ابنِ عباس
معاون قلم کار
استقبالِ رمضان
عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِﷺ فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ شَعْبَانَ فَقَالَ:«يا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ أَظَلَّكُمْ شَهْرٌ عَظِيمٌ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ، شَهْرٌ فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، جَعَلَ اللهُ صِيَامَهُ فَرِيضَةً، وَقِيَامَ لَيْلِهِ تَطَوُّعًا، مَنْ تَقَرَّبَ فِيهِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَيْرِ كَانَ كَمَنْ أَدَّى فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ، وَمَنْ أَدَّى فَرِيضَةً فِيهِ كَانَ كَمَنْ أَدَّى سَبْعِينَ فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ»
حضرت سَلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیٔ کریم ﷺنے شعبان کی آخری تاریخ میں ہمارے سامنے وعظ کیا اورفرمایا:’’اے لوگو! تم پر ایک عظیم مہینا اپنا سایہ کرنے والا ہے ۔یہ بڑی برکت والا مہینا ہے، اِس میں ایک رات ہے (شبِ قدر) جو ہزار مہینوں سے بڑھ کرہے، اللہ تعالیٰ نے اِس کے روزے فرض جب کہ اِس کی راتوں کا قیام (یعنی تراویح) کوسنت بنایا ہے ۔ جو شخص اِس مہینے میں کسی نفل نیکی کے ساتھ اللہ کا قُرب حاصل کرے گویا اس نے غیرِ رمَضان میں فرض اداکیا اور جو شخص اِس مہینے میں کوئی فرض ادا کرے وہ ایساہے گویا اس نے غیرِ رمَضان میں سَتَّر فرض ادا کیے‘‘۔
«وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ، وَالصَّبْرُ ثَوَابُهُ الْجَنَّةُ، وَشَهْرُ الْمُوَاسَاةِ، وَشَهْرٌ يُزَادُ فِي رِزْقِ الْمُؤْمِنِ، مَنْ فَطَّرَ فِيهِ صَائِمًا كَانَ لَهُ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِهِ، وَعِتْقَ رَقَبَتِهِ مِنَ النَّارِ، وَكَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُنْقَصَ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ» قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ، لَيْسَ كُلُّنَا يَجِدُ مَا يُفْطِرُ الصَّائِمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِﷺ:
’’یہ مہینا صبر کا ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اوریہ باہمی ہمدردی اور غم خواری کا مہینا ہے۔ اِس مہینے میں مومِن کا رِزق بڑھا دیاجاتاہے۔ کسی روزے دار کا روزہ اِفطار کراناگناہوں کی مُعافی اور دوزخ سے خَلاصی کا ذریعہ ہے۔افطار کرانے والے کوروزے دارکے ثواب کے برابر ثواب دیا جائے گا، البتہ روزے دار کے ثواب سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا‘‘۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ: یارسولَ اللہ! ہم میں سے ہر شخص تو اِتنی وُسعَت نہیں رکھتا کہ روزے دارکو اِفطار کرائے، تو آپ ﷺ نے فرمایا:
«يُعْطِي اللهُ هَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَى مَذْقَةِ لَبَنٍ أَوْ تَمْرَةٍ أَوْ شَرْبَةٍ مِنْ مَاءٍ، وَمَنْ أَشْبَعَ صَائِمًا سَقَاهُ اللهُ مِنْ حَوْضِي شَرْبَةً لَا يَظْمَأُ حَتَّى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ، وَهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ، وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ، وَآخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوكِهِ فِيهِ غَفَرَ اللهُ لَهُ وَأَعْتَقَهُ مِنَ النَّارِ»
