صوفی جمیل الرحمان عباسی
مدیر ماہنامہ مفاہیم و ناظمِ شعبۂ تحقیق و تصنیف، فقہ اکیڈمی
سلطنتِ روم اور مسلمانوں کی کشاکش
خلافتِ بنو امیہ
عالم ِ عرب میں بنو امیہ کی خلافت کی شروعات ۴۱ ہجری سے ہوئی اور اس کا خاتمہ ۱۳۲ ہجری میں ہوا۔بنو امیہ کی خلافت میں دو خاندان حکمران رہے۔پہلے خاندان کو آلِ سفیان کہا جاتا ہے اور دوسرے خاندان کو آلِ مروان کہا جاتا ہے۔آلِ سفیان کے پہلے خلیفہ مشہور صحابی حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ تھے۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا خلافت کے معاملے پر باہم اختلاف بھی رہا لیکن ۴۱ ہجری میں جب حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ،حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر کے ان کے حق میں خلافت سے دستبردار ہو گئے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ عالمِ اسلام کے متفقہ خلیفہ بنے۔آپ کی خلافت کا اختتام آپ کے انتقال کے موقے پر رجب ۶۰ ہجری(۶۷۹ عیسوی)میں ہوا۔آپ کے دور میں جہاد اپنی آب و تاب کے ساتھ جاری رہا۔آپ کے بعد آپ ہی کی وصیت کے مطابق آپ کا بیٹا،یزید بن معاویہ خلیفہ بنا۔کئی نامور صحابہ مثلا ً عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی بیعت کر لی جبکہ سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس کی بیعت نہیں کی۔یزید کے اقتدار کے پہلے سال یعنی ۶۱ ہجری میں اس کی افواج کے ہاتھوں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔یزید کی حکومت کے آغاز ہی میں حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ مکہ میں مقیم ہوگئے تھے۔آپ نے ۶۴ ہجری میں اپنی خلافت کا اعلان فرما دیا۔مکہ اور مدینہ کے لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کر لی۔یزید کی طرف سے آپ پر چڑھائی کی گئی اور مکہ مکرمہ کا حصار کر لیا گیا لیکن دورانِ حصار ۶۴ ھ میں یزید انتقال کر گیا۔چنانچہ محاصرہ ختم اور مہم ناکام ہوئی۔شام کے علاوہ کئی بڑے شہروں نے آپ رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی۔یزید کے دور میں افریقہ میں کچھ فتوحات نصیب ہوئیں۔البتہ روم کے ساتھ لڑائیوں کا موقع نہ آیا۔
عہدِمعاویہ بن یزید
یزید کے انتقال کے بعد اس کی وصیتِ ولی عہدی کے مطابق اس کے بیٹے حضرت معاویہ بن یزید رحمہ اللہ خلیفہ بنے۔یہ زاہد و عابد اور عاقل و دانا شخص تھے لیکن اس وقت کسی بیماری کا شکار تھے۔جس طرح حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر کے خلافت ان کے حوالے کر دی تھی۔اسی طرح کا خیال معاویہ بن یزید رحمہ اللہ کا بھی تھا۔آپ چاہتے تھے کہ حضرت عبد اللہ بن زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے صلح کر کے ان کے ہاتھ پر بیعتِ خلافت کر لیں تاکہ وہ عالم اسلام کے متفتہ خلیفہ بن جائیں۔یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ آپ نے ایک دن لوگوں کو مسجد میں جمع کر کے خطاب کیا کہ مجھے خلافت کی ذمے داری سونپ دی گئی ہے حالانکہ میں اس سے عاجز ہوں اگر تم پسند کرو تو میں کسی لائقِ منصب کو خلیفہ بنا دوں لیکن میری نظر میں کوئی ایسا نہیں ہے یا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح چھے آدمیوں کی شوری بنا دوں لیکن اس کا امکان بھی نظر نہیں آتا۔زندگی نے وفا نہ کی اور بہ اختلافِ روایات ایک،دو یا تین ماہ کے اندر ہی آپ کا انتقال ہو گیا۔
عہدِ مروان بن حکم
