کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا |
اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا |
|
تہ بہ تہ تیرگیاں ذہن پہ جب لوٹتی ہیں |
نور ہو جاتا ہے کچھ اور ہویدا تیرا |
|
پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ ہے تیرا کرم |
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا |
|
دستگیری میری تنہائی کی تو نے ہی تو کی |
میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا |
|
لوگ کہتے ہیں سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا |
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا |
|
تو بشر بھی ہے مگر فخرِ بشر بھی تو ہے |
مجھ کو تو یاد ہے بس اتنا سراپا تیرا |
|
وہ اندھیروں سے بھی درّانہ گزر جاتے ہیں |
جن کے ماتھے میں چمکتا ہے ستارا تیرا |
|
شرق اور غرب میں نکھرے ہوئے گلزاروں کو |
نکہتیں بانٹتا ہے آج بھی صحرا تیرا |
|
اب بھی ظلمات فروشوں کو گلہ ہے تجھ سے |
رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا |
|
تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی |
اب جو تا حشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا |
|
ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ |
راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصی تیرا |