’’ ( یہ اجرپیٹ بھر کھلانے پر مَوقُوف نہیں)یہ ثواب اللہ جَلَّ شَانُہٗ اس کو بھی دے گاجوایک کھجوریا ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ لَسِّی پر افطار کرا دے۔اور جو کوئی روزے دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا دے تو اللہ اسے میرے حوض سے پلائے گا، پھر جنت میں داخلے تک اسے پیاس نہ لگے گی۔اس مہینےکااوَّل حصَّہ اللہ کی رحمت ہے، درمیانی حصہ مَغفِرت ہے، اور آخری حصہ آگ سے آزادی کاہے۔ جو شخص اِس مہینے میں اپنے غلام ( یا خادم ) پر سے بوجھ ہلکا کردے حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اُس کی مغفرت فرماتے ہیں اور آگ سے آزاد فرماتے ہیں‘‘۔
«فَاسْتَكْثِرُوا فِيهِ مِنْ أَرْبَعِ خِصَالٍ، خَصْلَتَانِ تُرْضُونَ بِهَا رَبَّكُمْ، وَخَصْلَتانِ لَا غِنَى لَكُمْ عَنْهُمَا، فَأَمَّا الْخَصْلَتانِ اللَّتَانِ تُرْضُونَ بِهَا رَبَّكُمْ: فَشَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَتَسْتَغْفِرُونَهُ، وَأَمَّا اللَّتَانِ لَا غِنَى لَكُمْ عَنْهُمَا فَتَسْأَلُونَ اللهَ الْجَنَّةَ، وَتَعُوذُونَ بِهِ مِنَ النَّارِ» شعب الإیمان للبیهقي
’’چار کاموں کی اِس مہینے میں کثرت کیا کرو، جن میں دوچیزیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ضروری ہیں اور دوچیزیں ایسی ہیں کہ جن کے بغیر تمھارا گزارا نہیں ہو سکتا: رب کو راضی کرنے والی چیزیں کلمۂ طَیَّبہ کا ورداور اِستِغفارکی کثرت ہے، اور دوسری دوچیزیں حصولِ جنت کی دعا اور دوزخ سے نجات طلب کرنا ہے‘‘۔
فوائد : شعبان کے آخری دن میں رمضان کی عظمت بیان کرنے سے نبی اکرم ﷺ کا اہتمامِ رمضان معلوم ہوتا ہے ۔یہ برکت کا مہینا ہے یعنی اس میں نیکیوں کے مواقع اور اس کا ثواب بڑھا دیا جاتا ہے۔ماہِ رمضان کی برکتوں کا عروج شبِ قدر ہے جس کی عبادت کا ثواب ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ انسان کو شروع رمضان ہی سےشب قدر کو پانے کی نیت کر لینی چاہیے ۔رمضان کا قِیام یعنی تراویح کی مشروعیت کو اس روایت میں اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ۔ بعض روایات میں نبی کریم ﷺ نے تراویح کی مشروعیت و سنیت کو اپنی طرف منسوب کیا ۔ اس سے تاکید مزید مطلوب ہےاور یہ بھی کہ اگرچہ تراویح کے مسنون ہونے کا بیان نبی کریمﷺ نے واضح کیا ہے لیکن چوں کہ شارعِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہیں تو اس کی نسبت دونوں کی طرف جائز ہے۔نبی کریم ﷺ قیامِ رمضان کی بہت تاکید فرماتےتھے۔حدیث میں آتا ہے کہ جس نے رمضان کی راتوں کا قیام کیا تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے ۔اہل سنت کے تمام مسالک تراویح کے سنت ہو نے پر متفق ہیں ۔یہاں خُصوصِیت سے ایک بات کا لِحاظ رکھنے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ قرآن شریف کا تراویح میں پڑھنا یا سننا یہ مستقل سنت ہے اور پورے رَمَضان شریف کی تراویح ادا کرنامُستقِل سنَّت ہے۔بعض لوگ کسی مسجد میں آٹھ دس دن میں کلامِ مجید سن لیتے ہیں پھر وہ تراویح پڑھنے کا اہتمام نہیں کرتے ۔اس سے ایک سنت پر عمل رہ جاتا ہے۔البتہ جن لوگوں کورَمَضانُ المبارک میں سفر یا کسی وجہ سے ایک جگہ روزانہ تراویح پڑھنی مشکل ہو، اُن کے لیے مناسب ہے کہ اوَّل مکمل قرآن شریف کچھ روز میں سن لیں تاکہ قرآن شریف ناقِص نہ رہے پھر جہاں وقت اور موقع ملے وہاں تراویح پڑھ لیا کریں۔اس طرح دونوں سنتوں پر عمل ہو جائے گا ۔
