لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

ظلمت کدۂ جہاں،میں جہاں کہیں کچھ روشنی ہے وہ نور الہٰی ہی سے مستفاد ہے ۔یہی وہ نور ہے جو زمیں و آسمان میں ہر شے کو منور کیے ہوئے ہے:﴿اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ ’’ اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا ‘‘ یہی وہ نور معرفت و ہدایت ہے جو بندۂ مومن کےقلب میں شمع فروزاں کی مانند جگمگاتا ہے:﴿مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ﴾ ’’اس کے نور کی مثال جیسے ایک طاق میں چراغ ‘‘روے ارض پر اس نورِ عرفان و ایقان کی بھٹیاں وہ مساجد ہیں جنھیں اللہ تعالی نے بلند کرنے کا حکم دیا ہے:﴿فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ﴾ (النور :۳۶)’’ان گھروں میں جنھیں اللہ نے بلند کرنے کا حکم کیا ، جن میں اس کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے اور صبح و شام اس کی پاکی بیان کی جاتی ہے ‘‘۔

اہل مغرب کے مغالطوں کو الگ رکھیے تو انسانیت نے آنکھ کھولی ہی اسلام کی آغوش میں ہے، چنانچہ ابتدا ہی سے اسے نور ہدایت کے منبع و مصدر یعنی مسجد کی ضرورت پڑتی ہے تو ’’ بت کدۂ دنیا میں پہلا وہ گھر خدا کا ‘‘ کے مصداق بیت اللہ شریف کو پہلا گھر ہونے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے: ﴿إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ﴾ (آل عمران : ۹۶)’’بے شک لوگوں کے لیے جو پہلا گھر بنایا گیا تھا وہ جو مکہ میں تھا ، برکت والی اور تمام جہان والوں کے ہدایت کا مرکز ،،بیت اللہ شریف کی اسی قدامت کےسبب اسےبیتِ عتیق کا نام بھی دیا گیا ہے۔سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں: ’’یا رسول اللہ!یہ بتائیے کہ زمین پر سب سے پہلی مسجد کون سی بنائی گئ؟، آپ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے پہلے مسجد الحرام کو بنایا گیا ۔ انھوں نے پوچھا:یا رسول اللہ! اس کے بعد کون سی مسجد بنائی گئی؟ فرمایا :اس کے بعد مسجدِ اقصی بنائی گئی، آپ نے پوچھا:یا رسول اللہ! ان کے درمیان کتنا فصل ہے؟ فرمایا: چالیس سال‘‘ ۔(صحیح مسلم) یہ تقریباً دو ہزار سا ل قبل مسیح کا دور ہے ۔ ملک بابل میں کفر و شرک کے اندھیرے چھائے ہوئے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اسی علاقے میں جلوہ افروز ہوتے ہیں ۔ آپ مشرکانہ ماحول میں ایک عرصے تک توحید کا پرچم بلند کیے رہے ۔جب شاہِ وقت آپ کی جان کے درپے ہو گیا تو آپ نے اللہ کے حکم سے ارضِ مبارک کی طرف ہجرت فرمائی،اس وقت آپ کے ساتھ حضرت لوط علیہ السلام بھی تھے :﴿وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ﴾ (ہود:۷۱) ’’اور ہم نے نجات دی انھیں اور لوط کو اس زمین کی طرف جس کو ہم نے جہانوں میں برکت دی تھی‘‘ ۔یہ بابرکت علاقہ ارضِ شام ہی تو تھا جیسا کہ سیدناابی ابن کعب رضی اللہ عنہ ، امام حسن بصری رحمہ اللہ اور حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں، چنانچہ صاحب تفسیر المنیر شیخ وہبۃ الزحیلی لکھتے ہیں:أي من العراق إلى أرض فلسطين في الشام، التي بارك الله فيها’’ یعنی انہیں شام میں فلسطین کی طرف پہنچا دیا گیا جس کو اللہ نے برکت دی ہے‘‘۔

