لاگ ان

منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

لاگ ان

منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

قدیم زمانے سےیہ بات مشہور و معروف ہےکہ آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰﷺکی پیدائش پیر کے دن ۱۲ ربیع الاول کوہوئی۔ اور ۱۲ ربیع الاوّل کو برصغیر میں حکومت کی طرف سے چھٹیاں بھی ہوتی ہیں، مگر افسوس کہ کچھ لوگ تاریخِ ولادت کے بارے میں ایک مہم چلائے ہوئے ہیں کہ رسول اللہﷺکی پیدائش ۱۲ ربیع الاول کو نہیں ہوئی ؛ بلکہ آٹھ (۸) یا نو(۹) کوہوئی،اور کچھ مصنفین کے اقوال دلیل میں پیش کرتے ہیں ؛ مگر سچ بات یہ ہے کہ جمہور علماء اہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک رسول اللہﷺکی تاریخ پیدائش ۱۲ ربیع الاول ہی ہے، سیکڑوں علما کے اقوال کتابوں میں موجود ہیں۔لہٰذا صحیح تاریخ ولادت کے متعلق علماے امت کے اقوال کا نقل کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں:

حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت جابر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آپﷺکی پیدائش ۱۲ ربیع الاول کوہوئی۔

مشہور مؤرخ امام محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وُلِدَ رسولُ اللهﷺیومَ الإثْنَیْنِ لِاثْنَتَيْ عَشَرَةَ(۱۲)لیلةَ خَلَتْ مِنْ شَهْرِ رَبِیْعِ الْأَوّلِ عَامَ الْفیلِ (السیرة النبویة لابْنِ هشام  ۱/۲۸۴، تاریخُ الطّبري۲/۱۰۶، مستدرک حاکم ۴۱۸۶،شعب الإیمان للبیهقي۱۳۲۴، الکامل في التاریخ لابن الاثیر۱/۲۱۶)’’رسول اللہﷺکی پیدائش ربیع الاول کی بار ھویں رات عامِ فیل (۵۷۱ عیسوی) میں ہوئی‘‘۔

مشہور مؤرخ ومحدث امام ابوحاتم بن حبان رحمۃ اللہ علیہ (متوفیٰ۳۵۴ ہجری) لکھتے ہیں:وُلِدَ النّبيُﷺعامَ الْفِیلِ یَوْمَ الْإثنین لاِثْنَتَيْ عَشَرَةَ(۱۲)لیلةَ مَضَتْ مِنْ شَهْرِ رَبِیْعِ الْأَوّلِ۔(السیرة لابن حبان ۱/۳۳)’’رسول اللہﷺکی پیدائش ربیع الاول کی بار ھویں رات عامِ فیل (۵۷۱عیسوی) میں ہوئی‘‘۔

امام ابوالحسن ماوردی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (متوفیٰ۴۵۰ ہجری) لکھتے ہیں :وُلِدَ بَعْدَ خَمْسِیْنَ یَوماً مِنَ الْفیلِ وبَعْدَ مَوتِ أبیهِ في یَومِ الإثنَیْنِ عَشَرَ مِنْ شَهْرِ رَبِیْعِ الْأَوّلِ (أعلام النبوة:۱/۲۳۰)’’رسول اللہﷺکی پیدائش اپنے والد کے انتقال کے بعد  اور واقعہ فیل کے پچاس دن بعد پیر کے دن ۱۲ ربیع الاول کو ہوئی‘‘۔

علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفیٰ۹۲۳ ہجری) لکھتے ہیں :والمشهورُ أنّه وُلِدَ یومَ الإثنینِ ثانيَ عَشَرَ(۱۲) شَهْرِ رَبِیْعِ الْأَوّلِ، وهُوَ قولُ ابْنِ إسْحَاقَ وغیره۔ (المواهِبُ اللَّدُ نِّیة بِالْمَنْحِ الْمُحَمَّدِیَّة۱/۸۰)’’مشہور قول کے مطابق رسول اللہﷺکی ولادت ۱۲ ربیع الاول پیر کے دن ہوئی۔ اور یہی قول حضرت ابنِ اسحاق (تابعی) وغیرہ کا ہے۔

