محمد بلال احمد
طالبِ علم، فقہ اکیڈمی
’’لفظ پادری کو بھی اتنا ہی عام ہو جانا چاہیے جتنا لفظ عیسائی‘‘۔ یہ سولھویں صدی عیسوی میں اٹھنے والی تحریک ِ اصلاحِ مذہب (Reformation ) کے مرکزی کردار مارٹن لوتھر کا مشہور جملہ ہے۔ اس جملے کا پس منظر یعنی کلیسا کے جبر و استبداد اور داخلی فسادات و تضادات ابھی موضوع ِ بحث نہیں ہیں، جاننے والے جانتے ہیں کہ انھی کا رد عمل تحریکِ اصلاح مذہب کی صورت میں ہوا جو ایک ’نئے فرقے‘ پروٹسٹنٹ کے جنم پر منتج ہوئی۔ عیسائی روایت اور اس کے مراتب و مراکز علمی کی بے توقیری اور اس کے اختیار کا انکار پروٹسٹنٹ کا عام وتیرہ تھا۔انھوں نے قرار دیا کہ دین کی تشریح اور انجیل کی تفسیر پرکسی پادری کا اجارہ نہیں ہے بلکہ ’ہر عیسائی‘ یہ حق رکھتا ہے۔پوپ اور پادری کے اختیار گھٹانے یا ختم کرنے سے فائدہ تویہ ہوا کہ چرچ کی بدعنوانیوں سے نجات اور آزادی ملی لیکن اس مارا ماری میں دین و مذہب کی جان نکل گئی اور نفسِ مذہب ہی سے آزادی جیسے خوفناک نتائج کا سامنا بھی کرناپڑا۔ ’’ہر عیسائی کو پادری ہونا چاہیے اور ہر پادری کو انجیل کی تشریح کا حق ہونا چاہیے‘‘ یہ اصل میں چرچ کی اس روایت سے بغاوت اور انکار تھا جس کاتسلسل صدیوں پہ محیط تھا۔ جب روایت کا پہرہ ٹوٹا تو اب نت نئے اور بھانت بھانت کے فلسفے سر اٹھانے لگے۔ جس کے نتیجے میں مغرب کا موجودہ خدا آزاد بلکہ خدا بیزار معاشرہ پیدا ہوا۔
مذہبی روایت سے آزادی بلکہ بغاوت کی ایسی ہی صدائیں عالمِ اسلام میں بھی ایک عرصے سے بلند ہو رہی ہیں اور فکرمندی کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے خوش نما نعرے عالمِ اسلام میں مقبولیت بھی حاصل کر رہے ہیں۔
ظاہرہے کہ عیسائیت میں کلیسا سے آزادی کی باتیں کسی درجے بر محل بھی تھیں لیکن دین ِ اسلام میں تو بے جا اور بے محل ہیں۔ ایسی صداؤں کے پیچھے عمومارجالِ دین اور دین میں موجود سلسلۂ مراتب (Hierarchy ) سے آزادی کا فلسفہ کارفرما ہوتا ہے۔یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اہلِ کتاب کا کتاب اللہ سے تعامل ایک عرصہ درست بنیادوں پر قائم رہا اور دین و مذہب پر چرچ کے اختیار کی درست بنیادیں بھی موجود تھیں: ﴿يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ﴾ (المائدہ:۴۴)’’انبیاے کرام ان کتابوں کے مطابق فیصلے کرتے رہے ان لوگوں کے لیے جو فرماں بردار تھے یہودیوں میں سے، اور دیگر اللہ والے اور علما بھی بہ سبب اس کے کہ وہ محافظ بنائے گئے تھے کتاب اللہ پر‘‘۔ کتاب اللہ چونکہ مجموعۂ الفاظ ہے اور یہ الفاظ ایضاح ِ مراد کے لیے تشریح کے محتاج ہوتے ہیں۔ کتاب اللہ کے الفاظ کی شرح، پیغمبر کے اقوال و افعال کی روشنی میں کی جاتی ہے۔اس کام کے اہل وہ علماے کتاب ہی ہوتے ہیں جو ایک طرف کتاب کی زبان و اسلوب پر قدرت کے ساتھ پیغمبر کے اقوال وافعال سے واقف ہوں اور یہ واقفیت بھی یا تو براہ راست ہونی چاہیے اور جہاں اس کا امکان نہ ہو وہاں نبی کے شاگردوں اور ان کے شاگردوں کے شاگردوں سے منقول ہونی چاہیے۔ اس سینہ بہ سینہ شاگردی ہی کانام دینی روایت ہے۔ چونکہ علماے کرام اس روایت کے امین ہوتے ہیں اس لیے انھی کو کتاب اللہ کا محافظ قرار دیا گیا کہ کتاب کی وہی تشریح درست قرار دی جا سکے گی جس پر گروہ علما صاد کرے۔ تو اس تفصیل کی روشنی میں یہ سمجھنا چاہیے کہ کتبِ مقدسہ کی تشریح و تفہیم میں چرچ کا اپنے اختیارات پر اصرار کرنا تو غلط نہ تھا۔ غلطی اس تجاوز حدود میں تھی جو چرچ نے روا رکھا، وہ بجائے اس کے کہ کتاب اللہ کے معارف و مسائل کو بیان کرتے دنیاوی اغراض کے لیے اسے چھپانے لگے اور اس کی غلط تشریح کرنے لگے: ﴿وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ﴾ (آل عمران:۱۸۷)’’اور جب ہم نے پختہ وعدہ لیا ان لوگوں سے جنھیں کتاب دی گئی تھی کہ تم اسے لوگوں کے لیے بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں لیکن انھوں نے اس کتاب کو پس پشت ڈال دیا اور تھوڑی قیمت کے عوض اسے بیچ ڈالا پس کیا ہی برا ہے جو وہ خرید و فروخت کرتے ہیں‘‘۔اس بُری سوداگری کا ایک مظہر یہ بھی تھا کہ علماے نصاری نے کتاب اللہ یعنی انجیل کو عوام کی رسائی سے دور کر دیا تھا۔ کسی عام عیسائی کو اس کو پڑھنے کی اجازت تھی نہ ہی وہ اس کی زبان(لاطینی) سیکھ سکتا تھا، بعض مقامات پر تو شدت کا یہ عالم تھا کہ اس بات کا اہتمام کیا جاتا تھا کہ کوئی عام عیسائی کتاب اللہ کے الفاظ سن بھی نہ سکے۔ جب عوام الناس سے کتاب کو چھپا لیا گیا تو اب ا گلا مرحلہ تحریف و تدلیس بھی آسان ہو گیا: ﴿فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ﴾ (المائدہ: ۱۳)’’پس بسبب ان کے میثاق کو توڑنے کے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا وہ کلام کو اس کے محل و مقام سے بدل ڈالتے ہیں اور جو نصیحت انھیں کی گئی تھی اس کا ایک حصہ بھلا بیٹھے‘‘۔اپنے اس طرز عمل سے انھوں نے تفہیم و تشریح کے بجائے تدلیس و تلبیس کو اپنا وتیرہ بنا لیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تحلیل و تحریم کا اختیار ان کے ہاتھوں میں ہو کر رہ گیا اور وہ لوگوں کے گویا ’رب‘ بن بیٹھے۔اس بات کی تائید حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کے واقعے سے بھی ہوتی ہے۔ جناب ِ نبی کریم ﷺ نے سورۃ التوبہ کی یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ﴾ (التوبۃ: ۳۱) ’’انھوں نے اللہ کے بجائے اپنے احبار(یعنی یہودی علما) اور راہبوں (یعنی عیسائی درویشوں) کو خدا بنا لیا ہے‘‘۔ پھر ارشاد فرمایا: ((أَمَاإِنّهُم لَمْ یَکُوْنُوْا یَعْبُدُوْنَهُمْ، وَلٰکِنْ إذَا کَانُوْا أَحَلُّوْا شَیْئا اِسْتَحَلُّوْهُ وَإذَا حَرَّمُوْا عَلَیْهِمْ شَیْئا حَرَّمُوْهُ)) (ترمذی،ابواب التفسیر)’’وہ ان کو پوجتے نہ تھے، بلکہ جب وہ کسی حرام کردہ چیز کو حلال کرتےتو یہودونصاری بھی اس کو حلال کر لیتے تھے اور جب کسی حلال کردہ چیز کو حرام کرتے یہودونصاری بھی اس کو حرام ٹھہرا لیتے تھے‘‘۔
چرچ کے جس اختیار کو ہم نے اوپر تسلیم کیا وہ اختیار انھی دلائل سے علماے اسلام کو بھی حاصل ہے کہ وہ کتاب و شریعت کی تشریح میں ایک معیار بلکہ ایک نگران و محافظ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ((أَنَّ العُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ، وَرَّثُوا العِلْمَ، مَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ)) (صحیح بخاری)’’بے شک علما ہی پیغمبروں کے وارث ہیں جنھوں نے علوم نبوت کی وراثت پائی جس نے بھی اس علم میں سے حصہ پایا اس نے (وراثتِ پیغمبری) میں وافر حصہ پا لیا‘‘۔اس کے برعکس دین ِاسلام کی روایت عیسائیت کی اس مسخ شدہ روایت سے قطعاً مختلف ہے۔ اسلام میں کبھی بھی اس طرح کی اجارہ داری قائم نہیں ہوئی۔ کتاب اللہ کی قراءت و تلاوت اور حصول ِفہم کے راستوں کو کبھی بھی مسدود نہیں کیا گیا۔ بلکہ علماے کرام نے نظری طور پر عوام کو حفظ و ناظرہ کی طرف متوجہ کیا، تلاوت و حفظ کے فضائل تحریر و تقریر کے ذریعے عام کیے اور پھر عملا ناظرے و حفظ کے مکاتب و مدارس قائم کیے۔اسی لیے اصل متنِ کتاب تک ہر مسلمان کی رسائی ہے۔علما نے علاقائی زبانوں میں ترجمہ و تفسیر کی زبانی و تحریری اشاعت سے عوام میں علومِ قرآنی کو فروغ دیا۔
