لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

سیدنا امام محمدالغزالی علیہ الرحمہ اُمت کے اُن چندافراد میں سے ہیں کہ جن کا نام سنتے ہی ایمان میں اضافہ محسوس ہوتا ہے۔گویا سیدنا امام غزالی کا نام سنتے ہی دل میں ایمان کی چاشنی محسوس ہوتی ہے۔آپ کی کنیت ’ابوحامد‘ تھی اوراسی سبب سےآپ کا پورا نام ’’ أبو حامد محمد ابنُ محمد ابنُ محمد الغزّالي‘‘ہے۔ اگرچہ اس میں اختلاف ہے کہ یہ ’ الغزالي ‘ہے یا ’ الغزّالي ‘ ہے۔ إحیاءالعلوم کےشارح مرتضیٰ الزبیدی نے اتحاف السادات کےنام سے احیاءالعلوم کی بیس جلدوں میں شرح لکھی ہے،ان کے نزدیک زیادہ قوی رائےیہی ہے کہ ’ الغزّالی ‘ ہے۔ان کے والد صاحب غزّال تھےاور وہاں عام رواج تھا کہ نام کی نسبت فاعل یا فعل کے صیغہ مبالغہ کی طرف کردی جاتی تھی۔ جیسے خیّاط کو خیاّطی ،اسی طرح غزّال کو غزّالی کہہ دیا جاتا تھا۔چونکہ امام غزالی علیہ الرحمہ کے والد کا پیشہ’غزل‘(سوت کاتنے) کا تھا تو اس نسبت سے ان کا نام امام ’ غزّالی ‘ قرار پایا۔

سابق شیخ الازہر، امام مصطفیٰ المراغی ، امام غزّالی کے متعلق فرماتے ہیں : إذا ذکرالإمام الغزّالي فأنت لست علی أمام رجل واحد،کہ جب تمہارے سامنے امام غزّالی علیہ الرحمہ کا ذکر ہو ،تو تم ایک آدمی کے سامنے نہیں ہو،بلکہ بہت سے آدمیوں کے سامنے ہو‘‘۔مطلب یہ کہ آپ ایک ایسےاُصولی کے سامنے ہیں کہ جن سے بڑھ کر کوئی اُصولی نظر نہیں آئے گا، المنخول،المستصفی في علم الأصول، شفاءالغلیل في القیاس التعلیل ان کی اس موضوع پر کتابیں ہیں۔جب صوفیا کی بات ہو گی تو آپ ایک ایسے صوفی کے سامنے ہیں کہ جن کے مقابلے میں کوئی صوفی نہیں ہے۔فقہ میں ان کو شافعی ثانی کہاجاتاہے، ان کی کتابیں فقہ میں البسیط،الوسیط،الوجیز، الخلاصہ ہیں۔کسی نے ایک شعر میں اس طرح کہاہے:

