لاگ ان

منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

لاگ ان

منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

مولانا محمد اقبال
رکن شعبۂ تحقیق و تصنیف

سورہ یونس آیت نمبر: ۵۷۔۵۸

﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ‎﴿﴾‏قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ﴾

’’لوگو تمہارے پاس ایک ایسی چیز آئی ہے جو تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک نصیحت ہے، اور دلوں کی بیماریوں کے لیے شِفا ہے، اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت کا سامان ہے۔ (اے پیغمبر) کہو کہ : یہ سب کچھ اللہ کے فضل اور رحمت سے ہوا ہے ، لہذا اسی پر تو انھیں خوش ہونا چاہیے ، یہ اس تمام دولت سے کہیں بہتر ہے جسے یہ جمع کر کر کے رکھتے ہیں‘‘۔

تفسیرو توضیح

مذکورہ آیات میں فرمایا گیا ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی ایک ایسی کتاب ہے جو نصیحت ، شفا ، ہدایت ا ور رحمت جیسے فوائدِ عظیمہ کی جامع اور پروردگار کی طرف سے لوگوں کے لیے عظیم الشان نعمت ہے۔لہذا لوگوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے ممکن ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے انھیں ہدایت دی اور انھیں دین حق یعنی اسلام عطا فرمایا۔ بلا شبہہ اسلام جس کی طرف انھیں بلایا جا رہا ہے اور قرآن جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر نازل فرمایا ہے دنیا کی چند روزہ رونق سے کہیں بہتر ہیں ،اسی پر تو انھیں خوش ہونا چاہیے ۔ یہاں اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے ایک آفاقی حقیقت کی طرف رہنمائی فرمائی ہے کہ لوگو ں کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت ہی کو خوشی کی اصل چیز سمجھیں، دنیا کی چند روزہ راحت و عزت اور مال و دولت خوش ہونے کی چیز نہیں کیونکہ یہ جتنی بھی زیادہ ہو مگر بالآخر اسے زوال کا سامنا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت تمام مال و دولت اوردنیاوی سلطنت و وجاہت جنھیں انسان اپنے لیے زندگی کا سرمایہ سمجھتا ہےسے بدرجہا بہتر و برتر ہے ، کیونکہ رحمت خداوندی ایک دائمی نعمت ہے جو نہ ختم ہونے والی ہے اور نہ ہی زائل ہونے والی ہے۔

﴿وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ﴾ ’’اور دلوں کی بیماریوں کے لیے شِفا ہے‘‘۔ مذکورہ آیات میں پہلی آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’لوگو! تمہارے پاس ایک ایسی چیز آئی ہے جو تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک نصیحت ہے، اور دلوں کی بیماریوں کے لیے شِفا ہے‘‘۔ یعنی قرآن کریم نصیحت ہےاور دل کی بیماریوں کے لیے شِفا ہے، اسی کے ذریعے دلوں کے امراض مثلاً کینہ ،ریا، حسد، بغض ، تکبراور عقائدباطلہ جیسے شرک وغیرہ سے شِفا نصیب ہوتی ہے۔چنانچہ تفسیر سعدی میں اس کی تفسیر یوں کی گئی ہے:﴿وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ﴾وهو هذا القرآن، شفاء لما في الصدور من أمراض الشهوات الصادة عن الانقياد للشرع وأمراض الشبهات القادحة في العلم اليقيني (تيسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان ،ص:۳۶۶ ، الناشر: مؤسسة الرسالة ،الطبعة الأولى ، ۱۴۲۰ھ) ’’اوریہ قرآن شفا ہے دلوں کے لیے ان نفسانی خواہشات و شہوات کے امراض سے جو رکاوٹ بنتے ہیں شریعت کے سامنے سر جھکانے میں اوراسی طرح شبہات کے امراض سے جو علم یقینی میں شکوک پیدا کرتے ہیں‘‘۔

اسی طرح تفسیر بغوی میں اس کی تفسیر فرمائی گئی ہے:﴿وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ﴾ أي: دواء لما في الصدور من داء الجهل، وقيل: لما في الصدور، أي: شفاء لعمى القلوب.(تفسير البغوي،ج:۲ ،ص: ۴۲۳ ،الناشر :دار إحياء التراث العربي بيروت ،الطبعة الأولى :۱۴۲۰ھ) ’’اوریہ قرآن شفا ہے دلوں کے لیے‘‘ یعنی دلوں میں جو جہالت ہے یہ اس کا علاج ہے۔اوراس کی تفسیر میں یہ قول بھی اختیار کیا گیا ہے کہ شفا کا مطلب ہے قرآن دلوں کے اندھے پن کے لیے علاج ہے۔