ابراہیم علیہ السلام اپنی ذات میں ایک انجمن تھے

﴿اِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً﴾(النحل :۱۲۰) ’’بے شک ابراہیم علیہ السلام ایک راہ ڈالنے والے تھے‘‘۔ تو پہلے گھر اور دوسرے گھر دونوں کے ساتھ آپ کا گہرا تعلق تھا ، بیت اللہ شریف سے بھی اور مسجد اقصی سے بھی ، وہ اس طرح کہ ابراہیم علیہ السلام کی اولاد دو شاخوں میں تقسیم ہوئی ۔ بڑے بیٹے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو آپ نے مکہ شریف میں بیت الحرام کے نزدیک آباد کیا اور اسحٰق علیہ السلام کو ارض شام میں آباد کیا ۔ نبوت و کتاب ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں اس طرح جاری و ساری ہوئی کہ ان دونوں شاخوں میں منحصر ہو گئی :﴿وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ﴾ (العنکبوت : ۲۷)’’ اور ہم نے اس کی اولاد میں (منحصر) کر دیا نبوت و کتاب کو‘‘۔فكانت الأنبياء كلها بعد إبراهيم من ذريته، ولم يوجد نبي بعده إلا وهو من سلالته(تفسیر المنیر)’’پس ابراہیم علیہ السلام کے بعد تمام نبی آپ کی ذریت میں سے ہوئے اور آپ کے بعد کوئی نبی بھی نہیں پایا گیا مگر آپ کی اولاد میں ‘‘۔بنو اسحق میں بہت سارے نبی ہوئے ۔ یہی وہ برکت ہے جس سے اللہ نے ارض مقدس کو نوازا ، اور یہی وہ بزرگی اور فضیلت ہے جو اولاد ابراہیم کی اسحاقی شاخ پر ہوئی :﴿یابَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ﴾ (البقرہ :۴۷)’’اے بنی اسرائیل یاد کرو میری وہ نعمت جو میں نے تم پر کی اور میں نے تمھیں فضیلت دی تمام جہان والوں پر ‘‘۔حضرت ابراہیم کے پڑپوتے حضرت یوسف علیہ السلام آزمائشوں سے گزرتے گزرتے مصر جا پہنچے اور جب سرخرو ہوئے تو وہاں کے خزانوں کے نگہبان ٹھہرائے گئے اور آپ نے اپنے والدین اور بھائیوں اور ان کے اہل و عیال کو مصر میں بلا لیا اس طرح بنی اسرائیل شام سے مصر منتقل ہوئے ۔ یوسف علیہ السلام کے بعد جب بنی اسرائیل میں روشن ضمیری نہ رہی تو فراعنہ مصر نے بنی اسرائیل کو غلامی سے دوچار کر کے مبتلائے عذاب کیے رکھا ۔

