مفتی اویس پاشا قرنی
مدیر فقہ اکیڈمی،کراچی
ترکی کے حالیہ سفر میں مكتبۃ الارشاد سے شائع ہونے والی کتاب’’فضل علم السلف علی علم الخلف‘‘پر نظر ڈالنے کا موقع ملا۔یہ آٹھویں صدی ہجری کے جلیل القدر امام حافظ ابنِ رجب حنبلی رحمہ اللہ کی عمده فکری تاليف ہے۔اگر چہ بعض جگہ سادات ِحنفیہ پر جرح پائی جاتی ہے مگر اپنے موضوع پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے۔طالبانِ علومِ دینیہ کے لیے اس کا مطالعہ مفید ہے۔امامِ موصوف ایک روایت لائے ہیں جو توجہ طلب ہے۔:«إِنَّ مِنَ البَيَانِ سِحْرًا وَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ جَهْلًا» (سنن أبي داؤد،کتاب الأدب،باب ماجاء في الشعر)’’ بعض بيان جادو اثر ہوتے ہیں اور بعض علم حقيقتًا جہل پر مبنی ہوتے ہیں‘‘۔یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ روایت کا پہلا حصہ جو عام طور پر مثبت معنوں میں سمجھا جاتا ہے،اس جگہ منفی معنی پر دلالت کررہا ہے۔یعنی ہر شعلہ بیان،قادر الکلام اور فصیح اللسان شخص کی سحر بیانی ضروری نہیں کہ نافع ہی ہو بلکہ یہ ضار و مضر بھی ہو سکتی ہے۔امام ابنِ رجب الحنبلی رحمہ اللہ اس طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:وإنما قاله في ذَمِّ ذلك لا مدحا له كمَا يظُنُّ ذلك مَنْ ظَنَّهُ وَمَنْ تَأَمَّلَ سِيَاقَ ألفاظِ الحديث قَطَعَ بذلك’’بیان و خطاب کے بارے میں آپ ﷺ کا یہ فرمان،اس کی مذمت میں وارد ہوا ہے نہ کہ اس کی مدح و تعریف میں جیسا کہ بعض لوگوں کو اس کے مقامِ مدح میں ہونے کا گمان ہوا ہے۔جو شخص الفاظ ِ حدیث کے سیاق پر غور کرے گا اسے یہ بات قطعی طور پر معلوم ہو جائے گی(کہ یہ مقامِ ذم ہے نہ کہ مدح)‘‘حدیثِ مندرجہ بالا میں بیان کی سحر انگیزی کے مقامِ ذم میں ہونے کا علم اس حدیث کے شانِ ورود سے بھی حاصل ہوتا ہے۔سیّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:قَدِمَ رَجُلَانِ مِنَ المَشْرِقِ فَخَطَبَا،فَعَجِبَ النَّاسُ لِبَيَانِهِمَا،فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ «إِنَّ مِنَ البَيَانِ لَسِحْرًا» (بخاری شریف)’’مشرق کی طرف سے دو شخص رسول اللہﷺکے پاس آئے اور انھوں نے خطاب کیا۔لوگ ان کی خطابت سے بہت متاثر ہوئے۔پس رسول اللہﷺنے فرمایا:’’بےشک بعض خطاب تو جادو ہوتے ہیں‘‘۔صحیح ابنِ حِبّان کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب مشرقی خطیبوں کی وہ جوڑی اپنی تقریر کا جادو جگا چکی تو ان کے مقابلے پر حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے: فَتَكَلَّمَ فَعَجِبُوا مِنْ كَلَامِهِ’’انھوں نے کلام کیا لوگ ان کے کلام سے بھی متعجب ہوئے‘‘۔اس پر رسول اللہﷺ کھڑے ہوئے اور بیان کو سحر انگیزی قرار دینے کے ساتھ یہ بھی فرمایا: » يَا أَيُّهَا النَّاسُ قُولُوا بِقَوْلِكُمْ فَإِنَّمَا تَشْقِيقُ الْكَلَامِ مِنَ الشَّيْطَانِ فَإِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا» ’’ا ے لوگو!اپنے عام اور سادہ الفاظ میں بات کہہ دیا کرو کہ لچھے دار گفتگو اور لفاظی کا مظاہرہ کرنا شیطان کی طرف سے ہے،پس بے شک بعض شعلہ بیانیاں تو جادو ہوتی ہیں‘‘۔