معاویہ بن یزید رحمہ اللہ کے انتقال کے بعد حضرت عبد اللہ بن زبیر کے ساتھ صلح اور اتحادِ امت کے اس تصور کو صحابیِ رسول حضرت ضحاک بن قیس الفِہری رضی اللہ عنہ لے کر چلے۔حضرت ضحاک رضی اللہ عنہ،حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دیرینہ ساتھی اور دار الخلافہ دمشق پر آپ کے نائب رہے تھے۔معاویہ بن یزید رحمہ اللہ کی بیماری کے دوران یہی نماز پڑھایا کرتے تھے۔آپ خاص اثر و رسوخ رکھتے تھے۔انھوں نے لوگوں سے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے نام کی بیعت لینا شروع کی۔حمص کے گورنر حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت عبد اللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کے نام کی بیعت لینی شروع کی۔یہاں تک کہ مروان بن حکم نے بھی عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کی بیعت کرنے اور بنو امیہ کے لیے امان طلب کرنے کا ارادہ کیا لیکن بنو امیہ کے بعض لوگ اور ان کے دیرینہ حلیف عبید اللہ بن زیاد بوجہِ سانحۂ کربلا کے اور حصین بن نمیر بوجہِ اپنے جرائم(حصارِ مکہ اور نصبِ منجنیق)وغیرہ اس خیال کے حامی نہ تھے اور وہ مختلف سازشوں سے اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے کوشاں تھے۔ان لوگوں نے ولید بن عقبہ بن ابی سفیان کو خلیفہ بنانا چاہا لیکن وہ ان کی باتوں میں نہ آئے۔ان لوگوں کی سازشیں رنگ لائیں اور مروان بن حکم بھی ان کے ساتھ مل گئے جس کے صلے میں مروان کو خلیفہ بنا دیا گیا۔اس طرح خلافت بنو امیہ،آلِ سفیان سے آل ِ مروان کی طرف منتقل ہو گئی۔مروان بن حکم ایک ہی سال کے اندر(یعنی ۶۵ ھ)میں انتقال کر گئے۔
عہدِ عبد المَلِک بن مَروان
مروان بن حَکَم کے بعد آپ کے بیٹے عبد المَلِک بن مَروان خلیفہ بنے۔ابتدائی سالوں تک ان کی خلافت شام و مصر تک محدود تھی۔لیکن آہستہ آہستہ انھوں نے عراق،مصر اور ماوراء النہر تک اپنی حکومت مستحکم کر لی۔۷۳ ہجری میں حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد عبد الملک کی حکومت مکہ اور مدینہ پر بھی قائم ہو گئی۔عبد الملک کے دور میں روم کی طرف سے شر انگیزی وقفےوقفے سے جاری رہی۔۷۰ ہجری میں جبکہ عبدالملک کی حکومت ابھی غیر مستحکم تھی اور داخلی طور پر انتشار جاری تھا۔روم کی فوجوں نے شام کے شمالی حصوں کی طرف پیش قدمی کی۔اس موقعےپر عبدالملک نے سلطنتِ روم کو صلح کی پیش کش کی اور اس شرط پر صلح کر لی کہ ہر جمعےکو ایک ہزار دینار سلطنتِ روم کو پیش کرتا رہے گا۔(تاریخ محمود شاکر،جلد: ۴،ص: ۱۴۹ ) کچھ عرصے بعد ملکِ روم جستینان ثانی معاہدے کی خلا ف ورزی کرتے ہوئے بعض عیسائی قبائل کو اسلامی حدود کی طرف چڑھا لایا۔اب کے بار بھی خلیفہ عبدلملک بن مروان نے صلح کی کوشش کی اور سابقہ معاہدے کی تجدید کے ساتھ ایک ہزار دینار سالانہ کا اضافہ اس شرط پر کیا کہ عیسائی قبائل کو مسلمانوں پر حملے سے باز رکھا جائے گا۔(الامویون والبیزنطیون، ۱۷۵)لیکن رومی بادشاہ کے ساتھ یہ صلح بھی عارضی ثابت ہوئی اور کرنسی کا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔وہ یوں کہ بازنطینی دینار کے کچھ ٹکسال مصر میں قائم تھے۔مسلمانوں کے مصر فتح کرنے کے بعد بھی ان ٹکسالوں میں دینار کے سکے بنائے جاتے رہے جو مصر،روم اور دیگر اسلامی علاقوں میں بھی لین دین کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ان دیناروں پر عیسی علیہ السلام کا اسم گرامی اور کلمہ تثلیث لکھا ہوتا تھا۔خلیفہ نے کلمہ تثلیث کی جگہ﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ﴾ لکھنے کا حکم دیا۔قیصرِ جستینان نے اس عمل کو توہینِ عیسی علیہ السلام پر محمول کرتے ہوئے مسلمانوں کو سنگین نتائج کی دھمکی دی۔خلیفہ عبد الملک نے خالد بن یزید بن معاویہ کی رائے کے مطابق مسلمانوں کے لیے نئے سکے ڈھالنے کا فیصلہ کیا جن پر مقدس کلمات لکھے اور یہ سکہ دینارِ دمشقی کے نام سے مشہور ہوا۔اس وقت تک مسلمان حکومت،سلطنتِ روم کو صلح کا تاوان ادا کرتی تھی۔