تک پہنچ سکتا ہے؛ کیوں کہ یہ وہ تحریر ہے، جو بغیر کسی بناوٹ اور سجاوٹ کے لکھی جاتی ہے؛ کیوں کہ خطوط نہ تواظہارِ علم کا ذریعہ ہوتے ہیں اور ناہی اپنی ذات کو بلند آہنگ طریقے سے پیش کرنے کا وسیلہ؛ بلکہ یہ بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے معاملات کے تئیں خطوط نگار کی بے ساختہ راے کا اظہار ہوتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ خطوط کے آئینے میں کوئی بھی شخصیت اپنے اصلی خط وخال سمیت منعکس ہوجاتی ہے، اس لحاظ سے بھی اگر ”مکتوباتِ شیخ الاسلام“ کا مطالعہ کیا جائے، تو پڑھنے والا مکتوب نگار کی مقناطیسی شخصیت کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا اور وہ بے ساختہ طور پر خود کو ان سے قریب ہوتا ہوا، ان کی جانب کھنچتا ہوا اور ان سے متاثر ہوتا ہوا پائے گا۔
جہاں تک ان خطوط کی زبان کا تعلق ہے، تو وہ عموماً انتہائی سادہ، رواں، سلیس، شگفتہ اور ہرنوع کی پیچیدگی سے مبرَّا ہے؛ البتہ جہاں آپ نے کسی خاص علمی وباطنی مسئلے کی وضاحت کی ہے، وہاں قدرے خشکی پائی جاتی ہے، جس کے بغیر کوئی چارۂ کار بھی نہیں؛ کیوں کہ وہ مکتوب جس میں خالص علمی، اخلاقی اور باطنی مباحث ہوں، انھیں مکمل طور پر ادبی آہنگ میں نہیں ڈھالا جاسکتا، کہ اس سے مکتوب نگار کے مقصودِ اصلی کے فوت ہوجانے کا دھڑکا پیدا ہوجائے گا اور اصل بات، جو وہ مکتوب الیہ تک پہنچانا چاہتا ہے، الفاظ کی رنگینیوں میں کھوجائے گی، محشراعظمی نے غالب کے خطوط اور مولانا آزاد کے غبارِخاطر سے مکتوباتِ شیخ الاسلام کا موازنہ کرتے ہوئے عمدہ تبصرہ کیا ہے، وہ لکھتے ہیں: ”مکتوبات کا کون سا اسلوب پسندیدہ ہے اور کون نہیں، یہ تو اپنے اپنے ذوق کی باتیں ہیں، کسی نے غالب کے خطوط کو ان کی سادگی، بے تکلفی اور ظرافت کی وجہ سے پسند کیا، کسی نے مولانا آزاد کی غبارِخاطر اس وجہ سے پڑھی کہ اس میں ایک خاص قسم کی چاشنی ہے، الفاظ کی سجاوٹ ہے، جملوں کی خوب صورت ترکیب ہے اور خیالات کی رنگینی کے ساتھ معمولات کا دریا موج زن ہے اور مکتوباتِ شیخ الاسلام کو اس وجہ سے پسند کیا جاسکتا ہے کہ اس میں خالص علمی وروحانی باتیں ہیں، ایسے خطوط جن میں صرف زبان وبیان کی خوبی ہو اور ان میں کوئی بنیادی خوبی نہ ہو، ان کے مطالعے سے قاری کو ایک لذت تو مل سکتی ہے؛ لیکن اس کی معلومات میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکتا، ہمارے اس نقطۂ نظر پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ معلومات حاصل کرنے کے بہت سے ذرائع ہیں، پھر خطوط و مکاتیب میں اس کا کیا سوال؟ تو یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے اور ہم اس سے انکار نہیں کرسکتے؛ لیکن اس کے باوجود ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہم دوسروں کے مکتوب کیوں پڑھتے ہیں؟ اورکسی کے مکتوب پڑھتے وقت ہمارے دل میں کیا خیال پیدا ہوتا ہے؟ وقت اور دماغ صرف کرنے کے بعد ہمیں کیا ملتا ہے؟ دوسروں کے مکتوب ہم اس لیے پڑھتے ہیں کہ ان سے ہمیں کسی قسم کا فائدہ حاصل ہو، جو تحریر ہمارا وقت اور دماغ لے کر بھی ہمیں کچھ نہ دے سکے، تو اسے پڑھنے کا کیا حاصل؟ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خطوط ومکاتیب الفاظ و تراکیب کا حسین مجموعہ تو ہوں، ساتھ ہی ان میں افادیت بھی ہونا چاہیے، مکتوباتِ شیخ الاسلام میں بیش تر مکتوبات ایسے ہیں، جو تعلیم وہدایت کے آئینہ دار ہیں اور کسی نہ کسی کے استبصار پر لکھے گئے ہیں، وہ خطوط، جن میں علمی، اخلاقی، فقہی اور باطنی مباحث ہوں، انھیں اس سے زیادہ رنگ نہیں دیا جاسکتا“۔(۱)
ان مکتوبات سے منتخب کرکے دودیگر مجموعے بھی مرتب کیے گئے ہیں، ان میں سے ایک ”معارف وحقائق“ ہے، جسے حضرت مدنی علیہ الرحمۃ کے داماد اور مدرسہ شاہی مرادآباد کے سابق مہتمم مولانا رشیدالدین حمیدی علیہ الرحمۃ نے مرتب کیا ہے، اس میں تصوف وسلوک، فقہ، علمی حقائق، عملیات، اذکار وادعیہ، تعبیر الروٴیا، تاریخ، سیاسیات اور دیگر متفرق موضوعات سے متعلق منتخب تحریروں کو یک جا کیا گیا ہے اور دوسرا ”فتاویٰ شیخ الاسلام“ ہے اوراس میں خالص فقہی تحریروں کو جمع کیاگیا ہے، اس کے جامع ومرتب حضرت مدنی علیہ الرحمۃ کے نواسے اور ممتاز عالم دین وصاحبِ قلم مفتی محمد سلمان منصور پوری مدظلہ العالی ہیں۔
متحدہ قومیت اور اسلام
۸/جنوری ۱۹۳۸/ کی شب میں صدر بازار دہلی کے ایک جلسے میں مولانا مدنی علیہ الرحمۃ نے تقریر فرمائی، جس کا بڑا حصہ ۹/جنوری کے روزنامہ ”تیج“ اور ”انصاری“ دہلی میں شائع ہوا، اس جلسے میں روزنامہ ”الامان“ (اس کے مدیر مولانا مظہرالدین شیرکوٹی فاضل دیوبند تھے، جو پکے مسلم لیگی تھے) کا رپورٹر بھی موجود تھا، اس نے اپنے حساب سے اس تقریر کی رپورٹنگ کی اوراس کے بعداسے ”الامان“ میں شائع کردیاگیا، پھر اس سے ”زمیندار“ اور ”انقلاب“ لاہورنے بھی نقل کیا اور یہ جملہ مولانا سے منسوب کردیا کہ انھوں نے مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ چوں کہ اس زمانے میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں، مذہب سے نہیں؛ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی قومیت کی بنیاد وطن کو بنائیں۔ اُدھر علامہ اقبال، جو اپنے وقت کے بے مثال اسلامی شاعر اور مفکر تھے اور وہ بھی ایک عرصے تک قومی نظریے کی حمایت میں لکھتے، بولتے اور اس کی ہم نوائی کرتے رہے تھے، ان کی مشہور نظم ”ہمالیہ“ اور ”ترانہٴ ہندی“ اسی دور کی یادگار ہیں؛ مگر جب انھوں نے یورپ کا دورہ کیا اور وہاں کی تہذیب، طریقہٴ زندگی، سیاسی نظریات وافکار کا مشاہدہ کرنے کے بعد وہاں سے واپس ہوئے، تو ان کا سیاسی نقطئہ خیال بدل چکا تھا، انھوں نے واپسی کے بعد قومی راہ نماؤں کو خطوط لکھے، اخبارات میں اپنے مضامین شائع کروائے اور مسلمانوں کو دوقومی نظریے پر ابھارنا شروع کردیا اور چوں کہ اس وقت مسلم لیگ کا اساسی نظریہ یہی تھا؛ اس لیے علامہ اقبال علیہ الرحمۃ اسی کی حمایت وموافقت میں جٹ گئے، انھوں نے سب سے پہلے ۱۹۳۰/ کے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الٰہ آباد میں خطبہٴ صدارت پیش کرتے ہوئے شمال مغربی ہندوستان کی علیحدگی کی تجویز پیش کی اوراسے وطن کی معاشرتی مشکلات اور ہندومسلم منافرتوں کا حل بتلایا، اس کے بعد ان کے افکار کی ساری توانائی اور تخیلات کی تمام تر بلند پروازیاں اسی خیال کو تقویت پہنچانے اور قوم پرست علما اور لیڈران پر پھبتیاں کسنے میں صرف ہوئیں۔ ”الامان“ کے واسطے سے نقل شدہ خبر جب علامہ موصوف کو پہنچی، جو ان کے نظریے کے سخت خلاف تھی، تو انھوں نے مولانا حسین احمدمدنی علیہ الرحمۃ پر سخت تنقید کی :
عجم ہنوز نہ داند رموزِ دیں ورنہ |
زدیوبند حسین احمد ای چہ بوالعجبی ست؟ |
سرود برسرِ منبر کہ ملت از وطن ست |
چہ بے خبر زمقامِ محمدِ عربی ست |
بہ مصطفی بہ رساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست |
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی ست |
علامہ اقبال کے یہ اشعار روزنامہ ”احسان“ میں شائع ہوئے، اس کے بعد پورے ملک میں ہنگامہ، بے چینی اور خلش کا ماحول پیدا ہوگیا، جہاں علامہ اقبال علیہ الرحمۃ کے حامیین مولانا مدنی علیہ الرحمۃ کے خلاف زبان درازی وقلم درازی پر اتر آئے، وہیں خود حضرت کے متوسلین کی طرف سے بھی جوابِ آں غزل کے طور پر تحریروں اور بیانات کا اک سلسلہٴ دراز شروع ہوگیا، جو کسی آن تھمنے کا نام نہ لیتا تھا، مولانا کی طرف سے وضاحتی بیان بھی شائع ہوا، جس میں آ پ نے اپنی جانب منسوب کیے گئے جملے کی تردید کی تھی، اسی کے بعداعظم گڑھ کے مشہور شاعر اقبال سہیل نے بھی علامہ اقبال کے خلاف انھی کی بحر میں ایک لمبی اور تیز وتند نظم کہی تھی:
کسے کہ خردہ گرفت بر حسین احمد |
زبانِ او عجمی وکلام در عربی ست |
کہ گفت برسرِ منبر کہ ملت از وطن است |
دروغ گوئی وایراد، ایں چہ بوالعجبی ست |
درست گفت محدث کہ قوم از وطن ست |
کہ مستفاد ز فرمودۂ خدا ونبی ست |
زبانِ طعن کشودی وایں نہ دانستی |
کہ فرقِ ملت وقوم از لطائفِ ادبی ست |
تفاوتے ست فراواں میانِ ملت وقوم |
یکے زکیش ودگر کشوری ست یا نسبی ست |
خداے گفت بہ قرآں ”لکل قوم ہاد“ |
مگر بہ نکتہ کجا پے بَرد کسے کہ غبی ست |
بہ قومِ خویش خطابِ پیمبراں بہ نگر |
پُر از حکایتِ ”یاقوم“ مصحفِ عربی ست |
