حافظ حماد احمد ترک
نائب مدیر ماہنامہ مفاہیم کراچی
اور وہ اللہ کی محبت کی خاطر مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔
پَسْ منظر
امام ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ نے قیدیوں کو کھلانے کی تشریح میں امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا : نبی اکرمﷺ مسلمانوں کو قیدی نہیں بناتے تھے۔ یہ آیت تو مشرک قیدیوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنھیں مسلمان قیدِ با مشقت میں رکھتے تھے، پھر یہ آیت نازل ہوئی تو آپﷺ نے ان کے ساتھ بھلائی کا حکم فرمایا۔ مقاتل رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ یہ آیت ایک انصاری صحابی کے لیے نازل ہوئی کیونکہ انھوں نے ایک دن میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلایا۔(تفسیر المنیر) امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:اس آیت کے سببِ نزول میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے لیے نازل ہوئی جب انھوں نے ایک باغ کو سیراب کر کے تھوڑی سی جو کمائی ۔ پہلے دن ایک تہائی جو پیسی اور کھانے لگے تو مسکین آ گیا،اسے دے دی۔ پھر دوسری تہائی اسی طرح یتیم کواور تیسری تہائی قیدی کودے دی، اسے عطا رحمۃ اللہ علیہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا۔(زاد المسیر) لیکن شیخ وہبہ نے لکھا ہے کہ اس واقعے کی صحت میں شبہہ ہے۔(تفسیر المنیر) سب سے شاندار بات امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی:’’صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت تمام نیک لوگوں کے لیے نازل ہوئی، جو بھی نیک کام کریں یہ آیت ان کے لیے عام ہے‘‘۔(تفسیرِ قرطبی)
تشریح
بعض مفسرین نے علی حبہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی محبت لی ہے اور بعض نے کھانے کی محبت مراد لی ہے۔(زاد المسیر) شیخ وہبۃ الزحیلی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’اور وہ کھانا کھلاتے ہیں حالانکہ وہ خود کھانے کو محبوب رکھتے ہیں، ایسے محتاج فقیر کو جو کمانے سے عاجز ہو، اور غمگین یتیم کو جس نے اپنے والد اور اہل خانہ کو کھو دیا ہو اور اس قیدی کو جوپابندِ سلاسل ہو یا غلام ہو،اگرچہ (قیدی) مسلمان ہو یا مشرک۔ اور کھانا کھلانے کا ذکر اس لیے کیا کہ اسی سے زندگی باقی رہتی ہے، انسان ٹھیک رہتا ہے اور یہ احسان کبھی نہیں بھولتا‘‘۔
مسلم شریف میں روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’بندہ کہتا ہے: میرا مال، میرا مال، بتا! کیا تیرے پاس اس کے سوا کوئی مال ہے کہ جسے تو نے کھا کر ختم کر دیا، یا پہن کر بوسیدہ کر دیا یا صدقہ کر کے (آخرت کے لیے) چھوڑ دیا‘‘۔
مسندِ احمد کی ایک روایت ہے، آپﷺ نے فرمایا:کیا ہی بہترین ہے عمدہ مال نیک آدمی کے لیے‘‘۔ کیونکہ وہ اسے نیک کاموں میں خرچ کرتا ہے۔ ترمذی شریف کی روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’بے شک سخی آدمی اللہ تعالیٰ کے بھی قریب ہوتا ہے، لوگوں کے بھی قریب ہوتا ہے اور جنت کے بھی قریب ہوتا ہے، اور جہنم سے دور ہوتا ہے ‘‘۔ ترمذی شریف کی ہی ایک اور روایت ہے:رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس کی مدد چھوڑتا ہے، اور جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگارہتا ہےاللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری کرتے رہتے ہیں، جو اپنے کسی مسلمان بھائی کی پریشانی دور کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس سے قیامت کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کردیں گے، اور جو کسی مسلمان کے عیب پر پردہ ڈالے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب پر پردہ ڈال دیں گے ‘‘۔
درج بالا اقوال و روایات کی روشنی میں ہم پر لازم ہے کہ اپنے گھر، خاندان، محلے اور شہر میں ایسے محتاج افراد کی خبر گیری کریں اور ان کی مدد کریں۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ترجیحِ اول اگر چہ اپنے رشتے دار اور ہمسائے ہیں لیکن اس دنیا میں جتنے کلمہ گو مسلمان ہیں وہ سب ہمارے بھائی ہیں اور ہماری توجہ اور اعانت کے مستحق ہیں، لہذا ہمیں پوری دنیا کے مسلمانوں خصوصا مجاہدین اور ان کے لواحقین کے احوال سے با خبر رہنا چاہیے، اوران کی مقدور بھر معاونت کرتے رہنا چاہیے۔