مسلمان جتنا بھی گیا گزرا ہو سورۃ الناس تو اسے بچپن سے یاد ہوتی ہے اور ﴿مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ﴾ کے الفاظ سے اتنا تو وہ سمجھتا ہے کہ شیطان جنوں کی طرح انسانو ں میں سے بھی ہوتے ہیں ۔ شیطان کے ان ایجنٹوں کو کہیں تو ﴿ذُرِّيَّتَهُ﴾ ’’اس کی اولاد ‘‘ کہا گیا اور کہیں ﴿جُنُودُ إِبْلِيسَ﴾ ’’ ابلیس کے لشکری ‘‘ کہا گیا اور سورۂ بنی اسرائیل کی ایک آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس فوج ِابلیس میں گھڑ سوار اور پیادے بھی ہوتے ہیں۔ جن کے بارے میں حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس کے سوار اور پیادے جنوں میں سے بھی ہوتے ہیں اور انسانوں میں سے بھی، اور یہ وہ ہیں جو اس کی اطاعت کرتے ہیں‘‘۔ شیطانوں کی اس فوج کی باہم پیغام رسانی کا بھی خاص اہتمام ہوتا ہے: ﴿شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا﴾ (الانعام:۱۱۲)’’انسانوں اور جنات میں سے شیطان قسم کے لوگ، جو دھوکا دینے کی خاطر ایک دوسرے کو بڑی چکنی چپڑی باتیں سکھاتے رہتے ہیں‘‘۔رسول اللہ ﷺ کے فرمان عالی شان کے مطابق؛ ابلیس اپنا تخت سمند ر پر بچھاتا ہے، پھر وہاں سے اپنے لشکر روانہ کرتا ہے جو انسانوں کو گمراہ کرتے ہیں ۔پھر اس کے چیلے واپس آ کر اپنے اس گُرو گَھنٹال کو اپنی کارستانیاں سناتے ہیں ۔ ابلیس اس ’’ بچۂ شیطان ‘‘ پر خوش ہوتا ہے جو بڑا فتنہ برپا کر کے آئے، لیکن ابلیس کا معیار ِ شیطانی اتنا بلند ہے کہ جب بھی اس کا ایجنٹ اپنا کوئی کارنامہ پیش کرتا ہے تو وہ اس پر مطمئن نہیں ہوتا: مَا صَنَعْتَ شَيْئًا ’’ تو نے تو کچھ بھی نہیں کیا‘‘ کہہ کر اسے مزید برانگیختہ کرتا ہے۔ پھر اس کا ایک چیلا آ کر کہتا ہے کہ میں نے فلاں فلاں کام اور حرکتیں کیں یہاں تک کہ )فَرَّقَتْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ امْرَأَتِهِ) ’’پھوٹ پڑ گئی بندے اور اس کی بیوی کے درمیان‘‘اس پر شیطان کھِل اٹھتا ہے ،اس کی تعریف کرتا ہے اور اس بچۂ ابلیس کو گلے لگا لیتا ہے۔ (صحیح مسلم)
شرارت اور شیطانی کے کام بہت سارے ہیں لیکن ان میں سے چوٹی کا ابلیسی کارنامہ وہ ہے جس پر حدیث مندرجہ بالا میں ابلیس نے اپنے شیطونگڑے کو شاباش دی ، میاں بیوی میں جھگڑا پیدا کرنا یا بہ الفاظ دیگر گھریلو اور عائلی زندگی میں فساد برپا کرنا ۔ شیطانِ جن کا تخت تو پانی پر ہے ، شیاطینِ انس کا ہیڈ کوارٹر ، اگرچہ خشکی پر ہے لیکن ہے سمندروں کے بیچوں بیچ ، انسانوں کو گمراہ کرنے والی پالیسیاں ، قوموں کے اسی متحدہ مرکز سے جاری ہو کر ملکوں ملکوں قانون کا روپ لیتی ہیں۔ پھر ان ابلیسی طاقتوں کے سوار بھی ہیں اور پیادے بھی ، نمائندے بھی اور سفیر بھی، یہ ہو سکتا ہے کچھ کی چاکری جان بوجھ کر ہو اور کچھ انجانے میں شیطان کے ایجنٹ بنے ہوں۔ یہ دلوں کی بات ہے جسے ہم دلوں کے مالک کی طرف لوٹاتے ہیں۔ ان طاقتوں کی حالیہ کارستانی ’’گھریلو تشدد کے خاتمے کا قانون ہے‘‘۔ اس قانون پر عرصے سے کام ہو رہا ہے ۔ اسمبلیوں میں قانون سازی اور اسمبلیوں کے باہر ذہن سازی، کبھی عورت مارچ کے ذریعے اور کبھی کسی سیمینار کے ذریعے ۔ کئی این جی اوز اور ویب سائٹس نے اس کارِ شر میں حصہ لیا ۔ خیر ؛پنجاب ، سندھ ، بلوچستان ، خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں سے منظوری کے بعد یہ متنازعہ بل وفاقی حکومت کے ایوانِ بالا سے بھی منظور کر الیا گیا ہے۔اس موقعے پر’’ یہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں‘‘ کا عملی نمونہ دیکھنے کو ملا ۔ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے وہ اراکین جو ، تو تکار اور جُوتَم پیزار کا مظاہرہ عام طور پر کرتے رہتے ہیں ۔اس موقعے پر ’’یک جان سہ قالِب‘‘ نظر آئے اور باہمی کمال اتحاد و اتفاق کے ساتھ دینی جماعتوں کی شدید مخالفت کو نظر انداز کرتے ہوئے انھوں نے یہ بل منظور کر لیا ۔
