یہودی لڑکا شدید بیمار تھا ۔ وہ نبی کریمﷺکی خدمت میں رہا کرتا تھا ۔ کبھی وضو کے لیے پانی لادیتا۔ کبھی جوتے سیدھے کردیتا ۔ رسول اللہﷺکو اس کی بیماری کی اطلاع ملی تو آپ عیادت کو تشریف لے آئے۔ تیمار داری کے بعد آپﷺنے اسے اسلام کی دعوت دی اور فرمایا: ’’پڑھو لا الہ الا اللہ‘‘۔ بچہ خاموش رہا اور اس نے اپنے والد کی طرف دیکھا، وہ بھی خاموش تھا۔ رسول اللہﷺنے دوبارہ ارشاد فرمایا: ’’اے بچے! کلمۂ طیبہ ادا کرو‘‘۔ بچہ شَش و پَنج کا شکار تھا۔ ا س نے پھراپنے والد کی طرف دیکھا ۔باپ نے کہا: ’’بیٹا ابو القاسم کی بات مان لو‘‘۔ پس لڑکے نے کہا:«أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ»’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں‘‘۔ نبی کریمﷺوہاں سے نکلے اور آپﷺفرما رہے تھے: «اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَخْرَجَهُ بِي مِنَ النَّارِ» ’’اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میرے ذریعے سے اس بچے کو دوزخ سے بچا لیا‘‘۔(صحیح بخاری ، مُسندِ احمد) مکے میں جب نبی کریمﷺنے توحید کی شمع روشن کی تو اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ چھوٹے سے بچے تھے۔ ان کے بارے میں آتا ہے: «أَسْلَمَ عَلِيٌّ وَهُوَ غُلاَمٌ ابْنُ ثَمَانِ سِنِينَ» (سنن ترمذی)’’حضرت علی اسلام لائے جب کہ ان کی عمر آٹھ سال تھی‘‘۔صحیح بخاری میں روایت موجود ہے کہ نبی کریمﷺنے ابنِ صیاد کو اسلام کی دعوت دی جب کہ ابھی وہ نابالغ تھا۔اسی طرح زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے چھوٹی عمر ہی میں اسلام قبول کیا ۔ علماے امت کا یہ متفقہ موقف ہے کہ نابالغ اگر اسلام میں داخل ہو جائے تو قانونی اور اخلاقی ہر اعتبار سے مسلمان شمار ہو گا اور اس پر شریعت کے احکام لاگو ہوں گے۔ اسلام کی تاریخ کے کسی بھی موڑ پر یہ نہیں ہوا کہ کسی کے اسلام کو اس کی کم عمری کی وجہ سے رد کر دیا گیا ہو۔ لیکن بدقسمتی سے اسلام کے نام پر بننے والے ملک پاکستان میں یہ کوششیں ہو رہی ہیں کہ کسی طرح کم عمری کے اسلام پر پابندی لگا دی جائے ۔اس کے لیے اقلیتوں کے تحفظ کے قانون کی آڑ میں یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ اسلام لانے کی کم از کم عمر اٹھارہ سال مقرر کر دی جائے ۔ اس مہم میں بعض ہندو اراکین اسمبلی اور کئی ایک این جی اوز شامل ہیں ۔ البتہ اس قانون سازی کاداعیہ داخلی نہیں بلکہ خارجی ہے۔ مغرب کے بے ہودہ نظام ِ معاشرت کے داعی ممالک کی طرف سے یہ کوشش ہو رہی ہے کہ مشرق کے لوگوں کے سماج کو اپنے ڈھب پر لایا جائے ۔ ان لوگوں کی مکمل سرگرمیوں کو سامنے لانے کے لیے تو کسی تفصیلی تحقیق کی ضرورت ہے ۔ بطورِ مثال ہم اس آن لائن مکالمے کا ذکر کرتے ہیں جو واشنگٹن ڈی سی کے ایک تھنک ٹینک ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے چند ماہ قبل منعقد ہوا ۔ اس ویبی نار میں پاکستان کی سابق رکن قومی اسمبلی اور امریکہ میں Religious Freedom Institute کی سینیر فیلو فرح ناز اصفہانی، ریڈیو فری ایشیا، ریڈیو مشال کے سینیر ایڈیٹر داود خٹک، ہندو امریکن فاؤنڈیشن میں ہیومن رائٹس کی ڈائریکٹر دیپالی کلکرنی، ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے Centre for Religious Freedom کی ڈائریکٹر نینا شیے نے مقررین کی حیثیت سے شرکت کی۔ پروگرام کی میزبانی اپرنا پانڈے نے کی جو ہڈسن انسٹی ٹیوٹ میں ہی Initiative on Future of India and South Asia کی ڈائریکٹر ہیں۔ اس ویبی نار کے درج ذیل مطالبے سامنے آئے تھے ۔ حکومتِ پاکستان اس بات کو یقینی بنائے کہ آبادی کے کسی بھی اقلیتی گروہ سے تعلق رکھنے والی بچی کی اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے نہ تو شادی کی جا سکے اور نہ ہی اس کا مذہب تبدیل کیا جا سکے۔ امریکہ کو چاہیے کہ وہ پاکستان کی حکومت کے لیے امداد کو مذہبی آزادیوں اور اقلیتوں کی بہتری سے مشروط کرے۔ پاکستان میں تبدیلیٔ مذہب کے مراکز اور اس میں ملوث شخصیات پر سفری اور معاشی پابندیاں عائد کی جائیں۔ ان لوگوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ اس معاملے میں بتدریج تبدیلی کے انتظار کرنے کے بجائے قانون کی نظر سے اس کو دیکھا اور نمٹا جائے گا‘‘۔
