مولانا محمد اقبال
معاونِ شعبۂ تحقیق و تصنیف، فقہ اکیڈمی
سورۂ توبہ آیت نمبر: ۱۰۲، ۱۰۳
﴿وَأٰخَرُونَ اعتَرَفُوابِذُنُوبِهِم خَلَطُواعَمَلًا صَالِحًا وَّأٰخَرَ سَیِّئًا عَسَی اللّٰهُ أَن یَّتُوبَ عَلَیهِم إِنَّ اللّٰهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ () خُذْ مِن أَموَالِهِم صَدَقَةً تُطَّهِرُهُم وَ تُزَکِّیهِم بِهَا وَ صَلِّ عَلَیهِم إِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّهُم وَ اللّٰهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ﴾
’’اور کچھ لوگ وہ ہیں جنھوں نے اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرلیا ہے۔ انھوں نے ملے جلے عمل کیے ہیں، کچھ نیک کام اور کچھ برے۔ امید ہے کہ اللہ ان کی توبہ قبول کرلے گا۔ یقینا اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔(اے پیغمبر!) ان لوگوں کے اعمال میں سے صدقہ وصول کرلو جس کے ذریعے تم انھیں پاک کردو گے اور ان کے لیے باعث برکت بنو گے، اور ان کے لیے دعا کرو۔ یقینا تمہاری دعا ان کے لیے سراپا تسکین ہے، اور اللہ ہر بات سنتا اور سب کچھ جانتا ہے ‘‘۔
تفسیر
غزوۂ تبوک کے موقعے پر جب رسول اللہﷺ نے جہاد کی دعوت دی اور سب کو نکلنے کا حکم فرمایا تواس موقعے پر اہلِ مدینہ کے تین گروہ بن گئے۔قرآنِ کریم نے ان تینوں کا تذکرہ کیا ہے، ان میں سے ایک جماعت تو ان جانثا ر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی تھی جو رسول اللہﷺ کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے جہاد کے لیے رسول اللہﷺ کی معیت میں نکل پڑے، قرآن کریم نے ان کا ذکر’’سابقین اولین‘‘ جو مہاجرین اور انصار پرمشتمل تھےاورنیکی میں ان کے’’متبعین‘‘ جو دیگر صحابۂ کرام تھے، کے عنوان سے کیا ہےاور جن کی بڑی تعریف و توصیف کی گئی ہے۔ دوسرا گروہ منافقین کا تھا جنھوں نے جہاد میں جانے سے پہلو تہی کرتے ہوئے جھوٹے اعذار پیش کیے۔یہ منافقین تو اپنی منافقت کی بناپر اللہ کی راہ میں لڑنے سے پیچھے ہٹے اور غزوہ ٔتبوک میں شامل نہیں ہوئے، قرآن کریم نے ان کا پردہ چاک کیا ہے: ﴿وَمِمَّن حَولَکُم مِّنَ الأَعرَابِ مُنٰفِقُونَ وَمِن أَهلِ المَدِینَةِ مَرَدُوا عَلَی النِّفَاقِ لَا تَعلَمُهُم نَحنُ نَعلَمُهُم﴾ ’’اور تمہارے ارد گرد جو دیہاتی ہیں، ان میں بھی منافق لوگ موجود ہیں، اور مدینہ کے باشندوں میں بھی۔ یہ لوگ منافقت میں (اتنے) ماہر ہوگئے ہیں (کہ) تم انھیں نہیں جانتے، انھیں ہم جانتے ہیں‘‘ ۔جبکہ تیسرا گروہ ان مخلص مسلمانوں کا تھا جو سستی کی وجہ سے جہاد میں جانے سے رہ گئے تھے اور انھوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا تھا۔ آیتِ زیر ِمطالعہ میں اس تیسرے گروہ کا تذکرہ ہو رہاہے۔