اس حدیث کے ایک راوی صَعصہ بن صُوحان رحمہ اللہ،اس مذمت کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:فَالرَّجُلُ يَكُونُ عَلَيْهِ الْحَقُّ وَهُوَ أَلْحَنُ بِالْحُجَجِ مِنْ صَاحِبِ الْحَقِّ،فَيَسْحَرُ الْقَوْمَ بِبَيَانِهِ فَيَذْهَبُ بِالْحَقِّ’’کبھی حق کسی انسان کے خلاف ہوتا ہے اور وہ انسان حجت بازی میں صاحبِ حق کے مقابلے میں زیادہ اچھی طرح زبان چلاتا ہے اور اپنی لسّانی سے لوگوں پر جادو کر کے حق کو(اپنے حق میں)لے جاتا ہے‘‘۔(سنن ابی داؤد)قوّتِ بیان کا مقامِ ذم میں ذکر ایک مزید فرمانِ رسول اللہﷺمیں ملتا ہے اور یہاں روے سخن ِکریمﷺخطبے کی طوالت کی طرف ہے فرمایا: «إِنَّ طُولَ صَلَاةِ الرَّجُلِ وَقِصَرَ خُطْبَتِهِ مَئِنَّةٌ مِنْ فِقْهِهِ فَأَطِيلُوا الصَّلَاةَ وَاقْصُرُوا الْخُطْبَةَ وَإِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا» (مسلم شریف)’’بے شک بندے کی لمبی نماز اور مختصر خطبہ اس کی فقاہت کی نشانی ہے پس تم نماز کو لمبا کرو اور خطبے کو مختصر کرو اور بے شک بعض خطبے تو جادو انگیز ہوتے ہیں‘‘۔ اب آتے ہیں حدیثِ زیرِ مطالعہ کے دوسرے حصے«إِنَّ مِنَ الْعِلْمِ جَهْلًا»کی طرف،امام ابنِ رجب رحمہ اللہ نے جاہل علم کے مختلف مصداقات نقل کیے ہیں۔پہلا تو یہ کہ أن يَتَكَلَّفَ العالِمُ إلی عِلْمِهِ مالا يَعْلَمُ فَيَجْهَلُهُ ذلك’’عالم اپنے علم(کے اظہار)میں تکلف سے کام لے کر ان امور میں ملوث ہو جائے جن کا علم وہ نہیں رکھتا تو یہ جہالت کا مرتکب ہو رہا ہے‘‘۔’’علم کے پردے میں جہالت‘‘کی دوسری مراد وہ علوم ہیں جو اپنی ذات ہی میں ممنوع اورمنبعِ جہالت ہیں۔امام لکھتے ہیں:ويُفَسَّرُ أيضا بأنَّ الْعلمَ الّذي يَضُرُّ ولا يَنْفَعُ جَهْلٌ.لِأَنَّ الْجَهْلَ بِه خَيْرٌ مِنَ الْعِلْمِ به.فإذا كان الجهلُ به خيراً مِنْه فهو شَرٌّ من الجهلِ وهذا كَالسِّحْرِ وغَيْرِه مِنَ الْعُلُومِ الْمُضِرَّةِ في الدِّينِ أو في الدنيا’’اور حدیث کی شرح یوں بھی کی جاتی ہے کہ وہ علم جو نقصان تو دیتا ہے لیکن فائدہ نہیں دیتا وہ جہل کی مانند ہے اور ایسے علم سے لاعلم رہنا ہی بہتر ہے۔پس جب ایسے علم سے جہل بہتر ہوا تو یہ علم جہالت سے بھی زیادہ برا ہےاور اس قسم میں جادو وغیرہ اور وہ علوم شامل ہیں جو دینی یا دنیاوی اعتبار سے نقصان دہ ہوں‘‘۔علم میں جہالت کی ایک مثال وہ علوم ہیں جو اصل کے اعتبار سے تو جائز ہیں لیکن ان میں غلو کی وجہ سے وہ جہالت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ان میں سے ایک انساب کا علم ہے۔مراسیلِ ابی داؤد میں ایک روایت نقل ہوئی ہے:سرورِ دوعالمﷺکے سامنے ایک شخص کا ذکر کیا گیا کہ فلاں بڑا علم والا ہے۔آپ نے فرمایا کس کی بابت علم رکھتا ہے؟عرض کیا گیا:’’نسب ناموں کے بارے میں‘‘۔آپﷺنے فرمايا:«علمٌ لا يَنْفَعُ وجَهَالَةٌ لا تَضُرُّ»’’یہ ایسا علم ہے کہ اس کا نفع کوئی نہیں اور اس سے ناواقفی نقصان دہ نہیں ہے‘‘۔