زبیر احمد
استاذ فقہ اکیڈمی
نبی کریمﷺکے بہت سارے فرامین میں زیارتِ قبور کی ترغیب دی گئی اور ان روایات میں اس کی حکمت و فائدے کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔آپﷺنے فرمایا : ((زُورُوا الْقُبُورَ فَإِنَّهَا تُذَكِّرُ الْمَوْتَ)) (صحیح مسلم) ’’قبروں کی زیارت کیا کرو اس لیے کہ وہ موت کی یاد دلاتی ہے‘‘۔ ایک روایت میں اس کی حکمت یوں بیان کی گئی: ((تُزَهِّدُ فِي الدُّنْيَا وتُذَكِّرُ الْآخِرَة)) (ابن ماجہ) ’’دنیوی زندگی میں زہد پیدا کرتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے‘‘۔ مندرجہ بالا فوائد تو عام لوگوں کی قبر پر جانے سے بھی حاصل ہوتے ہیں لیکن صالحین کی قبروں کی زیارت میں دہرا فائدہ ہے، جس کی طرف ابن الحاج المالکی نے اشارہ کیا ہے: أَنَّ زِيَارَةَ قُبُورِ الصَّالِحِينَ مَحْبُوبَةٌ لِأَجْلِ التَّبَرُّكِ مَعَ الِاعْتِبَارِ ’’نیک لوگوں کی قبروں کی زیارت کرنا پسندیدہ امر ہے اس لیے کہ اس میں عبرت کے ساتھ ، تبرک بھی ہے‘‘۔ نبی کریمﷺجنت البقیع میں تو اکثر جایا کرتے تھے لیکن شہداے کرام کی قبروں پر خصوصیت سے تشریف لے جاتے تھے: ((زَارَ قُبُورَ الشُّهَدَاءِ بِأُحُدٍ)) (مستدرک حاکم)’’نبی کریمﷺ، شہداے احد کی قبروں کی زیارت کو تشریف لے گئے‘‘ایک روایت میں آتا ہے ((كَانَ النَّبِيُّﷺيَأْتِي قُبُورَ الشُّهَدَاءِ عِنْدَ رَأْسِ الْحَوْلِ، فَيَقُولُ:((السَّلَامُ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ)) قَالَ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ يَفْعَلُونَ ذَلِكَ (مصنف عبد الرزاق)’’رسول اللہﷺشہیدوں کی قبروں پر ہر سال کے شروع میں جایا کرتے تھے اور جا کر کہا کرتے کہ تم پر سلام ہو بسبب جو تم نے صبر کیا پس آخرت کا گھر تو کیا ہی خوب ہے راوی کہتے ہیں کہ ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے‘‘۔
اس موقعے پر سفر کی روداد کے آغاز سے پہلے ایک اور حدیثِ مبارکہ کا تذکرہ کرنا فائدے سے خالی نہیں ہوگا : عن أبي هریرة رضي الله عنه قال: قال رسول اللهﷺ:((لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَی ثَـلَاثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِي هذا، وَمَسْجِدِ الْأَقْصَی)) (سنن نسائي،کتاب المساجد، باب ما تشدّ الرحال إلیه من المساجد) ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا: مسجدِ حرام، میری یہ مسجد مسجدِ نبوی اور مسجدِ اقصیٰ کے سوا کسی (اور مسجد ) کی طرف رَختِ سفر نہ باندھا جائے‘‘۔اس حدیث مبارکہ سے بعض اہل ظواہر یہ مطلب لیتے ہیں کہ ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد کی نیت کرکے سفر کرنا یا زیارتِ قبور کی نیت کرکے سفر کے لیے نکلنا جائز نہیں حتیٰ کہ حضور اکرم ﷺ کے روضۂ انور کی نیت سے سفر کرنا بھی جائز نہیں، اگر سفر کرنا ہے تو مسجد نبوی کی نیت کی جائے نہ کہ روضۂ مبارک کی۔ اس اشکال کے متعدد جواب علماے امت نے دیے جن کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں، ایک جواب یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ کہ اس روایت میں استثنا مطلق ہے یا مقید؟ اگر یہ اِستثنا مطلق یعنی عمومیت پر مبنی ہے تو اس سے ہر قسم کا سفر ناجائز قرار پائے گا اور یہ بات خلافِ عقل و خلافِ شرع ہے۔ لہذا اس سے اِستثنا مقید ہی مراد لینا درست ہے یعنی یہ نہی محض مساجد کے ساتھ مختص ہے، اب مطلب یہ ہوجائے گا کہ نماز کا زیادہ ثواب حاصل کرنے کی نیت سے سوائے اِن تین مساجد کے؛ کسی اور مسجد کی طرف سفر نہ کیا جائے ۔چنانچہ اس روایت کی شرح میں سنن نسائی کے حاشیے حاشیة السورتي میں شیخ وصی احمد سورتی رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں:’’ بعض علما اس حدیث کے ظاہر کو سامنے رکھتے ہوئے اس طرف گئے ہیں کہ تین مساجد کی نیت کے علاوہ سفر کرنا جائز نہیں۔ ابن حجر عسقلانی رحمۃاللہ علیہ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہےکہ امام الحرمین(عبد الملک الجوینی) و دیگرشافعیہ کے نزدیک رخت سفر باندھنا ممنوع نہیں ہے اور اس حدیث کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس سے مراد مکمل فضیلت جو (روایات میں نقل ہوئی کہ مسجد حرام میں نماز پڑھنے کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ہے وغیرہ) اس نیت سے ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور جگہ کی نیت سے سفر کرنا جائز نہیں، اس نیت کے علاوہ جائز ہے۔یا اس سے مراد یہ ہے کہ ان تین مساجد کے علاوہ نماز کے لیے کسی اضافی ثواب کی نیت سے سفر کرنا جائز نہیں۔ اور جہاں تک کسی نیک آدمی کی زیارت کی نیت یا اسی قبیل کی دیگر نیات (مثلا زیارت قبور) سے سفر کرنے کا معاملہ ہے تو وہ اس نہی میں داخل نہیں، اور اس بات کی تائید مسند احمد کی ایک روایت سے ہوتی ہے، آپﷺ نے فرمایا:’’نمازی کے لیے یہ بات جائز نہیں کہ (اضافی ثواب کے حصول کی نیت سے) ان تین مساجد کے علاوہ رَختِ سفر باندھے‘‘۔اور یہی بات علامۃ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں لکھی ہے‘‘۔
چنانچہ زیارت قبورِ صالحین کی اس سنت پر عمل پیرا ہونے کے لیے، حضرت مفتی اویس پاشا قرنی صاحب مدظلہ کی سرپرستی میں ایک خصوصی سفر کا اہتمام کیا گیا۔ پیشِ نظر یہ تھا کہ ہمارے سلسلہ ٔ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کے وہ بزرگ جن کی قبور پاکستان میں ہیں، ان کی زیارت کا شرف حاصل کیا جائے اورسفر کے دوران حضرت مفتی صاحب کی صحبت و اصلاح سے بھی استفادہ کیا جائے۔
اس سفر میں کُل چار افراد شریک تھے، استاذِ محترم حضرت مفتی اویس پاشا قرنی صاحب مدظلہ ، حافظ سید اسامہ علی صاحب، جناب عابد علی صاحب اور راقم۔ سفر کی ابتدا ۲۸ جولائی ۲۰۲۱ء، بروز منگل، رات گیارہ بجے فقہ اکیڈمی کراچی سےہوئی ۔ سلسلۂ زیارت کا آغاز شیخ الحدیث حضرت مولانا اسفندیار خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی قبر پر حاضری سے ہوا جو مدرسہ دارالخیر گلستان جوہر، بلاک ایک میں واقع ہے۔ رات کا وقت تھا ، ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی اور حضرت کی قبرِ مبارک کے اردگرد ایک خاص سکینت محسوس کی جاسکتی تھی۔ حضرت کی قبر مبارک کے پاس آپ کی اہلیہ اور آپ کے ایک صاحبزادے کی قبر بھی ہے۔ ایصالِ ثواب ودعا کے بعد وہاں سے روانہ ہوئے، رات گئے ایک جگہ رک کر چائے پی اور تھوڑا سستانے کے بعد پھر روانہ ہوئے ، فجر کے وقت مورو پہنچے، وہاں ایک ہوٹل میں قیام کیا اور فجر کی نماز ادا کرکے کچھ دیر کے لیے سوگئے۔ صبح تقریباً ۹ بجے بیدار ہوکر پھر سفر کا آغاز کیا۔
