اداریہ
مدیر ماہ نامہ، مفاہیم
شجرکاری یا زراعت ایک انسانی ضرورت تو ہے ہی لیکن ایک مسلمان کے لیے یہ اللہ کی نشانی اور نیکی بھی ہے۔نیکیوں کی بابت دین کی اصولی تعلیم «لاَ يَحْقِرَنَّ أَحَدُكُمْ شَيْئًا مِنَ الْمَعْرُوفِ» (سنن ترمذی)’’تم میں سے کوئی بھی کسی نیکی کو حقیر نہ سمجھے‘‘کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ ہماری روبہ زوال معیشت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت کا کسی قدر مداوا،زراعت اور باغبانی سے ممکن ہے۔ہم کھیتی باڑی اور شجرکاری کے بارے میں چند احادیث پیش کرنا چاہتے ہیں :رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا إِلَّا كَانَ مَا أُكِلَ مِنْهُ لَهُ صَدَقَةً،وَمَا سُرِقَ مِنْهُ لَهُ صَدَقَةٌ،وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ مِنْهُ فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ،وَمَا أَكَلَتِ الطَّيْرُ فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ،وَلَا يَرْزَؤُهُ أَحَدٌ إِلَّا كَانَ لَهُ صَدَقَةٌ» (صحیح مسلم)’’کوئی بھی مسلمان کوئی باغ(یا باغیچہ)لگائے تو اس میں سے جتنا کچھ فصل کھائی جائے گی وہ اس کے لیے صدقے کا ثواب ہے اور اگر کوئی اس میں سے چوری کر لے تو اس کے لیے صدقہ ہے اور جو کوئی درندہ کھا لے تو اس کا بھی صدقہ ہے اور جو کوئی پرندہ کھا لے اس کا بھی صدقہ ہے اور اس کے باغ میں کوئی بھی چیز کچھ کمی کر لے تو اس کے لیے صدقے کا ثواب ہے‘‘۔نبی اکرم ﷺ سیدہ امِ معبد رضی اللہ عنہا کے باغ میں داخل ہوئے تو آپﷺ نے ان سے سوال کیا: «يَا أُمَّ مَعْبَدٍ،مَنْ غَرَسَ هَذَا النَّخْلَ؟أَمُسْلِمٌ أَمْ كَافِرٌ؟» ’’اے امِ معبد،کھجور کے یہ درخت کس نے لگائے ہیں؟ کسی مسلمان نے یا کسی کافر نے‘‘؟انھوں نے عرض کیا: نہیں یا رسول اللہ!کسی کافر نے نہیں بلکہ ایک مسلمان نے لگا کر دیے ہیں‘‘۔آپﷺ نے فرمایا: «فَلَا يَغْرِسُ الْمُسْلِمُ غَرْسًا(وَلَا يَزْرَعُ زَرْعًا)فَيَأْكُلَ مِنْهُ إِنْسَانٌ،وَلَا دَابَّةٌ،وَلَا طَيْرٌ،وَلَا شَيْءٌ إِلَّا كَانَ لَهُ صَدَقَةً إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ» (رواه مسلم في روایتین عن جابر) ’’کوئی بھی مسلمان کوئی باغ لگائے یا کوئی کھیتی اگائے پھر اس میں سے کوئی انسان کھا لے یا کوئی جانور،پرندہ یا کوئی اور مخلوق کھا لے تو اس باغ لگانے والے کے لیے قیامت کے دن تک صدقے کا اجرو ثواب ہے‘‘۔حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ دمشق میں باغ لگا رہے تھے۔ کسی نے ان سے کہا: آپ صحابیٔ رسول ہو کر باغ لگا رہے ہیں ۔انھوں نے فرمایا:دیکھو جلدی نہ کرو،میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: «مَنْ غَرَسَ غَرْسًا لَمْ يَأْكُلْ مِنْهُ آدَمِيٌّ،وَلَا خَلْقٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ»’’ جس نے کوئی باغ لگایا تو اس میں کوئی آدمی یا اللہ کی کوئی اور مخلوق کچھ کھائے گی تو اس کو صدقے کا اجر ملے گا‘‘۔(مسند احمد)ایک روایت میں آتا ہے کہ کچھ لوگ آپ کے پاس دین کا کوئی علم سیکھنے گئے لیکن ان کو باغ لگاتا ہوا پایا۔انھوں نے کہا: يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ أَنْتَ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِﷺ،وَأَنْتَ مُقْبِلٌ عَلَى الدُّنْيَا ’’اے ابوالدرداء! آپ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہو کر دنیا کے پیچھے پڑے ہیں؟‘‘،آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے سنا: «مَنْ غَرَسَ غَرْسًا أَجْرَى اللَّهُ لَهُ أَجْرَ مَنْ أَكَلَ مِنْهُ نَاسٌ أَوْ طَائِرٌ أَوْ دَابَّةٌ حَتَّى يَيْبَسَ» ’’جس(مسلمان)نے کوئی باغ لگایا،اللہ اس باغ میں سے کھانے والوں کے بقدر اسے اجر سے نوازے گا،چاہے کوئی انسان کھائے،کوئی پرندہ یا کوئی اور جانور،یہاں تک کہ یہ باغ سوکھ جائے‘‘۔ (مسند الشاميين للطبراني) حضرت ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «مَا مِنْ رَجُلٍ يَغْرِسُ غَرْسًا إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ قَدْرَ مَا يَخْرُجُ مِنْ ثَمَرِ ذَلِكَ الْغَرْسِ» ’’کوئی بھی(مسلمان)آدمی کوئی باغ لگاتا ہے تو اس کے پھل کے برابر اس کے لیے اجر لکھا جاتا ہے‘‘۔(مسند احمد)معاذ بن انس الجہنی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «مَنْ بَنَى بُنْيَانًا مِنْ غَيْرِ ظُلْمٍ،وَلَا اعْتِدَاءٍ،أَوْ غَرَسَ غَرْسًا فِي غَيْرِ ظُلْمٍ،وَلَا اعْتِدَاءٍ،كَانَ لَهُ أَجْرٌ جَارٍ مَا انْتُفِعَ بِهِ مِنْ خَلْقِ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى» (مسند احمد)’’جو شخص کوئی عمارت بنائے بغیر کسی ظلم و زیادتی کے یا کوئی باغ لگائے بغیر ظلم وزیادتی کے تو اس کے لیے اجر جاری رہے گا،جب تک خلقِ خدا اس سے فائدہ اٹھاتی رہے‘‘۔سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «إِنْ قَامَتِ السَّاعَةُ وَبِيَدِ أَحَدِكُمْ فَسِيلَةٌ،فَإِنْ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا يَقُومَ حَتَّى يَغْرِسَهَا فَلْيَفْعَلْ» ’’اگر قیامت قائم ہو جائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا ایک چھوٹا پودا ہو اور اسے یہ طاقت ہو کہ اسے لگا سکے تو وہ ضرور ایسا ہی کرے‘‘۔(مسند احمد)الساعہ سے مراد قیامت بھی ہو سکتی ہے اور اس کی نشانیاں بھی جیسا کہ ایک روایت میں آتا ہے: «إِذَا سَمِعَ أَحَدُكُمْ بِالدَّجَّالِ،وَفِي يَدِهِ فَسِيلَةٌ فَلْيَغْرِزْهَا،فَإِنَّ لِلنَّاسِ عَيْشًا بَعْدُ»۔ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ آپ اخروٹ کا پودا لگا رہے تھے کہ ایک آدمی آپ کے پاس سے گزرا اور آپ سے کہنے لگا آپ بہت بوڑھے ہو چکےاور اس بڑھاپے میں اخروٹ لگا رہے ہیں جبکہ کل نہیں تو پرسوں آپ انتقال کرنے والے ہیں اور آپ جانتے بھی ہیں کہ اخروٹ بہت سالوں بعد پھل دیتا ہے۔آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :وَمَا عَلَيَّ أَنْ يَكُونَ لِي أَجْرُهَا،وَيَأْكُلُ مَهْنَأَهَا غَيْرِي۔ ’’مجھے کوئی پروا نہیں کہ اجر تو مجھے ملتا رہے اور اس درخت کا پھل کوئی دوسرا کھاتا رہے‘‘ ۔(شرح السنہ للبغوی)فَنَّج ایک کسان پیشہ آدمی تھے جو دَينَباذ کے باغات میں کام کاج کیا کرتے تھے۔کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے علاقے میں آئے۔جن میں سے ایک صحابی اِن کے باغ میں آئے جبکہ فَنَّج باغ کو پانی لگا رہے تھے ۔ا ن صحابی کے ہاتھ میں ایک تھیلی تھی جس میں سے وہ اخروٹ نکال کر کھا رہے تھے۔وہ کھیت میں ایک جگہ بیٹھ گئے اور انھوں نے فَنَّج سے پوچھا:’’کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں ا خروٹ کا یہ بیج اس زمین میں لگا دوں؟،افنج نے کہا:’’ٹھیک ہے آپ بیج لگائیں لیکن مجھے اس کا کیا(دینی)فائدہ ہو گا؟ ‘‘۔اس پر ان صحابی نے کہا:میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا،آپﷺ فرماتے تھے: «مَنْ نَصَبَ شَجَرَةً فَصَبَرَ عَلَى حِفْظِهَا وَالْقِيَامِ عَلَيْهَا حَتَّى تُثْمِرَ كَانَ لَهُ فِي كُلِّ شَيْءٍ يُصَابُ مِنْ ثَمَرَتِها صَدَقَةٌ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ» ’’جو شخص ایک درخت لگائے اور اس کی حفاظت اور دیکھ بھال کرے،یہاں تک کہ وہ درخت پھل دینے لگے تو اس پھل سے جتنا بھی کوئی فائدہ اٹھائے گا،اسی قدر اِس(درخت لگانے والے یا حفاظت کرنے والے)شخص کے لیے صدقہ لکھا جائے گا‘‘۔فَنَّج نے انھیں اجازت دی اور انھوں نے باغ میں اخروٹ کا بیج لگایا۔بعد میں فَنَّج بتایا کرتے تھے کہ اس علاقے کے اخروٹ انھی صحابی کے بیج سے چلے ہیں‘‘۔(مسند احمد)حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «النَّخْلُ وَالشَّجَرُ بَرَكَةٌ عَلَى أَهْلِهِ،وَعَلَى عَقِبِهِمْ مِنْ بَعْدِهِمْ إِذَا كَانُوا لِلَّهِ شَاكِرِينَ» کھجور اور(دیگر)درخت اپنے لگانے والے اور بعد والوں کے لیے باعثِ برکت ہے جب تک وہ اللہ کے شکر گزار رہیں‘‘۔(المعجم الکبیر للطبرانی)حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور ان کے بیٹوں کو مشورہ دیا کہ: «أَنْ يَحْرُثُوا الْقَضْبَ،فَإِنَّهُ يَنْفِي الْفَقْرَ» ( المعجم الکبیر)’’سبزیاں کاشت کرو،پس وہ غریبی کو ختم کرتی ہیں‘‘۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «سَبْعَةٌ يَجْرِي لِلْعَبْدِ أَجْرُهُنَّ وَهُوَ فِي قَبْرِهِ بَعْدَ مَوْتِهِ:مَنْ عَلَّمَ عِلْمًا،أَوْ أَجْرَى نَهَرًا،أَوْ حَفَرَ بِئْرًا،أَوْ غَرَسَ نَخْلًا،أَوْ بَنَى مَسْجِدًا،أَوْ وَرَّثَ مُصْحَفًا،أَوْ تَرَكَ وَلَدًا يَسْتَغْفِرُ لَهُ بَعْدَ مَوْتِهِ» ’’سات چیزوں کا اجر بندے کی موت اور اس کے قبر میں جانے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔جس نے کسی کو کوئی علم سکھایا یا کوئی نہر جاری کرائی یاکوئی کنواں کھُدوایا یا کھجور(یا کسی اور پھل)کا باغ لگوایا یا کوئی مسجد بنوائی یا کسی کو مصحف دلایا یا نیک اولاد چھوڑ گیا جو اس کے پیچھے دعاے مغفرت کرتی ہو‘‘۔ (صحيح الترغيب والترهيب)
یہ تو تھی دنیا کے باغیچوں کی اہمیت۔کچھ تذکرہ آخرت کے باغیچوں کا بھی ہونا چاہیے:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ باغ لگا رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ وہاں سے گزرے،پوچھا کیا کر رہے ہو؟انھوں نے عرض کی:باغ لگا رہا ہوں۔فرمایا کہ میں اس سے بہتر باغ لگانا نہ سکھا دوں؟عرض کیا:یا رسول اللہﷺ ضرور بتایئے۔فرمایا:’’سُبْحَانَ اللَّهِ،وَالْحَمْدُ لِلَّهِ،وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ،وَاللَّهُ أَكْبَرُپڑھا کرو،ہر جملے کے بدلے تمھارے لیے جنت میں ایک درخت لگا دیا جائے گا‘‘۔(سنن ابنِ ماجہ)