اب جب کہ شاہِ روم کو زرِ تاوان،نئے دینارِ دمشقی میں موصول ہواتو اس نے یہ رقم قبول کرنے سے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ مسلمانوں کے خلاف اعلانِ جنگ بھی کر دیا۔(الامویون و البیزنطیون ۱۷۹)رومی اس سے پہلے افریقہ میں مسلمانوں کو کافی زَک پہنچا چکے تھے۔تین اہم مسلمان کماندار عقبہ بن نافع،ابو مہاجر دینا ر اور زہیر بن قیس رومیوں کے ہاتھوں شہید ہو چکے تھے۔اب جب رومی بادشاہ نے سخت رویہ اختیار کیا تو عبد الملک بن مروان نے مجبوری اور مفاہمت والی پالیسی کے برعکس انھیں سبق سکھانے کا ارادہ کیا۔۷۳ ہجری میں رومیوں نے ایک لشکرِ جرار کے ساتھ آرمینیا کی طرف سے حملہ کیا۔محمد بن مروان نے آگے بڑھ کر ان کا مقابلہ کیا اور انھیں شکستِ فاش سے دو چار کیا۔آرمینیا میں ایک دوسرے مقابلے کے دوران عثمان بن ولید نے چار ہزار کے لشکر کے ساتھ،ساٹھ ہزار پر مشتمل رومی فوج کو شکست دی۔ ۷۵ ہجری میں رومی مرعش کی جانب سے بلادِ شام پر حملہ آور ہوئے۔یہاں محمد بن مروان نے انھیں شکست سے دوچار کر کے واپس جانے پر مجبور کر دیا۔۸۱ ہجری میں خلیفہ عبد الملک نے اپنے بیٹے عبد اللہ بن عبد الملک کو بلادِ روم پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا جنھوں نے قالیقالا کا رومی علاقہ فتح کر لیا۔۸۴ ہجری میں عبد الملک خود فوج کی قیادت کرتے ہوئےانطاکیہ سے گزرتے ہوئے مِصّيصه پر حملہ آور ہوئے اور اسے فتح کرتے ہوئے رومیوں کو پیچھے دھکیل دیا۔اسی سال جزیرہ صقلیہ(سسلی) پر عطاء بن رافع کو سمندری راستے سے حملہ آور ہونے کا حکم دیا۔۸۶ ہجری میں عبد الملک نے اپنے بیٹے مسلمہ بن عبد الملک کو روم پر حملہ کرنے کا حکم دیا جنھوں نے بولق اور اخرم کے قلعے فتح کیے۔بہت سارا مال غنیمت حاصل ہوا اور کئی ایک رومیوں کو قیدی بھی بنایاگیا۔اس دوران افریقی علاقوں میں روم اور مسلمانوں کی چپقلش جاری رہی۔عبد المَلِک بن مَروان کا انتقال ۸۶ ہجری میں ہوا۔عبد المَلِک بن مَروان کے بعد ان کے چار بیٹے یکے بعد دیگرے خلافت کے منصب پر فائز ہوئے ۔عبد الملک بن مروان نے اپنے بعد اپنے بیٹے ولید بن عبدالملک اور ان کے بعد دوسرے بیٹے سلیمان بن عبد الملک کے حق میں ولی عہدی کی وصیت کی تھی۔(تاریخِ شاکر ،ج:۴، ۱۸۳،۱۸۴،طبری،ابنِ کثیر ، الدولة الأموية للصلابي ،ج: ۲)
عہدِولید بن عبد الملک (۸۶ ھ۔۹۶ ھ)
عبد الملک کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے ولید بن عبدالملک بن مروان خلیفہ بنے۔ان کا دور دس سال پر محیط ہے۔انھوں نے جامع دمشق کی بنیاد ڈالی۔اس کے علاوہ حضرت عمر بن عبد العزیز کو مدینے کا گورنر بنایا اور سابقہ گورنر کے مظالم کی تلافی کا حکم دیا۔ولید بن عبدالملک بن مروان کے دور میں مسلمہ بن عبد الملک روم کے مختلف شہروں پر حملہ آور ہوتے رہے۔ان کے معاونین میں عباس بن ولید بن عبد الملک،عبد العزیز بن ولید بن عبد الملک تھے۔ ۸۷ ہجری میں بھی انھوں نے بعض قلعے فتح کیے۔۸۸ ہجری میں انھوں نے طوانہ کا قلعہ فتح کیا جو قسطنطنیہ کے نزدیک ایک علاقہ تھا۔۸۹ ہجری میں مسلمان چھوٹے چھوٹے قلعے اور علاقے فتح کرتے عَمُّوریہ(موجودہ انقرہ)کی طرف بڑھ رہے تھے۔یہاں شمعون نامی حاکم تھا۔جب شمعون کو مسلمانوں کی پیش قدمی کی اطلاع ملی تو اس نے ورسیب نامی امیر کو چالیس ہزار کا لشکر دے کر مسلمانوں کے مقابلے پر روانہ کیا تاکہ محاصرے سے پہلے ہی ٹکرا جائیں۔مسلمہ نے عبد اللہ البطال کو دس ہزار کا لشکر دے کر بھیجا۔گھمسان کا رن پڑ ا اور رومیوں کو شکست ہوئی۔ان کے اکثر فوجی قتل ہوئے،یہاں تک کہ سپہ سالار وسیب بھی مقتول ہوا۔اب شمعون خود اسی ہزار فوج لے کر مسلمانوں کے مقابلے پر آیا۔ ادھر سے مسلمہ خود مقابلے میں آگے بڑھے۔یہ ایک خوفناک لڑائی تھی کہ جس میں مسلمانوں کے کماندار محمد بن مروان بھی زخمی ہو گئے۔ آخر کار مسلمانوں کو فتح ہوئی۔مخالف سپہ سالار شمعون قتل ہوا۔اگلے سالوں میں بھی ان کمانداروں کا جہاد رومی علاقوں میں جاری رہا اور انھوں نے کئی علاقے مثلاً ہِرَقلہ اور قمودیہ وغیرہ فتح کیے۔مسلمہ بن عبد الملک نے ۹۶ ہجری میں بھی روم پر حملہ کیا اور طولس وغیرہ کے علاقے فتح کیے۔اس دوران مفتوحہ علاقوں میں کامیاب بغاوتیں بھی ہوتی رہیں اور رومیوں کی طرف سے جوابی کاروائیوں کے طور پر حملے بھی ہوتے رہے جن کے نتیجے میں کئی بار ایک شہر مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل جاتا اور وہ دوبارہ اسے فتح کرتے۔اس طرح کئی شہر ایک سے زیادہ بار فتح کیے گئے۔(تاریخِ شاکر، ج: ۴ ،ص: ۲۰۱، ۲۰۲ )۹۶ ہجری میں ولید بن عبدالملک روم پر ایک بڑے حملے کی تیاری میں تھے کہ ان کا انتقال ہو گیا۔
عہدِسلیمان بن عبد الملک بن مروان
ولید بن عبد الملک بن مروان کے انتقال کے بعد ان کی وصیت کے مطابق سُلَیمان بن عبد الملك بن مروان خلیفہ بنائے گئے۔سلمان بن عبد الملک ایک نیک شخص تھے۔ امورِ سلطنت میں اپنے بھتیجے عمر بن عبد العزیز سے مشاورت کیا کرتے تھے۔انھوں نے کئی اصلاحات کیں۔انھوں نے اقامتِ نماز کا خاص اہتمام کیا۔ناحق جیل کاٹنے والوں کو آزاد کیا اور ظالم گورنروں کو تبدیل کیا۔ان کے دور میں بھی روم کے ساتھ جہاد جاری رہا۔بازنطینی تخت ان دنوں سازشوں کی آماجگا ہ بنا ہوا تھا اور سیاسی انتشار عام تھا۔یہاں تک کہ بیس مہینوں میں ۶ حکمران تبدیل ہوئے۔چنانچہ حالات کو ساز گار دیکھ کر خلیفہ فتحِ قسطنطنیہ کی جانب متوجہ ہوئے اور انھوں نے اپنے پیش رو،ولید بن عبد الملک کے قسطنطنیہ پر حملے کے منصوبے کو عمل میں لانے کا ارادہ کیا۔اس مہم کے سالار مسلمہ بن عبد الملک تھے۔ان کے اپنے بیٹے،محمد بن مسلمہ بن عبد الملك، خلیفہ کے بیٹے داؤد بن سلیمان،خلیفہ کے بھتیجے،محمد بن عبد العزيز بن مروان اور خلیفہ کے چچا محمد بن مروان بن حكم بھی شامل تھے۔اس کے علاوہ بہت سارے نامی گرامی مسلمان مثلاً خالد بن معدان،مجاہد بن جبر،عبيد الله بن عبد الله بن عمر بن الخطاب،عبد الله بن عدی بن حاتم طائی،سليمان بن ابی موسٰى اشعری،عبد الله بن جرير بن عبد الله بجلی،محمد بن خالد بن وليد مخزومی اور مسلمہ بن حبيب بن مسلمہ فہری بھی اس لشکر کا حصہ تھے۔شام کے برّی راستے سے ایک لاکھ بیس ہزار پر مشتمل لشکرِ جرار بھیجا گیا جبکہ بحری فوج کی روانگی اہلِ مصر اور افریقہ کی طرف سے کی گئی جو ایک ہزار جنگی کشتیوں پر مشتمل تھی۔خلیفہ اس مہم میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔بیت المقدس سے اس لشکر کو روانہ کرنے کے بعد وہ مرج دابق نامی مقام پر رہے اور یہ عزم ظاہر کیا کہ جب تک قسطنطنیہ کی فتح کی خبر نہ ملے گی دمشق نہ جاؤں گا۔اناضول(اناطولیہ،ایشیاے کوچک)کے علاقے مرعش کا رہنے والاایک عربی دان رومی حاکم،اِلیون قیصرِ روم کے ساتھ اپنی دشمنی کی یقین دہانی کراتے ہوئے مسلمانوں کا بظاہر حمایتی اور اس مہم میں ان کا مدگار بن گیا۔مسلمہ نے اکثریت کی مشاورت کے مطابق اور مسلمہ بن حبیب کی رائے کے برعکس الیون کی درخواست قبول کی۔الیون اپنی فوج کے ہمراہ مسلمانوں سے پہلے قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوا۔اس وقت روم پر قیصر تھيوڈوسيوس ثالث کی حکومت تھی جو ایک کمزور حاکم تھا۔ایک روایت کے مطابق الیون بعض رومی دستوں کو شکست دے کر اور ایک روایت کے مطابق صلح اور سفارت کاری کی آڑ میں قسطنطنیہ پہنچا اور اس نے اکابرینِ سلطنت کو باور کرایا کہ میں اپنی مضبوط فوج کے ساتھ دار الحکومت کا دفاع کر سکتا ہوں اور قیصر اس کی صلاحیت نہیں رکھتا۔