ہم نے اس بل کا تعلق عالمی شیطانی تخت سے اس لیے جوڑا ہے کہ اس بل کی پیش کار، تحریک انصاف کی مشہور سیاسی کارکن، سکالرِ مغرب اور پاکستان میں انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ ہم یہ قانون اقوامِ متحدہ کے قوانین کی پاسداری میں بنا رہے ہیں۔ تعجب ہے کہ ایک طرف وزیراعظم صاحب باتوں کے تیر چلا چلا کر بلکہ چِلا چِلا کر ’’بھاگتے چور‘‘ امریکا کی لنگوٹی تار تار کر رہے ہیں اور مغربیوں کے سامنے مغرب کے سماجی نظام کے عیوب بیان کر رہے ہیں۔ موصوف ابھی تک اپنے تئیں ، ریاستِ مدینے کے دعوے و وعدے پر قائم ہیں ۔ لیکن ان کی ناک تلے جو ڈاکا پڑ گیا اس پر جیسے ان کی زبان گنگ سی ہو گئی ہے۔ جالب ہوتا تو وہ کہہ دیتا تھا’’جن کو تھا زباں پہ ناز، چپ ہیں وہ زباں دراز ‘‘ چلیں وہ تو نہ ہوا یہ شہباز جس کی پرواز سے زمانہ جلتا ہے وہ کیوں خاموش ہے:
بولتے کیوں نہیں میرے حق میں |
آبلے پڑ گئے زباں میں کیا |
شاہ اور شاہباز سے ہم اتنا کچھ ہی کہہ سکتے ہیں، اپنے عوام کے لیے بھی یہی پیغام ہے:
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے |
بول ، زبان اب تک تیری ہے |
تو اپنے حلقۂ احباب اور سماجی رابطہ گاہوں پر اور جہاں بھی ہو سکے اس خلافِ شرع قانون کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔اس قانون میں عورتوں کی آزادی و اختیار کی بہت بات کی گئی ہے ۔ ان کی مرضی کے خلاف نہ کرنا ، ان پر ایسے اختیار کی ممانعت کہ جس سے ان کی ذاتی خلوت (privacy) متاثر ہو جائے ۔ لیکن آپ رسول اللہ ﷺ کو دیکھیں کیا فرماتے ہیں اور یہ حجہ الوداع کے موقعے پر ، عین ایام تشریق میں دیے گئے ایک خطبے کا حصہ ہے اور اس میں بھی پہلے شیطانی حملے کا ذکر ہے اور اس کے بعد اس کے آگے بند باندھنے کی جو ترکیب بتائی وہ بھی عورت سےمتعلق ہے: ((أَلَا إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَيِسَ أَنْ يَعْبُدَهُ الْمُصَلُّونَ، وَلَكِنْ فِي التَّحْرِيشِ بَيْنَكُمْ، فَاتَّقُوا الله فِي النِّسَاءِ، فَإِنَّهُنَّ عِنْدَكُمْ عَوَانٌ، لَا يَمْلِكْنَ لِأَنْفُسِهِنَّ شَيْئًا، وَإِنَّ لَهُنَّ عَلَيْكُمْ، وَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ حَقًّا: أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا غَيْرَكُمْ، وَلَا يَأْذَنَّ فِي بُيُوتِكُمْ لِأَحَدٍ تَكْرَهُونَهُ، فَإِنْ خِفْتُمْ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ، وَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ)) )مسند احمد)’’آگاہ رہو ، بے شک شیطان اس سے تو مایوس ہو ہی گیا ہے کہ نمازی (یعنی اہل ایمان) اس کی عبادت کریں گے لیکن وہ تمہارے درمیان فساد ضرور پیدا کرنا چاہے گا ۔ پس عورتوں کے معاملات میں اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک وہ تمہاری دَسْتْ نِگَر ہیں، وہ اپنے حق میں کچھ اختیار نہیں رکھتیں، بے شک تم پر ان کے حقوق عائد ہوتے ہیں اور ان پر تمہارے حقوق عائد ہوتے ہیں ۔ ان میں سے یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر کسی اور کو نہ آنے دیں اور نہ ہی تمھارے گھروں میں کسی ایسے فرد کو آنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو اور اگر تمھیں ان کی سرکشی کا اندیشہ ہو تو ان کو نصیحت کرو اور اگر وہ باز نہ آئیں تو ان کے بستر الگ کردو اور اگر پھر بھی باز نہ آئیں تو ان کو ایساہلکا سا مارو کہ ان کے جسم پر نشان نہ پڑے‘‘اس حدیث کی دیگر روایات میں عورتوں کے مزید حقوق بھی بیان ہوئے ہیں ۔ لیکن یہاں موضوع کی مناسبت سے وہ حصہ دیا گیا جو ان کی تادیب کے بارے میں ہے، تو اس میزان میں پرکھ لیجیے نام نہاد قانون سازی کو، کہ وہ کتنی اسلام کے مطابق ہے۔ اس سلسلے کی ایک روایت میں الفاظ آتے ہیں: ((فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانَةِ الله)) ’’بے شک تم نے ان کو لیا ہے اللہ کی امانت کے طور پر‘‘ ایک روایت میں آتا ہے: ((وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ الله)) ’’تم نے ان کی شرمگاہوں کو اپنے لیے حلال کیا اللہ کے کلمے کے ذریعے‘‘ اس کی وضاحت میں کہا گیا: ((أَيْ بِشَرْعِهِ أَوْ بِأَمْرِهِ وَحُكْمه)) ’’ یعنی اللہ کی شریعت یا اس کے حکم و امر کے ذریعے تم نے ان کے ساتھ اپنا تعلق بنایا ہے‘‘ تو ا ب خواتین کے حق میں اللہ سے ڈرنے کا تقاضا اس کے سوا کیا ہے کہ ان سے جو معاملہ بھی کیا جائے وہ اللہ کی شریعت اور اس کے قوانین کے مطابق ہی کیا جائے ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ان سے تعلق تو اللہ کی شریعت کے مطابق بنایا جائے اور اس تعلق کو نبھانے کے قواعد و ضوابط اقوام متحدہ کے ایجنڈے کی روشنی میں طے کیے جائیں :
میرؔ کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب |
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں |
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ کی بنیاد اس قرآنی اصول پر ہے: ﴿الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ﴾ ’’ مرد عورتوں پر حاکم ہیں ‘‘ (النساء :۳۴، ترجمہ شاہ عبد القادر )ابن کثیر ان الفاظ کی تشریح میں لکھتے ہیں: أَيْ هُوَ رَئِيسُهَا وَكَبِيرُهَا وَالْحَاكِمُ عَلَيْهَا وَمُؤَدِّبُهَا إِذَا اعوجَّت (ابن کثیر)’’یعنی مرد اس کا سردار اور بڑا ہے ،اور وہ اس پر حاکم اور اس کی تادیب و اصلاح کرنے والا ہے اگر وہ ٹیڑھ اختیار کرے تو‘‘امام طبری نے لکھا ہے: الرجال أهل قيام على نسائهم، في تأديبهن والأخذ على أيديهن فيما يجب عليهن لله ولأنفسهم ’’مرد عورت پر نگران ہیں ان کی تادیب و تربیت میں ، اور جو کچھ ان عورتوں پر حقوق اللہ اور حقوق زوج کے ضمن میں عائد ہوتا ہے اس کی ادائی کرانے پر وہ اختیار رکھتے ہیں‘‘۔ بہت ساری احادیث اس موضوع کی بابت وارد ہوئی ہیں ۔ان میں سے ایک اہم روایت یوں ہے: ((اَلرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مسؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ))(بخاری) ’’ مرد نگران ہے اپنے گھر والوں پر اور وہ مسئول ہے اپنی اس رعیت کی بابت‘‘، اس حدیث میں یہ تو ہے کہ مرد اپنی رعیت کے بارے میں اللہ کو جوابدہ ہے لیکن اس حدیث سے یہ بھی تو پتا چلتا ہے کہ گھر والوں میں اس کی حیثیت حاکم کی سی ہے ۔