أحسن الله خلاصة الذي الف الوسیط والوجیز والبسیط والخلاصة

’’ اللہ تعالیٰ اس کو نجات عطافرمائیں کہ جس نے فقہ میں یہ چار کتابیں تحریرفرمائیں‘‘۔اسی طریقےپر آپ دیکھیں کہ جب علم کلام کا ذکر ہو تو امام غزالی متکلم کی حیثیت میں بھی ہمارے سامنےموجود ہیں،اور علم کلام کے حوالے سےان کی چھوٹی بڑی کافی کتابیں ہیں۔ الاقتصاد في الاعتقاد اسی سلسلےکی ایک جامع کتاب ہے جو انھوں نےعقیدہ اہل سنت والجماعت پر تحریرفرمائی۔اسی طریقےپرجب باطل فرقوں سے مناظرہ کی بات ہو تو امام غزالی نے باطنیہ کا رد کیا ہے، ایک کتاب ان کی فضائح الباطنیہ ہے، دوسری کتاب  المستظهري ہےجو خلیفہ مستظہرباللہ کی طلب پر انھوں نےتحریر فرمائی ہے۔تو امام غزالی اصولی بھی ہیں، فقیہ بھی ہیں ،آپ صوفی بھی ہیں اور متکلم بھی ہیں۔اوراگر فلسفے کی ایک تعریف یہ کی جائے کہ ہر وہ آدمی جو فلسفہ بیان کرےیا اس کا رد کرےوہ فلسفی کہلائےگا،تو اس اعتبارسے یہ فلسفی بھی ہیں۔ چنانچہ  مقاصد الفلاسفة اور پھر اس کے بعد تهافة الفلاسفة اسی میدان علم میں آپ کے شاہ کار ہیں۔امام منطقی بھی ہیں اور شائد علوم اسلامیہ میں منطق کوداخل کرنے میں سب سے بنیادی کردار امام غزالی کا ہے،منطق پران کےہاں عمدہ کلام پایا جاتا ہے، مثلاً معیارالعلم،اور  مقاصد الفلاسفةکے شروع میں بھی منطق پر ایک جامع مقدمہ ہے، اسی طرح  المستصفی کے شروع میں بھی منطق پر مقدمہ پایاجاتاہے، اورفرماتے ہیں:’’جس نے علم منطق حاصل نہیں کیا تو اس کے علوم کا کوئی اعتبار نہیں ہے‘‘۔تواس اعتبار سے آپ منطقی بھی ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے : إنّ الغزالي کان أمتاً ’’بے شک غزالی ایک امت تھے‘‘۔

آپ علیہ الرحمہ کی پیدائش طُوس میں ہوئی۔طُوس ایران میں ہے آج بھی طابران ایک جگہ ہے جس کے پاس طُوس پایا جاتا ہےاور امام غزالی کی قبر بھی وہاں ہے۔اگرچہ قبر کی نسبت کے بارے میں اختلاف ہےلیکن مذکورہ جگہ پر ایک مرقَد ہے جس کی زیارت بھی کی جاتی ہے اوروہ امام غزالی علیہ الرحمہ سے منسوب ہے۔ آپ علیہ الرحمہ کے والد صاحب ایک نیک اورشریف آدمی تھے لیکن پڑھنا، لکھنا نہیں جانتے تھے۔اللہ پاک نے انھیں دو بیٹے عطاکیے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ وہ جب طُوس میں کسی فقیہ کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے تو یہ دعا کرتے کہ اےاللہ! مجھے ایک ایسا بیٹا عطا فرما جو فقیہ ہو اور جب کسی واعِظ کی مجلس میں جاتے تھےتو کہتے کہ یااللہ! ایسا بیٹا عطا فرما جو واعِظ بنے۔ تو اللہ تعالی نے انھیں دو بیٹے عطا کیے۔ایک کا نام محمد رکھا جو ہمارے امام غزالی ہیں اور دوسرے  احمد الغزالی جو بہت بڑے واعِظ تھےبہت سی بڑی کتابوں میں ’’ أبو الفتوح‘‘ کے نام سے ان کا تذکرہ ملتا ہے۔ابھی یہ دونوں بچے ہی تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہوگیالیکن وہ ایک صوفی کو وصیت کر گئے اور کچھ رقم دے دی کہ ان کو پڑھنا، لکھنا سکھا دینا۔ کیونکہ ان کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ بس میرے بچوں کو پڑھنا ،لکھنا آ جائے جس سے وہ خود محروم تھے۔کچھ عرصہ بعد جو محدود مال وہ دے کر گئے تھے ختم ہو گیا۔تو صوفی صاحب نے دونوں بچوں سے کہا کہ اب میں مزید تمہاری کفالت نہیں کر سکتا۔وہاں ایک فقیہ احمدبن محمدزازکانی کا حلقہ درس ہےتم طالب علم بن کر وہاں چلے جاؤ تو تمھیں وہاں کم از کم دو وقت کی روٹی مل جایا کرے گی۔ امام غزّالی علیہ الرحمہ بعد میں امام حسن بصری علیہ الرحمہ کے قول سے استدلال کرتے اور فرمایا کرتے تھے : تعلمنا العلم لغیرالله فأبی العلم إلا أن یکون للهکہ ہم نے ابتدا میں غیر اللہ کے لیے علم حاصل کیا تھا۔ ہمارا مقصود یہ تھا کہ وہاں جا کر کچھ روٹی مل جائے گی لیکن علم نے اللہ کے علاوہ کسی کا ہونے سے انکار کیا اور اللہ کے لیے بن گیا‘‘۔