حدیثِ مبارکہ کے الفاظ ’’جس نے بھی اس علم میں سے حصہ پایا اس نے (وراثتِ پیغمبری) میں وافر حصہ پا لیا‘‘ سے اشارہ نکلتا ہے کہ پیغمبر کا وارث بننے کا انحصار کسی ذات یا رنگ و نسل پر نہیں ہے بلکہ اس کا انحصار حصولِ علم دین پر ہے جس نے علم کی خاص مقدار جمع کر لی وہ نبی کی وراثت پر فائز ہو گیا۔ یہاں کبھی بھی ذات پات کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ قرون اولٰی میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے موالی امامت کے منصب پر فائز ہوئے۔فقہاے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجل تلامیذ موالی ہی تھے۔ عبد الرحمن بن زيد بن اسلم مشہور قول ہے: لَمّا مَاتَ الْعَبَادَلَةُ صَارَ الْفِقْهُ في جَمِيعِ الْبُلْدانِ إلَى الْمَوَالي إلّا الْمَدِينَة ’’جب عبادلہ اربعہ (حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت عبد اللہ بن عمرو، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم) کا انتقال ہو گیا تو سوائے مدینے کے، تمام شہروں میں فقہ موالی حضرات کے مرہون ہی رہ گئی‘‘۔خلیفہ عبد الملك بن مروان نے امام ابن شہاب الزہری سے مختلف شہروں کے ائمہ کا ذکر کیا تو ہر شہر میں کسی نہ کسی مولٰی ہی کو شیخ اور استاد پایا۔اس پر خلیفہ نے تعجب کیا تو امام ابن شہاب نے فرمایا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّمَا هُوَ أَمْرُ اللَّهِ وَدِينُهُ مَنْ حَفِظَهُ سَادَ)) ’’اے امیر المومنین یہ اللہ کے احکام اور اس کے دین کی بات ہے جس نے ان کی حفاظت کی سردار بن گیا‘‘۔دور ِ آخریں کی بات کریں تو ایک یہودی شخص نے اسلام قبول کر کے علمی میدان میں مہارت کا ثبوت دیا تو مسلمان اسے علامہ محمد اسد کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ایک سکھ مسلمان ہو کر مدرسے کا شاگرد بنا تو آج ہم اسے مولانا عبید اللہ سندھی کے نام سے جانتے ہیں۔ خیر یہ تو چند مثالیں تھیں ورنہ ہماری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔بتانا یہ مقصود ہے کہ اسلامی روایت علم دوستی پر مبنی ہے جس نے اس کا حق ادا کیا اسے بھی اس کا حق دیا گیا۔
دوسری اہم بات یہ کہ علماے کرام کی مشیخیت اور حفاظت و نگرانی مبنی بر اصول ہے یعنی یہاں اگر کوئی استاد الحفاظ بھی کسی زبر زیر کی غلطی کرے گا تو اسی کے کئی ایک شاگرد اسے ٹوکنے کو موجود ہوں گے۔ اسلامی روایت میں مختلف فنون کے اصول و ضوابط طے ہیں یہاں اصولِ فقہ، اصولِ اجتہاد، اصولِ فتوی اصولِ حدیث و تفسیر اور اصولِ عقیدہ وغیرہ مدون شدہ موجود ہیں تو یہ تمام ماہرین شریعت اپنے میدان کے اصولوں کے پابند ہیں۔ یہاں اگر کوئی مفتی ان اصولوں سے انحراف کرے گا تو اسی مسلک کے مفیان اس کے ناقد بن کر کھڑے ہو جائیں گے۔ اگر کوئی مفسر و محدث بھی کوئی ایسی تشریح کرے گا جو اسلامی علمیت کے مطابق نہ ہو گی تو دوسرے علماے کرام اس پر نقد کر کے اس کے قول کو تفرد قرار دیں گے۔اس تفصیل سے ظاہر ہے کہ ہماری روایت عیسائیت و یہودیت کے برخلاف ایک بہت منظم و منضبط روایت ہے۔ایسی صورت میں اسلام میں موجود سلسلۂ مراتب سے آزادی نقصان ِمحض کے علاوہ کسی اور چیز کی موجِب نہیں ہو سکتی۔اس طویل تمہید کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اسلام اور عیسائیت کی روایات میں موجود جوہری فرق سامنے آجائے تاکہ اسلام کے فرقِ مراتب علمی اور کلیسا کے استبداد میں اشتباہ پیش نہ آئےاور کوئی نادانی میں اسلامی روایت یا بہ الفاظِ دیگراں ’’ملّائیت‘‘ کو پاپائیت قرار دینے کا گناہ نہ کرے۔