اجر کی زیادتی : رمضان میں فرض کا اجر ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے اس لیے فرض نماز کی باجماعت ادائی کا خاص اہتمام کرنا چاہیے بالخصوص نمازِ فجر اور نمازِ مغرب کا خاص خیال کرنا چاہیےکہ بعض اوقات فجر سحری کے بعد کے آرام اور مغرب افطاری کی نذرہو جاتی ہے۔ اسی طرح سننِ موکدہ و غیر موکدہ اورنوافل کا خاص اہتمام کرنا چاہیے۔
صبر کا مہینا :یہ صبرکا مہینا ہے، یعنی اگر روزہےوغیرہ میں کچھ تکلیف ہوتو اُسے ذوق شوق سے برداشت کرنا چاہیے، یہ نہیں کہ مار دھاڑ، ہَول پُکار شروع کر دی جائے۔ رمضان کوغم خواری کا مہینا قرار دیا گیا ۔اس لیے اس مہینے میں غُرَبا اورمَساکین کے ساتھ مُدارَات کا برتاؤ کرنااور جس قدر بھی ہِمَّت ہوسکے اپنے اِفطار وسَحر کے کھانے میں غُربا کا حصہ بھی ضرور لگانا چاہیے۔ اِس کے بعد حضورﷺنے روزہ افطار کرانے کی فضیلت ارشاد فرمائی۔ ایک اَور روایت میں ہے: جو شخص حلال کمائی سے رَمَضان میں روزہ افطار کرائے اُس پر رمَضان کی راتوں میں فرشتے رحمت بھیجتے ہیں، اور شبِ قدر میں جِبرئیل اُس سے مُصافَحہ کرتے ہیں، اور جس سے حضرت جبرئیل مصافحہ کرتے ہیں (اُس کی علامت یہ ہے کہ) اُس کے دِل میں رِقَّت پیدا ہوتی ہے، اور آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں۔ حَمَّادبن سَلمہ رحمہ اللہ-ایک مشہور مُحدِّث ہیں- روزانہ پچاس آدمیوں کے روزہ افطار کرانے کا اہتمام کرتے تھے۔افطار کی فضیلت کے بعد فرمایا: اِس ماہ کا اوَّل حصَّہ رحمت ہے، یعنی: حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کا اِنعام مُتوجَّہ ہوتاہے، اور یہ رحمتِ عامَّہ سب مسلمانوں کے لیے ہوتی ہے، اِس کے بعد جولوگ اِس کا شکر اداکرتے ہیں اُن کے لیے اِس رحمت میں اِضافہ ہوتاہے:﴿لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ﴾ اور اِس کے درمیانی حصے سے مغفرت شروع ہوجاتی ہے؛ اِس لیے کہ روزوں کا کچھ حصہ گزر چکاہے، اُس کا مُعاوَضہ اور اِکرام مغفرت کے ساتھ شروع ہوجاتا ہے، اور آخری حصَّہ تو بالکل آگ سے خَلاصی ہے ہی۔اَوربھی بہت سی رِوایات میں ختمِ رمَضان میں آگ سے خَلاصِی کی بشارتیں وَارِد ہوئی ہیں۔رمَضان کے تین حِصےکرنے میں یہ اس معنی کا احتمال بھی ہے کہ آدمی تین طرح کے ہیں: ایک وہ لوگ جن کے اوپر گناہوں کا بوجھ نہیں، اُن کے لیے شروع ہی سے رحمت اور انعام کی بارش ہوجاتی ہے۔ دوسرے وہ لوگ جو معمولی گنہگار ہیں، اُن کے لیے کچھ حصہ روزہ رکھنے کے بعد اُن روزوں کی برکت اور بدلے میں مغفرت اور گناہوں کی مُعافی ہوتی ہے۔ تیسرے وہ جو زیادہ گنہگار ہیں، اُن کے لیے زیادہ حصہ روزہ رکھنے کے بعد آگ سے خَلاصی ہوتی ہے، اور جن لوگوں کے لیے ابتدا ہی سے رحمت تھی اور اُن کے گناہ بخشے بخشائے تھے، اُن کا تو پوچھناہی کیا! کہ اُن کے لیے رحمتوں کے کس قدر اَنبار ہوں گے!!اِس کے بعد حضور ﷺنے ایک اَور چیز کی طرف رَغبت دِلائی ہے، کہ آقا اپنے مُلازِموں یا غلاموں پر اِس مہینے میں تَخفیف کریں؛ اِس لیے کہ آخر وہ بھی روزے دار ہیں، کام کی زیادتی سے اُن کو روزے میں دِقَّت ہوگی۔