اب ہمارے پیشِ نظر مسکین پور شریف کی خانقاہ تھی، جو کہ پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی میں واقع ہے۔ راستے میں ضلع رحیم یار خان کے ایک شہر ظاہر پیر میں واقع ایک مدرسہ عربیہ احیاء العلوم میں حضرت مولانا منظور نعمانی صاحب دامت برکاتہم سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ۔ حضرت کی درسِ قرآن کے حوالے سے کافی شہرت ہے اور آپ درس قرآن ودورۂ تفسیر کا ایک خاص روایتی انداز رکھتے ہیں ۔ کراچی میں ہر سال آپ کا دورۂ تفسیر رمضان المبارک میں منعقد ہوتا ہے، جس میں کثیر تعداد میں علما وطلبہ شرکت کرتے ہیں۔ اس دورۂ تفسیر کے بعد حضرت اجازتِ دورۂ تفسیر بھی دیتے ہیں۔ آپ نے حضرت مولانا عبداللہ درخواستی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی کسبِ علم کیا ہے۔ ہم سہ پہر ۳بجے مدرسے پہنچے اور ایک تقریباً گھنٹے کی حضرت سے ملاقات رہی۔ حضرت نے خوب شفقت فرمائی اور قیمتی نصیحتوں سے نوازا ۔ حضرت قومی زبان کا خاص ذوق رکھتے ہیں ۔دوران گفتگو اردو مخمل میں انگریزی ٹاٹ کے پیوند لگانے کے بہت خلاف ہیں۔انھوں نے ہمیں بھی انگریزی الفاظ کے بے جا استعمال سے منع فرمایا۔ حضرت کی دعائیں سمیٹتے ہوئے ۴ بجے کے قریب ہم دوبارہ مسکین پور شریف کی طرف عازمِ سفر ہوئے۔رات ۹ بجے جب ہم مسکین پور شریف خانقاہ میں پہنچے تو پتا چلا کہ یہاں کے شیخ و مربی حضرت مولانا سید محمد شاہ قریشی صاحب دامت برکاتہم اُس وقت خانقاہ میں تشریف فرما نہیں ہیں بلکہ حضرت مولانا کسی سفر پر ہیں ۔یہاں حضرت کے صاحبزادے حضرت مولانا کاشف شاہ صاحب نے گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا اور مہمان خانے میں لے گئے ۔آپ نے اکرامِ ضَیف کا حق ادا کیا اور ہمارا بہت خیال رکھا ۔آپ نے اپنی خانقاہ کی مصروفیات و مشاغل اور خدمات کا تعارف کرایا اور بعدازاں خانقاہ کا دورہ بھی کرایا۔خانقاہ مسکین پور شریف ہی میں حضرت پیر فضلِ علی قریشی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مزار واقع ہے چنانچہ یہاں حاضری دی ۔ان کے لیے ایصالِ ثواب اور دعا کی۔یہ خانقاہ حضرت پیر فضل علی قریشی رحمۃ اللہ علیہ نے آباد کی تھی۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ اپنے زمانے کے بڑے بزرگ اور صاحب کشف تھے۔ حضرت کی بزرگی کا اندازہ اس سے کریں کہ بہت ساری نامور شخصیات آپ سے بیعت تھیں جن میں مفتی اعظم ہندوستان حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ،بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ ،بانی مجلس احرار حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ، مہتمم دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے نام نمایاں ہیں ۔
حضرت رحمۃ اللہ علیہ اپنے کھیت میں خود ہل چلاتے اور صرف اپنے ہی کھیت کی اگی ہوئی سبزیاں کھاتے، یعنی لقمۂ حلال اور طعامِ طیب کا خوب اہتمام کرتے تھے، حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مشہور جملہ جو وہ اپنے متوسلین اور خانقاہ میں تربیت اور تزکیہ کی غرض سے آنے والے حضرات سے فرمایا کرتے تھے: ’’اس کھیت میں بیج بویا گیا باوضو، ہل چلایا گیا باوضو، اس کو سیراب کیا گیا باوضو، کھیتی کاٹی گئی باوضو، کھانا پکایا گیا باوضو اور کھانا آپ حضرات کے سامنے پیش بھی باوضو کیا جارہا ہے،بس آپ اس کو باوضو کھالیں‘‘۔