رموزِ حکمتِ ایماں زفلسفی جستن |
تلاشِ لذتِ عرفاں ز بادۂ عنبی ست |
بہ دیوبند درآ گر نجات می طلبی |
کہ دیوِ نفس سلحشورو دانشِ تو صبی ست |
بہ گیر راہِ حسین احمد گر خدا خواہی |
کہ نائب ست نبی را وہم ز آلِ نبی ست |
(ترجمہ از نائب مدیر: کس کی اتنی ہمت ہے کہ وہ حسین احمد کی گرفت کرے حالانکہ اس کی زبان تو عجمی ہے اور اعتراض عربی پر کرتا ہے اورکہتا ہے کہ انھوں بر سرِ منبر کہا’’ملت وطن سے بنتی ہے‘‘ ۔جھوٹ اور الزام تراشی، یہ کتنی عجیب حرکت ہے۔ محدث(یعنی حضرت مدنی) نے بالکل درست فرمایا کہ قوم وطن سے بنتی ہے۔ یہ بات خدا اور نبی کے اقوال سے ماخوذ ہے۔ تم نے زبانِ طعن دراز کی اور اتنی سی بات نہ سمجھے کہ ملت اور قوم میں فرق ادبی باریکیوں میں سے ہے۔ ملت اور قوم میں بہت زیادہ فرق ہے، ملت؛ دین سے جبکہ قوم ملک و خاندان سے وجود میں آتی ہے۔ خدا نے قرآن میں فرمایا’’ہر قوم کا ایک رہبر ہے‘‘ مگر وہ جو کند ذہن ہے اس نکتے کی طرف نہ دیکھ سکا۔ نبیوں نے اپنی اپنی قوم کو جس طرح مخاطب کیا اس نے نہ دیکھا، حالانکہ قرآن یا قوم کے الفاظ سے بھرا ہوا ہے۔ ایمان کی حکمتیں ایک فلسفی سے لینا، یہ تو ایسا ہے جیسے معرفتِ الہی کی تلاش انگور کی شراب میں۔ اگر نجات چاہتے ہو دیوبند آؤ۔ تمھارا نفس طاقتور ہوگیا ہے اور عقل میں بچپنا ہے۔ اگر خدا کا قرب مطلوب ہے تو حسین احمد مدنی کے راستے پر چلو کہ وہ نبی پاکﷺ کا نائب ہے اور آلِ رسولﷺ سے بھی ہے)۔
خوش قسمتی سے ایک دردمند اور باشعور وذی فہم مسلمان نے (جو عالمِ دین بھی تھے اور ادیب وصحافی بھی) جنھوں نے مصلحتاً اپنا نام طالوت (اصل نام عبدالرشید نسیم) رکھ لیا تھا، حقیقت حال دریافت کرنے کے لیے حضرت مدنی کی خدمت میں ایک خط لکھا، جس کا حضرت مدنی نے جواب دیا اور اپنی تقریر کا مدعا بہ وضاحت بیان کیا، پھر انھوں نے ان کے خط کا اقتباس علامہ اقبال کی خدمت میں ارسال کیا، جس کو دیکھنے کے بعد علامہ موصوف نے اپنا تبصرہ واپس لے لیا اور فرمایا کہ: ”میں اس بات کا اعلان ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھ کو مولانا کے اس اعتراف کے بعد کسی قسم کا کوئی حق ان پر اعتراض کرنے کا نہیں رہتا․․․ مولانا کی حمیتِ دینی کے احترام میں میں ان کے کسی عقیدت مند سے پیچھے نہیں ہوں“۔(۲)
علامہ اقبال کا یہ اعتراف نامہ ”احسان“ کے علاوہ ۵/مارچ ۱۹۳۸/ کو روزنامہ ”مدینہ“ بجنور میں بھی شائع ہوا تھا، خیر! علامہ اقبال نے تو اپنی بات واپس لے لی؛ مگر ان کا وہ قطعہ ”ارمغانِ حجاز“ کے ترتیب کاروں نے نہ معلوم کن مصلحتوں کے تحت چھاپ دیا اور اب تک یہ سلسلہٴ زبوں جاری ہے؛ حالاں کہ علامہ کے بعض دوستوں اورماہرین اقبالیات کی یہ راے تھی کہ اگر وہ ان کی زندگی میں چھپتی، تو یہ اشعار اس میں شامل نہ کیے جاتے، خواجہ عبدالوحید لکھتے ہیں: ”ارمغانِ حجاز“ اگر حضرت علامہ کی زندگی میں چھپتی، تو یہ نظم اس میں شامل نہ ہوتی“۔