فراعنہ سے آزادی

۱۴۰۰ سال قبل مسیح موسی علیہ السلام جن کا راستہ روکنے کے لیے ہزاروں بچوں کو قتل کیا گیا، قاتل اطفال فرعون ہی کے گھر میں جوان ہوتے ہیں ۔اب موسی علیہ السلام کے ذریعے آزادی ملی تو فرعونیوں کو غرقاب کیا گیا اور فلسطین کی وراثت بنی اسرائیل کو لوٹانے کا اعلان کیا گیا تو اس موقع پر اس زمین کے بابرکت ہونے کا اعلان بھی کیا گیا :﴿وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا وَدَمَّرْنَا مَاكَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَاكَانُوايَعْرِشُونَ﴾ (الاعراف:۱۳۷) ’’اور جن لوگوں کو دبا لیا گیا تھا ، ہم نے انھیں وارث بنا دیا اس زمین کے مشرق و مغرب کا جس کو ہم نے بابرکت بنایا تھا اور تیرے رب کا اچھا وعدہ بنی اسرائیل کے حق میں پورا ہوا اس وجہ سے کہ وہ ثابت قدم رہے اور ہم نے تباہ و برباد کر ڈالاوہ سب کچھ جو فرعون اور اس کی قوم (اونچے محلات) بناتے تھے اور (باغات میں انگور کی بیلوں وغیرہ کے لیے چھتریاں) چڑھاتے تھے ‘‘۔لیکن اس خدائی ، تکوینی فیصلے کو منصۂ شہود میں لانے کے لیے جہاد کے شرعی حکم دیا گیا کیوں کہ وہاں عمالقہ نے قبضہ جمایا ہوا تھا۔تو حضرت موسی علیہ اسلام نے اپنی قوم کو اللہ کے وعدہ نصرت و فتح اور اس سرزمین کے تقدس کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ، ان سے کہا:﴿يَاقَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ﴾ (المائدة : ۲۱)’’اے میری قوم ارض مقد س میں داخل ہو جاو جو اللہ نے تمھارے لیے لکھ دی ہے‘‘۔لیکن قوم نے ارض مقدس کی قدر نہیں کی اور جہاد سے اعراض کیا سزا میں چالیس سال تک ارض پاک سے محرومی اور صحرا نوردی لکھ دی گئی ۔اس چالیس سالہ صحرا نوردی کے دوران ، حضرت موسی علیہ السلام اورہارون علیہ السلام اللہ کوپیارے ہوئے بلکہ حضرت موسی علیہ السلام کو جہاد سے انکار کرنے والے ، خوگرانِ غلامی سب فوت ہو چکے ۔اب یہ اللہ کے پیغمبر اور حضرت موسی علیہ السلام کے خلیفہ حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کا دورہے ۔ حضرت موسی علیہ السلام کی دعوت جہاد پر لبیک کہنے والے ، حضرت كالِب بن يُوفِنَا بھی آپ کے ساتھ تھے۔آپ قدس کے مقدس جہاد پہ نکلتے ہیں ،کہا جاتا ہے ک ہ ان کے ساتھ آزاد فضاؤں میں جنم لینے والے بندگانِ صحرائی ہی تھے اور فرعون کی غلامی کے مارے پست حوصلہ لوگوں میں سے کوئی آپ کے ساتھ نہ تھاکہ وہ جناب باری میں پیشی کو روانہ ہو چکے تھے۔ فوجیں آمنے سامنے ہوئیں گھمسان کا رن پڑا ، شام تک حضرت یوشع علیہ السلام کی فتح کے آثار واضح ہو چلے تھے لیکن سورج پسپا ہورہا تھا ، سورج کو ڈھلتا دیکھ کر حضرت یوشع علیہ السلام نے اسے مخاطب کیاإِنَّكِ مَأْمُورَةٌ وَأَنَا مَأْمُورٌ’’ تو رب کے حکم طلوع و غروب کا پابند ہے اور میں رب کے حکم جہاد کا پابند ہوں ‘‘ اور پھر اللہ سے درخواست کی کہ سورج کو روک دیا جائے تاکہ جنگ کسی فیصلہ کن نتیجے پر پہنچ جائے ۔چنانچہ سورج کو روک کر دن لمبا کر دیا گیا ۔ حضرت یوشع کو دشمنوں پر کامیابی ملی ، مقدس شہر فتح ہوا ۔ چنانچہ اس موقع پر بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا :﴿وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ﴾ ’’اور داخل ہو دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے اور کہتے جاؤ بخش دے بخش دے تو معاف کردیں گے ہم تمہارے قصور اور زیادہ بھی دیں گے نیکی والوں کو ‘‘ لیکن وہ سر اٹھا کر اور اکڑ کر شہر میں داخل ہوئے اور کلمہ استغفار کے بجائے کچھ اور بکنے لگے چنانچہ ﴿فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ﴾ (البقرہ:۵۹)’’پھر اتارا ہم نے ظالموں پر عذاب آسمان سے ان کی عدول حکمی پر‘‘۔