 آپ علیہ الرحمہ کی ابتدائی تعلیم امام زازکانی کے تحت ہوئی۔ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ میں وہاں سےمنتقل ہوگیااور طُوس کے بالکل قریب جُرجان تشریف لے گئے۔ جُرجان میں ابو نصر الاسماعیلی کے تحت رہے،اُن سے تعلیم حاصل کی اور اپنی پہلی تعلیق لکھی۔ اور جب جُرجان سے واپس آرہے تھے تو راستے میں ڈاکو آگئے۔ ڈاکوؤں نے امام غزّالی کا تھیلا لے لیا۔ امام غزالی علیہ الرحمہ ان کےپیچھے پیچھے جا پہنچےاوراس تھیلےکا مطالبہ کیا۔معلوم یہ ہوا کہ اس میں امام غزالی کی وہی تعلیق تھی جو انھوں نے تحریر فرمائی۔مطالبہ کرنے پر ڈاکو نے کہا کہ یہ کونسا علم ہے؟ کہ صحیفہ تم سے گم ہو جائے تو تمہارا علم بھی تم سے رخصت ہو جائے۔اس موقعہ پر امام غزّالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مجھے معلوم ہو گیا کہ ڈاکوؤں نے یہ الفاظ اللہ پاک کی طرف سے ادا کیے ہیں۔اور پھر فرماتے ہیں کہ جب میں واپس پہنچا تو تقریباً دو اڑھائی سال سے کم اس صحیفے کو یاد کرنے میں صَرف کیے تاکہ کتابت کے ضائع ہو جانے کی وجہ سےعلم ضائع نہ ہو۔اس کے بعد آپ علیہ الرحمہ نیشاپور تشریف لے گئے، جہاں اس وقت (شوافع کے نزدیک) امامُ الدنیا امامُ الحرمین، عبدالمالک ابو المعالی الجوینی علیہ الرحمہ موجود ہیں۔ جن کی اُصول ِفقہ میں مشہور کتاب ‘البرھان’ ہے۔وہاں امام غزالی علیہ الرحمہ کا شمار امام ُالحرمین کے خصوصی شاگردوں میں ہوا۔جب تک امام الحرمین کی وفات نہیں ہوگئی اس وقت تک ان کے پاس رہے۔ان سے علمُ الکلام بھی حاصل کیا،علم الفقہ اور علمِ اصول الفقہ بھی حاصل کیے۔امام الحرمین کے بارے میں کہا جاتا ہےکہ یہ اس وقت کے ذہین ترین افراد میں سے تھے: کان من ازکیاءالعالم،بہرحال امام الجوینی علیہ الرحمہ کے ہاں آپ علیہ الرحمہ نے  المنحول لکھی اور جب اپنے استاذ کو پیش کی تو وہ فرمانے لگے: دفنتنی حیاً،’’تم نے مجھے زندہ ہی دفن کر دیا‘‘۔