(۳) ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے بھی ”سرگزشت اقبال“ میں تحریرکیا ہے: ”اگر وہ ”ارمغانِ حجاز“ کی ترتیب اپنی زندگی میں کرتے، تو شاید وہ تین اشعار درج نہ کرتے، جن میں مولانا حسین احمد مدنی علیہ الرحمۃ پر چوٹ کی گئی تھی“۔(۴) ماہرِ اقبالیات وشارحِ کلیاتِ اقبال پروفیسر یوسف سلیم چشتی لکھتے ہیں: ”حقیقتِ حال سے واقف ہونے کے بعد علامہ نے اپنا اعتراض واپس لے لیا تھا اور وہ اشعار محض اس وجہ سے ”ارمغانِ حجاز“ میں راہ پاگئے کہ اس اعتراف کے محض تین ہفتوں کے بعد علامہ وفات پاگئے اور انھیں یہ ہدایت دینے کا موقع نہ مل سکا کہ ان اشعار کو ”ارمغانِ حجاز“ میں شامل نہ کیاجائے، اگر کوئی ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ ”ارمغانِ حجاز“ میں اس نظم کے ساتھ یہ صراحت کردی جائے کہ حقیقتِ حال سے آگاہ ہوجانے کے بعد علامہ مرحوم نے ان اشعار کو کالعدم قرار دے دیا تھا، تو بہت اچھا ہو؛ کیوں کہ اس تصریح کی بہ دولت قارئین حضرتِ اقدس علیہ الرحمۃ کے خلاف سوے ظن سے محفوظ ہوجائیں گے“۔(۵) مولانا حکیم فضل الرحمن سواتی علیہ الرحمۃ نے بھی حافظ شیراز علیہ الرحمۃ اور مسٹرمحمدعلی جناح کے تعلق سے علامہ موصوف علیہ الرحمۃ کے ایرادات سے رجوع کی تفصیلات تحریر کرتے ہوئے یہی بات لکھی ہے۔(۶)
برسرِ مطلب، حضرت مدنی کا رسالہ ”متحدہ قومیت اور اسلام“ اسی پس منظر میں تحریر کیاگیا ہے، حضرت نے اس بحث کے خاتمے کے بعد ارادہ کیا کہ اپنے نظریے کو واضح اور مدلل طور پر علامہ موصوف کے سامنے پیش کردیں؛ تاکہ ان کے دل سے شبہات واشکالات کا کانٹا بھی نکل جائے اور انھیں اپنے ان تسامحات کا بھی ادراک ہوجائے، جو ان سے قوم اورملت کی تشریح کے دوران سرزد ہوئے، کہ ناگاہ علامہ کے سانحہٴ ارتحال کا حادثہٴ جاں کاہ رونما ہوگیااور آپ کے عزم وارادے پر اوس پڑگیا، آپ نے رسالے کے آغاز میں لکھا ہے: ”بالآخر جب کہ میں قومیت کی لفظی بحث کے اختتام پر پہنچ کر مقصدِ اصلی سے نقاب اٹھانا چاہتا تھا، ناگاہ جناب ڈاکٹر صاحب مرحوم ومغفور کے وصال کی خبر شائع ہوگئی، اس ناساز اور دل گداز خبر نے خرمنِ خیالات وعزائم افکار پر صاعقہ کا کام کیا، طبیعت بالکل بجھ گئی اور عزائم فسخ ہوگئے، تحریر شدہ اوراق کو طاقِ نسیاں کے سپرد کردینا ہی انسب معلوم ہوا“۔(۷)
مگر جن لوگوں نے اس بحث کو دیکھا اور سنا تھا، انھیں اس سے غیرمعمولی دلچسپی تھی اور وہ یہ چاہتے تھے کہ حضرت مدنی علیہ الرحمۃ کی مفصل تحریر سامنے آئے؛ تاکہ صورتِ مسئلہ بے غبار ہوکر اطمینانِ قلب کا باعث ہو؛ اس وجہ سے آپ نے اس تعلق سے اپنی لکھی ہوئی تحریروں کو یک جا کرکے چھاپنے کی اجازت دے دی۔
