حسین آزاد(۱۸۳۰۔۱۹۱۰)
معروف اردو ادیب، شاعر، اردو کے ارکانِ خمسہ میں سے ایک
سقراط حکیم نے کیا خوب لطیفہ کہا ہے کہ اگر تمام اہلِ دنیا کی مصیبتیں ایک جگہ لا کر ڈھیر کردیں اور پھر سب کو برابر بانٹ دیں تو جو لوگ اب اپنے تئیں بدنصیب سمجھ رہے ہیں وہ اس تقسیم کو مصیبت اور پہلی مصیبت کو غنیمت سمجھیں گے۔ ایک اور حکیم اس لطیفے کے مضمون کو اور بھی بالا تر لے گیا ہے۔ وہ کہتا کہ اگر ہم اپنی اپنی مصیبتوں کو آپس میں بدل بھی سکتے تو پھر ہر شخص اپنی پہلی ہی مصیبت کو اچھا سمجھتا۔
میں ان دونوں خیالوں کو وسعت دے رہا تھا، اور بے فکری کے تکیے سے لگا بیٹھا تھا کہ نیند آگئی۔ خواب میں دیکھتا ہوں کہ سلطانِ افلاک کے دربار سے ایک اشتہار جاری ہوا ہے۔ خلاصہ جس کا یہ ہے کہ تمام اہلِ عالم اپنے اپنے رنج و الم اور مصائب و تکالیف کو لائیں اور ایک جگہ ڈھیر لگائیں۔ چنانچہ اس مطلب کے لیے ایک میدان کہ میدانِ خیال سے بھی زیادہ وسیع تھا تجویز ہوا اور لوگ آنے شروع ہوئے۔ میں بیچوں بیچ کھڑا تھا اور ان کے تماشے کا لطف اٹھا رہا تھا۔ دیکھتا تھا کہ ایک کے بعد ایک آتا ہے اور اپنا بوجھ سر سے پھینک جاتا ہے لیکن جو بوجھ گرتا ہے مقدار میں اور بھی بڑا ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ مصیبتوں کا پہاڑ بادلوں سے بھی اونچا ہو گیا۔
ایک شخص سوکھا سہما،دبلاپے کے مارے فقط ہوا کی حالت ہو رہا تھا، اس انبوہ میں نہایت چالاکی اور پھرتی سے پھر رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک آئینہ تھا جس میں دیکھنے سے شکل نہایت بڑی معلوم ہونے لگتی تھی۔ وہ ایک ڈھیلی ڈھالی پوشاک پہنے تھا۔ جس کا دامن دامنِ قیامت سے بندھا ہوا تھا۔ اس پر دیوزادوں اور جنات کی تصویریں زردوزی کڑھی ہوئی تھیں۔ اور جب وہ ہوا سے لہراتی تھیں تو ہزاروں عجیب وہ غریب صورتیں اس پر نظر آتی تھیں، اس کی آنکھ وحشیانہ تھی مگر نگاہ میں افسردگی تھی، اور نام اس کا وہم تھا۔ ہر شخص کا بوجھ بندھوا تا تھا اور لد واتا تھا اور مقامِ مقررہ پر لے جاتا تھا۔ میں نے اپنے ہم جنسوں اور ہم صورت بھائیوں کو جب بوجھوں کے نیچے گڑ گڑاتا دیکھا اور ان مصیبتوں کے انبار کو خیال کیا تو بہت گھبرایا اور دل میں ایسا ترس آیا کہ بیان نہیں ہو سکتا۔ اس عالم میں بھی چند شخصوں کی حالت ایسی نظر آئی کہ اس نے ذرا میرا دل بہلایا۔ صورت بہلا وے کی یہ ہوئی کہ دیکھتا ہوں کہ ایک شخص پرانے سے چکن کے چغے میں ایک بھاری سی گٹھری لے آتا ہے۔ جب وہ گٹھری انبار میں پھینکی تو معلوم ہوا کہ افلاس کا عذاب تھا۔ اس کے پیچھے ایک اور شخص دوڑا آتا تھا، بدن سے پسینہ بہتا تھا، اور مارے بوجھ کے ہانپتا جاتا تھا، اس نے بھی وہ بوجھ سرسے پھینکا اور معلوم ہوا کہ اس کی جورو بہت بری تھی۔ اس نے وہ بلا سر سے پھینکی ہے۔
