مدیر
ماہنامہ مفاہیم کراچی
ہلالِ مُحرَّم ہر سال طلوع ہو کر نئے قَمری سال کی بنیاد رکھتا ہے تو ایک نیال سال شروع ہوتا ہے۔ نیا سال ’ ۱۴۴۳ ہجری‘ شروع ہو چکا ہے۔ لیکن کبھی کبھی محرم صرف سال نہیں بدلتا بلکہ دور ہی بدل دیتا ہے، گویا وہ مُحرَّم’’عہد ساز‘‘ ہوتا ہے۔ گردشِ ایام کے پہیے کو اسی کے نشانوں پہ چلاتے جائیں تو اکسٹھ ہجری کا مُحرَّم آتا ہے، جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے جان کی قربانی دے کر تاریخ رقم کی۔امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس راستے اور بھی تھے۔رخصت کا راستہ بھی تھا اور انتظار کا راستہ بھی ، سمجھانے والے آپ کو سمجھا رہے تھے اور کوئی معمولی آدمی نہ تھے۔ ترجمان القرآن سیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ تھے۔ عابد الامہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ تھے۔ سیدناابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور جانے کون کون تھا، لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عزیمت کے راستے پر چل کر بے سروساماں شہید ہو جا نے کو پسند کیا۔
حضور کریمﷺاپنی زندگی میں اس شہادت کی خبر بلکہ شہادت گاہ کی مٹی بھی جبریل علیہ السلام سے حاصل کر چکے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اپنی شہادت کی خبر سے آگاہ ہو چکے ہوں، بہرحال آپ نے جان دینے کا ارادہ کیا۔ آپ یہ سمجھ چکے تھے کہ مملکت میں جتنی بڑی خرابی پڑ چکی ہے اور لوگوں کو جس طرح سے دبا لیا گیاہے ، شہروں کی دیواروں پر دیو ِ استبداد کا جو سایہ ہے وہ کسی عام کوشش سے چھَٹنے والا نہیں ہے۔اس کے لیے کسی بڑی قربانی کی ضرورت ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ لوگ نیکی سےخالی ہو چکے تھے۔ نہی عن المنکر کے فریضے سے لوگ غافل بھی نہ ہوئے تھے اور بزدل بھی نہ تھے۔ لیکن سبھی خاموش تھے۔ لوگوں کو اچانک ایسی مصیبت سے پالا پڑا تھا جو بالکل نئی تھی۔ عرب کے لوگ پہلے تو کسی حکومت سے واقف ہی نہ تھے۔ ہر قبیلہ اور اس کا سردار آزاد تھا اور خاندان کی سطح پر ہر سربراہِ خاندان آزاد تھا۔ پھر جب وہ حکومت سے واقف ہوئے تو یہ معصوم پیغمبرانہ حکومت تھی جس میں کسی کمی بیشی کا سوال ہی نہ تھا۔اس کے بعد ان کا سابقہ نبوت کےنقشِ قدم پہ چلنے والی خلافتِ راشدہ سے پڑا جس کے آخری حصے میں اگرچہ کچھ ناپسندیدہ حالات واقع ہوئے لیکن امورِ سلطنت میں جور و ستم کا کوئی دخل نہ تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا دور چاہے خلافتِ راشدہ میں نہ بھی شامل کیا جائے لیکن آپ کے راج میں آپ کے اصولی مخالف بھی ’’چَین کے دن مزے کی راتیں‘‘ بسر کر رہے تھے کہ آپ کا سایہ امت کےسر سے اٹھ گیا اور یزید امت کے سر ہو گیا۔ اگرچہ یزید اور اس کے ہرکاروں کے کھلے ظلم و ستم ابھی شروع نہ ہوئے تھے لیکن آثار سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اندازہ کر لیا تھا۔ یزید کو تخت سے اتارنے اور تختے پہ چڑھانے کا کوئی طریقہ آپ کے پاس نہ تھا۔ آپ کے پاس ایک ہی طریقہ تھا کہ ’’خود را بر سلطنتِ جم زن‘‘ کے مصداق خود کو حکومتِ جابرہ سے ٹکرا دیں۔ آپ بحر کی موجوں میں اضطراب پیدا کرنا چاہتے تھے۔آپ سلطنت جمشید سے ٹکرانے عراق کی جانب رواں ہوئے اور خود کو شہادت کے لیے پیش کردیا۔ لوگ آپ کو سمجھاتے ہوئے کہتے کہ ہمیں خدشہ ہے آپ کو شہید کر دیا جائے گا، آپ مسکرا کر ایسا کلام کرتے کہ گویا انھیں یقین تھا کہ شہید کیے جائیں گے۔چنانچہ آپ کربلا پہنچے اور روایت میں آتا ہے کہ آپ نے اس کے نام کو الگ کر کے ’’کرب و بلا‘‘ ادا کیا۔ یہاں دکھ بھی تھا اور مصیبت و آزمائش بھی۔آپ نے ساتھیوں سمیت سب کچھ برداشت کیا اور جامِ شہادت پی کر سیادتِ شبانِ جنت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ خونِ شہیداں رنگ لایا۔ سوئے ہوئے جاگ اٹھے اور جاگے ہوئے ہشیار ہوئے۔اِدھر اُدھر سے تحریکیں اٹھناشروع ہوئیں اور چند ہی دہائیوں میں یزیدی سلطنت کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا :
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے |
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد |
یہ تو پہلی صدی کے ایک مُحرَّم کی بات تھی، اب آتے ہیں ۱۴۴۳ ہجری کے مُحرَّم کی داستان کی طرف :
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم |
نہایت اس کی حُسین، ابتدا ہے اسمعیل |
یہاں نہایت کو ’انت‘ کے معنی میں لینا چاہیے یعنی سیدناحسین رضی اللہ عنہ نے داستانِ حرم کو اوج ِ کمال تک پہنچایا، نہ کہ اس کے سلسلے کو منقطع کیا کہ حسینی آپ کے اسوے پر تا قیامِ قیامت چلتے رہیں گے۔تو اِن پیروانِ حسین کا آج کل نام ’’طالبان‘‘ ہے۔ نام سے ظاہر ہے کہ یہ گروہ علومِ دین کے حاملین کا ہے اور ان کے کام سے ظاہر ہے کہ یہ ملک و قوم کے محافظ ومجاہد ہیں:
خودی ہو علم سے محکم تو غیرتِ جبریل |
اگر ہو عشق سے محکم تو صورِ اسرافیل |
طالبان ایک طرف تو علمِ دین کے حامل ہیں اور اس واسطے غیرت سے سرشار ، اور خودی ان کی جامِ عشق سے سرمست، چنانچہ امریکا کےدباؤ میں آ کر انھوں نے مسلمانوں کو بیچ کر ڈالر کھرے کرنے کے بجائے اس کو کھری کھری سنائیں: ’’اگر ہمارے شہریوں نے تمھارے ٹاور گرائے ہیں تو کوئی ثبوت پیش کرو اگر تم سچے ہو تو‘‘ لیکن سامنے والا جھوٹا تھا لہذا دھونس دھاندلی کا سلسلہ شروع ہوا۔ اُدھر شہروں اور ملکوں میں کافروں کی چلت پھرت عروج پر تھی۔ وعدے اور معاہدے کیے جا رہے تھے ، عالمی حملہ آور اتحاد تشکیل دیا جا رہا تھا اور قرار دادیں منظور کی جا رہی تھیں، اور اِدھر ہمدرد سمجھا رہے تھے اور مختلف حیلے بہانے سکھائے جا رہے تھے لیکن یہاں وہی عزم و استقلا ل، وہی توکل اور شوقِ شہادت جو پہلی صدی ہجری میں دیکھا گیا تھا۔ ملا عمر رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ہی جواب تھا: ’’ثبوت دو اور بندہ لو‘‘۔ انھی دنوں کی یہ بھی خبر چلی تھی کہ انھوں نے فرمایا :’’میں نے خواب میں رسول اللہﷺکی زیارت کی اور آپ فرما رہے تھے کہ ان کفار کے خلاف جہاد کرو‘‘۔ چنانچہ طالبان ملا عمر رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں اپنے موقف پر جازم رہے۔ کلمے کے نام پر بننے والے پاکستان نے اپنے پڑوسی کے خلاف عالمی غنڈوں کو اڈے اور دیگر معاونت فراہم کی اور کئی ملکوں کی متحدہ افواج نے اندھا دھند بمباری شروع کر دی اور پورے ملک کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔طالبان کی حکومت چلی گئی لیکن غیرت باقی تھی اور وہ صورِ اسرافیل پھونکنے کا ہنر جانتے تھے چنانچہ انھوں نے شہروں کو خیر باد کہا :
نہ ڈھونڈو شہر میں فرہاد و مجنوں کا ٹھکانا تم |
کہ ہے عشاق کا مسکن کبھو صحرا کبھو پربت |