دینی روایت کے بارے میں چند اشکال
اگرچہ جدید حضرات میں روایت کے بارے میں متعدد اشکالات پائے جاتے ہیں لیکن سردست ہم ان پر بات کرتے ہیں، جو قرآن حکیم سے جڑے ہونے کی وجہ سے زیادہ تر بیان ہوتے ہیں۔ پہلا اشکال یا الزام یہ ہے کہ قرآن کریم کے افہام و تفہیم پر مولویوں نے ناجائز قدغنیں عائد کر رکھی ہیں۔ قرآن نہایت آسان کتاب ہے، ہم خود پڑھیں گے اور خود سمجھیں گے۔اس کے لیے کسی قسم کے لمبے چوڑے علوم کی ضرورت نہیں ہے۔
اس کے لیے وہ سورۃ القمر کی آیت مبارکہ کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ اجی دیکھیں اللہ تو کہہ رہا ہے کہ قرآن آسان ہے اور مولوی صاحب کہتے ہیں کہ قرآن مشکل ہے۔ سمجھنا چاہیے کہ فہم قرآن کے دو درجے ہیں۔ ایک کو تذکر بالقرآن کہا جاتا ہے اور دوسرے کو تدبر القرآن کہا جاتا ہے۔ قرآن و سنت میں بعض احکامات تو ایسے ہیں جن میں کسی قسم کا کوئی اِبہام، اِجمال یا ظاہری تعارض نہیں ہوتا اور بغیر کسی خاص الجھن کے ان کا معنی باآسانی سمجھا جا سکتا ہے مثلاً: ﴿وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا﴾ (الحجرات: ۱۲)’’اور برا نہ کہو ایک دوسرے کو پیٹھ پیچھے‘‘ اور ﴿وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾ (الاسراء: ۲۳) ’’اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔ یہ قرآنِ کریم سے بنیادی نصیحت (تذکر)کا حصول ہے اور ایسے احکامات کے لیے کسی خاص دقت کا شکار نہیں ہونا پڑتا۔حلال وحرام کے بیشتر احکامات اور اصول و مسلمات ِدینیہ اکثر و بیشتر اسی پیرائے میں بیان ہوئے ہیں۔ یہ آپ یوں سمجھ لیں کہ جھیل کی سطح پر تیرتا ہوا کنول ہے لیکن انھی امور کے تفصیلی احکام، موتی اور مونگوں کی مانند ہیں جن کو پانے کے لیے پانیوں کی گہرائی میں غوطہ زن ہونا پڑتا ہے جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ مثال کے طور پر مندرجہ بالا آیات کریمہ سے یہ تو معلوم ہو گیا کہ غیبت نہیں کرنا چاہیے لیکن غیبت کی تعریف کیا ہے؟ چلیں یہ بھی آسان ہے لیکن وہ کون سی صورتیں ہیں جن میں کسی کے حقیقی عیب کو بیان کرنا جائز ہو جاتا ہے اور وہ کون سی صورتیں ہیں جن میں کسی کے حقیقی عیب کا بیان واجب ہو جاتا ہے۔ پھر والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم تو آیت مندرجہ بالا سے معلوم ہو گیا لیکن اس کی حدود و قیود کیا ہیں۔؟ تو معلوم ہوا کہ آسان اور واضح حکم بھی اپنی تعمیل کے لیے تشریح کا محتاج ہوتا ہے۔
سورۃ القمر کی آیت ﴿وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ﴾ (القمر: ۱۷)’’اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے بالکل آسان بنا دیا ہے‘‘ کا مطلب کیا ہے؟ اس کی وضاحت حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب علیہ الرحمۃ معارف القرآن میں ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں:’’ قرآنِ کریم نے اپنے مضامینِ عبرت و نصیحت کو ایسا آسان کرکے بیان کیا ہے کہ جس طرح بڑے سے بڑا عالم و ماہر فلسفی اورحکیم اس سے فائدہ اٹھاتا ہے، اسی طرح ہر عامی جاہل جس کو علوم سے کوئی مناسبت نہ ہو وہ بھی عبرت و نصیحت کے مضامینِ قرآنی کو سمجھ کر اس سے متاثر ہوتا ہے۔ اس آیت میں یَسَّرْنا کے ساتھ لِلذِّکْر کی قید لگا کر یہ بھی بتلا دیا گیا ہے کہ قرآن کو حفظ کرنے اور اس کے مضامین سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی حد تک اس کو آسان کر دیا گیا ہے، جس سے ہر عالم و جاہل، چھوٹا اور بڑا یکساں فائدہ اٹھا سکتا ہے، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ قرآنِ کریم سے مسائل اور احکام کا استنباط بھی ایسا ہی آسان ہو، وہ اپنی جگہ ایک مستقل اور مشکل فن ہے جس میں عمریں صرف کرنے والے علماے راسخین کو ہی حصہ ملتا ہے، ہر ایک کا وہ میدان نہیں۔ اس سے ان لوگوں کی غلطی واضح ہوگئی جو قرآنِ کریم کے اس جملے کا سہارا لے کر قرآن کی مکمل تعلیم، اس کے اصول و قواعد سے حاصل کیے بغیر مجتہد بننا اور اپنی رائے سے احکام و مسائل کا استخراج کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کھلی گمراہی کا راستہ ہے‘‘۔
ایک اشکا ل یہ بھی ہے کہ علماے کرام قرآن حکیم کی درس و تدریس سے روکتے ہیں۔ ہمارے مضمون کو اگر سمجھ لیا گیا تو اس کی روشنی میں یہ ماننا مشکل نہیں کہ علماے کرام درس و تدریس ِ قرآن سے منع نہیں کرتے بلکہ اس اہم کام کے اصول و ضوابط کو ملحوظ نہ رکھنے والوں کو درس و تدریس سے منع کرتے ہیں۔ قرآن کریم کے ساتھ تعامل میں معیار کو نظر انداز کرنا یا سرے سے یہ سمجھنا کہ اس کام کا کوئی لمبا چوڑا معیار نہیں ہے ایک خوفناک امر ہے۔ حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم ’’آسان ترجمۂ قرآن‘‘ کے مقدمے میں لکھتے ہیں:’’افسوس ہے کہ کچھ عرصے سے مسلمانوں میں یہ خطر ناک وبا چل پڑی ہےکہ بہت سے لوگوں نے صرف عربی پڑھ لینے کو تفسیر ِ قرآن کے لیے کافی سمجھ رکھا ہے، چنانچہ جو شخص بھی معمولی عربی زبان پڑھ لیتا ہے،وہ قرآن ِکریم کی تفسیر میں رائے زنی شروع کردیتاہے، بلکہ بعض اوقات ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ عربی زبان کی نہایت معمولی شد بدرکھنے والے لوگ، جنھیں عربی پر بھی مکمل عبور نہیں ہوتا، نہ صرف من مانے طریقے پر قرآن کی تفسیر شروع کردیتے ہیں، بلکہ پُرانے مفسرین کی غلطیاں نکالنے کے درپے ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ بعض ستم ظریف تو صرف ترجمے کا مطالعے کرکے اپنے آپ کو قرآن کا عالم سمجھنے لگتے ہیں، اور بڑے بڑے مفسرین پر تنقید کرنے سے نہیں چوکتے۔خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اِنتہائی خطر ناک طرزِ عمل ہے، جو دِین کے معاملے میں نہایت مہلک گمراہی کی طرف لے جاتاہے، دُنیوی علوم وفنون کے بارے میں ہر شخص اس با ت کو سمجھ سکتاہے کہ اگر کوئی شخص محض انگریزی زبان سیکھ کر میڈیکل سائنس کی کتابوں کا مطالعہ کرلے تو دنیا کا کوئی صاحبِ عقل اُسے ڈاکٹر تسلیم نہیں کر سکتا، اور نہ اپنی جان اس کے حوالے کرسکتاہے، جب تک کہ اس نے کسی میڈیکل کالج میں با قاعدہ تعلیم و تربیت حاصل نہ کی ہو، اس لیے کہ ڈاکٹر بننے کے لیےصرف انگریزی سیکھ لینا کافی نہیں، بلکہ باقاعدہ ڈاکٹری کی تعلیم و تربیت حاصل کرناضروری ہے۔ اسی طرح انگریزی دان انجینیر نگ کی کتابوں کا مطالعہ کرکے انجینیر بنناچاہےتو دنیاکا کوئی بھی باخبر اِنسان اسے انجینیر تسلیم نہیں کر سکتا، اس لیے کہ یہ کام صرف انگریزی زبان سیکھنے سے نہیں آسکتا،بلکہ اس کےلیے ماہر اساتذہ کے زیرِ تربیت رہ کر ان سے باقاعدہ اس فن کو سیکھنا ضروری ہے، جب ڈاکٹر اور انجینیر بننے کے لیے یہ کڑی شرائط ضروری ہیں تو آخر قرآن و حدیث کے معاملے میں صرف عربی زبان سیکھ لینا کافی کیسے ہو سکتاہے؟ زندگی کے ہر شعنے میں ہر شخص اس اُصول کو جانتا اور اس پر عمل کرتا ہےکہ ہر علم و فن کے سیکھنے کا ایک خاص طریقہ اور اس کی مخصوص شرائط ہوتی ہیں،جنھیں پورا کیے بغیر اس علم و فن میں اس کی رائے معتبر نہیں سمجھی جاتی، تو آخر قرآن و سنت اتنے لاوارث کیسے ہو سکتے ہیں کہ ان کی تشریح و تفسیر کے لیے کسی علم و فن کے حاصل کرنے کی ضرورت نہ ہو، اور اس کے معاملے میں جو شخص چاہے رائے زنی شروع کردے؟‘‘۔