شیخ محمدبن عمر بحرقی حضر می شافعی رحمۃ اللہ علیہ (متوفیٰ۹۳۰ ہجری) لکھتے ہیں :قال علماءُ السِّیَر:وُلِدَ النّبيُﷺفي رَبِیْعِ الْأَوّلِ یومَ الإثنینِ بِلا خِلافٍ ثُمَّ قالَ الأَکْثَرُوْنَ: لیلةَ الثّاني عَشَرَ (۱۲) منه۔ (حدائق الأ نوار و مطالع الأسرار ۱/۱۰۵)’’علماے سیرت کا اس با ت پر اتفاق ہےکہ رسول اللہﷺکی پیدائش ربیع الاول کے مہینےمیں پیر کے دن ہوئی، اور جمہور علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ۱۲ ربیع الاول کی تاریخ تھی‘‘۔

علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفیٰ۱۰۳۱ ہجری) لکھتے ہیں:الأَصَحُّ أَنّهٗ وُلِدَ بِمَکَّةَ بِالشِّعْبِ بَعْدَ فَجْرِ الْإثنینِ ثانيَ عَشَرَ رَبِیْعِ الْأَوّلِ عَامَ الْفِیْلِ (فیض القدیر ۳/۵۷۳) ’’صحیح بات یہ ہے کہ رسول اللہﷺبارہ ربیع الاول کی صبح شعبِ مکہ میں واقعہ فیل کے سال پیر کے دن پیدا ہوئے‘‘۔

علامہ ابو عبد اللہ محمد زرقانی مالکی رحمۃ اللہ علیہ (متوفیٰ۱۱۲۲ ہجری) المواهب اللدنیة کی شرح میں لکھتے ہیں:والمشهورُ أنّه وُلِدَ یومَ الإثنینِ ثانيَعَشَرَ رَبِیْعِ الْأَوّلِ، وهُوَ قولُ محمدِ بْنِ إسْحَاقَ بن یسار إمام المغازي، وقول (وغیره) قال ابنُ کثیرٍ: وَهُوَ الْمَشْهُورُ عِنْدَ الْجَمْهُورِ، وبالغَ ابنُ الجوزي وابن الْجَزّار فنقلَا فیه الْإجْماعَ۔(شرح الزرقاني علی المو اهب اللد نیة بالمنح المحمدیة۱/۲۴۸) ’’مشہور قول کے مطابق رسول اللہﷺکی ولادت بارہ (۱۲) ربیع الاول پیر کے دن ہوئی۔ اور یہی قول مغازی اور سیرت کے امام حضرت محمد بن اسحاق بن یسار (تابعی) اور دیگر اہلِ علم کا ہے۔ علامہ ابنِ کثیر فرماتے ہیں کہ جمہور کا یہی قول ہے، علامہ ابن جوزی اور ابن جزار نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفیٰ۱۳۶۲ ہجری) لکھتے ہیں:’’جمہور کے قول کے موافق بارہ (۱۲) ربیع الاول تاریخِ ولادتِ شریفہ ہے‘‘۔(إرشاد العباد في عید المیلاد،ص:۵)

حضرت مولانا سیدسلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفیٰ۱۳۷۳ ہجری) لکھتے ہیں:’’پیدائش ۱۲ تاریخ، ربیع الاو ل کے مہینے میں پیر کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پانچ سو اکہتر (۵۷۱) برس بعد ہوئی۔ سب گھر والوں کو اس بچے کے پیدا ہونے سے بڑی خوشی ہوئی‘‘۔(رحمتِ عالم، ص:۱۵)

