راہِ وفا میں ہر سو کانٹے دھوپ زیادہ سائے کم |
لیکن اس پر چلنے والے خوش ہی رہے پچھتائے کم |
|
عمر گلوں کی دو دن جس میں یہ بھی قیامت بیت گئی |
دستِ ہوس نے نوچے لاکھوں شاخوں پر مرجھائے کم |
|
آہ یہ ظالم تلخ حقیقت جتنے سفینے غرْق ہوئے |
اکثر اپنی موج میں ڈوبے طوفاں سے ٹکرائے کم |
|
راہروی کا سب کو دعویٰ، سب کو غرورِ عشق و وفا |
راہِ وفا پر چلنے والے ہم نے لیکن پائے کم |
|
دھیمی دھیمی چال سے ہم کو راہگذر طے کرنی ہے |
ناز تھا جن کو تیز روی پر منزل تک وہ آئے کم |
|
مجھ سے شکایت دنیا بھر کو شدتِ غم میں رونے کی |
لیکن مجھ کو اس کا رونا، آنکھ میں آنسو آئے کم |
|
صرف یہی ہے ایک طریقہ دنیا میں خوش رہنے کا |
دستِ تمنا کھینچے زیادہ، دامنِ دل پھیلائے کم |
|
صبر و سکوں کی دنیا لوٹے حسن دکھا کر جلووں کو |
عشق مگر خود شب بھر تڑپے، اوروں کو تڑ پائے کم |
|
عشق ادب کا نام ہے کیفیؔ، یہ بھی ادب میں شامل ہے |
جس کی محبت دل میں بسی ہو اس کی گلی میں جائے کم |