چنانچہ امام ابنِ رجب رحمہ اللہ نے رسولِ خداﷺاور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ایک قول نقل کیا ہے:تعلَمُوا مِنْ أَنسابِكم ما تَصِلُون به أَرْحَامَكُم ثم انْتَهوَاء وَتَعْلَمُوا مِنَ الْعَرَبِيَّةِ مَا تَعْرِفُونَ بِه كتاب اللهِ ثم انتهوا،وتَعْلَمُوا مِنَ النُّجُومِ مَاتَهْتَدَوْنَ بِه في الظلماتِ البَرِّ والبَحْرِ ثم انتهوا’’انساب کا اتنا علم حاصل کرو جس سے اپنے رحمی رشتوں کو پہچان لو پھر رک جاؤ،عربی کا اتنا علم حاصل کرو جس سے تم کتاب اللہ کو جان سکو پھر رک جاؤ اور ستاروں کا اتنا علم حاصل کرو جس سے خشکی و تری کے اندھیروں میں راستے پا سکو‘‘۔معلوم ہوا کہ ان علوم میں خوض اور غلو مفید نہیں بلکہ انہماک کا مفید درجہ معلوم کر کے اُس پر اکتفا کرنا چاہیے اور مضر سے احتراز کی کوشش کرنی چاہیے۔آج جدید سائنس نے جو رویہ بنا رکھا ہے کہ علمِ اشیا(طبعیات)میں لایعنی خوض ایک قابلِ تعریف رجحان بن کر سامنے آیا ہے،یہ اندازِ فکر بھی اسلامی روایت سے میل نہیں کھاتا اور غلو پر مبنی ہے۔علم میں جہالت کی ایک مثال’’قلتِ عمل اور کثرتِ جدل‘‘ہے۔امام ابنِ رجب رحمہ اللہ نے شیخ معروف الکرخی کا یہ قول نقل کیا ہے:إذا أرادَ اللهُ بِعبدٍ شَراً أَغْلَقَ عنه بابَ الْعملِ وفَتَحَ له بابَ الجَدْلِ’’جب اللہ تعالی کسی بندے کے ساتھ برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے لیے عمل کا دروازہ بند کر کے جدل(بحث و مجادلے)کا دروزاہ کھول دیتا ہے‘‘۔آج ہمارے معاشرے میں دینی موضوعات پر بحث مباحثہ بہت پسند کیا جاتا ہے اور یقیناً یہ خوے بد میڈیا کی پروردہ ہے اور علماے دین بھی اس دنگل کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔جبکہ امام مالك رحمہ الله سے کسی نے پوچھا کہ عالم کا رویہ کیا ہونا چاہیے،کیا بحث مباحثہ میں حصہ لے؟آپ رحمہ اللہ نے فرمایا:لا،ولکن يُخْبِرُ بِالسُّنَّةِ فَإِنْ قَبِلَ منه وإلا سَكَتَ’’سنت کا علم عام کرے،اگر لوگ قبول کرتے ہوں تو فبہا ورنہ خاموشی اختیار کرے‘‘۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول بھی،امام ابنِ رجب رحمہ اللہ نے نقل فرمایا ہے:المِراءُ والجِدَالُ في العلمِ يَذْهَبُ بنورِ الْعِلمِ’’بحث و تکرار اور مجادلہ نورِ علم کو برباد کر دیتا ہے‘‘۔امام مالک رحمہ اللہ کا یہ بھی فرمانِ عالی شان ہے:المراءُ في العلم يُقسي القلبَ ويورثُ الضعنَ’’علم کی باتوں میں جھگڑا کرنا دل کی سختی اور باہمی عداوت کا ذریعہ ہے‘‘۔بد قسمتی سے آج طالبِ علم اس بات پر فخر کرنے لگے ہیں کہ میں نے فلاں سے بحث کی اور اُسے چت کردیا وغیره جبکہ ہمارے اسلاف کے لیے شرف یہ تھا کہ امام ابراہيم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ما خاصَمْتُ قَطُّ’’میں نے کبھی کسی سے بحث نہیں کی‘‘۔علامہ ابنِ رجب الحنبلی رحمہ اللہ نے امام عبد الكريم الجزری رحمہ اللہ کا ایک قول نقل کیا ہے:ما خَاصَمَ ذو وَرِعٍ قَطُّ’’کوئی صاحبِ تقوی بحث میں نہیں پڑتا‘‘۔امام جعفرِ صادق رحمہ اللہ کا قول انھوں نے نقل کیا ہے:إیَّاكُمْ وَالْخُصُوماتِ في الدينِ فإنَّها تَشْغَلُ القلبَ وتورِثُ النفاقَ’’دینی معاملات میں جھگڑو ں سے بچو،اس لیے کہ وہ دل کو(یادِ الہی اور فکرِ آخرت سے)مشغول کر دیتے ہیں اور نفاق کا ذریعہ بنتے ہیں‘‘۔