لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

ابنِ عباس
معاون قلم کار

بردباری

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيّ رضي الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:«اَلأَنَاةُ مِنَ اللَّهِ وَالعَجَلَةُ مِنَ الشَّيْطَانِ» (سنن ترمذی)’’حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’بردباری اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے‘‘۔وعن أنس بن مالك رضي الله عنه قال:قال رسول اللهﷺ:«التَّأَنِّي مِنَ الله وَالعَجَلَةُ مِنَ الشَّيطَان» (مجمع الزوائد)’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ ٹھہراؤ اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے‘‘۔

تشریح

(أَنَاةُ) کا مادہ لغوی (أ ن ی) ہے (أنَى يَأنِي أَناةً) کا معنی ہے کسی کام کا وقت آجانا۔اردو ترکیب’’آنِ واحد‘‘میں آن اسی سے ماخوذ ہے یعنی ایک ہی وقت میں،یکبارگی۔ (أَنَاةُ) بطور اصطلاح آئے گا تو اس کا معنی ہو گا کسی کام کی ابتدا کرنے میں جلد بازی نہ کرنا بلکہ کچھ وقت لینا تاکہ سوچنے سمجھنے کا موقع مل سکے۔عربی لغت میں اس کا ایک معنی ضبطِ نفس بھی بتایا گیا ہے یعنی خود پر قابو رکھنا اور کسی بات پر ایک دم اپنا ردِ عمل ظاہر نہ کرنا۔ہم نے (أَنَاةُ) کا ترجمہ بردباری کیا ہے اردو لغت میں اس کے دوسرے مترادفات کے طور پر ٹھہراؤ، سنجیدگی، سہار اور ضبط وغیرہ پائے جاتے ہیں۔قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تعریف کرتے ہوئےفرمایا ہے: (تربصُه حتى نظر في مصالحه ولم يعْجل) ’’بندے کا جلدی نہ کرنا بلکہ کچھ ٹھہر کر اس کام کی مصلحتوں میں غور کر لینا‘‘۔ایک کمزور درجے کی حدیث میں الفاظ آتے ہیں: «إِذَا هَمَمْتَ بِأَمْرٍ فَتَدَبَّرْ عَاقِبَتَهُ» (احیا علوم الدین)’’جب تم کسی کام کا ارادہ کروتو اس کے انجام پر غور کرو‘‘۔ابن حجر الھیتمی رحمۃ اللہ علیہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: التَّأَنِّي فِي الْأُمُورِ حَتَّى يَتَبَيَّنَ حُسْنُهَا مِنْ قُبْحِهَا ’’کاموں کی ابتدا کچھ ٹھہر کر کرنا یہاں تک کہ ان کاموں کا حسن و قبح واضح ہو سکے‘‘۔اسی جملے سے (تأَنِّي) یا (أَنَاةُ) کے اللہ کی طرف سے ہونے کا مطلب معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کا ہادی ہے وہ کبھی تو مختلف امور کے حسن و قبح(یعنی خوبی یا برائی) کو واضح کرتا ہے اور کبھی بغیر واضح کیے حسن کو اختیار کرنے اور قبح سے اجتناب کا حکم دیتا ہے تو چونکہ (تأَنِّي) یا (أَنَاةُ) ’’تحمل و بردباری‘‘ حسن و قبح کے علم یا اختیار و اجتناب کا ایک ذریعہ ہے اس لیے اسے اللہ کی طرف سے قرار دیا گیا۔اللہ کی طرف سے ہونے کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا کہ اس کی صلاحیت اللہ نے انسان میں رکھی ہے اور یہ اللہ کو خوش کرنے والی ایک صفت ہے۔ (اَلعَجَلةُ) کا عربی میں ترجمہ سرعت سے کیا گیا ہے اردو میں اس کا ترجمہ جلدی یا جلد بازی کیا جاتا ہے۔