تو صحرا و بیابانوں میں چھپ چھپا کر پہلے تو آتش و آہن کے گردِ سموم کے بیٹھنے کا انتظار کیا گیا، پھر آہستہ آہستہ اسی سلسلۂ جہاد کو شروع کیا گیا جس سے سویت یونین کو روس بنایا گیا تھا۔اس دوران وہ بہت سے کرب و بلا سے گزرے۔ رشتے ناتے دور ہوئے۔ بھوک پیاس سے چور ہوئے۔ جیل خانوں کے اسیر ہوئے۔ پاکستانی اور افغانی جیلوں سے لے کر، گوانتانامو بے تک کی اذیتیں ، لیکن ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔ نہ انھوں نے کوئی فرمانِ جنوں ٹالا، نہ کسی صداے جرس کو تنہا لوٹایا ،غیروں کی دشنام طرازیاں اور اپنوں کی ملامت اندازیاں ، اگرچہ جاری رہیں اور انھیں’تنہا پس زنداں کبھی رسو ا سر ِ بازا ر‘ کا نظارہ بارہا دیکھنا پڑا۔ لیکن عشقِ بلا خیز کا یہ قافلۂ سخت جاں اہلِ ہوس کی مصلحتوں کو بھلا کر ((اَلْجِهَادُ مَاضٍ)) ’’ جہاد جاری رہے گا‘‘ کی تعبیر عملی میں لگا رہا۔
شکستہ پائی سے ہوتی ہیں بستیاں آباد |
جو ا َب قبیلہ ہوا پہلے قافلہ ہوگا |
ان کی قربانیوں سے آخر امریکا اسی دوراہے پر آ گیا جس پر سلطنتِ برطانیہ بیسوی صدی کی پانچویں دہائی میں اور سویت یونین اسی صدی کی نویں دھائی میں کھڑی تھی کہ اپنے دامن کوسمیٹو اور جہاں تک ہو سکے بچتے بچاتے نکل جاؤ۔ بہت منت ترلے کر کے طالبان کو مذاکرات پر لایا گیا اور امن معاہدے کے بعد غیر ملکی افواج کا اخراج عمل میں ہوا۔ اس کے بعد طالبان مختلف صوبوں کا قبضہ چھڑاتے ہوئے آخر کار کابل تک پہنچے اور بیس سالہ غاصبانہ قبضے سے امارتِ اسلامیہ افغانستان کے دار الخلافہ کو آزاد کرا لیا گیا۔اس عظیم الشان فتح کے موقعے پر صدارتی محل کا افتتاح سورۃ النصر کی تلاوت سے کیا گیا۔ طالبان نےعام معافی کا اعلان کر دیا ہے اور ابھی وہ حکومت کی باقاعدہ تشکیل میں مصروف ہیں۔
طالبان کے پہلے دورِ حکومت اور اس دور میں فرق ہے۔ پہلے دورِ حکومت میں طالبان کو روسی جارحیت اور خانہ جنگی سے لہولہان اور لٹا پٹا افغانستان ملا تھا۔ انھوں نے ایک طرف تو بد امنی کا خاتمہ کر کے امن قائم کیا اور دوسری طرف اسلامی حدود و تعزیرات نافذ کیں جس سے جرائم کا سدباب ہو گیا۔ افغانی چونکہ طویل خون خرابے اور غربت کے ستائے ہوئے تھے اس لیے ان کے حکومت سےکچھ خاص تقاضےو مطالبے نہ تھے۔ مل گیا تو بھلا اور نہ ملا تو بھلا۔
لیکن اب کا افغانستان مختلف ہے۔ اسے عالمی امداد کی چاٹ لگ چکی ہے۔ دوسروں کے پیسے سے اس کی سڑکیں اور عمارتیں پختہ ہیں۔ انٹر نیٹ اور دیگر ذرائع مواصلات کا استعمال عا م ہو چکا ہے اور لوگ آزادیٔ رائے اور شخصی حقوق کے بارے میں پہلے سے زیادہ جانتے بھی ہیں اور حساس بھی ہیں۔ دوسری طرف طالبان بھی وہ پرانےوالےنہیں ہیں بلکہ اب وہ میڈیا کے استعمال سے واقف ، پروپیگنڈے کے توڑ کی صلاحیت کے حامل اور سیاست کے ماہر بن چکے ہیں۔ لیکن عالمی مالیاتی اداروں اور سیاسی اداروں کی چالوں اور سازشوں سے بچنا ان کا اصل چیلنج ہے۔ اگرچہ طالبان کا رابطہ چین سے ہو چکا ہے جو خوش آئند ہے لیکن ابھرتی ہوئی اسلام مائل؛ مسلمان ریاست ترکی سے ربط ضبط بھی بہت ضروری ہے۔ بدقسمتی سے طالبان اور ترکی کے درمیان کچھ غلط فہمی بھی رہی لیکن امید ہے کہ یہ غلط فہمیاں دور ہو کر دونوں ریاستیں ایک دوسرے کو مفادات کے حصول میں معاونت کریں گی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام مسلمان ملکوں کو اتحاد و اتفاق اور نظام و قانونِ اسلام کی دولت سے مالا مال فرمائے۔