بہرحال یوشع بن نون علیہ السلام نے بنی اسرائیل کی ریاست کو قائم کر دیا جو آپ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد بھی کافی عرصہ قائم رہی ۔ پھر اپنی بداعمالیوں کے سبب بنی اسرائیل کمزور ہوئے تو ان کی سلطنت پرزوال کے آثار نظر آنے لگے اور دو اڑھائی سو سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا ۔اس عرصے میں مقامی راجوں مہاراجوں نے دوبارہ ان کے علاقوں کو تاراج کیا ، ان کے گھر بار پر قبضہ کیا اور ان کے بیٹوں کو غلام بنایا۔

گیارھویں صدی قبل مسیح کی ابتدائی دہائیوں میں اللہ کے نبی حضرت سیموئیل علیہ السلام،بنی اسرائیل کے درمیان اصلاحِ احوال میں مصروف تھے ۔ بنی اسرایلیوں نے آپ سے درخواست کی کہ کسی کو بادشاہ بنائیں تاکہ اس کی سرکردگی میں جہاد کر کے اپنے گھر بار آزاد کرا سکیں ۔ حضرت سیموئیل علیہ السلام کو شک تھا کہ عین موقعے پر جیسے انھوں نے موسی علیہ السلام کو صاف جواب دے دیا تھا کہیں اب بھی ایسا ہی نہ کریں لیکن قوم کی طرف سے یقین دہانیوں پر انھوں نے حضرت طالوت کو بادشاہ بنایا ، جسے قدرے قدْح کے بعد بنی اسرائیل نے قبول کیا ۔ موسی علیہ السلام اور دوسرے انبیائے کرام کے تبرکات پر مشتمل تابوت سکینہ جو ان کے دشمن اٹھا لے گئے تھے ،معجزانہ طورپر ان کے پاس آگیا تب ان کی جان میں جان آئی اور وہ ڈٹ کر لڑے اور دشمن خدا ، جالوت ، حضر ت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں واصل جہنم ہوا ۔ بنی اسرائیل کو فتح نصیب ہوئی جس کے نتیجے میں سارے شام میں ان کی حکومت بن گئی۔حضرت طالوت نے سنہ ١٠٢٠ تا ١٠٠٤ ق م ، حکومت کی جس کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام (سن ١٠٠٤ تا ٩٦٥ ق م) اور حضرت سلیمان علیہ السلام (٩٦٥ تا ٩٢٦ ق م)کی حکومتیں قائم رہیں ۔ یہ بنی اسرائیل کی تاریخ کا سنہرا دور تھا۔ جب یہاں لحن داؤدی نے جوت جگائی ۔ جس کے لیے پہاڑ اور پرندے مسخر کر دیے گئے ۔ان مقدس بادشاہوں کے لیے ہوائیں مسخر کی گئیں ۔ قیمتی دھاتوں کے چشمے بہا دیے گئے ۔ لوہا نرم کیا گیا ۔ زرہ سازی کی صنعتیں قائم کی گئیں۔بیت المقدس کو آباد کیا گیا ۔سلیمان علیہ السلام نے مسجد بنائی جسے ہیکل سلیمانی کے نام سے جاناگیا ۔

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بعد بنی اسرائیل کی سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔ جنوبی فلسطین میں سلطنت یہودیہ قائم ہوئی جس کا پایہ تخت یروشلم بنا جبکہ شمالی فلسطین میں سلطنت اسرائیل قائم ہوئی جس کا دارالحکومت سامریہ طے پایا ۔ریاستی سطح پر باہمی رقابت اور عوامی سطح پر مشرکانہ عقائد اور اخلاقی فساد نے ان کے شیرازے کو بکھیر دیا۔نویں صدی قبل مسیح سے فلسطین پر اشوری فاتحین کے مسلسل حملے شروع ہوگئے۔پہلے سلطنت اسرائیل کی باری آئی ، ہزار ہا اسرائیلی قتل اور جلاوطن ہوئے ۔ سلطنت سامریہ تو ختم ہی ہو گئی البتہ سلطنت یہودیہ نے شکست کھا کر باجگزار بن کر رہنا پسند کیا۔سنہ ٥٩٨ قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے یروشلم سمیت پوری یہودی سلطنت پر قبضہ کر لیا ۔ سنہ ٥٨٧ قبل مسیح میں یہودیوں کی شرارتوں کے نتیجے میں ، بخت نصر نے ایک سخت فوجی کاروائی کر کے کئی شہر تباہ و برباد کر دیے ، یروشلم اور ہیکل سلیمانی کو پیوند خاک کیا اور یہودیوں کی بہت بڑی تعداد کو جلا وطن کر دیا اور بڑی تعداد کو قیدی بنا لیا۔ یہ غلامی کا دور تقریباً نصف صدی پر محیط رہا۔

اب تاریخ ایک اہم موڑ لیتی ہے۔ فارس میں سائرس یا کیخورس یا کیخسرو کا عروج شروع ہوتا ہے یہاں تک کہ اس نے سنہ ٥٣٩ قبل مسیح میں بخت نصر کے داماد نبو نید کو شکست دے کر سلطنت بابل پرقبضہ کر لیا ۔ کیخورس ایک خدا ترس بادشاہ تھا جس نے عظیم سلطنت فارس قائم کی ۔ بعض اہل علم انھیں ہی ذوالقرنین قرار دیتے ہیں ۔ بابل کی فتح کے موقعے پر اس نے قیدی بنائے گئے بنی اسرائیل کو اپنے وطن واپس جانے اور وہاں دوبارہ آباد ہونے کی عام اجازت دی ۔ مدتوں یہودیوں کے قافلے پہنچتے رہے۔ انھی لوگوں میں حضرت عزیر علیہ السلام بھی تھے جنہوں نے اصلاح و تجدید کا عظیم کارنامہ سر انجام دیا دعوت و اصلاح کے ساتھ آپ نے تورات کو از سر نو مرتب کیا۔ اسی دور میں ہیکل مقدس اور یروشلم کی شہرپناہ کی تعمیر نَو کی گئی۔

۳۳۰ قبل مسیح میں سکندر مقدونی کے ہاتھوں شاہ ایران ،دارا یوش کی شکست سے تاریخ نے ایک نیا موڑ لیا۔ یہاں سے یونانیوں کا عروج اور ، یہودیوں کے سرپرست ،شاہان فارس کا زوال شروع ہو تا ہے۔ جس سے یہودی متاثر ہوتے ہیں ۔ ١٩٨ قبل مسیح میں یونانیوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا اور جبر و تشدد سے یہودی مذہب کو ختم کرنا چاہا لیکن یہودی مغلوب نہ ہوئے بلکہ انھوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور یونانیوں سے آزادی حاصل کر کے اپنی ریاست قائم کر لی ۔یہ مکابی سلطنت کہلاتی ہے جو سن ٦٧ ق م تک قائم رہی۔جب یہ ریاست کمزور پڑ گئی تو رومیوں نے حملہ کر کے فلسطین پر قبضہ کر لیا ۔لیکن انھوں نے براہ راست حکومت کرنے کے بجائے مقامی لوگوں پر مشتمل ایک ماتحت حکومت قائم کی جو ۶ قبل مسیح تک قائم رہی جس کے بعد قیصر آگسٹس نے فلسطین کو گورنر کے ذریعے اپنی حکومت میں شامل کر لیا۔ اسی دور میں عیسی علیہ السلام دنیا میں تشریف لاتے ہیں۔

عیسی علیہ السلام کی آمد

رومی غلامی کی اس دور میں رحمت الہی بنی اسرائیل کی طرف متوجہ ہوتی ہے ۔ عفت مآب سیدہ مریم اور حضرت زکریا علیہما السلام کی ریاضتوں اور عبادتوں نے اس سرزمین کی برکت میں اضافہ کیا ۔چنانچہ صاحبہ ولایت و کرامات ،سیدہ مریم طاہرہ علیہا السلام کے ہاں بن باپ کے بیٹے ’’ عیسی علیہ السلام ‘‘ جنم لیتے ہیں جو پنگھوڑے میں اعلان کرتے ہیں: ﴿إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا ﴾(مریم : ۳۰) ’’ بے شک میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی بنایا ‘‘۔لیکن سیدہ مریم علیہا السلام کی پاکدامنی و کرامات بنی اسرائیل کے دل میں گھر نہ کر سکیں انھوں نے سیدہ مریم کی پاکدامنی کا انکار کر کے آ پ پروہ بہتان لگایا جسے قرآن پاک نے ’’ بہتانِ عظیم ‘‘قرار دیا ۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش اور پنگوڑے میں گفتگو کرنا بجائے خود معجزہ تھا لیکن جب آپ علیہ السلام نے دعوت و اصلاح کا ، کام شروع کیا تو مزید کئی ایک معجزے آپ کو دیے گئے۔ آپ کی دعوت کے نتیجے میں بنی اسرائیل دو گروہوں میں تقسیم ہوئے: ﴿فَآمَنَتْ طَائِفَةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَتْ طَائِفَةٌ﴾ (الصف :۱۴) ’’پس بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ آپ پرایمان لایا اور ایک گروہ نے کفر کیا ‘‘۔ایمان لانے والے تھوڑے سے لوگ تھے جو نصاری یا عیسائی کہلائے اور کفر کرنے والے لوگ ایک عظیم اکثریت پر مشتمل تھے جو یہود کہلائے۔ یہود نے حضرت عیسی علیہ السلام پر گھناؤنے الزامات عائد کیے ،آپ پر ایمان لانے سے لوگوں کو روکا اور عیسائیوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کیے رکھا ۔ ۳۳ عیسوی میں یہودیوں نے سیدنا عیسی علیہ السلام کے خلاف سازشیں کر کے رومی گورنر کے ذریعے آپ کوپھانسی دینے کی کوشش کی ۔ اللہ تعالی نے سیدنا عیسی علیہ السلام کو زندہ سلامت آسمان کی طرف اٹھا لیا لیکن یہ سمجھتے رہے کہ ان کو پھانسی ہوگئی ہے چنانچہ اس جرم عظیم کا ذکر کرتے بھی وہ شرماتے نہ تھے بلکہ کہا کرتے : ﴿إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ﴾ (النساء: ۱۵۷) ’’ ہم نے مسیح عیسی ابن مریم ، رسول اللہ کو قتل کر ڈالا، حالانکہ انھوں نے آپ کو قتل نہیں کیا اور نہ ہی سولی چڑھایا بلکہ انھیں شبہےمیں ڈال دیا گیا‘‘۔ عیسی علیہ السلام کی دشمنی ، آپ کے کفر اور آپ کو پھانسی دلوانے کی کوشش کےجرم کی سزا کچھ عرصے بعد ہی یہود کوملنے کی تیاری ہونے لگی جس کی ابتدا کے طور پر رومی حکمرانوں اوریہود یوں میں ان بن شروع ہو گئی ۔یہاں تک کہ آپ علیہ السلام کے رفع سماوی کے تقریباً ۳۳ سال بعد یہودیوں نے کھلی بغاوت کر دی اگرچہ وہ بغاوت فرو کر دی گئی لیکن رومی سلطنت نے یہود کو سزا دینے کی ٹھانی جس کے لیے ۷۰ عیسوی میں جنرل ٹائٹس رومی کو فوجی کارروائی کی غرض سے بھیجا گیا ۔ جس نے یروشلم پر قبضہ اور قتل عام برپا کیا ۔ اس موقعے پر تقریباً ایک لاکھ ٣٣ ہزار آدمی مارے گئے، تقریباً ستر ہزار آدمی گرفتار کر کے روم لے جائے گئے جہاں انھیں غلام بنایا گیا ۔ بیت المقدس کو تباہ و برباد کیا گیا ۔ سلیمان علیہ السلام کی بنائی ہوئی مسجد جسے ہیکل سلیمانی کہا جاتا تھا وہ گرا دی گئی ۔ یہاں سے رومی غلامی کا ایک طویل دور شروع ہوتا ہے جس میں یہود پر بہت سختی کی گئی اور وہ اپنے جرائم کی سزا بھگتے رہے ۔