حضرت مفتی محمد شفیع دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ  صدرمفتی دارالعلوم دیوبندو مفتیٔ اعظم (متوفیٰ۱۳۹۶ہجری)پاکستان لکھتے ہیں:’’الغرض جس سال اصحابِ فیل کا حملہ ہوا، اس کے ماہ ربیع الاول کی بارھویں تاریخ روزِ دوشنبہ دنیا کی عمر میں ایک نرالا دن ہےکہ آج پیدائشِ عالَم کا مقصد، لیل ونہار کے انقلاب کی اصل غرض، آدم علیہ السلام اور اولاد ِآدم کا فخر، کشتیٔ نوح علیہ السلام کی حفاظت کا راز، ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور موسیٰ علیہ السلام کی پیشین گوئی کا مصداق یعنی ہمارے آقاے نامدار محمدﷺرونق افروزِ عالم ہوتے ہیں‘‘۔ (سیرتِ خاتم الانبیاء،ص:۱۱) 

مولانا سید ابوالا علی مودودی رحمۃ اللہ علیہ (متوفیٰ۱۳۹۹ہجری) لکھتے ہیں:’’رسول اللہﷺکی پیدائش ربیع الاول میں ہوئی، ولادت پیر کے روز ہوئی، یہ بات خود رسول اللہﷺنے ایک اعرابی کے سوال پر بیان فرمائی، (صحیح مسلم بروایت قتادہ)، ربیع الاول کی تاریخ کون سی تھی ؟ اس میں اختلاف ہے؛ لیکن ابن ابی شیبہ نے حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما  کایہ قول نقل کیا ہے کہ آپ ۱۲ ربیع الاول کو پیدا ہوئے تھے، اسی کی تصریح محمد بن اسحاق نےکی ہے، اور جمہورِ اہلِ علم میں یہی تاریخ مشہور ہے‘‘۔(سیرتِ سرورِ عالمﷺ، جلد:دوم، صفحہ: ۹۳،۹۴)

حضرت مفتی محمود حسن گنگو ہی رحمۃ اللہ علیہ صدرمفتی دارالعلوم دیوبند (متوفیٰ۱۴۱۷ہجری) لکھتے ہیں:’’حضرت عبداللہ کی شادی حضرت آمنہ بنت وہب سے ہوئی،جو بنی زہرہ کے خاند ان سے تھیں، اس مبارک و مسعودشادی کے بعد شہرِ مکہ میں حضرت آمنہ کے بطن سے دوشنبہ ۱۲ ربیع الاول مطابق ۲۰ /اپریل ۵۷۱ عیسوی کی صبح وقت حضرت محمد مصطفیٰﷺکی ولادتِ باسعادت ظہور پذیر ہوئی ‘‘۔(گلد ستۂ سلام، ص:۱۸)

حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی۱۴۲۰ ہجری) لکھتے ہیں:وَوُلِدَ رسولُ اللهﷺیومَ الإثنینِ الیومَ الثّاني عَشَرَ مِنْ شَهْرِ ربیعِ الأولِ، عامَ الْفِیلِ أَسْعَدَ یَومٍ طَلَعَتْ فیهِ الشَّمْسُ۔(السیرةُ النبویة،ص:۱۱۱)

فتاویٰ لجنہ دائمہ میں ہے:وُلِدَ النّبيُﷺیومَ الإثنین لاثنتي عشرةَ(۱۲)لیلةَ مَضَتْ مِنْ شَهْرِ ربیعِ الأولِ، عامَ الْفِیلِ۔(فتاویٰ اللجنةِ الدائمةِ، فتویٰ رقم۳۴۷۴)’’رسول اللہﷺکی پیدائش ربیع الاول کی بارھویں رات عامِ فیل (۵۴۱عیسوی)میں ہوئی‘‘۔