اسی حدیث میں عورت کے بارے میں آتا ہے: ((الْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ وَهْيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ)) (بخاری) ’’عورت نگران ہے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد پر اور وہ اس کے بارے میں جوابدہ ہے‘‘۔ اس میں عورت کی نگرانی یا چلیں حاکمیت کا ذکر ہے لیکن دیکھیں کہ گھر اور اولاد کی نسبت خاوند کی طرف کی گئی ہے یعنی گھر کی حاکمیت تو خاوند ہی کی ہے البتہ بیوی کو خاوند کے ایک نائب کی حیثیت حاصل ہے اور اسی حیثیت سے وہ گھر اور اولاد کے بارے میں جوابدہ ہے اور یہ مفہو م پچھلی حدیث اَلرَّجُلُ رَاعٍ سے بھی نکلتا ہے ۔ اب ایک نیک مسلمان عورت کا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ خود کو خاوند کی جوابدہ سمجھے اور اولاد اور گھر کے معاملات کو ’’گھر والے‘‘ کی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کرے ۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنے مرد کےآگے سرکشی کرے اور اس کے لیے ایک چیلنج کا سا انداز اختیار کرے: ﴿فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ الله﴾ ’’پس نیک عورتیں وہ ہیں جو تابعداری کرنے والی ہیں، جو اللہ کی حفاظت کے ساتھ اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرنے والی ہیں‘‘۔ ایک حدیث میں فرمایا: ((خَيرُ النساءِ امرأةٌ إِذَا نَظَرْتَ إِلَيْهَا سَرَّتْكَ وَإِذَا أمَرْتَها أطاعتكَ وَإِذَا غِبْتَ عَنْهَا حَفِظتْكَ فِي نَفْسِها ومالِكَ)) )مسند البزار ) ’’بہترین عورت وہ ہے کہ جب تو اس کی طرف دیکھے تو وہ تجھے خوش کردے اور جب تو اسے حکم دے و وہ تیری اطاعت کرے اور جب تو کہیں باہر جائے تو وہ اپنی عفت و عصمت اور تیرے مال کی حفاظت کرے‘‘۔
اور رہی یہ بات کہ عورت خاوند کی اطاعت نہ کرے بلکہ سرکشی کرے تو اس کی ہدایات بھی اللہ تعالیٰ نے دی ہیں: ﴿وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ الله كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا﴾ (النساء:۳۴) ’’اور جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو تو (پہلے) انھیں سمجھاؤ، اور (اگر اس سے کام نہ چلے تو) انھیں خواب گاہوں میں تنہا چھوڑ دو ، (اور اس سے بھی اصلاح نہ ہو تو) انھیں مار سکتے ہو۔ پھر اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو ان کے خلاف کارروائی کا کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔ یقین رکھو کہ اللہ سب کے اوپر، سب سے بڑا ہے‘‘۔ا ب اگر تادیب و سزا سے بھی بیوی کی اصلاح نہ ہو رہی ہو تو اصلاح کا اگلا مرحلہ یہ نہیں ہے کہ تھانہ کچہری کا راستہ دیکھا جائے بلکہ خاندانوں کے معزز افراد کو منصف بنایا یا ئے اور وہ ان دونوں کی اصلاح کی کوشش کریں: ﴿وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ الله بَيْنَهُمَا إِنَّ الله كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا﴾ (النساء:۳۴) ’’اور اگر تمھیں میاں بیوی کے درمیان پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ہو تو (ان کے درمیان فیصلہ کرانے کے لیے) ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے بھیج دو ۔ اگر وہ دونوں اصلاح کرانا چاہیں گے تو اللہ دونوں کے درمیان اتفاق پیدا فرما دے گا۔ بیشک اللہ کو ہر بات کا علم اور ہر بات کی خبر ہے‘‘۔اس کے بعد طلاق کا مرحلہ بھی آ سکتا ہے جس کے آداب و شرائط مقرر ہیں لیکن ہم طوالت کے خوف سے ادھر نہیں جاتے۔ شریعت میں اولاد کی تربیت کرنا والد کی ایک خاص ذمے داری ہے۔ حدیث عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ میں آتا ہے :((أَدِّبِ ابْنَكَ، فَإِنَّكَ مَسْئُولٌ عَنْ وَلَدِكَ، مَاذَا أَدَّبْتَهُ؟ وَمَاذَا عَلَّمْتَهُ، وَإِنَّهُ مَسْئُولٌ عَنْ بِرِّكَ وَطَوَاعِيَتِهِ لَكَ (شعب الايمان)’’اپنے بیٹے کی تربیت کرو کیونکہ تم سے اپنے بیٹے کی بابت پوچھا جائے گا کہ تو نے اسے کیا سکھایا پڑھایا اور بے شک بیٹے سے تیرے(یعنی باپ) کے ساتھ حسن سلوک اور اطاعت کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔متنازعہ قانون میں اولاد کی آزادی کی بھی بات کی کئی ہے ۔قدرتی بات ہے کہ تربیت کے میدان میں رعب و دبدبے بلکہ ہلکی پھلکی سزا کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عربی میں تادیب، تربیت کے لیے بھی آتا ہے اور یہی لفظ تادیب، تادیبی کاروائی یعنی سزا کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تربیت میں تادیب کی ضرورت پڑتی ہے بلکہ تادیب کہتے ہیں اس سزا کو جو تربیت و اصلاح کے نقطۂ نظر سے دی جائے‘‘۔
گھریلو تشدد کے خاتمے کے بل کی شقوں اور اس کی توضیحات کا مطالعہ کرنے سے بادنیٰ تامل یہ بات سمجھ آتی ہے کہ والدین کے اس خصوصی اختیار کو جو بطور، تربیت کنندہ کے انھیں دیا گیا ہے اس کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس حوالے سے جب ہم رسول اللہ ﷺ کے فرامین کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں کچھ دوسری صورت حال سے سابقہ پڑتا ہے: فرمایا: ((أَنْفِقْ عَلَى عِيَالِكَ مِنْ طَوْلِكَ، وَلَا تَرْفَعْ عَنْهُمْ عَصَاكَ أَدَبًا وَأَخِفْهُمْ فِي الله))( مسند احمد) ’’اپنے اہل و عیال پر اپنی وسعت کے مطابق خرچ کیا کرو اور ان پر سے اپنے تادیبی ڈنڈے کو اٹھائے مت رکھو اور انھیں اللہ کے بارے میں ڈرائے رکھو‘‘۔ایک روایت کے مطابق نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ((عَلِّقُوا السَّوْطَ حَيْثُ يَرَاهُ أَهْلُ الْبَيْتِ فَإِنَّهُ أَدَبٌ لَهُمْ )) (صحيح الجامع) ’’اپنا کوڑا ایسی جگہ لٹکائے رکھو جہاں سے گھر والوں کو دکھتا رہے، یہ بات تربیتی نقطۂ نظر سے ان کے لیے بہتر ہے‘‘۔
خلاصۂ کلام یہ کہ گھریلو تشدد کے خاتمے کے نام سے کی جانے والی قانون سازی خلاف شریعت اور ابلیسی منصوبہ ہے ۔ ان حالات میں فرامین الہی کی طرف اپنی توجہ شدت سے مرکوز رکھنی چاہیے :﴿وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ * إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى الله مَا لَا تَعْلَمُون﴾ (البقرہ:۱۶۷ / ۱۶۸) ’’اے لوگو !شیطان کے نقشِ قدم پہ نہ چلو بے شک وہ تمھارا کھلا دشمن ہے بے شک وہ تمھیں حکم کرتا ہے برائی اور فحاشی کا‘‘۔ ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ وَمَنْ يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ﴾ (النور:۲۱)’’اے اہل ِایمان! شیطان کے نقوشِ قدم کی پیروی نہ کرو اور جو شیطان کے نفش قدم پہ چلے گا پھر وہ تو اسے فحاشی اور گناہ ہی کا حکم دے گا‘‘۔اگر ہم اسی روش پر گامزن رہے تو پھر اللہ تعالیٰ کا یہ تہدید آمیز شکوہ سامنے رہنا چاہیے :﴿أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا﴾ (الکہف: ۵۰) ’’کیا تم مجھے ( اور میری شریعت کو) چھوڑ کر شیطان کی اور اس کی اولاد کو اپنا دوست بناتے ہو جب کہ وہ تمھارے دشمن ہیں ۔ (اللہ تعالیٰ کا) کتنا برا متبادل ہے جو ظالموں کو ملا ہے‘‘۔