جہاں تک اہل کتاب کے دوسرے گروہ عیسائیوں کی بات ہے تو جیسا عرض کیا گیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان لانے کی پاداش میں ان پر بہت ظلم و ستم کیے گئے ۔یہ سلسلہ آپ علیہ السلام کے رفع آسمانی کے بعد بھی جاری رہا ۔ البتہ آپ علیہ السلام کے حواریوں (شاگردانِ خاص) نے ظلم وستم کے باوجود عیسایئت کی تبلیغ جاری رکھی ۔ لیکن ان داعیان مسیحیت میں جس شخصیت نے بہت زیادہ کامیابی حاصل کی وہ سینٹ پال کی تھی جسےپولس اور شاوول بھی کہا جاتاہے۔ یہ حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی ہی میں، ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوا ، اور یہودیت کا عالِم بنا ۔اس نے بیت المقدس کاسفر بھی کیا لیکن مائیکل ہارٹ کے مطابق سیدنا عیسی علیہ السلام کے ساتھ اس کی ملاقات نہیں ہوئی اور اگر ہوتی بھی تو اس وقت سینٹ پال یہودیت کا داعی اور عیسایئت کا دشمن تھا ۔چنانچہ یہ عیسائیوں پر ظلم و ستم کرنے والوں میں شامل تھا ۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد تک وہ اسی ظالمانہ روش پر قائم رہا یہاں تک کہ ایک موقعے پر اس نے دعوی کیا کہ کشفی طور پر عیسی علیہ السلام سے اس کا مکالمہ ہوا ہے اور انھوں نے عیسایت کی دشمنی ترک کر کے اسے عیسایئت قبول کرنے کی تلقین کی ہے ۔ چنانچہ اس نے عیسایت اختیار کر کے دعوت کا کام شروع کیا اور غیر بنی اسرائیل تک دعوت عیسایئت کو پھیلادیا ۔اس نے یونان اورروم تک سفر کیے اور لوگوں کودعوت دی ۔ اس نے بہت سی تحریریں لکھیں اور عہد نامۂ جدید کا کافی حصہ اس کا مرتب کردہ ہے ۔ اس کے ساتھ اس نے عیسائی عقائد و نظریات میں غیر معمولی اضافے کیے اس نے ، سب سے پہلے حضرت عیسی کو اللہ کا بیٹا قرار دیا اور پھر کفارے کا عقیدہ ایجاد کیا اور شریعت موسوی اور عہدنامہ ٔقدیم کے احکام کو منسوخ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان احکام پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے اور نجات کے لیے (معاذ اللہ) اللہ کے بیٹے پر ایمان لانا کافی ہے اور اگر کوئی گناہ ہو بھی گیا ہو تو اس کی سزا کسی عیسائی کو نہیں ملے گی کیوں کہ ، اللہ کے بیٹے نے سولی چڑھ کر اپنی امت کے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا ۔ پال کی عیسایئت کو غیر بنی اسرائیل میں بہت فروغ ملا ۔ اگرچہ ابتدائی طور پر دوسرے عیسائی عالموں نے پال کی مخالفت کی لیکن آہستہ آہستہ عیسائیت پال کے نظریات کو اختیار کرتی گئی یہاں تک کہ بعد والے اکثر علماے نصاری اس کے نظریات کو اختیار کرتے چلے گئے ۔ پال کا انتقال ستر عیسوی سے پہلے ہی ہو گیا تھا لیکن اس کے شاگردوں کی تبلیغ جاری رہی۔ ستر عیسوی میں یہودیوں کے زوال سے ، عیسائیوں نے ایک گونہ سکون محسوس کیا کہ لیکن سلطنت روم میں عیسائیت اب بھی ایک ’’ دینِ ممنوع ‘‘ کی حیثیت رکھتی تھی ۔ اس کے معتقدین اور مبلغین کو کڑی سزائیں دی جاتی تھیں لیکن بہر حال عیسائی مبلغین ’’ کبھو صحرا کبھو پربت ‘‘ کے مصداق اپنے مذہب کی ترویج میں لگے رہے ۔ چوتھی صدی کے شروع میں ، شہنشاہ قُستَنطِین نے ایک شاہی فرمان کی رو سے عیسائیوں کو اختیار و تبلیغ مذہب کی آزادی دے دی۔ اس کے بعد عیسائیت کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی نصیب ہوئی اور اسی صدی کے آخر میں شہنشاہ تھیو ڈوسی ایس نے عیسائیت اختیار کر لی جس سے پوری ریاست عیسائی ہو گئی اور عیسائیت ریاست روم کا سرکاری مذہب قرار پائی۔ تاہم یہ حضرت عیسی علیہ السلام والی عیسایئت نہیں تھی بلکہ سینٹ پال کی تحریف شدہ عیسائیت تھی ۔ یعنی روم اور یورپ سچی آسمانی عیسائیت سے کبھی متعارف ہی نہیں ہوئے!!