ایک گھنٹے قیام کے بعد خانقاہ مسکین پور شریف سے روانہ ہونے کے بعد رات ضلع مظفر گڑھ ہی کے ایک مقامی ہوٹل میں قیام کیا اور بروز جمعرات بعد نماز فجر موسیٰ زئی کی طرف روانہ ہوئے۔ موسیٰ زئی صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی ایک یونین کونسل کا نام ہے۔ موسیٰ زئی میں ہمارے سلسلۂ نقشبندیہ کے تین بزرگوں یعنی حضرت خواجہ حاجی دوست محمد قندھاری رحمۃ اللہ علیہ، اُن کے خلیفہ حضرت خواجہ محمد عثمان دامانی رحمۃ اللہ علیہ اور اُن کے خلیفہ حضرت خواجہ سراج الدین رحمۃ اللہ علیہ کےمزارات واقع ہیں ۔ وہاں ہم دوپہر۲ بجے کے قریب پہنچے اور ایک گھنٹے وہاں رکے۔ ان حضرات کی قبور پر حاضری کے وقت خاص روحانیت محسوس کی جارہی تھی اور اقبال کا مصرع ’’ وہ خاک کہ ہے زیرِ فلک مطلعِ انوار‘‘ اپنی معنویت کھول رہا تھا تھا ۔ ان بزرگوں کے لیے ایصالِ ثواب اور دعا سے فراغت کے بعد ماحول کی برکت کا اندازہ کر کے اپنے لیے بھی خوب خوب دعائیں مانگیں ۔ پھر وہاں سے روانہ ہونے کے بعد ملتان کےایک ہوٹل میں رات قیام کیا اور صبح بروز جمعۃ المبارک بعد نماز فجر ملتان کے ضلع خانیوال کے لیے روانہ ہوئے۔ تقریباً دن گیارہ بجے خانیوال میں حضرت مولانا عبدالمالک صدیقی رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ پہنچے، وہاں حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی قبر مبارک پر حاضری دی۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی قبر کے پاس آپ کی اہلیہ محترمہ جو اماں جی کےنام سے مشہور تھیں کی قبر مبارک بھی ہے۔ ایصالِ ثواب ودعا کے بعد مسجد وخانقاہ کا دورہ کیا، اس کے بعد وہاں سے کراچی کے لیے روانہ ہوئے اور اسی رات واپس کراچی پہنچے اور یہ تین روزہ اصلاحی سفر جو ۲۸ جولائی رات گیارہ بجے شروع ہوا تھا ، ۳۰ جولائی ۲۰۲۱ء رات بارہ بجے اختتام پذیر ہوا ۔
اس پورے سفر میں مفتی اویس پاشا قرنی صاحب مدظلہ وقتاً فوقتاًحضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی وصیتوں پر مشتمل کتابچے ’’وصایا امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ‘‘ کا مطالعہ کراتے رہے، ان وصیتوں میں علما سے گفتگو کے آداب، حسنِ معاشرت، بادشاہوں سے میل جول میں احتیاط، بڑوں کا ادب، ذکر اللہ کی کثرت،محاسبۂ نفس، خرید وفروخت میں احتیاطیں، بری صحبت سے بچنے اور دیگر اہم دینی امور پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی گئی ہے۔ استاذ محترم ؛امام صاحب کی وصیتیں نہ صرف پڑھ کر سناتے رہے بلکہ اس کی تشریح اور عملی و علمی انطباق بھی سمجھاتے رہے ۔ الحمد للہ اس تین روزہ سفر میں خوب برکتیں حاصل کرنے کا موقع ملا۔ اس سفر میں ہمارے سلسلۂ نقشبندیہ کے دیگر بزرگوں کی قبور پر حاضری کے سفر کا ارادہ بھی کیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس سفر کی خیر وبرکتیں ہمارے لیے جمع کردے اور اپنے بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلنے اور ان سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین