مولانا حماد احمد ترک
نائب مدیر ماہنامہ مفاہیم کراچی
یہ ۱۴ نومبر ۲۰۲۱ء کی صبح ہے۔ جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ، کراچی پر معمول کی آمد و رفت ہے۔ اسی ہجوم میں ہم بھی سامان ادھر سے ادھر دھکیلتے ہم سفر ساتھیوں کے منتظر ہیں اور بقولِ شاعر ہم ’’سفرو‘‘ کہاں ہو تم، کے مصداق ان کی تاک میں ہیں۔ بادِ صبا کے جھونکے مسافروں کے استقبال میں پیش پیش ہیں۔ یوں بھی پاکستان کے کسی بھی خطے میں رہنے والے، کراچی کی شب بیدار ہواؤں سے لطف اندوز ہونے کو سعادت جانتے ہیں۔
کچھ ہی دیر گزری تھی کہ باقی لوگ بھی پہنچ گئے۔ قافلہ پورا ہوا تو ہوائی اڈے کے داخلی دروازے کی جانب بڑھے۔ سالارِ قافلہ استاذِ گرامی حضرت مفتی اویس پاشا قرنی صاحب دامت برکاتہم ہیں۔ ضروری کاروائی کے بعد ہوائی اڈے میں داخل ہوئے اور نمازِ فجر ادا کر کے انتظار گاہ میں بیٹھ گئے۔ بعض نے تلاوت اور بعض ساتھیوں نے اذکارِ مسنونہ کا ورد شروع کر دیا۔چائے جو کہ الہامی مشروب اور عظیم نعمتِ خداوندی ہے؛ ضروری تھا کہ اس کا دور چلے۔ اسی دوران پرواز میں داخلے کے لیے اعلان ہوا اور ہم قطار اندر قطار راہداری سے گزرتے ہوئے ترکش ایئرلائن کے جہاز میں داخل ہو گئے۔ انگریزی میں تہنیت قبول کرنے اور ماسک وصول کرنے کے بعد مقررہ نشست پر بیٹھ گئے۔ چھے گھنٹے کی اس پرواز کا ہمارا پہلا تجربہ تھا، اس لیے دل چسپی اور تجسس نے نیند کو کوسوں دور دھکیل دیا تھا۔ بائیں طرف ایک ادھیڑ عمر صاحب تھے جو امریکہ جا رہے تھے۔ ان سے بھی کچھ گفتگو ہوئی۔ اسی دوران فضائی میزبان نے پرواز کی روانگی کا اعلان کیا۔ حفاظتی بند باندھنے کے بعد، بتیاں بجھا دی گئیں۔ جہاز نے حرکت شروع کی۔ سرکنے، رینگنے، چلنے اور دوڑنے کے بعد جہاز نے رن وے کی اختتامی سمت لپکنا شروع کیا، اور ایک جھٹکے سے زمین کو چھوڑتے ہوئے اوپر کی طرف اٹھ گیا۔ یک لخت نگاہوں نے منظر بھی تبدیل کر دیا۔ وہ آنکھیں جو لمحہ بھر پہلے ہوائی اڈے کی چار دیواری تک محدود تھیں، اب ان میں ایک شہر کا منظر تھا۔ کروڑوں کی آبادی والا روشنیوں کا شہر۔ادھر جہاز بادلوں میں گم ہوا اور ادھر ہم میدانِ تخیل کی لامحدود وسعتوں میں کھو گئے۔ جس طرح جہاز کے اوپر اٹھنے سے زاویۂ نگاہ بدل گیا تھا اسی طرح اس پرواز میں موجود آٹھ افراد بھی ایک مختلف زاویۂ نگاہ رکھتے تھے۔ اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر اس دنیا کو دیکھنے کا عزم کر کے نکلے تھے۔ فاتح فاؤنڈیشن کا یہ قافلہ اگرچہ عدد میں چھوٹا تھا لیکن ان کا ارادہ انھیں پہاڑوں کی ہمسری پر مجبور کرتا تھا۔ آج سے دو سال قبل یعنی ۲۰۱۹ء میں ان اولوالعزم لوگوں نے فاتح فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی تھی۔ فاتح فاؤنڈیشن کے بنانے والوں کی نگاہوں میں عالمِ اسلام کی فلاح و بہبود اور انسانیت کی خدمت کا ولولہ جھلک رہا تھا۔ وہ خود کو یا اپنے مستقبل کو نہیں بلکہ دنیا کے مستقبل کو اپنا ہدف بنائے ہوئے تھے۔ بقولِ رسا چغتائی:
جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو |
میں ان آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہوں |
آج ان آٹھ افراد پر مشتمل یہ قافلہ تربیتی دورے پر ترکی جا رہا تھا جس کی سربراہی استاذِ محترم کر رہے تھے۔ عالمِ تخیل نے عالم مادی کی طرف متوجہ کیا تو نظر آیا کہ جہاز ہزاروں فٹ بلندی پر بادلوں کو چیرتا ہوا منزل کی جانب گامزن ہے۔ ہم انھی افکار میں ڈوبے ہوئے تھے کہ فضائی میزبان نے کھانا پیش کرنے کے لیے متوجہ کیا اور ہم ایک بار پھر خیالوں سے حقیقت کی دنیا میں اتر آئے۔ترک طرز کے ناشتے سے فارغ ہوتے ہی آنکھ لگ گئی۔ آنکھ کھلی تو پانچ گھنٹے کا سفر مکمل ہو چکا تھا۔ پرواز ہموار چال کے ساتھ رواں دواں رہی اور استنبول کے ہوائی اڈے پر اتر گئی۔ متعلقہ کاروائی کے بعد ہوائی اڈے کے احاطے میں نمازِ ظہر ادا کی۔ طویل راستے عبور کرنے کے بعد باہر آئے اور طے شدہ منصوبے کے مطابق ایک کشادہ گاڑی میں شہر کی طرف روانہ ہو گئے۔راستے میں ایک جگہ ظہرانے کے لیے اترے۔ یہ ترک روایتی کھانوں کے لیے معروف ’’کوفتہ جی یوسف‘‘کی ایک شاخ تھی۔کھانے میں سلاد، زیتون اور زیتون کے تیل کا استعمال بہت کثرت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ کھانے کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی تیار کردہ لسی (جسے وہ آئرن کہتے ہیں) استعمال کی جاتی ہے اور کھانے کے بعد قہوے کا دور چلتا ہے۔ابتدائی دو دنوں میں تو ترک قہوہ(جسے وہ ترک قہویسی کہتے ہیں) جبراً حلق میں انڈیلا کیے لیکن پھر اس نے ایسا ذائقہ دیا کہ ایک پیالہ کم لگنے لگا۔ وہاں عموماً پھیکا قہوہ پیا جاتا ہے۔ اگر چینی ڈالنی ہو تو چینی کے منجمد ٹکڑے کاغذ کی پنی میں لپٹے ہوئے رکھے ہوتے ہیں، انھیں استعمال کیا جاتا ہے۔ ظہرانے کے بعد اپنی رہائش گاہ کی طرف روانہ ہوئے۔ ہماری رہائش فاتح بلدیسی (بلدیہ)کے ایک محلے ’’کاراگمرُک‘‘میں تھی۔کارا گمرُک میں ہماری رہائش گاہ سے قریب ہی فاتح فاؤنڈیشن کا دفتر موجود ہے، جس کی نچلی منزل پر دفتری امور انجام پاتے ہیں۔درمیانی منزل میں طلبہ کے لیے تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری ہے۔ کچھ دیر قیلولہ کرنے کے بعد نمازِ عصر باجماعت ادا کی گئی، نمازِ مغرب میں کچھ دیر تھی چنانچہ فاتح مرکز کا مختصر سا دورہ کیا گیا۔ استنبول میں جن رہائشی عمارتوں میں جانا ہوا، وہاں ایک بات یکساں نظر آئی کہ ہر کمرے میں ایک ایک ہیٹر (جسے وہ قمبی کہتے ہیں) نصب ہے۔سارے ہیٹر ایک مرکزی نظام کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں۔ یہ نظام ایک الماری نما ڈبے پر مشتمل ہوتا ہے جس سے بیک وقت کمروں کے ہیٹر اور غسل خانوں کے گیزر فعال ہو جاتے ہیں۔ فاتح کے دفتر سے باہر آئے تو مغرب کا وقت قریب تھا۔ مغرب کی نماز ’’مہرماہ‘‘مسجد میں پڑھنے کا ارادہ تھا چنانچہ پیدل ہی مسجد کی جانب روانگی شروع ہوئی۔ ترکی میں مسجد کو’’جامی‘‘کہتے ہیں اور مہرماہ مسجد کو ’’مہرماہ سلطان جامی‘‘ کہا جاتا ہے۔ مشہور ہے کہ استنبول شہر میں سات چوٹیاں ہیں اور ہر چوٹی پر ایک مسجد ہے۔ مہرماہ بھی انھی میں سے ایک ہے جسے مشہور ماہرِ تعمیرات ’’معمارسنان متوفی۱۵۸۸ء‘‘ نے تعمیر کیا۔ معمارسنان عثمانی سلاطین کا سرکاری معمار اور عثمانی طرزِ تعمیر کا ماہر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ معمار سنان مذہباً عیسائی تھا اور اناطولیہ کے ایک عیسائی خاندان کا فرد تھا۔عثمانی افواج میں ملازمت کی اور اسلام قبول کیا۔سلطان سلیم کے لشکر میں نمایاں کارکردگی پر پیادہ دستے کی قیادت حاصل کی اور فتحِ قاہرہ میں حصہ لیا۔بعد میں توپ خانے کا انتظام سنبھالا اور ایران کے خلاف جنگ میں اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ متعدد مساجد تعمیر کیں۔ عظیم معمارسنان نے پہلی مسجد’’شہزادہ مسجد‘‘ تعمیر کی۔ معمار سنان کی دیگر مساجد میں سلیمیہ مسجد، سلیمانیہ مسجد، مہرماہ مسجد اسکودار اور مہرماہ مسجد ادرنہ کاپے شامل ہیں۔ مہرماہ مسجد اسکودار کی تعمیر پہلے مکمل ہوئی اور مہرماہ مسجد ادرنہ کاپے کی بعد میں۔ یہ دونوں مساجد شہزادی مہرماہ سلطان کے حکم پر بنائی گئیں۔ ہم نے نمازِ مغرب اسی مسجد میں ادا کی۔ نماز سے قبل ہی مسجد میں داخل ہو چکے تھے۔ اذان کا وقت ہوا تو ایک صاحب نے مؤذن کی عدم موجودگی کے سبب استاذِ محترم کو اذان کی پیشکش کی۔ استاذِ محترم نے شکریے کے ساتھ ان کی پیشکش کو مسترد کر دیا۔ ہمیں تعجب ہوا کے ایسی مسجد میں اذان کا شرف کیونکر حاصل نہ کیا۔ نگاہوں میں استفہام پا کر حضرت نے فرمایا کہ یہاں صرف اذان ہی نہیں دینی ہوتی، نماز کے بعد بھی نشریات جاری رہتی ہیں۔خیر، ایک مقامی صاحب نے اذان دی۔ جماعت کھڑی ہوئی تو ایک جواں سال امام نے امامت کرائی۔ مؤذن کی اذان نے تو متاثر کیا ہی تھا، امام صاحب کی قراءت نے بھی صہباے ایمان کو دوآتشہ کر دیا۔ نماز مکمل ہوئی تو مؤذن نے ترنم کے ساتھ اذکار پڑھنے شروع کیے۔ پھر تمام مقتدیوں کو تسبیحِ فاطمہ (یعنی ۳۳ دفعہ سبحان اللہ،۳۳ دفعہ الحمدللہ اور ۳۴ دفعہ اللہ اکبر) کا ورد کرایا۔ذکر کے بعد امام صاحب نے مصری طرز پر قراءت شروع کی اور نہایت خوش الحانی اور عمدگی کے ساتھ قراءت کی۔ ترکی کی جتنی مساجد میں بھی ہم نے نماز ادا کی، سب میں یہ معمول دیکھا کہ فرض نماز کے بعد امام قراءت کرتے ہیں اور تمام ہی ائمہ باقاعدہ فنِ قراءت سیکھے ہوئے تھے جو مختلف لہجوں میں قراءت کرتے تھے۔ نماز کے بعد مسجد کا مختصر دورہ کیا گیا۔ مسجد کے داخلی حصے پر ایک کتبہ لگا ہوا ہے جس میں مسجد کی درج ذیل تفصیلات تحریر ہیں:
اس احاطے کو مہرماہ سلطان کی فرمائش پر معمارسنان نے ۱۵۶۵ء میں تعمیر کیا۔ اس احاطے میں ایک مسجد، ۱۷ درس گاہوں پر مشتمل ایک تعلیمی ادارہ، چھوٹے بچوں کے لیے ایک مدرسہ، ایک مقبرہ، ایک فوارہ اور چند دکانیں شامل ہیں۔ مستطیل شکل کی یہ مسجد دو منزلہ ہے۔ وسیع گنبد، ۲۰۴ کھڑکیوں اور ایک منار کے ساتھ یہ مسجد طویل عرصے سے سطوتِ اسلام کا علم تھامے کھڑی ہے۔ ہم مہرماہ مسجد سے باہر آئے اور اسی سڑک پر ذرا آگے بڑھے تو سڑک کے ساتھ ایک قبر نظر آئی۔ معلوم ہوا کے سلطان محمد فاتح کے اکمک چی (نانبائی) کی قبر ہے جن کا انتقال فتحِ قسطنطنیہ سے قبل اسی مقام پر ہوا تھا۔ اسی سڑک سے بائیں طرف کو مڑتے ہیں تو بابِ ادرنہ کا مقام آتا ہے جسے ترکی میں ادرنہ کاپے کہا جاتا ہے۔ یہاں وہ دروازہ موجود تھا جہاں سے بوقتِ فتح؛ سلطان محمد فاتح براستہ ادرنہ قسطنطنیہ میں داخل ہوئے تھے۔ دل چسپی کی بات یہ ہے کہ پورے استنبول میں جا بجا عثمانی دورِ حکومت کی یادگاریں موجود ہیں۔ اگر دلوں سے اس دور کی عظمت نکالنے کی جدوجہد کر بھی لی جائے تو بھی قدیم پتھروں کی یہ دیواریں اور عمارتیں سلطنتِ عثمانیہ کے شاندار ماضی کو پکار پکار کر بیان کرتی ہیں۔
ادرنہ کاپے سے فصیلِ قسطنطنیہ کو بہت قریب سےدیکھا۔وہ عظیم الشان اور مضبوط فصیل،جسے بازنطینی اپنا آخری سہارا سمجھتے تھے،وہ فصیل آج بھی اسباب پر بھروسہ رکھنے والوں کے لیے، انسانی قوت پر ناز کرنے والوں کے لیے سامانِ عبرت ہے۔ آج نہ ہی دیوارِ قسطنطنیہ کے معماروں کو یاد کیا جاتا ہے اور نہ ہی سومنات کے شہ سواروں کا نام لیا جاتا ہے۔اگر نام زندہ ہے تو وہ سلطان محمد فاتح کا ہے یا سلطان محمود غزنوی کا ہے،جنھوں نے خداے واحد و یکتا کے بھروسے پر خود کو باطل سے ٹکرا دیا۔ یہ عظیم فصیل، جو عہدِ صحابہ سے عثمانیوں تک، نجانے کتنے ہی معرکوں کی جولان گاہ اور کتنی ہی داستانوں کی امین ہے،استنبول کے مختلف مقامات سے نظر آتی ہے۔کہیں سالم اور کہیں شگاف زدہ۔ بشارتِ محمدیﷺکے حصول کی خاطر بہت سے سرفروشوں نے اس ناقابلِ تسخیرفصیل سے خود کو ٹکرا دیا لیکن یہ مقدس خِلعت سلطان محمد فاتح کے حصے میں لکھی تھی۔ جب ذکر سلطان محمد فاتح کا چل نکلا ہے تو کیوں نہ سلطان کے مزار پر بھی حاضری کا شرف حاصل کیا جائے۔ادرنہ کاپے سے ہم اپنا رخ فاتح مسجد کی طرف موڑتے ہیں۔
نمازِعشا سلطان فاتح مسجد میں ادا کرنے کا ارادہ تھا۔مسجد جاتے ہوئے بائیں طرف ایک گہری جگہ دکھائی دی۔بتایا گیا کہ اسے ’’چُکربستان‘‘ کہتے ہیں۔استنبول کے لیے صاف پانی کی گزرگاہ ہے جس کا پاٹ آگے چل کر تنگ ہو جاتا ہے۔فاتح بلدیہ کا یہ حصہ بلندی پر واقع ہے،اس لیے پانی کی گزرگاہ کافی نیچے نظر آ رہی تھی۔ذرا آگے گئے تو یہ گزرگاہ بہت بلندی پر نظر آئی۔کسی زمانے میں یہ عظیم قسطنطنیہ کے لیے ندی کا کام دیتی تھی۔بعد میں اسے کھیل کے میدان میں تبدیل کر دیا گیا۔اسی کنارے چلتے چلتے سلطان محمد فاتح مسجد کے داخلی دروازے تک جا پہنچے۔مسجد کے دالان میں نظر پڑتے ہی عجیب منظر دکھائی دیا،بلکہ یوں کہیے کہ اس نظارے کی حیرت نے ہمیں چند لمحوں کے لیے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