ان کے بعد ایک بڑی بھیڑ آئی کہ جس کی تعداد کا شمار نہ تھا۔ معلوم ہوا کہ یہ عاشقوں کا گروہ ہے۔ ان کے سروں پر دودِ آہ کی گٹھریاں تھیں کہ انھی میں آ ہوں کے تیر ِخیالی اور نالوں کے نیزۂ وبالی دبے ہوئے تھے۔ اگرچہ یہ لوگ مارے بوجھ کے اس طرح درد سے آہیں بھرتے تھے کہ گویا اب سینے ان کے پھٹ جائیں گے لیکن تعجب یہ ہے کہ جب اس انبار کے پاس آئے تو اتنا نہ ہو سکا کہ ان بوجھوں کو سر سے، پھینک دیں۔ کچھ جدو جہد سے سر ہلایا۔ مگر جس طرح لدے ہوئے تھے اسی طرح چلے گئے۔ بہت بڑھیاں دیکھیں کہ بدن کی جھریاں پھینک رہی تھیں۔ چند نوجوان اپنی کالی رنگت کچھ موٹے موٹے ہونٹ۔ اکثر ایسے میل جمے ہوئے دانت پھینکتے تھے کہ جنھیں دیکھ کر شرم آتی تھی مگر مجھے یہ ہی حیرت تھی کہ اس پہاڑ میں سب سے زیادہ جسمانی عیب تھے۔ ایک شخص کو دیکھتا ہوں کہ اس کی پیٹھ پر بھاری سے بھاری اور بڑے سے بڑا بوجھ ہے۔ مگر خوشی خوشی اٹھائے چلا آتا ہے۔ جب پاس آیا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک کبڑا ہے۔ اور آدم زاد کے انبار رنج و الم میں اپنے کبڑے پن کو پھینکنے آیا ہےکہ اس کے نزدیک اس سے زیادہ کوئی مصیبت نہیں۔ اس انبار میں انواع و اقسام کے سقیم اور امراض بھی تھے جن میں بعض اصلی تھے اور بعض ایسے تھے کہ غلط فہموں نے خواہ مخواہ انھیں مرض سمجھ لیا تھا۔ ایک بوجھ مجھے اور نظر آیا جو امراض آدم زاد پر عارض ہوتے ہیں ان سب کا مجموعہ تھا۔ یعنی بہت سے حسین نوجوان تھے کہ اپنے ہاتھوں کی کمائی یعنی امراض نوجوانی ہاتھوں میں لیے آتے تھے۔ مگر میں فقط ایک ہی بات میں حیران تھا، اور وہ یہ تھی کہ اتنے بڑے انبار میں کوئی بیوقوفی یا بد اطواری پڑی ہوئی نہ دکھائی دی۔ میں یہ تماشے دیکھتا تھا اور دل میں کہتا تھا کہ اگر ہو سہاے نفسانی اور ضعفِ جسمانی اور عیوبِ عقلی سے کوئی نجات پانی چاہے تو اس سے بہتر موقع نہ ہاتھ آئے گا۔ کاش کہ جلد آئے اور پھینک جائے۔ اتنے میں ایک عیاش کو دیکھا کہ اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائے بے پرواہ چلا آتا ہے۔ اس نے بھی ایک گٹھری پھینک دی مگر جب دیکھا تو معلوم ہوا کہ گناہوں کے عوض اپنی عاقبت اندیشی کو پھینک گیا۔ ساتھ ہی ایک چھٹے ہوئے شُہدے آئے۔ میں سمجھا کہ یہ شاید اپنی کوتاہ اندیشی کو پھینکیں گے مگر وہ بجائے اس کے اپنی شرم و حیا کو پھینک گئے۔