فہمِ قرآن کے جس رتبے کو ہم نے تدبر فی القرآن سے تعبیر کیا، وہ موضوع اسلاف ِامت کے یہاں ایک معمولی فرق کے ساتھ ’’تفسیرِقرآن‘‘ کے عنوان کے تحت بیان ہوتا رہا ہے۔ اس بات کی تائید اسلاف ِامت کے یہاں تفسیرِقرآن کی اہلیت سے بھی ہوتی ہے۔ تفسیر ِقرآن، تدبر فی القرآن کے مقابلے میں نسبتاً ایک خاص لفظ ہے اور نسبتاً خاص معنی میں بولا اور سمجھا جاتا ہے البتہ جو قدر مشترک ہے وہ ان دونوں کاموں کی اہلیت و استعداد ہے۔ چنانچہ، امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ اپنی شہرہ آفاق کتاب’’ الإتقان في علوم القرآن ‘‘ کے چوتھے جزمیں مفسِر کی شرائط شمار کرتے ہوئے درج ذیل علوم ذکرکرتے ہیں: یَجُوزُ تفسیرُه ُ لِمن کان جامِعا لِلْعُلُومِ الّتي یَحْتاجُ المُفَسِّر إلیها، و هي خمسةَ عَشَرَ عِلْما: أَحَدُهَا: اللُّغَة، الثّاني: اَلنَّحْو، الثَّالِث: التَصْرِیْف، الرّابِع: الاِشْتِقاق، الخامِس والسّادِس والسّابِع: المَعاني والبَيَان وَالْبَدِيْع، الثّامِن: عِلْمُ الْقِراءات، التّاسِع: أُصُوْلُ الدِّیْن، الْعَاشِر: أُصُوْلُ الْفِقْه، اَلْحَادِي عَشَر: أَسْبابُ النُّزُولِ وَ الْقَصَصَ، الثّاني عَشَر: اَلنّاسِخُ وَالْمَنْسُوخ، اَلثّالِث عَشَر: اَلْفِقْه، الرَّابِع عَشَر: اَلْأَحَادِیْثُ الْمَبْنِیَّةُ لِتَفْسِیْرِ الْمُجْمَلِ وَالْمُبْهَمِ، اَلْخَامِس عَشَر: عِلْمُ الموهبة (الاتقان فی علوم القرآن، جز:۴، ص:۱۶۷)’’تفسیر کرنا اس شخص کے لیے جائز ہے جو تفسیرکرنے کے لیےضروری علوم پڑھا ہوا ہو، اور ان ضروری علوم کی تعداد پندرہ ہے: عربی زبان، علمِ نحو، علمِ صرف، علمِ اشتقاق (الفاظ کے مأخذات کا علم)، علوم معانی وبیان وبدیع(علمِ بلاغت)، علمِ قراءت، علمِ عقیدہ، علمِ اصولِ فقہ، آیات کا شانِ نزول، علمِ ناسخ و منسوخ، علمِ فقہ، ان روایات کی معلومات جو مبہم آیات کی تفسیر میں وارد ہوئی ہیں، علمِ لدنی(یہ وہ علم ہے جواللہ تعالی انسان پر اس وقت کھولتے ہیں جب انسان اپنے حاصل کردہ علم پر عمل کرنے لگ جائے)۔
یہ وہ علوم جن کو اگر اجمالا ً بیان کیا جائے تو امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس اللہ روحہ کی یہ عبارت بنے گی: یُحْرَمُ الْخَوْضُ في التَّفْسِیْرِ لِمَنْ لَّا یَعْرِفُ اللِّسَانَ الَّذي نَزَلَ الْقُرْآنُ بِه وَالْمَأثُورَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَ أَصْحِابِه والتَّابِعِیْنَ مِنْ شَرْحِ غَرِیْبٍ وَ سَبَبِ نُزُوْلٍ وَ نَاسِخٍ وَ مَنْسُوْخٍ (حجۃاللہ البالغہ، ج: ۱، ص: ۴۱۲)’’اس شخص کے لیے تفسیر سے اشتغال حرام ہے جو اس زبان کو نہیں جانتا جس میں قرآن نازل ہوا، اور نہ ان روایات کو جانتا ہے جو نبی کریم ﷺاور آپ کے صحابہ و تابعین سے مروی ہیں، خواہ وہ کسی مشکل لفظ کی شرح ہو، یا شانِ نزول یا ناسخ و منسوخ۔
اس مسئلے پر شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی صاحب عثمانی دامت برکاتہم’’آسان ترجمۂ قران‘‘ کے مقدمے میں تحریر فرماتے ہیں: ’’مفسرِقرآن کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ عربی زبان کی نحو و صرف اور بلاغت و ادب کے علاوہ علمِ حدیث، اصول ِ فقہ و تفسیر اور عقائد وکلام کا وسیع و عمیق علم ضرور رکھتا ہو، کیونکہ جب تک ان علوم سے مناسبت نہ ہو، انسان قرآن ِ کریم کی تفسیر میں کسی صحیح نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا‘‘۔