طوالت کے خوف سے صرف پندر ہ علما کے اقوال پر اکتفا کیا گیا ہے۔ نو (۹) ربیع الاول کے قول کی تردید میں مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب سیرتِ خاتم الانبیاء کے حاشیے میں اس طرح لکھا ہے: مشہور قول بارھویں (۱۲) تاریخ کا ہے۔ یہاں تک کہ ابن الجز ار نے اس پر اجماع نقل کردیا ہے، اور اسی کو کامل ابن اثیر میں اختیار کیا گیا ہے، اور محمود پاشا علی مصری نے جونویں تاریخ کو بذریعہ حساب اختیار کیاہے، یہ جمہور کےخلاف بے سند قول ہے اور حسابات پر بوجہِ اختلاف مطابع ایسا اعتماد نہیں ہو سکتا ہے کہ جمہور کی مخالف اس بنا پر کی جائے۔ (حاشیۂ سیرتِ خاتم الا نبیاء، ص:۱۱)

محمود پاشاصاحب نے حساب سے ۹ ربیع الاول، عام فیل کو پیر کا دن قرار دیاہے، یہ صحیح نہیں معلوم ہوتاہے، ہمارے حساب سے ۱۲ ربیع الاول، عامِ فیل مطابق ۲۳ اپریل ۵۷۱ عیسوی کو پیر کا دن پڑتا ہے۔ مولانا مودددی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھاہے کہ بعض اہل ِ تحقیق نے اسے ۲۳ اپریل ۵۷۱ء کے مطابق قرار دیاہے۔(سیرتِ سرورِ عالَم، جلد:دوم، صفحہ: ۹۴)بعضوں نے البد ایۃ والنہایۃ کے حوالے سے ۸ ربیع الاول کو راجح لکھا ہے۔ شاید بدایۃ میں پوری بحث پڑھنے کی ان کو فرصت نہیں ملی، اسی بدایۃ میں: قیل لِثِنْتَي عشرةَ…وهذا هو المشهورُ عند الجمهورِلکھا ہوا ہے۔اس میں صاف طور پر لکھا ہے کہ بارہ (۱۲) ربیع الاول کا قول جمہور کا قول ہے۔ رہاروایت میں الثامن عشر کا لفظ، بارہ ربیع الاول کے مخالف لوگوں کی مہربانی یا کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے کہ مصنف ۱۲ ربیع الاول کے قول کی دلیل میں یہ روایت نقل کررہے ہیں،۱۲ ربیع الاول کے قول میں ۱۸ کی روایت نقل کرنامصنف کے مدعا کے خلاف ہے، نیز مصنف نے اپنی دوسری کتاب السیرة النبویة میں اسی روایت کو ان الفاظ کے ساتھ نقل کیاہے: عن جابرٍ وَابْنِ عباسٍ أنّهما قالا: وُلِدَ رسولُ اللهﷺعامَ الفیلِ یومَ الإثنینِ الثانيَ عَشَرَ مِنْ شَهْرِ رَبِیعِ الْأَوّلِ…نیز البدا یۃ والنہایۃ کے مکتبۃ المعارف بیروت سے شائع ہونے والے نسخے کے حا شیے میں اس طرح لکھا ہے: کذا رأَیْتُهٗ الثّامنَ عشرَ، والصَّوابُهٗ الثّانيَ عَشَرَ۔ لہذااہلِ علم حضرات سے گذارش ہے کہ کسی ایک کتاب کو دیکھ کر فیصلہ نہ کریں بلکہ دوسری کتابوں سے بھی تحقیق کریں۔ آج کل حدیث کی کتابوں میں تحریف وتبدیل کا سلسلہ جاری ہے۔ شاملہ کے ایک نسخے میں حدیث کے الفاظ دوسرے شاملہ کے الفاظ سے مختلف یا حذف ہیں۔ ہمارے خیال میں جس وقت آپﷺمکہ میں پیدا ہوئے، اس وقت مکہ میں ۱۲ ربیع الاول کی تاریخ تھی، اور دوسرے علاقوں میں دوسری تاریخ تھی، کیونکہ قمری تاریخ، مختلف مما لک میں مختلف ہوتی ہے۔ غرض جس دن آپﷺپیدا ہوئے اس وقت مکہ میں ۱۲ ربیع الاول کی تاریخ تھی۔ لہٰذا صحیح مشہور اور راجع قول کے مطابق رسول اللہﷺکی پیدائش ۱۲ ربیع الاول ہی کوہوئی۔ 