جب تمام بنی آدم اپنے بوجھوں کا وبال سر سے اتار چکے تو میاں وہم کہ جب سے اب تک اس مصروفیت میں سرگرداں تھے مجھے الگ کھڑا دیکھ کر سمجھے کہ یہ شخص خالی ہے۔ چنانچہ اس خیال سے میری طرف جھکے۔ ان کو اپنی طرف آتے دیکھ کر میرے حواس اڑ گئے، مگر انھوں نے جھٹ اپنا آئینہ سامنے کیا۔ مجھے اپنا منھ اس میں ایسا چھوٹا معلوم ہوا کہ بے اختیار چونک پڑا۔ بر خلاف اس کے بدن اور قد و قامت ایسا چوڑا چکلا نظر آیا کہ جی بیزار ہو گیا، اور ایسا گھبرایا کہ چہرے کو نقاب کی طرح اتار کر پھینک دیا او رخاص خوش نصیبی اس بات کو سمجھا کہ ایک شخص نے اپنے چہرے کو بڑا اور اپنے بدن پر ناموزوں سمجھ کر اتار پھینکا تھا۔ یہ چہرہ حقیقت میں بہت بڑا تھا، یہاں تک کہ فقط اس کی ناک میرے سارے چہرے کے برابر تھی۔
ہم اس ا نبوہِ پر آفات پر غور سے نظر کر رہے تھے اور اس عالمِ ہیولائی کی ایک ایک بات کو تاک تاک کر دیکھ رہے تھے۔ اب سلطانِ افلاک کی بارگاہ سے حکم پہنچا کہ اب سب کو اختیار ہے جس طرح چاہیں اپنے اپنے رنج و تکلیف تبدیل کر لیں، اور اپنے اپنے بوجھ لے کر گھروں کو چلے جائیں۔ یہ سنتے ہی میاں وہم پھر مستعد ہوئے اور پھر بڑی ترت پھرت کے ساتھ اس انبارِ عظیم کے بو جھ باندھ باندھ کر تقسیم کرنے لگے۔ ہر شخص اپنا اپنا بوجھ سنبھالنے لگا اور اس طرح کی ریل پیل اور دھکم دھکا ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ چنانچہ اس وقت چند باتیں جو میں نے دیکھیں وہ بیان کرتا ہوں۔
ایک پیر مرد کہ نہایت معزز محترم معلوم ہوتا تھا۔ دردِ قولنج سے جاں بلب تھا اور لاولدی کے سبب سے اپنے مال و املاک کے لیے ایک وارث چاہتا تھا اس نے درد مذکور کو پھینک کر ایک خوبصورت نوجوان لڑکے کو لیا مگر لڑکے نا بکار کو نافرمانی اور سرشوری کے سبب سے دق ہو کر اس کے باپ نے چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ اس نالائق نوجوان نے آتے ہی جھٹ بڈھے کی ڈاڑھی پکڑ لی اور سر توڑنے کو تیار ہوا۔ اتفاقاً برابر ہی لڑکے کا حقیقی باپ نظر آیا کہ اب وہ دردِ قولنج کے مارے لوٹنے لگا تھا۔ چنانچہ بڈھے نے اس سے کہا کہ برائے خدا میرا درد قولنج مجھے پھیر دیجئے اور اپنا لڑکا لیجیے کہ میرا پہلا عذاب اس سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ مگر مشکل یہ ہوئی کہ مبادلہ اب پھر نہ سکتا تھا۔