بیان کردہ علمی معیار سے کمتر کسی آدمی کو درسِ قرآن دینے کا کوئی جواز نہیں۔ الاتقان فی علوم القرآن میں جلیل القدر تابعی اور حضرت عبد اللہ ابن ِعباس رضی اللہ عنہ کے مشہور شاگرد امام مجاہد علیہ الرحمۃ سے بڑا سخت قول منقول ہے: لا یَحِلُّ لِأَحَدٍ یُؤْمِنُ بِالله وَالْیَوْمِ الْأخِرِ أنْ یَّتَکَلَّمَ في کِتابِ اللهِ إِذَا لَمْ یَکُنْ عَالِماً بِلُغَاتِ الْعَرَبِ (الاتقان فی علوم القرآن، جز:۴، ص:۱۶۷) ’’کسی ایسے آدمی کے لیے جو اللہ اور روزِجزا پر ایمان رکھتا ہو، اللہ کے کلام کے بارے میں کچھ بھی کہنا جائز نہیں ہے اگر وہ عربی زبان سے نابلد ہو۔ ایسا ہی قول امام دار الہجرۃ امام مالک علیہ الرحمۃ سے بھی منقول ہے: لا أُوْتِيَ بِرَجُلٍ غَیْرِ عَالِمٍ بِلُغَةِ الْعَرَبِ یُفَسِّرُ کِتَابَ اللهِ إِلّا جَعَلْتُه ٗ نَکَالًا (البرہان فی علوم القرآن، علامہ بدر الدین زرکشی،ج:۱، ص:۲۹۲)’’اگرمیرے پاس کوئی ایسا آدمی لایا گیا جو عربی زبان سے ناواقف ہو اور وہ اللہ کی کتاب کے معنی بیان کرتا ہو تو میں اسے لازماً نشان ِعبرت بنادوں گا۔
یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ مفسر کے لیے اتنی کڑی شرائط امت میں ہمیشہ سے موجود رہی ہیں۔ اس بات کا ثبوت ان لوگوں کے اقوال و تحاریر سے خوب سامنے آچکا ہے جن کے سر علوم و مفاہیمِ قرآنیہ کی اشاعتِ عام کا سہرا سجتا ہے۔ اتنی کڑی شرائط کا مقصد جہاں قرآن ِ پاک کو عوامی کھلواڑ سے بچانا اور دین کی اصل تعبیر کو محفوظ رکھنا ہے وہیں حضورِ پرنور ﷺ کی بیان کردہ وعید سے بچنا بھی ہے۔ اس وعید کا بیان شیخ الاسلام حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب مد ظلہ العالی نے اپنے تحریر کردہ آسان ترجمۂ قرآن کے مقدمے میں فرمایا ہے۔ حضرت کی تحریر میں جہاں تہدید کا عنصر موجو دہے وہیں نصح و خیرخواہی کا بھی پورا جذبہ کار فرما محسوس ہوتا ہے۔ حضرت تحریر فرماتے ہیں:
’’غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم جن کی مادری زبان عربی تھی، جو عربی کے شعر و ادب میں مہارت ِتامہ رکھتے تھے، اور جن کو لمبے لمبے قصیدے معمولی توجہ سے از بر ہو جایا کرتے تھے، انھیں قرآنِ کریم کو یاد کرنے اور اس کے معانی سمجھنے کے لیے اتنی طویل مدت کی کیا ضرورت تھی کہ آٹھ آٹھ سال صرف ایک سورت پڑھنے میں خرچ ہو جائیں؟ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ قرآن ِکریم اور اس کے علوم کو سیکھنے کے لیے صرف عربی زبان کی مہارت کافی نہیں تھی، بلکہ اس کے لیے آنحضرتﷺ کی صحبت اور تعلیم سے فائدہ اٹھانا ضروری تھا۔ اب ظاہر ہے کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عربی زبان کی مہارت اور نزول ِ وحی کا براہ ِراست مشاہدہ کرنے کے با وجود ’’عالمِ قرآن‘‘ بننے کے لیے باقاعدہ حضورﷺ سے تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت تھی، تو نزول ِ قرآن کے سینکڑوں سال بعد عربی کی معمولی شدبد پیدا کر کے یا صرف ترجمے دیکھ کر مفسر ِ قرآن بننے کا دعوی کتنی بڑی جسارت اور علم و دین کے ساتھ کیسا افسوسناک مذاق ہے؟ ایسے لوگوں کو جو اس جسارت کا ارتکاب کرتے ہیں سرکارِ دو عالمﷺکا یہ ارشاد اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ: ((مَنْ قَالَ في الْقُرْآنِ بِغَیْرِ عِلْمٍ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَه ٗ في النّارِ)) ’’جو شخص قرآن کے معاملے میں علم کے بغیر کوئی بات کہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے‘‘اور ((مَنْ تَکَلَّمَ في الْقُرْآنِ بِرَأْیِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأَ)) ’’جو شخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے غلطی کی‘‘۔