بہرحال اب عیسائیوں کےسکھ کے سال تھے ۔ سلطنت روم کی سرپرستی میں عیسایئت مضبوط ہو کر یہودیوں سے،خود پہ روا رکھے گئے ظلم و ستم کا بدلہ لینے کے لیے تیار تھی ۔ آیت مبارکہ : ﴿وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ﴾ (الانعام:۶۵) ’’اور چکھا دے ایک کو دوسرے کی جنگی قوت کا مزہ ‘‘ کا اصول رو بہ عمل آیا ۔چنانچہ عیسائی ریاست نے یہودیوں سے خوب خوب بدلے لیے ۔ہر طرح کا ظلم و ستم ان پہ روا رکھا گیا اور انھیں خوب ذلیل کیا گیا۔ اس طرح یہودکو آئندہ طویل عرصے تک اپنے جرائم کی سزا ملتی رہی :﴿وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ﴾(البقرہ :۶۱) ’’ ان پر تھوپ دی گئی ذلت و مسکنت اور وہ اللہ کے غضب کے حقدار ہوئے بسبب اس کے کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے‘‘۔یہ وہ دورتھا جو فترۃ وحی کا عرصہ کہلاتا ہے ۔ دنیا میں کہیں کوئی اللہ کا نبی موجود نہ تھا ۔ بنی اسرائیل کے دونوں گروہ بحیثیت مجموعی اپنی نبیوں کی تعلیمات کو فراموش کر کے ایک دوسرے کی دشمنی پر آمادہ تھے ۔ دوسری طرف روم کی عیسائی ریاست اور فارس کی مشرک سلطنت کی باہمی آویزش بھی اس دور میں گاہے بہ گاہے جاری رہتی تھی ۔ اس دور کا خاتمہ ساتویں صدی عیسویں کے شروع میں ، نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے اعلان نبوت سے ہوتا ہے ۔

(جاری ہے)

لرننگ پورٹل