اس ساز باز کے نتیجے میں قیصر کو معزول کر کے وہ لیو ثالث کے نام سے خود قیصر کے تخت پر بیٹھ کر دفاعی انتظامات میں مصروف ہو گیا۔جب مسلمان قسطنطنیہ پہنچے تو ان پر الیون کی چال بازی کا انکشاف ہوا۔محاصرے کے کچھ عرصہ بعد لیو ثالث نے مسلمانوں سے سفیر بھیجنے کی درخواست کی۔مشہور کماندار عبد اللہ بطّال بطورِ سفیر پہنچے۔لیو ثالث نے کچھ رقم تاوان کے طور پر ادا کرکے مسلمانوں سے محاصرہ ترک کر کے واپس اپنے علاقوں میں جانے کی درخواست کی۔بطال نے اس کی درخواست کو رد کیا۔لیو ثالث نے ان کے کھانے کے لیے انواع و اقسام کے کھانے منگائے اور کہا کہ تم لوگوں کو استعمال کی جو چیز چاہیے ہو لے سکتے ہو۔بطال نے کہا کہ اور تو کچھ نہیں چاہیے،خندق کے پیچھے سے ایک مٹھی بھر مٹی دے دیں۔لیوثالث نے غصے میں آکر سفیروں کو واپس چلے جانے کا حکم سنایا۔اس کے بعد لیو ثالث نے مسلمانوں کی بحری فوج کے کماندار عمیر بن ہبیرہ کی خدمت میں بھی ایک سفارتی مہم ارسال کی جو ناکام رہی۔اس کے بعد لیوثالث نے صقالبہ کے حاکم برجان سے مدد طلب کی جو ایک لشکر لے کر آیا۔ابتدائی طور پر مسلمانوں کے ایک دستے سے اس کا مقابلہ ہوا جس میں برجان کو فتح نصیب ہوئی اور کثیر تعداد میں مسلمان شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔بہت ساروں کو قیدی بنایا گیا اور ایک قلیل تعداد بچ کر واپس آنے میں کامیاب ہوئی۔اس کاروائی کے بعد برجان واپس لوٹ گیا۔اب عبیدہ بن قیس اور ان کے بیٹے شرحبیل بن عبیدہ کو ایک لشکر دے کر مقابلے پر روانہ کیا گیا جو صقالبہ پر حملہ آور ہوا۔یہاں گھمسان کا رن پڑا۔بالآخر مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور برجان واصل جہنم ہوا۔یہاں شرحبیل بن قیس کو شہادت نصیب ہوئی۔یہ لشکر مسلمان قیدیوں کو چھڑانے اور برجان کو سزا دینے کے بعد دوبارہ محاصرےپر پہنچ گیا۔محاصرہ طول پکڑتا جا رہا تھا۔رومی شہر کی فصیلوں کے اوپر سے مسلمانوں پر حملے کرتے۔کبھی آگ کے گولے برساتے،بعض اوقات جنگی کشتیوں سے حملہ آور ہوتے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان بہادری سے ان کا مقابلہ کرتے لیکن شہر کی دیواروں میں نقب یا شگاف یا کسی اور ذریعے سے شہر میں داخلے کا مسلمانوں کو کوئی موقع نہ مل سکا۔اس سال بر ف باری معمول سے زیادہ ہوئی۔بعض روایات کے مطابق سو دن اور بعض روایات کے مطابق ۱۲ ہفتے برفباری جاری رہی۔موسم کی اس خرابی سے مسلمان سخت مصیبت کا شکار ہوئے۔راستوں کی بندش کی وجہ سے مسلمانوں کو امداد بھی نہ پہنچ سکی۔ان کی خوراک کے ذخائز ختم ہو گئے۔ان کے جانور مرنے لگے۔حتی کہ مسلمانوں کو درختوں کے پتے کھانے پڑے اور بعض روایات کے مطابق مردار کھانے کی نوبت بھی آ گئی۔خلیفہ سلیمان بن عبد الملک ان دنوں شمالی شام کے علاقے دابق میں مقیم تھے تاکہ بوقتِ ضرورت مسلمہ کی مدد کر سکیں۔انھوں نے یہ عزم کر رکھا تھا کہ قسطنطنیہ فتح کیے بغیر واپس نہ ہوں گے۔جب مسلمہ نے مدد مانگی تو اندازہ ہوتا ہے کہ موسم کی خرابی اور بر ف باری کی وجہ سے وہ آگے نہ بڑھ سکے۔انھی دنوں خلیفہ سلیمان بن عبد الملک شدید بیمار ہو گئے۔بیماری کے دوران انھوں نے حضرت رَجا بن حَيْوَہ سے مشاورت کے بعد حضرت عمر بن عبد العزیز کو اپنا ولیِ عہد مقرر کیا،البتہ اس اندیشے کے تحت کہ شاید بنو امیہ اس فیصلے کو قبول نہ کریں،حضرت عمر بن عبد العزیز کے بعد یزید بن عبدا لملک کو ولیِ عہد بنا دیا۔سلیمان اسی علاقے میں فوت ہوئے اور اسی علاقے میں مدفون ہوئے۔
عہدِحضرت عمر بن عبد العزیز بن عبد الملک بن مروان
آپ کے والد عبد العزیز ایک صالح شخص تھے۔آپ کی والدہ لیلی بنت عاصم بن عمر بن خطاب تھیں۔آپ کی پیدائش ۶۱ ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔پچپن ہی میں قرآن پاک حفظ کیا۔آپ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں کثرت سے حاضر ہوتے اور اپنی والدہ سے کہتے کہ میں ان جیسا بننا چاہتا ہوں۔جب آپ کے والد کو مصر کا گورنر بنا کر بھیجا گیا تو سیدناعبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر بن عبد العزیز کو اپنے پاس روک لیا۔جس سے آپ کے والد عبد العزیز اور دادا عبد الملک بن مروان بہت خوش ہوئے۔بعد میں جب آپ کچھ عرصے کے لیے مصر گئے تو آپ کے والد نے آپ کو واپس مدینہ بھیج دیا تاکہ وہ مدنی ماحول میں تربیت پا سکیں۔آپ کے والد نے آپ کو صالح بن کیسان رحمہ اللہ کی شاگردی میں دیا۔اس کے علاوہ آپ نے مدینہ کے بہت سے اہلِ علم سے استفادہ کیا۔بہت سارے تابعین کے علاوہ آپ تین صحابہ حضرت انس بن مالك، حضرت سائب بن يزيد اور حضرت يوسف بن عبد الله بن سلام رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں۔۸۶ ہجری میں آپ کو مدینہ کا گورنر بنایا گیا۔آپ نے مدینہ کے دس فقہا کو جمع کیا اور کہا کہ میں سلطنت کے امور آپ کے مشورے سے چلایا کروں گا اور پھر اس کا اہتمام کرتے رہے۔اس کے علاوہ آپ حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی رائے کا بھی بہت احترام کرتے تھے۔آپ ۹۳ ہجری تک مدینہ کے حاکم رہے۔اس دوران آپ نے ولید کے حکم سے مسجدِ نبوی کی توسیع کی اور مدینہ منورہ کی عام تعمیر و ترقی کا اہتمام کیا۔آپ سلیمان بن عبد الملک کے مشیر خاص رہے اور انھی کی وصیت سے خلیفہ بنے۔حضرت عمر بن عبد العزیز ریاست میں بہت ساری خرابیاں دیکھ رہے تھے،جن کی اصلاح ضروری تھی۔چنانچہ آپ نے داخلی اصلاحات کی طرف توجہ کی اور بہت سارے اصلاحی کارنامے سر انجام دیے جن کے بیان کے لیے پوری کتاب کی ضرورت ہے۔اس اصلاحاتی منصوبے کے لیے درکار یکسوئی کی وجہ سے آپ فی الوقت مملکت کی حدود کی مزید توسیع کے حق میں نہ تھے۔آپ نے جلد ہی قسطنطنیہ کے محاصرے سے فوجوں کو واپس بلانے کا ارادہ کیا۔ آپ نے عمرو بن قيس سكونی کو چار ہزار کی ایک فوج دے کر قسطنطنیہ کی جانب روانہ کیا جو بالآخر لشکرِ اسلام تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔یہ لشکر بہت سا اہم سامان لے کر آیاتھا۔اسی کے ہاتھ خلیفہ نے مسلمہ بن عبد الملک کو محاصرہ ختم کرنے کا حکم دیا۔باوجود شدید مشکلات کے مسلمہ بن عبد الملک کے حوصلے بلند تھے۔انھوں نے جواب میں لکھ بھیجا کہ ہم بہار کی آمد کے منتظر ہیں اور بہار نزدیک ہی ہے۔ہم یہاں سے ٹلنے والے نہیں ہیں یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ فرما دے۔لیکن خلیفۂ محترم حضرت عمر بن عبد العزیز نے اپنے سپہ سالار کی اس بات کو نہیں مانا اور واپسی کا حکم دوبارہ دے دیا۔راجح قول کے مطابق یہ محاصرہ ۹۷ ھ میں شروع ہوا اور ۹۹ ہجری میں اختتام پذیر ہوا۔ (الحملة الأخيرة على القسطنطينية في العصر الأموي،سلیمان بن عبد الله،جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ ) ۔عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی فوجی پالیسی،فوجی کمانڈروں کو جاری اس حکم سے ظاہر ہوتی ہے: لا تغزو و تمسکوا بما فی ایدیکم ۔’’ چڑھائیاں نہ کرو بلکہ جو علاقے تمھارے ہاتھوں میں آ چکے انھیں اچھی طرح تھامے رکھو‘‘۔آپ نے سرحدوں کی حفاظت کا خاص اہتمام کیا۔ آذربائیجان پر غیر مسلم ترک قبائل نے حملہ کیا تو آپ نے حاتم بن نعمان باہلی کی سرکردگی میں لشکر روانہ کیا جس نے ترکوں کی سرکوبی کی۔آپ نے بعض ساحلوں اور سرحدوں پر قلعے تعمیر کیے تاکہ حملوں کو روکا جا سکے۔آپ نےبعض مظلوم مسلمان قیدیوں کو چھڑانے کے لیے شاہِ روم کو حملے کی دھمکی دی جس کے نتیجے میں قیدی چھوڑ دیے گئے۔رجب ۱۰۱ ہجری میں چالیس سال کی عمر میں آپ کا انتقال ہوا(الدولۃ الامویہ الصلابی،۲ ، ۲۹۸، ۳۰۰ ، ۳۷۸)
عہدِ يزيد بن عبد الملك بن مروان(۱۰۱ ھ تا ۱۰۵ ھ)
حضرت عمر بن عبد العزیز کے انتقال کے بعد،سلیمان بن عبد الملک کے مقرر شدہ ولی عہد، يزيد بن عبد الملك بن مروان خلیفہ بنے۔ابتدا میں انھوں نے حضرت عمر بن عبد العزیز کے نقوشِ قدم پر چلنے کی کوشش کی لیکن مختلف اسباب سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے بالآخر عام اموی حکمرانوں کے طریقے پر آ گئے۔ان کے دور میں ماورا النہر، اندلس، آرمینیا، آذر بائیجان اور افریقہ وغیرہ میں جہاد جاری رہا۔اندلس میں مصروفِ جہاد فوجوں نےیورپ(موجودہ فرانس)کے علاقے طولوشتہ اور قرقوشنہ وغیرہ کے علاقے فتح کیے،سلطنتِ روم کے ساتھ زیادہ تر معاملہ سرحدات کی حفاظت اور نگہبانی تک رہا البتہ ایشیاے کوچک میں کئی محاذ برپا رہے اور کئی علاقے فتح ہوئے۔افریقہ کی طرف سے مسلمانوں کی بحری فوجوں نے حملہ آور ہو کر مختلف جزائر فتح کیے۔البتہ بازنطینی ریاست یا قسطنطنیہ پر براہِ راست کسی حملے سے یہ دور خالی ہے۔(الدولۃ الامویہ الصلابی،۲ ، ۲۹۸ ) یزید بن عبد الملک کے بیٹے ولید بن یزید بن عبد الملک،باپ کے انتقال کے وقت چھوٹے تھے۔اس لیے خلیفہ نے اپنے بھائی ہشام بن عبد الملک کو ولیِ عہد بنایا۔البتہ ان کے بعد اپنے بیٹے ولید بن یزید کو ولیِ عہد مقرر کیا۔
عہدِہِشام بن عبد الملك بن مروان(۱۰۵ ھ ۱۲۵ ھ)
۱۰۵ ہجری میں ہشام بن عبدا لملک بن مروان خلیفہ بنے۔ہشام بن عبد الملک ایک نیک اور انصاف پسند شخص تھے یہاں تک کہ اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کو بھی قاضی کی عدالت میں پیش کر دیا کرتے تھے۔عوام کی خدمت اور اہلِ علم کی عزت کرنے والے تھے۔کمی کوتاہیوں کے باوجود ان کے دور میں حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور کی ایک جھلک نظر آتی تھی۔انھوں نے اپنے بیٹوں کی تربیت کے لیے امام ابنِ شہاب زہری کی خدمات حاصل کیں۔ہشام کے دورِ حکومت میں روم کے ساتھ جہاد جاری رہا۔مسلمہ بن عبد الملک اور عبد اللہ بطال کے علاوہ خلیفۂ وقت ہشام بن عبد الملک کے بیٹے،ابراہیم بن ہشام،معاویہ بن ہشام،مسلمہ بن ہشام اور سلیمان بن ہشام ان مہمات کے اہم کماندار تھے۔ان مہمات میں سلطنت کی حدود کی توسیع تو نہ ہوئی البتہ ان مہمات نے رومیوں کو سر اٹھانے کا موقع نہ دیا۔ ۱۰۸ ہجری میں قیصریہ شہر فتح ہوا۔ ۱۱۲ ہجری میں خرشنہ کا قلعہ فتح کیا گیا۔ہشام کے دورِ حکومت میں مسلمان فرانس کے وسط تک چلے گئے جہاں۱۱۴ ہجری کو انھیں بلاط الشہدا کے معرکے میں شکست کا سامنا کر کے پسپا ہونا پڑا۔۱۲۳ ہجری میں ایک رومی فوج نے ملطیہ کے علاقے میں داخل ہو کر شہر پر قبضہ کر لیا جو کچھ ہی عرصے کے بعد ہشام بن عبد الملک نے آزاد کروا لیا۔ہشام نے سلطنت کی حدود کو محفوظ بنانے کی بھی کوشش کی اور سرحدات پر قلعے قائم کیے۔اس کے علاوہ ماروا ءالنہر کے علاقوں میں فتوحات جاری رہیں۔آرمینیا وغیرہ میں بھی جہاد جاری رہا۔ہشام بن عبد الملک اپنے بعد کے ولیِ عہد ولید بن یزید کے کردار سے مطمئن نہ تھے اور اسے تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ابنِ شہاب زہری کی رائے بھی یہی تھی لیکن بعض خاندانی امور کے سبب ہشام ولیِ عہد کو تبدیل نہ کر سکے۔۱۲۵ ہجری میں ہشام کا انتقال ہوا جس کے بعد ولید بن یزید بن عبد الملک خلیفہ بنے۔
عہدِوليد بن يزيد بن عبد الملك بن مروان (۱۲۵ ھ تا ۱۲۶ ھ)
کہا جاسکتا ہے کہ سلطنتِ اموی کے خاتمے کی داغ بیل ولید بن یزید ہی نے ڈالی۔اگرچہ اس نے عوام کی فلاح و بہبود پر بہت توجہ دی۔لیکن وہ دینی امور میں تساہل اور فسق و فجور کا مرتکب تھا۔اس کے علاوہ وہ کینہ پرور اور منتقِم مزاج تھا۔چونکہ ہشام اس کو ولیِ عہد کے منصب سے ہٹانا چاہتا تھا اور اس نے اس بابت بہت سے لوگوں سے مشاورت کی تھی لہذا برسرِ اقتدار آنے کے بعد ولید نے ہشام کے خاندان اور ہشام کی رائے کے موافقین کے خلاف انتقامی کاروائیاں شروع کیں۔اپنے اقتدار کے بالکل شروع میں ولید بن یزید نے اپنے نابالغ بیٹے حکم اور عثمان کے لیے بیعتِ ولیِ عہدی لینے کا فیصلہ کیا۔اگرچہ ولیِ عہدی،اپنی شرائط کے مطابق ایک جائز امر ہے لیکن بنو امیہ میں اسے خاندانی اصول پر استعمال کیا جاتا رہا جو جائز نہیں تھا لیکن اب تک نابالغ کے حق میں وصیتِ ولیِ عہدی کی کوئی مثال نہ تھی اور یہ اس کی ابتدا ہو رہی تھی۔اس لیے بنو امیہ کے بعض وفادار کمانداروں نے بھی اس سے انکار کیا اور ولید بن یزید نے ان لوگوں پر بھی سختی شروع کر دی۔اس وجہ سے لوگ اس کے مخالف ہو گئے۔ان مخالفین نے یزید بن ولید بن عبد الملک کو اپنا سربراہ مان کر تحریک چلائی۔انھی دنوں فرقۂ قدریہ سر اٹھا رہا تھا۔ان لوگوں نے بھی انقلابی تحریک کی حمایت و مدد کی۔ایک دو لڑائیوں ہی میں دمشق پر قبضہ کر لیا اور جمادی الاخرٰی ۱۲۶ ہجری میں خلیفۂ وقت ولید بن یزید بن عبدالملک کو قتل کر دیا۔ان کاروائیوں نے خلافتِ بنو امیہ کو بہت کمزور کر دیا۔
یزید بن ولید بن عبد الملک( ۱۲۶ھ)
یہ انقلابی سرگرمیوں کے سربراہ تھے۔کامیابی کے بعد ان کے ہاتھ پر بیعت کی گئی۔ابنِ کثیر وغیرہ نے ان کے عادل و صالح ہونے پر ان کی تعریف کی ہے۔بعض صوبوں نے ابتدا میں ان کی خلافت سے انکار کیا لیکن آخر کار سب نے ان پر اتفاق کر لیا۔اپنے پہلے خطبے میں انھوں نے عدل و انصاف کی سربلندی کی بہت سی باتیں کیں لیکن قدرت نے انھیں مہلت نہ دی اور خلافت کے چھے ہی مہینے بعد،ذو الحجہ سنہ ۱۲۶ ہجری میں انھوں نے طاعون کے سبب انتقال کیا۔انھوں نے اپنے بھائی ابراہیم بن ولید کے حق میں ولیِ عہدی کی وصیت کی۔
ابراہیم بن وليد بن عبدالملك بن مروان(۱۲۷ ھ)
ابراہیم کی خلافت مستحکم نہ ہو سکی۔مروان بن محمد جو مروان بن حکم کے پوتے تھے۔یہ خلیفہ ولید بن یزید کے حامی اور آرمینیا اور آذربائیجان کے گورنر تھے۔جب یزید بن ولید نے،ولید کو قتل کر کے خلافت حاصل کی اس وقت سے یزید سے بدلہ لینے کے درپے تھے۔جس کا موقع انھیں یزید بن ولید کے بھائی ابراہیم بن ولید سے حکومت چھیننے کی صورت میں ملا۔حمص پر قبضہ کرنے کے بعد یہ دمشق کی طرف بڑھے۔ابراہیم کو شکست دے کردمشق میں داخل ہوئے۔جہاں ان کی خلافت کی بیعت لی گئی۔ مروان ثانی نے ابراہیم کو قتل نہیں کیا۔وہ بھاگ گیا۔بعد میں امان دے دی۔یہ اکثر انھیں ساتھ رکھتے اور اکرام کرتے۔ان کی خلافت محض چند مہینے ہی قائم رہی۔
مروان بن محمد بن مروان بن حكم(۱۲۷ ھ تا ۱۳۲ھ)یہ مروان ثانی بھی کہلاتے ہیں۔جنگجو،مردِ میدان اور عقل مند انسان تھے۔ان کا دور پانچ سال پر مشتمل رہا لیکن اس سارے عرصے میں بغاوتیں جاری رہیں۔پہلے تو حمص،غوطہ،فلسطین کے علاقوں میں بغاوتیں ہوئیں۔اس کے بعد خارجیوں نے عراق میں شورش برپا کی۔اسی دوران آلِ جعفر بن ابی طالب میں سے ایک بغاوت منظم کی گئی۔خاندانِ بنو امیہ انتشار کا شکار تھا۔مروانِ ثانی اس انتشار کو ختم کرنا چاہتے تھے۔اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنے دو بیٹوں کی شادی ہشام کی دو بیٹیوں سے کرائی۔لیکن یہ حربہ کام نہ آیا اور سلیمان بن ہشام بن عبد الملک نے شورش برپا کر دی۔ان تمام بغاوتوں کو مروانِ ثانی نے کامیابی سے فرو کیا۔اسی دوران عباسیوں کی خفیہ تحریک نے انقلابی اقدامات شروع کیے۔انھی کے ہاتھوں بالآخر ۱۳۲ ہجری میں خلافتِ بنو امیہ کا خاتمہ ہوا۔(المعارک بین الروم و العرب ، ص :۱۸)