ابو داؤد و نسائی، از اتقان، ج:۲ ص:۱۷۹ (مقدمۂ آسان ترجمہ قرآن ص: ۳۲، ناشر: مکتبہ معارف القرآن کراچی، سن اشاعت: ۲۰۰۸ء) اسی طرح سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ: أَيُّ سَمَاءٍ تُظِلُّنِي؟ وَأَيُّ أَرْضٍ تُقِلُّنِي؟ إذَا قُلْتُ في كَلامِ اللهِ مَا لا أَعْلَمْ(رواه ابن أبي شيبة والطبري) ’’کون سا آسمان مجھ پر سایہ کرے گا اور کون سی زمین مجھے پناہ دے گی اگر میں قرآن کے بارے میں ایسی بات کہوں جس کا مجھے علم نہیں‘‘۔
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ ساری احتیاطیں اور مذکورہ علوم کی تحصیل تو اس کے لیے ہیں جو تفسیرِ قرآن میں مشغول ہو، ہم تو درسِ قرآن کرتے ہیں تفسیر نہیں۔۔۔ چنانچہ جاننا چاہیے کہ تفسیر کسے کہتے ہیں، علامہ بدر الدین زرکشی علیہ الرحمۃ الاتقان فی علوم القرآن میں لکھتے ہیں: التفسیرُ عِلْمٌ يُعْرَفُ بِهِ فَهْمُ كِتَابِ اللَّهِ الْمُنَزَّلِ عَلَى نَبِيِّهِ مُحَمَّدٍﷺ وبَيانُ مَعَانِيْهِ وَاسْتِخْرَاجُ أَحْكَامِه وَحِكَمِه …’’علمِ تفسیر وہ علم ہے جس کے ذریعے اللہ کی کتاب(جو کہ اس کے نبیﷺ پر نازل ہوئی) کا فہم، اس کے معانی کا بیان، استخراجِ احکام اور حکمتوں کا علم حاصل کیا جاتا ہے‘‘۔اب بتائیے کہ درسِ قرآن میں آپ کتاب اللہ کا فہم بیان کرتے ہیں کہ نہیں، اور احکام و مسائل اور ان کی حکمتیں اور لطیف نکتے بیان کرتے ہیں کہ نہیں؟ پھر آپ کیوں تفسیر اور درسِ قرآن میں فرق کرتے ہیں؟
دروس قرآن کی محافل کے انعقاد کے حوالے سے حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن قدس اللہ سرہ کا یہ مشہور جملہ عام طور پر بیان کیا جاتا ہے:’’بڑوں کو عوامی درس ِقران کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرانی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیا جائے‘‘۔(وحدتِ امت، مفتی محمد شفیع صاحب ص: ۳۹)۔یہ معلوم ہے کہ حضرت نے یہ جملے علماے کرام کی ایک محفل میں ارشاد فرمائے تھے اور آپ کا روے سخن بھی علما ہی کی طرف تھا۔ اس جملے کا مدعا یہ ہر گز نہیں کہ ایک عام آدمی درسِ قرآن دینا شروع کر دے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ علماء لوگوں کو قرآن ِ مجید کا ترجمہ پڑھنے سے روکتے ہیں۔ یہ ایک سطحی سا اعتراض ہے۔ سوچنا چاہیے کہ جب علماے کرام مقامی زبانوں میں تراجم کرتے ہیں تو ان کے پیش نظر علماے کرام کو پڑھانا مقصود ہوتا ہے یا عوام کو ؟ مفتی تقی عثمانی صاحب آسان ترجمہ قرآن کے مقدمے میں لکھتے ہیں:’’مختلف اطراف سے احباب نے یہ خیال ظاہر فرمایا کہ اردو کے جو مستند ترجمے اس وقت موجود ہیں وہ عام مسلمانوں کی سمجھ سے بالا تر ہوگئے ہیں، اور ایسے آسان ترجمے کی واقعی ضرورت ہے جو معمولی پڑھے لکھے افراد کی سمجھ میں بھی آسکے۔۔۔۔۔۔۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کے نام پر میں نے ترجمہ شروع کیا۔ لیکن ساتھ ہی مجھے یہ خیال تھا کہ عام مسلمانوں کو قرآن کریم کا مطلب سمجھنے کے لیے ترجمے کے ساتھ مختصر تشریحات کی بھی ضرورت ہوگی، اس خیال کے پیش نظر میں نے ترجمے کے ساتھ مختصر تشریحی حواشی بھی لکھنے کا اہتمام کیا‘‘۔ (مقدمہ: آسان ترجمہ قرآن) یہ تو ایک نسبتاً جدید ترجمے کے مقدمے میں سے لیا گیا اردو کے قدیم ترین ترجمہ ’موضح القرآن‘ کے مقدمے میں دیکھیں تو وہاں بھی آپ کو اس مفہوم کے الفاظ مل جائیں گے۔ اللہ سبحانہٗ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں درست انداز و اسلوب میں قرآن کریم کی’ایجابی و سَلبی‘ خدمت کرنے کی کی توفیق عطا فرمائے۔