یہ آثار پیش کرنے کے بعد امام ابنِ رجب رحمہ اللہ تبصرہ فرماتے ہیں:وقَدْ فُتِنْ كثيرٌ مِنَ المتأخرينَ بهذا فَظَنُّوا أنَّ مَنْ كَثُرَ كلامُه وجِدَالُه وخِصَامُه في مسائلِ الدّينِ فهو أَعْلَمُ مِمن ليسَ كذلك وهذا جَهْلٌ محضٌ’’متاخرین کی کثیر تعداد اس معاملے میں مبتلاے آزمائش ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ جو مسائلِ دین میں کثرت سے کلام کرتا ہے اور بحث و تکرار اور مجادلے میں مصروف رہتا ہے وہ دوسرے علما کی بہ نسبت زیادہ بڑا عالم ہے اور یہ جہالت کے سوا کچھ نہیں ہے‘‘۔امام آگے چل کر لکھتے ہیں کہ’’ہمیں ایسے جاہل لوگوں سے پالا پڑا ہے جو بعض بڑھ بڑھ کر بولنے والوں کو متقدمین سے بڑا عالم سمجھتے ہیں۔بلکہ بعض لوگوں کے مقالات و بیانات کی کثرت کو دیکھ کر انھیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین تک سے افضل سمجھتے ہیں‘‘۔اندازه فرمائیں کہ امام موصوف اُس دور میں خود کو مبتلاے آزمائش سمجھتے ہیں تو اندازہ کریں کہ ان کے زمانے کے بالمقابل آج کی صورتِ حال کس قدر بگڑ چکی ہے۔جبکہ سمجھا یہ جاتا ہے کہ جس کے میڈیا پر بیانات جتنے زیادہ ہیں اور جو اختلافی مسائل میں زیادہ کلام کرتا ہے وہ اتنا بڑا عالم ہے!امام نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے:إِنَّكُمْ فِي زَمَانٍ كَثِيرٍ عُلَمَاؤُهُ قَلِيلٍ خُطَبَاؤُهُ،وَسَيَأْتِي بعدَكم زَمَانٌ قَلِيلٌ عُلَمَاؤُهُ كثيرٌ خُطَبَاؤُهُ’’بے شک تم ایک ایسے زمانے میں ہو جب کہ علما کثرت سے ہیں اور خطبا تھوڑے ہیں اور عنقریب تمھارے بعد ایسا دور آئے گا کہ علما تھوڑے ہوں گے اور خطبا زیادہ ہوں گے‘‘۔کتاب کے اختتام پر حافظ ابنِ رجب رحمہ اللہ نے ایک فصل قائم فرمائی ہے جس میں حقیقی اہلِ علم اور غیر حقیقی صاحبان بلکہ مدعیانِ علم کی صفات بیان کی ہیں لکھتے ہیں:وأما مَنْ عِلْمَهُ غيرُ نافعٍ فلیس له شُغْلٌ سوی التكبرَ بِنَفْسِهِ عَلَى النَّاس،وإظهارَ فَضْلِهِ عليهم ونِسْبَتِهم إلى الجهلِ وَ تَنقُّصُهم يَرْتَفِع بذلك عليهم وهذا من أَقبَح الخِصَالِ و أرداها’’جو حاملینِ علم غیر نفع مند ہوتے ہیں ان کا اس کے سوا کوئی مشغلہ نہیں ہوتا کہ وہ لوگوں پر تکبر اور اپنی فضیلت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔سلف کی طرف جہالت کی نسبت کرنا اور ان کے رتبے میں کمی کر کے اپنی فوقیت کو قائم کرنا ان مدعیانِ علم کی قبیح اور ردّی خصلتوں میں سے ہے‘‘۔اور علمِ نافع کے حامل افراد کی صفات بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:وأهلُ العلم النَّافِعِ يُسِيؤونَ الظَّن بأَنْفُسِهم ويُحْسِنُونَ الظَّنَّ بِمَن سَلَفَ مِنَ العلماءِ ويُقِرُّونَ بِقُلُوبهم وأَنفُسِهِمْ بِفَضْلِ مَنْ سَلَفَ عليهم وبِعِجْزِهِم عن بلوغِ مَرَاتِبِهم وَالوصولِ إليها أو مُقَارَبَتِها’’علمِ نافع کے حاملین اپنے بارے میں برا گمان رکھتے ہیں اور علماے سلف کے بارے میں وہ اچھا گمان رکھتے ہیں۔دل و جان سے علماے سلف کی قدر و منزلت کو تسلیم کرتے ہیں اور ان کے رتبۂ عالی کے برابر رتبہ پانا تو درکنار اس کے نزدیک پہنچنے کو بھی محال سمجھتے ہیں‘‘۔
یہ تھا علم کے میدان میں ہمارے سلفِ صالحین کا رویہ اور ہمیں سلف سے صرف علم ہی اخذ نہیں کرنا بلکہ ان کے علمی رویے کو بھی سیکھنا ہوگا یقیناً برکت اس میں ہے۔