ان شیطانوں کے پاکستانی دوستوں نے چند ہی ماہ میں قانون سازی کی راہ ہموار کر لی تھی ، وہ تو بھلا ہو سینیٹر مشتاق احمد صاحب کا جنھوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور اس کے بعد کئی نیک دل صحافی بھی اس مہم میں شامل ہوگئے۔ اس کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل نے اس قانون کو غیر اسلامی قرار دے دیا۔ ہم ان تمام حضرات اور اداروں کے شکر گزار ہیں جنھوں نے اسلام کا راستہ روکنے کی اس مذموم کوشش کا ناکام بنایا ۔اس قانون سازی کے لیے بہانہ یہ بنایا گیا کہ مسلمان غیر مذاہب کی لڑکیوں پر جبر و اکراہ کر کے ان سے اسلام قبول کرواتے ہیں ۔ یہ ایک جھوٹا الزام ہے ۔اگر مسلمانوں نے ان ادوار میں زبردستی اسلام کو نہیں پھیلایا جب وہ دعوتِ دین کے جذبے سے سرشار اور سیاسی شان و شوکت سے مالا مال تھے تو آج جبکہ وہ مجموعی طور پر دعوت دین کے جذبے سے خالی اور دیگر اقوام کے مقابلے میں سیاسی کمتری و ابتری کا شکار ہیں تو وہ کس طرح اسلام پھیلانے میں زبردستی کر سکتے ہیں ۔
اسلام کا مشہور اصول ہے : ﴿لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ﴾ (البقرہ :۲۵۶) ’’دین میں کوئی زبردستی نہیں کی جا سکتی‘‘ ۔ اس کا اصل مطلب تو یہی ہے کہ اسلام میں داخل کرنے کے لیے زبردستی نہیں کی جا سکتی ۔ لیکن اگر کسی بڑے یا بچے کو اسلام میں داخلے سے روکا جائے ۔ یا وہ اسلام قبول کرنے کی نیت و ارادہ لے کر آئے تو آپ اسے واپس کر دیں کہ جاؤ اپنے کافر والدین سے کافروں کی مذہبی کتابیں پڑھو، اس کے بعد اگر طلبِ اسلام کی کوئی رمق باقی بچے تو پھر آجانا !! ظاہر ہے یہ اسلام میں داخلے سے زبردستی روکنے کے بالکل مترادف ہے۔ اندازہ کریں کہ اسلام میں داخلے کے لیے زبردستی ممنوع ہے تو اسلام میں داخلے سے روکنے کے لیے زبردستی کرنا کتنا بڑا جرم ہو گا ۔نبی کریمﷺکا یہ فرمان بھی یاد رکھنا چاہیے: «كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ، أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ» (صحیح بخاری ) ’’ہر بچہ دینِ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پس اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں‘‘۔ تو ایک نابالغ شخص کو اسلام میں داخلے سے روکنا ایک غیر فطری جبر ہے جس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ نبی کریمﷺنے فرمایا: «مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ سِنِين وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ» (سنن ابی داؤد) ’’اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہو جائیں اور اور نماز نہ پڑھنے پر ان کو سزا دو جب کہ وہ دس سال کے ہو جائیں اور ان کے بستر الگ کر دو‘‘ ۔ یہ متفقہ بات ہے کہ اسلام کے عملی احکام پر عقائد کو ترجیح حاصل ہے ۔ تو جب سات سالہ بچے کو نماز سکھانے کا حکم دیا جا رہاہے تو اس کاایمان و اسلام کا اقرار کس طرح ناقابل قبول قرار دیا جا سکتا ہے۔ وہ لوگ جو اسلام کی توسیع سے خائف ہیں اور اسلام کا دائرہ روکنا چاہتے ہیں ان کی نصیحت کے لیے ہم درج ذیل آیات پیش کرتے ہیں:﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُنِيرٍ()ثَانِيَ عِطْفِهِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ لَهُ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَنُذِيقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَذَابَ الْحَرِيقِ﴾ (الحج: ۸،۹)’’اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑا کرتے بلا کسی علم اور ہدایت اور کتابِ روشن کے، گردنوں کو اکڑائے ہوئے تاکہ گمراہ کریں اللہ کے راستے سے ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ہم قیامت کے دن ان کو جلاتی آگ کا مزہ چکھائیں گے‘‘۔ ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ﴾ (ص:۲۶)’’بے شک جو لوگ اللہ کے راستے سے روکتے ہیں ان کے لیے شدید عذاب ہے ۔۔۔۔‘‘۔