اس کی تعریف میں کہا گیا: فعل الشيء قبل وقته اللائق به ’’کسی کام کا مناسب وقت آنے سے پہلے اسے کر گزرنا‘‘۔عجلت کو شیطان کی طرف نسبت دینا بتاتا ہے کہ یہ شیطانی فعل ہے اس لیے کہ جب شیطان کو اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیاتو اس نے کچھ ٹھہر کر اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر غور و فکر کرکے اس کی اہمیت اور اپنے انکار کے نتائج پر غور کر کے اس کی قباحت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور اللہ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔عجلت کو شیطان کی طرف سے قرار دینے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ شیطان اس طرز عمل کو پسند کرتا ہے اور انسان کو اس کی طرف ابھارتا بھی ہے اس لیے کہ اس سے نہ صرف انسان کے غلط کام میں ملوث ہونے کی اسے امید ہوتی ہے بلکہ اگر انسان نیک کام بھی کر رہا ہو تو اس کام میں غلطی پیدا ہو جانے کا امکان ہو جاتاہے۔اہل عرب کا مقولہ ہے: العجلة أمَّ الندامات’’ جلد بازی شرمندگی کی ماں ہے‘‘۔عربی کا محاورہ ہے: اَلتأنِّي السلامة وفي العجلة الندامة ’’بردباری و تحمل میں سلامتی ہے اور عجلت میں ندامت ہے‘‘۔انسان کی جبلی ساخت میں عجلت کا مادہ رکھا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَكَانَ الْإِنْسَانُ عَجُولًا﴾ (بنی اسرئیل:۱۱)’’انسان ہے ہی اتاؤلا‘‘۔ایک مقام پر فرمایا: ﴿خُلِقَ الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ﴾ (الانبیاء:۳۷)’’انسان کو عجلت سے پیدا کیا گیا ہے‘‘۔علامہ ابن عاشوررحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’انسان کو جلدی کے مادے سے بنانا،اس بات کا استعارہ ہے کہ انسان کی جبلت میں عجلت کا مادہ رکھا گیا ہے اور انسان میں اس وصف کے بکثرت پائے جانے کو یوں بیان کیا گیا کہ گویا وہ اسی سے بنا ہے‘‘۔البتہ انسان اپنے نفس کے خلاف مجاہدہ کر کے اپنی عجلت میں خاطر خواہ کمی لا سکتا ہے۔جیسا کہ ایک حدیث میں فرمایا: «مَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ» (البخاری)’’جو(بہ تکلف)صبر کرنے کی کوشش کرے گا اللہ اسے صبر کی توفیق دے گا‘‘۔رسول اللہﷺنے قبیلہ عبد القیس کے سردار منذر الاَشَج رضی اللہ عنہ کی تحسین کرتے ہوئے فرمایا: «إِنَّ فِيكَ خَلَّتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ الْحِلْمُ وَالْأَنَاةُ» (سنن ابی داؤد)’’بے شک تم میں دو ایسی صفات ہیں جنھیں اللہ پسند کرتا ہے حلم اور بردباری‘‘۔حلم کا ایک معنی دانش مندی اور دور اندیشی ہے اور یہ بُردباری اور تاَنِّي کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔اسی طرح یہ ایک خاص قسم کے رویے پر بھی دلالت کرتا ہے اور حدیث منذر الاشج رضی اللہ عنہ میں یہ اسی آخری معنوں میں استعمال ہوا ہے۔یہ معنی اردو کے لفظ تحمل سے واضح کیا جا سکتا ہے اور اس کا مفہوم صبر کے نزدیک ہے۔عربی لغت میں اس کی تعریف یوں کی گئی ہے: سكون عند غضب أو مكروه مع قدرة وقوّة ’’غصے کے موقع پر ، یا کسی ناپسندیدہ امر کے ظہور کے وقت باوجود قدرت و طاقت کے پرسکون رہنے کو حلم کہا جاتا ہے‘‘۔قاضی عبد النبی احمد نگری رحمۃ اللہ علیہ نے جامع العلوم فی اصطلاحات الفنون میں حلم کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے: هُوَ الطُّمَأْنِينَة عِنْد سُورَة الْغَضَب وَقيل تَأْخِير مُكَافَأَة الظَّالِم ’’غصہ آنے کے موقع پر اطمینان کا مظاہرہ کرنا اور یہ بھی کہا گیا کہ کسی ظلم کا بدلہ دینے میں تاخیر کرنا‘‘۔توحلم کے معنی میں الاناۃ کا مفہوم یعنی عجلت نہ کرنا،سوچ سمجھ کر ٹھہراؤ کے ساتھ فیصلہ کرنا بھی شامل ہے البتہ اس میں صبر کا مفہوم اضافی طور پر شامل ہے یعنی غصے یا بدلہ لینے کے موقع پر بھی تانی اور بردباری کا مظاہرہ کرنا،جذبات سے مغلوب نہ ہونا بلکہ عقل کی روشنی میں ٹھنڈے دل سے فیصلہ کرنا۔حلم اور اناۃ میں قدرے فرق بھی ہے جسے ابو ہلال العسکری نے الفروق اللُغویہ میں واضح کیا ہے: الأناة التَّمهُّل فِي تَدْبِير الْأُمُور ومفارقة التَّعْجِيلوالحِلْم هُوَ الْإِمْهَال بِتَأْخِير الْعقَاب الْمُسْتَحق ’’بردباری کاموں کی تدبیر میں مہلت حاصل کرنا اور عجلت کو ترک کرنا ہے(عمل سے پیچھے رہتے ہوئے سوچ و فکر کر لینا)جبکہ حلم کسی مستحق کو سزا دینے میں جلدی کے بجائے تاخیر کرنا ہے‘‘۔جب رسول اللہﷺنے اس صفت کی بنیاد پر حضرت منذر الاشج رضی اللہ عنہ کی تحسین فرمائی تو انھو ں نے پوچھا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا أَتَخَلَّقُ بِهِمَا أَمُ اللَّهُ جَبَلَنِي عَلَيْهِمَا ’’یا رسول اللہﷺحلم اور بردباری کی یہ صفات میں نے خود پیدا کی ہیں یا اللہ نے میری جبلت میں انھیں رکھ دیا ہے تو نبی کریمﷺنے فرمایا: «بَلِ اللَّهُ جَبَلَكَ عَلَيْهِمَا» ’’بلکہ اللہ نے یہ دونوں صفات جبلی طور پر تمھارے اندر رکھ دی ہیں‘‘۔اس کا یہ مطلب تو ہے ہی کہ حضرت منذر الاشج رضی اللہ عنہ میں یہ دوصفات خصوصی طور پر ودیعت کر دی گئیں تھیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نےان صفات کی صلاحیت ان کی جبلت میں رکھ دی ہے اور ایسا تمام انسانوں کے ساتھ ہوتا ہے کہ اخلاقِ عالیہ کی صلاحیت انسان کی جبلت میں رکھ دی جاتی ہے پھر انسان اپنی محنت سے ان صفات کو بڑھا کر بروئے کار لا سکتا ہے۔جیسا کہ ایک حدیث میں فرمایا: «إِنَّما الْحِلْمُ بِالتَّحَلُّمِ» (مجمع الزوائد)’’بے شک حلم تو برداشت کرنے سے آتا ہے‘‘۔مطلب یہ کہ غصے کے اظہار اور رد عمل کے وقت انسان اپنے نفس کو بے قابو نہ ہونے دے اور حلم کی اہمیت و فوائد اور عجلت اور طیش کے نقصانات سے واقفیت حاصل کرتا رہے تو آہستہ آہستہ انسان میں ودیعت کردہ صفتِ حلم اس کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے پھر وہ آسانی سے اس صفت پر عمل پیرا ہو سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان صفات کو اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

لرننگ پورٹل