﴿وَ هُدًی وَّ رَحمَةٌ لِّلمُؤمِنِینَ﴾’’اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت کا سامان ہے‘‘۔یہاں فرمایا گیا ہے کہ قرآن کریم اہل ایمان کے لیے ہدایت اور رحمت کا ذریعہ ہے یعنی اس میں لوگوں کے لیے وعظ و نصیحت، ترغیب و ترہیب اور وعد و وعید ہیں جو بندوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اسی طرح قرآن ایک ایسا نور ہے جس کے ذریعے انسان حق اور باطل میں امتیاز کرنے کی صلاحیت سے متصف ہوجاتا ہے۔

صاحب تفسیر بغوی فرماتے ہیں:وهدى من الضلالة، ورحمة للمؤمنين، والرحمة هي النعمة على المحتاج ، فإنه لو أهدى ملك إلى ملك شيئا ،لا يقال قد رحمه، وإن كان ذلك نعمة فإنه لم يضعها في محتاج(تفسير البغوي، ج:۲ ،ص: ۴۲۳)’’قرآن کریم ہدایت ہے گمراہی سے اور اہل ایمان کے لیے رحمت ہے، جبکہ رحمت ایسے انعام کو کہتے ہیں جو ایسے شخص پر کیا جائے جواس کا محتاج ہو ، اس لیے کہ اگر کوئی بادشاہ کسی دوسرے باد شاہ کو کوئی چیز ہدیہ کرتا ہے تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے دوسرے بادشاہ پر رحم کیا،اگرچہ یہ بھی انعام ہے مگر اس نے محتاج پر نہیں کیااس لیے اسے رحمت نہیں کہیں گے‘‘۔مذکورہ آیت مبارکہ کی تأ ئید قرآن کریم کے دوسرے مقام سورہ ٔ بنی اسرائیل میں کی گئی ہے ، ارشاد ربانی ہے:﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا﴾’’اور ہم وہ قرآن نازل کر رہے ہیں جو مؤمنوں کے لیے شفا اور رحمت کا سامان ہے، البتہ ظالموں کے حصے میں اس سے نقصان کے سوا کسی اور چیز کا اضافہ نہیں ہوتا‘‘۔

﴿قُل بِفَضلِ اللّٰهِ وَ بِرَحمَتِه ،فَبِذٰلِکَ فَلیَفرَحُوا﴾’’(اے پیغمبر) کہو کہ : یہ سب کچھ اللہ کے فضل اور رحمت سے ہوا ہے ، لہذا اسی پر تو انھیں خوش ہونا چاہیے ‘‘۔ اس آیت مبارکہ میں دو چیزوں کو فرحت و مسرت کا سامان قرار دیا گیا ہے، ایک فضل دوسرے رحمت کو ،ان دونوں سے یہاں کیا مراد ہے ؟ اس کے متعلق مفسرین کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں:

مجاہد اور قتادہ رحمہما اللہ فرماتے ہیں: فضل الله: الإيمان، ورحمته: القرآن.(تفسير البغوي ،ج:۲ ،ص: ۴۲۳)

ترجمہ: فضل اللہ سے مراد ایمان ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مراد قرآن ہے۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: فضل الله: القرآن ورحمته أن جعلنا من أهله. (تفسير البغوي ،ج:۲ ،ص: ۴۲۳) ’’فضل اللہ سے مراد قرآن ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس قرآن کا اہل بنادیا، یعنی قرآن پر ایمان رکھنے والا بنادیا‘‘۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: فضل الله:الإسلام، ورحمته: تزيينه في القلب. (تفسير البغوي ،ج:۲ ، ص : ۴۲۳) ’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے مراد اسلام ہے جبکہ اس کی رحمت سے مراد اسلام کو دل میں مزیّن اور خوش کن بنانا ہے۔

خالد بن معدان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:فضل الله: الإسلام، ورحمته: السنن. (تفسير البغوي، ج:۲ ، ص: ۴۲۳) ’’اللہ کے فضل سے مراد اسلام جبکہ اس کی رحمت سے مراد سنن ہیں‘‘ ۔