ایک بچارہ جہازی غلام تھا کہ اس نے قیدِ زنجیر اور جہازی محنت کی تکلیف سے دق ہو کر اس عذاب کو چھوڑا تھا اور جھولے کے مرض کو لے لیا تھا۔ اسے دیکھا کہ دو قدم چل کر بیٹھ گیا ہے اور سر پکڑ کر بسور رہا ہے۔
غرض اسی طرح کئی شخص تھے کہ اپنی حالت میں گرفتار تھے، اور اپنے کیے پر پچھتا رہے تھے۔ مثلاً کسی بیمار نے افلاس لے لیا تھا، وہ اس سے ناراض تھا۔ کسی کو بھوک نہ لگتی تھی، وہ اب جوع البقر کے مارے پیٹ کو پِیٹ رہا تھا۔ ایک شخص نے فکر سے دق ہو کر اسے چھوڑا تھا۔ اب وہ دردِ جگر کا مارا لوٹ رہا تھا اور اسی طرح برعکس۔ غرض ہر شخص کو دیکھ کر عبرت اور پشیمانی حاصل ہوئی تھی۔
عورتیں بچاری اپنے ادل بدل کے عذاب میں گرفتار تھیں۔ کسی نے تو سفید بالوں کو چھوڑا تھا۔ مگر اب پا ؤں میں ایک پھوڑا ہو گیا تھا کہ لنگڑاتی تھی اور ہائے ہائے کرتی چلی جاتی تھی۔ کسی کی پہلے کمر بہت پتلی تھی مگر چونکہ سینہ اور بازو بھی دبلے تھے، اس لیے پتلی کمر کو چھوڑا تھا۔ اب گول گول بارودوں کے ساتھ بڑی سی توند نکالے چلی جاتی تھی۔ کسی نے چہرے کی خوبصورتی لی تھی مگر اس کے ساتھ بے آبروئی کا داغ اور بدنامی کا ٹیکا بھی چلا آیا تھا۔ غرض ان سب میں کوئی ایسا نہ تھا کہ جسے پہلے نقص کی نسبت نیا نقص گراں نہ معلوم ہو رہا ہو۔ ان سب کی حالتوں کو دیکھ کر یہ میری سمجھ میں آیا کہ جو مصیبتیں ہم پر پڑتی ہیں۔ وہ حقیقت میں ہمارے سہارنے کے بموجب ہوتی ہیں یا یہ بات ہے کہ سہتے سہتے ہمیں ان کی عادت ہو جاتی ہے۔
مجھے اس بڈھے کے حال پر نہایت افسوس ہوا کہ ایک خوبصورت سجیلا جوان بن کر چلا۔ مگر مثانے میں ایک پتھری ہو گئی کہ اب بھی سیدھی طرح نہ چل سکتا تھا۔ اس سے بھی زیادہ اس نوجوان کے حال پر افسوس آتا تھا کہ بچارا لکڑی ٹیکتا گرتا پڑتا چلا جاتا تھا۔ کمر جھکی ہوئی۔ گردن بیٹھی ہوئی تھی۔ مونڈھے کھوئے ہوئے سر سے اونچے نکل آئے تھے اور جو عورتیں پہلے اس کی سج دھج پر جان دیتی تھیں ان کا غول گرد تھا۔ یہ انھیں دیکھتا تھا اور پانی پانی ہوا جاتا تھا۔ جب سب کے مباد لے بیان کیے ہیں تو اپنے مبادلے سے بھی مجھے صاف نہ گزرنا چاہیے، چنانچہ اس کی صورت حال یہ ہے کہ بڑے چہرے والے یار میرے چھوٹے چہرے کو لے کر ایسے بدنما معلوم ہونے لگے کہ جب میں نے ان کی طرف دیکھا تو اگرچہ میرا ہی چہرہ تھا۔ مگر میں بے اختیار ہنسا کہ میری اپنی بھی صورت بگڑ گئی اور صاف معلوم ہوا کہ وہ بچارا میرے ہنسنے سے شرما گیا۔ مگر مجھے بھی اپنے حال پر کچھ فخر کی جگہ نہ تھی۔ کیوں کہ جب میں اپنی پیشانی سے عرق ندامت پوچھنے لگا تو وہاں تک ہاتھ نہ پہنچ سکا، چہرہ اتنا بڑا ہو گیا تھا کہ ہاتھ رکھتا کہیں تھا اور جا پڑتا کہیں تھا۔ ناک اتنی بڑی ہو گئی تھی کہ جب چہرے پر ہاتھ پھیرا تو کئی دفعہ ہاتھ نے ناک سے ٹکر کھائی۔ میرے پاس ہی دو آدمی اور بھی تھے کہ جن کے حال پر تمسخر کرنا واجب تھا۔ ایک تو وہ شخص تھا کہ پہلے ٹانگوں کے مٹاپے کے سبب سے چھدرا کر چلتا تھا۔ اس نے ایک لم ٹنگو سے مبادلہ کر لیا تھا کہ جس میں پنڈلی معلوم نہ ہوتی تھی۔ ان دونوں کو جو دیکھتا تھا وہ ہنستا تھا۔ ایک تو ایسا معلوم ہوتا تھا۔ گویا دو بلیوں پر چلا جاتا ہے، سرکا یہ عالم تھا گویا ہوا میں اڑا جاتا ہے اور دوسرے کا یہ حال تھا کہ دونوں طرف دو دائرے کھینچے چلے جاتے تھے۔ میں نے اس عجیب الخلقت کی حالت غریب کو دیکھ کر کہا کہ میاں اگر دس قدم سیدھے چلے جاؤ تو سوا دمڑی کی ریوڑیاں کھلاتے ہیں۔
غرض وہ سارا انبار عورتوں اور مردوں میں تقسیم ہو گیا۔ مگر لوگوں کا یہ حال تھا کہ دیکھنے سے ترس آتا تھا۔ یعنی جان سے بیزار تھے اور اپنے اپنے بوجھوں میں دبے ہوئے اوپر تلے دوڑتے پھرتے تھے۔ سارا میدان گر یہ وزاری نالہ و فریاد آہ و افسوس سے دھواں دھار ہو رہا تھا۔ آخر سلطانِ افلاک کو بیکس آدم زاد کے حالِ دردناک پر رحم آیا، اور حکم دیا کہ اپنے اپنے بوجھ اتار کر پھینک دیں، پہلے ہی بوجھ انھیں مل جائیں۔ سب نے خوشی خوشی ان وبالوں کو سرد گردن میں سے اتار کر پھینک دیا۔ اتنے میں دوسرا حکم آیا کہ وہم جس نے انھیں دھوکے میں ڈال رکھا تھا وہ شیطان نابکار یہاں سے دفع ہو جائے۔ اس کی جگہ ایک فرشتہ ٔرحمت آسمان سے نازل ہوا۔ اس کی حرکات و سکنات نہایت معقول و باوقار تھیں اور چہرہ بھی سنجیدہ اور خوش نما تھا۔ اس نے بار بار اپنی آنکھوں کو آسمان کی طرف اٹھایا اور رحمتِ الہی پر توکل کر کے نگاہ کو اسی کی آس پر لگا دیا۔ اس کا نام صبر و تحمل تھا۔ ابھی وہ اس کوہِ مصیبت کے پاس آکر بیٹھا ہی تھا جو کوہِ مذکور خودبخود سمٹنا شروع ہوا۔ یہاں تک کہ گھٹتے گھٹتے ایک ثلث رہ گیا۔ پھر اس نے ہر شخص کو اصلی اور واجبی بوجھ اٹھا اٹھا کر دینا شروع کیا اور ایک ایک کو سمجھاتا گیا کہ نہ گھبراؤ اور بردباری کے ساتھ اٹھاؤ۔ ہر شخص لیتا تھا اور اپنے گھر کو راضی رضا مند چلا جاتا تھا۔ ساتھ ہی اس کا شکریہ ادا کرتا تھا کہ آپ کی عنایت سے مجھے اس انبار لا انتہا میں سے اپنا بارِ مصیبت چننا نہ پڑا۔
(نیرنگ خیال حصہ اول از محمد حسین آزاد، ص ۵۷)