رہا ۱۲ ربیع الاول کو تاریخِ وفات کہنا! کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہﷺکی وفات پیر کے دن ہوئی، اورصحیح بخاری ہی کی روایت میں منقول ہے کہ حجتہ الوداع کے موقعے پر عرفہ کادن جمعے کا دن تھا، اور ایک روایت سے معلوم ہوتاہے کہ عرفہ کے اکیاسی (۸۱) دن کے بعد آپﷺکی وفات ہوئی۔ اس حساب سے ۱۲ ربیع الاول کوپیر کا دن کسی طرح نہیں پڑتا ہے، لہٰذا علامہ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ ہی کی رائے کو ماننا پڑے گا کہ آپ کی وفات دو (۲) ربیع الاول بروز پیر کو ہوئی۔

علامہ سہیلی (متوفیٰ۵۷۱ھ) نے روض الانف میں، علامہ تقی الدین ابن تیمیہ (متوفیٰ۷۲۸ھ) نےمنہا ج السنۃ میں، علامہ شبلی نعمانی نےسیرت النبیﷺ میں یکم ربیع الاول لکھا ہے۔ اور علامہ مغلطائی، علامہ ابنِ حجر عسقلانی نے فتح الباری میں، شیخ محمد بن عمر بحرقی حضرمی شافعی (متوفیٰ۹۳۰ ہجری) نے حدائق الانوار میں، مفتی محمدشفیع دیوبندی (مفتیٔ اعظم پاکستان) نے سیرتِ خاتم الا نبیاء میں، میاں عابد احمد نے شانِ محمدﷺمیں دوم ربیع الاول لکھا ہے۔ سیرتِ خاتم الابنیاء کے حاشیے میں لکھا ہے: تاریخِ وفات میں مشہور یہ ہے کہ ۱۲ ربیع الاول کو واقع ہوئی اور یہی جمہور مورخین لکھتے چلے آئے ہیں، لیکن حساب سے کسی طرح بھی یہ تاریخِ وفات نہیں ہوسکتی ہے، کیوں کہ یہ بھی متفق علیہ اور یقینی امرہے کہ وفات دو شنبہ کو ہوئی اوریہ بھی یقینی ہے کہ آپ کا حج ۹ /ذی الحجہ بروز جمعے کو ہوا۔ ان دونوں باتوں کے ملانے سے ۱۲ ربیع الاول روزِ دوشنبہ میں نہیں پڑتی ۔ اسی لیے حافظ ابن حجر نے شرحِ صحیح بخاری میں طویل بحث کے بعد اس کو صحیح قرار دیاہے کہ تاریخِ وفات دوسری ربیع الاوّل ہے، کتابت کی غلطی سے ۲ کا ۱۲ بن گیا۔ حافظ مغلطا ئی نے بھی دوسری تاریخ کو ترجیح دی ہے۔ واللہ اعلم 

بارہ ربیع الاول ۱۱ ہجری کو پیر کا دن کسی حساب سے نہیں پڑتا، اس لحاظ سے رسول اللہﷺکی وفات یکم یا دوم ربیع الاول بروزپیر کو صحیح معلوم ہوتی ہے۔ اور یہ تاریخ ۲۸ مئی ۶۳۲ عیسوی ہوتی ہے۔ جس وقت آپﷺکا وصال ہوا اس وقت مدینہ میں دوم ربیع الاول ۱۱ ہجری مطابق ۲۸ مئی ۲۳۶ عیسوی پیر کادن تھا اور دوسرے علاقوں میں یکم ربیع الاول ۱۱ ہجری مطابق ۲۸ مئی ۶۳۲ عیسوی پیر کا دن ہو گا۔ اس حساب سے یکم اور دوم ربیع الاول کا اختلاف ختم ہو گا۔ غرض ہر جگہ پرپیر کا دن تھا اور ۲۸ مئی ۶۳۲ عیسوی کی تاریخ تھی، ہجری تاریخ مختلف ملک میں مختلف ہو سکتی ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

لرننگ پورٹل