بعض لوگوں کا یہ قول بھی ہے: فضل الله: الإيمان، ورحمته: الجنة. (تفسير البغوي ،ج:۲ ،ص: ۴۲۳) ’’اللہ کے فضل سے مراد ایمان جبکہ اس کی رحمت سے مراد جنت ہے‘‘۔

﴿فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا﴾ أي: ليفرح المؤمنون أن جعلهم الله من أهله،﴿هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ﴾ أي: مما يجمعه الكفار من الأموال، (تفسير البغوي ،ج:۲ ،ص: ۴۲۳) ’’اسی پر تو انھیں خوش ہونا چاہیے ، یعنی مؤمنین کو خوش ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں کو اسلام اور قرآن جیسی عظیم نعمت کا اہل بنادیا ہے۔ یہ اس تمام دولت سے کہیں بہتر ہے جسے یہ جمع کر کر کے رکھتے ہیں، یعنی کفار جو اموال جمع کر کے رکھتے ہیں ، ان کے مقابلے میں اسلام اور قرآن کی نعمت کہیں بہتر و برتر ہے۔

تفسیر سعدی میں اس کی تفسیر یوں فرمائی گئی ہے: ﴿فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ﴾ من متاع الدنيا ولذاتها‏. (تيسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان ،ص:۳۶۶) ’’اسی (اسلام اور قرآن) پر تو انھیں خوش ہونا چاہیے ، یہ اس تمام دولت سے کہیں بہتر ہے جسے یہ جمع کر کر کے رکھتے ہیں، یعنی دنیا کے ساز و سامان اور لذات سے‘‘۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کی تفسیر میں رسول اللہ ﷺ کا ایک قول نقل کرتے ہیں:«مَنْ هَدَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِلْإِسْلَامِ وَعَلَّمَهُ الْقُرْآنَ، ثُمَّ شَكَا الْفَاقَةَ كَتَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْفَقْرَ بَيْنَ عَيْنَيْهِ إِلَى يَوْمِ يَلْقَاهُ ،ثُمَّ تَلَا النَّبِيُّ ﷺهَذِهِ الْآيَةَ: ﴿قُل بِفَضلِ اللّٰهِ وَ بِرَحمَتِه فَبِذٰلِکَ فَلیَفرَحُوا، هُوَ خَیرٌ مِّمَّا یَجمَعُونَ﴾مِنْ عَرَضِ الدُّنْيَا مِنَ الْأَمْوَالِ»(أمالي ابن بشران ،حدیث:۴۹۳ ، الناشر: دار الوطن الرياض ، الطبعة الأولى : ۱۴۱۸ھ)’’جس شخص کی اللہ تعالیٰ نے اسلام کی طرف رہنمائی کی ہو اور اسے قرآن سکھایا ہو، پھر بھی وہ فاقے کی شکایت کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے حق میں روز قیامت تک کے لیے فقر و محتاجی لکھ لیتا ہے۔ پھر رسول اللہﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿قُل بِفَضلِ اللّٰهِ وَ بِرَحمَتِه فَبِذٰلِکَ فَلیَفرَحُوا، هُوَ خَیرٌ مِّمَّا یَجمَعُونَ﴾’’ (اے پیغمبر) کہو کہ : یہ سب کچھ اللہ کے فضل اور رحمت سے ہوا ہے ، لہذا اسی پر تو انھیں خوش ہونا چاہیے ، یہ اس تمام دولت سے کہیں بہتر ہے جسے یہ جمع کر کر کے رکھتے ہیں۔ یعنی دنیا کے مال و اسباب سے‘‘۔

خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحمت یعنی قرآن ، اسلام اورایمان اللہ تعالیٰ کے بندوں پر اللہ کا ایک عظیم انعام و احسان ہے، انھیں اس پر خوش ہونا چاہیے ۔اس لیے کہ یہ خوش ہونے کی چیز ہے اور یہ دنیا کے ساز و سامان اور منصب و عزت سے کہیں بہتر ہےکیونکہ اسلام اور قرآن جیسی نعمت جسے بقاے دوام حاصل ہے اس کے مقابلے میں دنیا کی ساری نعمتیں اور لذتیں فانی اور چند روزہ ہیں۔لہذا اصل خوش ہونے کی چیز اسلام اور قرآن ہے نہ کہ عارضی دنیا کی لذتیں اور نعمتیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام اور قرآن جیسی عظیم نعمت پر شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔

لرننگ پورٹل