مولانا محمد اقبال
معاون قلم کار
اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھا کرو جو تمہارے لیے ایک اضافی عبادت ہے۔ امید ہے کہ تمہارا پروردگار تمھیں مقامِ محمود تک پہنچائے گا۔
آیتِ کریمہ کی تفسیر
مذکورہ آیتِ مبارکہ کے پہلے حصےمیں تہجد کے متعلق رسول اللہﷺکو خطاب فرمایا گیا ہے کہ رات کے ایک حصے میں اللہ تعالی کے حضور نماز کا اہتمام کریں۔اس آیتِ مبارکہ میں تہجد کو رسول اللہﷺکے لیے ایک زائد عبادت قرار دیا گیا ہے۔اس زائد عبادت کا مطلب کیا ہے؟اس بارےمیں مفسرین میں سےبعض نے موقف اختیار فرمایا کہ تہجدکی نماز آں حضرتﷺپر اضافی طور پر فرض تھی اور عام مسلمانوں کے لیے فرض نہیں ہے، نفل ہی ہے۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں:﴿وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نافِلَةً لَكَ﴾أي زيادةٌ على الفرائضِ الخمسِ خاصّةً بِكَ(روح المعانی،ج:۸،ص:۱۸۵)’’اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھا کرو جو تمہارے لیے ایک اضافی عبادت ہے یعنی پانچ فرض نمازوں پر زائد عبادت ہےجو خاص طور پر آپ پرفرض ہے‘‘۔اسی مَوْقِف کے متعلق تفسیرابنِ کثیر میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے: مَعْنَاهُ أَنَّكَ مَخْصُوصٌ بِوُجُوبِ ذَلِكَ وَحْدَكَ، فَجَعَلُوا قِيَامَ اللَّيْلِ وَاجِبًا فِي حَقِّهِ دُونَ الْأُمَّةِ( تفسير ابنِ كثير،ج:۲،ص:۳۹۲)’’اس کا مطلب ہے کہ تہجد کا وجوب صرف آپﷺکے ساتھ خاص ہے،اس آیت کی رو سے قیام اللیل یعنی تہجد حضورﷺکے حق میں خاص طور پرواجب ہے جبکہ امت پر واجب نہیں ہے‘‘۔جبکہ بعض دیگرمفسرین نے ’’اضافی عبادت‘‘ کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ تہجد دوسرے مسلمانوں کی طرح حضورﷺکے لیے بھی نفلی عبادت تھی۔تفسیر ابنِ کثیر میں ان مفسرین کا موقف اس طرح بیان گیا ہے:إِنَّمَا جُعِلَ قِيَامُ اللَّيْلَ فِي حَقِّهِ نَافِلَةً عَلَى الْخُصُوصِ، لِأَنَّهُ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، وَغَيْرُهُ مِنْ أُمَّتِهِ إِنَّمَا يُكَفِّرُ عَنْ صَلَواتِهٖ النَّوافِلِ الذُّنُوْْبَ الّتِي عَلَيْهِ. (تفسير ابنِ كثير، ج :۲،ص :۳۹۲)’’قیام اللیل کو آپﷺکے حق میں خصوصی طور پر ایک اضافی عبادت قرار دیا گیا ہے اس لیے کہ حضورﷺکی اگلی پچھلی ساری خطائیں معاف کر دی گئی ہیں۔ جبکہ حضورﷺکے علاوہ باقی امت میں سے ہر شخص کے لیے نوافل اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں‘‘۔یعنی حضورﷺچونکہ معصوم عن الخطا ہیں اس لیے آپﷺکے حق میں تہجد ایک اضافی عبادت ہے۔ اس لیے کہ آپﷺپرفرض تو ہے نہیں اوراسی طرح یہ آپﷺکے گناہوں کے لیے کفارہ بھی نہیں بن سکتی کیونکہ حضورﷺگناہوں سے پاک ہیں ۔ جبکہ یہ نماز حضورﷺ کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے ان کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہےاس لیے حضورﷺکے علاوہ باقی امت کے لیے ’’اضافی عبادت‘‘ نہیں ہے۔
تہجد کی اہمیت و فضیلت قرآن و سنت کی روشنی میں
قرآن ِمجید میں اللہ تعالیٰ نے کئی دوسرے مقامات پر ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اللہ تعالیٰ کے حضور رات کی تنہائی میں کھڑے ہوکر عبادت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو اس بات سے ڈرتے ہیں کہ ان کی عبادات میں جوکوتاہیاں ان سے سرزد ہوئی ہیں ان کی نحوست کی وجہ سے کہیں وہ عبادات بارگاہِ الہی میں نامنظور نہ ہوجائیں۔سورۂ سجدہ میں ارشاد ربانی ہے:﴿تَتَجَافٰی جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفاً وَّطَمَعاً﴾ (الم السجدۃ:۱۶)’’ان کے پہلو (رات کے وقت) اپنے بستروں سے جدا ہوتے ہیں ۔وہ اپنے پروردگار کو ڈر اور امید (کے ملے جذبات) کے ساتھ پکار رہے ہوتے ہیں‘‘ ۔اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا گیا ہے:﴿کَانُوْا قَلِیْلاً مِّنَ اللَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ﴾(الذاریات:۱۷،۱۸)’’وہ رات کے و قت کم سوتے تھے اور سحری کے اوقات میں وہ استغفار کرتے تھے‘‘۔ یعنی اللہ والوں کی شان یہ ہوتی ہے کہ رات بھر عبادت میں مشغول رہنے کے بعد بھی وہ اپنے اس عمل پر مغرور نہیں ہوتے بلکہ سحری کے وقت استغفار کرتے ہیں ۔ان کو یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ ہماری اس عبات میں ایسی کو تاہیاں ہم سے ہوئی ہوں گی جن کی وجہ سے وہ عبادت اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کے لائق ہی نہ ہو،تو اس کی تلافی کے لیے آخر میں استغفارکا اہتمام کرتے ہیں۔
اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی تہجد کی نماز پڑھنے کے بے شمار فضائل وارد ہوئے ہیں۔چنانچہ تہجدکی نماز کےمتعلق حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضورﷺکا ارشاد نقل فرماتےہیں:«أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ صَلَاةُ اللَّيْلِ»(صحیح مسلم)’’رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ تعالیٰ کے مہینے محرم کے روزے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز یعنی تہجد ہے‘‘۔ حضورﷺ نمازِ تہجد کا اس قدر اہتمام فرماتے تھے کہ زیادہ عبادت کی وجہ سے آپﷺکےقدمینِ مبارک میں ورم آجاتا تھا۔کثرت واہتمام کا اندازہ اس حدیث سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے:عَنْ عَائِشَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِﷺكَانَ يَقُومُ مِنَ اللَّيْلِ حَتَّى تَتَفَطَّرَ قَدَمَاهُ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: لِمَ تَصْنَعُ هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ؟ قَالَ:«أَفَلَا أُحِبُّ أَنْ أَكُونَ عَبْدًا شَكُورًا»(صحیح بخاری)’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ رات کی نماز یعنی تہجد میں اتنا طویل قیام کرتے کہ آپ کے قدم پھٹ جاتے تھے ۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ اتنی زیادہ مشقت کیوں اٹھاتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف کردی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا پھر میں یہ پسند نہ کروں کہ میں شکر گزار بندہ بنوں‘‘۔
مذکورہ بالا ارشادات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رات کوعبادت اورنماز وتلاوت میں مشغول رہنے کی بڑی فضیلتیں ہیں ۔قیام اللیل کی فضیلت اور اہلِ تہجد کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک جتنی قدر و منزلت ہےاس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کلامِ مجید میں متعدد مقامات پر اس کا تذکرہ فرمایا ہےاوراہلِ تہجد کی بڑی ہی سعادت اور سرخروئی بیان فرمائی ہے۔راتوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہوکر گڑگڑانا،اپنے محبوب حقیقی کے ساتھ راز و نیاز میں منہمک رہنا اللہ تعالیٰ کے خاص اورصالح بندوں کی صفات میں سے ہے، اس لیے کہ رات کو میٹھی نیند سےاٹھ کر تہجد کی نماز پڑھنے سے انسان کی خواہشات اسےروکتی ہیں۔ یہ انھی کا کام ہے جوموفق من اللہ ہوں۔ اسی طرح رات کے وقت میں چونکہ خاموشی طاری ہوتی ہےاورشور و غل کم ہوتا ہے اس لیے دعائیں حضورِ قلب کے ساتھ مانگی جاسکتی ہیں۔جیسا کہ سورۂ مزمل میں اسی طرف اشارہ کیاگیا ہے:’’بےشک رات کے وقت اٹھنا ہی ایسا عمل ہے جس سے نفس اچھی طرح کچلا جاتا ہے، اور بات بھی بہتر طریقے پر کہی جاتی ہے‘‘۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تہجد کی نماز کا اہتمام کریں ۔یہ مشکل ضرور ہے مگراس کے فضائل بے شمار ہیں، اگر خدا نخواستہ ہر رات ہم میں سے کوئی اس کا اہتمام نہیں کرسکتا تومکمل طور پراس سے محروم نہیں ہونا چاہیے بلکہ جزوی طور پر اس کا اہتمام کرنا چاہیے خصوصاً سردیوں میں اس کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ سردیوں کی لمبی راتوں میں اس کا اہتمام آسان ہوتا ہے۔جیسےآج کل کے موسم میں راتیں کافی لمبی ہوتی ہیں آسانی سے تہجد کا اہتمام کیا جا سکتا ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ ان راتوں سے فائدہ اٹھائیں اور جس وقت آنکھ کھل جائے، وضو کر کےجس قدر طاقت اور فرصت ہو چند رکعتیں پڑھ لیا کریں۔
مقام محمودسے کیا مراد ہے؟
مقامِ محمود کے لفظی معنی ہیں قابلِ تعریف مقام۔ جبکہ مفسرین کے نزدیک اس سےمراد آنحضرتﷺ کا وہ منصب ہے جس کے تحت آپ کو شفاعت کا حق دیا جائے گا۔چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:المَقَامُ الْمَحْمُوْدُ مَقَامُ الشَّفَاعَةِ( تفسير ابنِ كثير،ج:۲،ص:۳۹۲)’’مقامِ محمود سے مراد مقامِ شفاعت ہے‘‘۔مقامِ شفاعت کا مطلب رسول اللہﷺکو اللہ تعالیٰ کی طرف سےعطا کردہ وہ شفاعت ہے کہ قیامت کے دن جب ہر طرف نفسي نفسي کا عالم ہوگا اور اللہ تعالیٰ غضب کی حالت میں ہوں گے، اس وقت حضورﷺکی سفارش پر حساب کتاب کا آغازہوگا اور اسی طرح مقامِ شفاعت سے مراد شفاعتِ کبریٰ بھی ہے جو حضورﷺکو اپنی امت کے گناہ گار بندوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی گئی ہے۔واللہ اعلم