اِس کے بعد نبیٔ کریم ﷺنے رمَضانُ المبارک میں چار چیزوں کی کثرت کا حکم فرمایا: اوَّل: کلمۂ شہادت، احادیث میں اِس کو اَفضلُ الذِّکر قرار دیا گیا ہے، مشکوٰۃ میں بروایتِ ابو سعید خُدری منقول ہے: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک مرتبہ اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ: یااللہ! تُو مجھے کوئی ایسی دعا بتلادے کہ اُس کے ساتھ مَیں تجھے یاد کیاکروں اور دعا کیا کروں، وہاں سے لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ ارشاد ہوا، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: یہ کلمہ تو تیرے سارے ہی بندے کہتے ہیں، مَیں تو کوئی دعا یا ذکرِ مخصوص چاہتاہوں، وہاں سے ارشاد ہوا: اے موسیٰ! اگرساتوں آسمان اور اُن کے آباد کرنے والے میرے سِوا یعنی ملائکہ اور ساتوں زمین ایک پلڑے میں رکھ دیے جائیں اور دوسرے میں کلمۂ طیبہ رکھ دیا جاے تو وہ جھک جائے گا۔ایک حدیث میں وارد ہوا: جو شخص اخلاص سے اِس کلمے کو پڑھے آسمان کے دروازے اُس کے لیے فوراً کھل جاتے ہیں، اور عرش تک پہنچنے میں کسی قِسم کی رَوک نہیں ہوتی بہ شرطیکہ کہنے والا کَبائِرسے بچے۔ دوسری چیز جس کی کثرت کرنے کو حدیثِ بالامیں ارشاد فرمایا گیا وہ اِستِغفار ہے، احادیث میں اِستغفار کی بھی بہت ہی فضیلت وارد ہوئی ہے: ایک حدیث میں ہے: جو شخص استغفار کی کثرت رکھتاہے حق تَعَالیٰ شَانُہ ہرتنگی میں اُس کے لیے راستہ نکال دیتے ہیں، اور ہر غم سے نجات نصیب فرماتے ہیں، اور اسے اس طرح روزی پہنچاتے ہیں کہ اُس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ ایک حدیث میں آیا: آدمی گنہگار تو ہوتاہی ہے،گناہ گاروں میں بہترین وہ ہے جو توبہ کرتارہے۔ ایک حدیث میں ہے: جب آدمی گناہ کرتاہے تو ایک کالا نقطہ اُس کے دِل پر لگ جاتاہے، اگر توبہ کرتاہے تو وہ دُھل جاتاہے ورنہ باقی رہتاہے۔ اِس کے بعد حضور ﷺنے دوچیزوں کے مانگنے کا اَمر فرمایاہے جن کے بغیر چارہ ہی نہیں: جنت کا حُصُول اور دوزخ سے نجات۔ہماری تمام عبادت و ریاضت کا محور یہی دو چیزیں ، جنت کی فلاح اوردوزخ سے نجات۔﴿فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ﴾ (آل عمران:185) ’’ پس جو دوزخ سے بچا لیاگیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا وہ کامیاب ہو گیا ‘‘۔تو رمضان کی تمام تر محنت کے بعداس کا حاصل ، دوزخ سے نجات اور جنت کی فلاح کی دعا مانگتے رہنا چاہیے۔حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺسے عرض کیا :’’ اے اللہ کے رسول! ہمارے لیے دعا فرمائیں۔ آپﷺ نے فرمایا :«اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَارْضَ عَنَّا وَتَقَبَّلْ مِنَّا وَأَدْخِلْنَا الْجَنَّةَ وَنَجِّنَا مِنْ النَّارِ وَأَصْلِحْ لَنَا شَأْنَنَا كُلَّهُ» ’’اے اللہ! ہماری مغفرت فرما، ہم پر رحمت فرما، ہم سے راضی ہوجا، ہماری دعائیں قبول فرما، ہمیں جنت میں داخل فرما، ہمیں جہنم سے نجات دے اور ہمارے سارے کام سنوار دے‘‘۔ہم نے مزید دعا کےلیے خواہش کا اظہار کیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا میں نے تمہارے لیے سب کچھ جمع نہیں کر دیا؟ ‘‘۔
(تمام روایات، فضائلِ اعمال از حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ سے ماخوذ ہیں)