یہ کتاب متعلقہ مسئلے پر انتہائی مدلل اور محقق ہے، آپ نے پہلے تو قوم، ملت اور امت پر امہاتِ کتب لغت کی روشنی میں پُرمغز گفتگو کی ہے اور ان کے ادبی لطائف کو آشکار کیا ہے، اس کے بعد نبی پاکﷺکے طرزِ عمل سے متحدہ قومیت کے تصور کو ثابت کیا ہے، اس سلسلے میں آپ نے اس معاہدے کو بنیادِ تحریر بنایا ہے، جو آپ نے مدینہ پہنچنے کے بعد وہاں کے قبائل یہود سے کیے تھے، آپ نے اس کی چند دفعات کا ذکر کیا ہے، جن میں صراحت ہے کہ ہرمذہب کا ماننے والا مذہبی امور میں تو اپنے اپنے مذہب کا ہی پابند ہوگا؛ مگر ملکی، سیاسی اور جنگی امور میں سب ایک اور متحد ہوں گے اور ایک دوسرے کے حلیف، اس سلسلے میں آپ نے جمعیت علماے ہند کے اجلاس منعقدہ پشاور دسمبر ۱۹۲۷/ میں پیش کردہ حضرت علامہ شاہ کشمیری علیہ الرحمۃ کے خطبۂ صدارت سے بھی استدلال کیا ہے، جس میں انھوں نے بھی میثاقِ مدینہ کو متحدہ قومیت کی اساس قرار دیا تھا، اسی طرح گول میز کانفرنس نومبر ۱۹۳۰/ میں کی گئی رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر علیہ الرحمۃ کی اس معرکہ آرا تقریر کا بھی حوالہ دیا ہے، جس میں انھوں نے کہاتھاکہ مذہب کے معاملے میں میں اوّل، دوم اور آخر مسلمان ہوں اور سواے مسلمان کے کچھ بھی نہیں اور جن امور کا تعلق ہندوستان سے، اس کی آزادی سے اور اس کی فلاح وبہبود سے ہے، تو ان میں میں اوّل ہندوستانی ہوں، دوم ہندوستانی ہوں اور آخر ہندوستانی ہوں اور ہندوستانی کے سوا کچھ نہیں، اسی طرح سرسید مرحوم کی مختلف تحریریں بھی استشہاداً پیش کی ہیں، آپ نے انگریز مفکرین کی تحریروں کی روشنی میں یہ واضح کیاہے کہ متحدہ قومیت کے نظریے سے اختلاف اور دوقومی نظریے کی بانگ بلند کرنا، یہ انگریزی تدبیر اور چال بازی کا نتیجہ تھا۔ یہ رسالہ گو ایک خاص پَسْ منظر میں لکھا گیاتھا؛ مگر آج دو قومی نظریوں اور اسلامیت کی بنیاد پر حاصل کیاگیا خطہٴ زمین تمام تر غیراسلامی اعمال کی آماج گاہ بن چکا ہے اور وہاں بسنے والی اسلامی نسل کا لمحہ لمحہ ہلاکتوں، بربادیوں اور بیش از بیش خطرات کے مایا جال میں گھرا ہوا ہے ۔
حواشی:
(۱) روزنامہ الجمعیۃ، شیخ الاسلام نمبر، ص: ۱۷۴۔
(۲) پروفیسر یوسف سلیم چشتی، اقبال اورمولانا سیدحسین احمد مدنی، الجمعیۃ، شیخ الاسلام نمبر، ص: ۳۸۳۔
(۳) الجمعیۃ، شیخ الاسلام نمبر، بہ حوالہ: اقبال ریویو، جنوری ۱۹۶۹/، ص: ۶۷۔
(۴) ص: ۴۷۵۔
(۵) پروفیسر یوسف سلیم چشتی، اقبال اور مولانا حسین احمد مدنی، مشمولہ: الجمعیۃ، شیخ الاسلام نمبر، ص: ۳۸۳۔
(۶) ڈاکٹر اقبال کی چند تنقیدات وترجیعات، مشمولہ: الجمعیۃ، شیخ الاسلام نمبر، ص: ۳۸۵-۳۹۰۔
(۷) ص: ۶، مطبوعہ: مجلس قاسم المعارف، دیوبند۔