روایات کے مطابق اس تیسرے گروہ میں کل دس حضرات تھے۔ ان میں سے سات وہ تھے جن کو حضور اکرمﷺکی تبوک سے واپسی سے پہلے اپنی غلطی پر انتہائی ندامت اور شرمندگی ہوئی اور اپنے آپ کو بطورِ سزا مسجدِ نبوی کے ستونوں سے باندھا۔جب حضورﷺمدینہ تشریف لائے اوران حضرات کو ستونوں سے بندھا ہوا دیکھا تو آپﷺکو علم ہواکہ انھوں نےسزا کے طور پر اپنے آپ کو ستونوں سے باندھا ہے۔تب حضورﷺنے فرمایا کہ ان حضرات نے ازخود ایسا کیا ہے ، اب اس وقت تک میں بھی انھیں نہیں کھولوں گا جب تک اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ان کے حق میں نہیں آتا۔اس موقعے کی مناسبت سے یہ آیت نازل ہوئی۔اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی اوررسول اللہﷺ نے انھیں کھولنے کا حکم دیا۔توبہ کے قبول ہونےکے بعد شکرانے کے طور پر ان حضرات نے اپنےا موال میں سےصدقہ کرنے کے لیے حضورﷺکی خدمت میں صدقات پیش کیے۔رسول اللہﷺ نے منع فرمادیا کہ مجھے تم سے کوئی مال لینے کا حکم نہیں دیا گیا۔اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’(اے پیغمبر!) ان لوگوں کے اعمال میں سے صدقہ وصول کرلو جس کے ذریعے تم انھیں پاک کردو گے اور ان کے لیے باعثِ برکت بنو گے، اور ان کے لیے دعا کرو۔ یقینا تمہاری دعا ان کے لیے سراپا تسکین ہے، اور اللہ ہر بات سنتا اور سب کچھ جانتا ہے‘‘۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہﷺ نے ان کےصدقات کو قبول فرمالیا۔( تفسیر ابی السعود، ج:۴، ص:۱۶۲/ بخاری:۴۶۷۷ بمطابق مکتبۃ البشریٰ)
ان دس صحابہ کرام میں وہ سات جنھوں نے اپنے آپ کو ستونوں سے باندھ رکھا تھا ان کی توبہ کی قبول کی گئی جبکہ باقی تین حضرات کا فیصلہ ملتوی کردیا گیا ۔اور ان کے متعلق حضورﷺنے فرمایا: جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان تینوں کے متعلق کوئی واضح حکم نہ آئے اس وقت تک مسلمان ان کا سوشل بائیکاٹ(سماجی مقاطعہ ) کریں۔ پچاس دن تک ان حضرات سے مکمل مقاطعہ کیاگیا، ان سے کسی نے حتی کہ ان کی ازواج نے بھی بات نہیں کی۔ان دنوں میں ان پر کیا گزری، قرآن کریم میں اس کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے: ﴿وَّعَلَی الثَّلٰثَةِ الَّذِینَ خُلِّفُواحَتّٰی إِذَا ضَاقَت عَلَیهِمُ الأرضُ بِمَا رَحُبَت وَ ضَاقَت عَلَیهِم أَنفُسُهُم وَ ظَنُّوا أَن لَّا مَلجَأَ مِنَ اللّٰهِ إِلَّا إِلَیهِ ثُمَّ تَابَ عَلَیهِم لِیَتُوبُوا إِنَّ اللَّٰه هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ﴾ ’’اور ان تینوں پر بھی ( اللہ نے رحمت کی نظر فرمائی ہے) جن کا فیصلہ ملتوی کردیا گیا تھا، یہاں تک کہ جب ان پر یہ زمین اپنی ساری وسعتوں کے باوجود تنگ ہوگئی، ان کی زندگیاں ان پر دو بھر ہوگئیں، اور انھوں نے سمجھ لیا کہ اللہ (کی پکڑ) سے خود اسی کی پناہ میں آئے بغیر کہیں اور پناہ نہیں مل سکتی، تو پھر اللہ نے ان پر رحم فرمایا، تاکہ وہ آئندہ اللہ ہی سے رجوع کیا کریں۔ یقین جانو اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے‘‘۔ چونکہ ان حضرات نے اپنی غلطی کو تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی اور منافقین کی طرح بہانے بازی نہیں کی اورنہ کوئی عذر پیش کیا۔آیتِ مذکورہ کا مصداق یہی تیسرا طبقہ ہے، تمام مفسرین نے اس کامفہوم ومصداق یہی ٹھہرایا ہے۔ (تفسیرِ ابی السعود، ج:۴، ص:۱۶۲/ تفسیرابن ج: ۲، ص:۲۰۷/ تفسیرِ طبری، ج:۴، ص:۴۶۴/ تفسیرِ مظہری، ج:۳، ص:۳۵۵/ ترمذی:۳۱۰۲ بمطابق مکتبۃ البشریٰ)
آیتِ مذکورہ کی غلط تفسیر
عصر ِحاضر کے بعض مشہور مدرسینِ قرآن نے ا ٓیتِ زیرِ مطالعہ کا ایک غلط مفہوم بیان کیا ہے جو نہ صرف آیتِ مذکورہ کے سیاق و سباق سے میل کھاتا ہے، بلکہ اکابر مفسرین کی تفسیرکے بھی خلاف ہے۔ مثلاایک داعیٔ قرآن سور ہ ٔبقرہ میں بیان کیے گئے تین طبقوں کے متعلق؛ اپنی ایک تصنیف میں فرماتے ہیں: ’’ تیسرے طبقے کے لیے دوسرا رکوع پورے کا پورا مختص کیا گیا ہے۔اس طبقے کا بہ تمام و کمال اطلاق یا تو منافقین پر تھا یا پھر اُس دور کے یہودی علما پر، لیکن اس سے کم تر درجے میں وہ لوگ بھی اس زمرے میں آتے ہیں جو ضعفِ ایمان میں مبتلا ہیں۔ ان کے بارے میں سورۃ التوبہ میں فرمایا گیا: ﴿خَلَطُواعَمَلًاصَالِحًاوَّأٰخَرَسَیِّئًا﴾ (التوبہ : ۱۰۲) یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے اندر نیکیاں اور برائیاں جمع کر لیتے ہیں۔ یہ اصل میں اس بیماری کے مختلف shades ہیں۔ منافقین میں یہ بیماری درجہ بدرجہ بڑھتی جاتی ہے۔ ازروے الفاظِ قرآنی: ﴿فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا﴾ (البقرۃ:۱۰) بدقسمتی سے ہماری ایک عظیم اکثریت کسی نہ کسی طرح اس مرض میں مبتلا ہے، لہذا اس کا شمار اسی زمرے میں ہوتا ہے‘‘۔
اس میں آیتِ مذکورہ سے نفاق اور ضعفِ ایمان پر استدلال کیا گیاہے جو سراسر بے احتیاطی پر مبنی تفسیر ہے، اس لیے کہ جن حضرات کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی ہے، ان میں خدا نخواستہ نفاق یا ایمانی کمزوری نہیں تھی ، بلکہ وہ کامل مؤمن تھے، ان کے مخلص مؤمن ہونے کی گواہی خود اللہ کے رسولﷺنے دی ہے۔ البتہ ان سے ایک عملی کمزوری سرزد ہوئی جو نفاق یا ضعفِ ایمان پر دلیل نہیں، اس لیے کہ اعمال کا ایمان کی ماہیت میں کوئی دخل نہیں ہے۔اسی طرح موجودہ دور کے مسلمان عملی لحاظ سے جیسے بھی گئے گزرے کیوں نہ ہوں، انھیں صرف عملی کوتاہیوں کی بنیاد پرنفاقِ اعتقادی کا مصداق قرار دینا بڑی جسارت معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے جب تک ہمارے پاس نفاق کی کوئی واضح دلیل نہ ہو کسی پر حکم لگانا جائز نہیں ہے، اور ویسے بھی یہ کسی فقیہ کا وظیفہ ہے کہ وہ دلائل کا جائزہ لے اور حکم کرے۔کسی عوامی مدرس کو حکم کرنے کی اجازت شریعت میں نہیں ہے، اس لیے کہ ان کا میدان نہیں ہے۔