 بہرحال کچھ علماء کا خیال یہ بھی ہے کہ المنخول اس درجے کی نہیں ہے کہ البرہان کا مقابلہ کر سکے۔لیکن المستصفی جو آپ علیہ الرحمہ نے ۵۰۳ ہجری میں اپنی وفات سے دو برس پہلے تحریر فرمائی اس کا موازنہ البرہان سےکیا جاتا ہے۔امام الجوینی علیہ الرحمہ کی کتاب البرہان اپنے اُسلوب کے اعتبار سے المستصفی سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔امام ابنِ خَلْدُون علیہ الرحمہ نے البرہان کو لغزالامۃ کہا ہےکہ یہ امت کی پہیلی ہے جسے حل کیا جائے گا۔ جبکہ اس کے بالمقابل المستصفی کا اُسلوب سہل ہےاور وہ آسان ہے۔ ابن خلدون علیہ الرحمہ کہتے ہیں المستصفی اپنے اسلوب کے اعتبار سے البرہان سے بہتر ہے۔ دیکھنے کی چیز ہے کہ المستصفی ہو یا احیاءالعلوم یا دیگرچیزیں جو امام غزّالی علیہ الرحمہ نے تحریر فرمائیں ،درجے کے اعتبار سے امام غزالی کے پائے کا کوئی بھی نہیں ہے۔ ابنِ خَلْدُون علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ سب سے اوپر امام غزالی علیہ الرحمہ ہیں۔جب کہ ابن تیمی علیہ الرحمہ ہ، ابن قیم علیہ الرحمہ ان سے نیچے آتے ہیں۔ اگرچہ امام غزّالی علیہ الرحمہ پر اعتراض کرنے والوں نے یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ ان کی عربی میں کچھ اخطاء پائی جاتی ہیں۔ عبدالغافر الفارسی علیہ الرحمہ جو نیشاپور کے امام تھے انھوں نے یہ اعتراض نقل کیا کہ امام غزّالی علیہ الرحمہ سے کچھ نحویوں نے یہ سوال کیا کہ آپ علیہ الرحمہ کی احیاء العلوم اور دیگر کُتب میں نحَو کی غلطیاں پائی جاتی ہیں تو امام غزالی علیہ الرحمہ نے اعتراف کیا کہ علمِ نحَو میں، میں نے کوئی کمال حاصل نہیں کیا۔اور عین ممکن ہے کہ نحَو کے اعتبار سے کچھ غلطیاں ہوگئی ہوں لیکن اگر کوئی شخص بہت بڑا نحَوی بن جائےیا بہت بڑا صَرفی بن جائے لیکن جب لکھنے بیٹھےتو تحریر ردّی ہو تو یہ نہیں ہو سکتا۔ تو امام غزالی علیہ الرحمہ کی تحریر ردّی نہیں ہے بلکہ اسلوب اور فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بلند درجہ پر فائز ہے تو تحریر شاہد ہے کہ آپ نحو سے بے بہرہ نہیں تھے۔ 

جب امام الحرمین علیہ الرحمہ کی وفات ہوئی تو اسی اِثنا میں امام غزّالی علیہ الرحمہ کی شہرت اِدھر اُدھر پھیلنا شروع ہوگئی تھی۔ نظامُ الملک جو ملک شاہ سلجوقی کا وزیر تھا۔اس کے ہاں بھی ان کی شہرت جاپہنچی اس کا معسکر نیشاپور سے کچھ باہر تھا وہاں اس نے امام غزالی علیہ الرحمہ کو بلایا۔ وہاں آپ علیہ الرحمہ کے علماسے،متکلمین سے، فقہاسے،اور اُصولیین سے مناظرے ہوئے اور امام غزالی کے مقابلے میں کوئی بھی نہیں تھا۔ عبد الغافر الفارسی علیہ الرحمہ فرما تے ہیں کہ جب میں نے پہلی بار امام غزالی علیہ الرحمہ کو دیکھاتو’’ کان فیه زعارة‘‘ زعارۃ کا معنیٰ ہے دوسرے کو دیکھتے ہی اُسے چپ کروا دینا کہ تم جاہل ہو تمھیں کچھ پتا نہیں ہے۔گویا امام غزّالی علیہ الرحمہ اس طریقہ پر مناظرہ فرمایا کرتے تھے۔آپ علیہ الرحمہ کے انداز میں شدت اور سختی تھی۔پھر فرماتے ہیں کہ جب پہلی بار دیکھنے کے بعد جب دس سالہ خَلوت کے بعد دوبارہ دیکھا تو زمین، آسمان کا فرق واقع ہو چکا تھا۔بہرحال مناظروں میں انھوں نے شکست دی ہے پھر دو نظامیے تھے جو نظامُ الملک نے قائم کیے ایک مدرسہ نظامیہ مدرسہ نیشاپور میں اور ایک اس سے بڑا مدرسہ نظامیہ بغداد میں تھا۔ نظام الملک نے امام غزّالی علیہ الرحمہ کو بغداد کے مدرسہ نظامیہ میں تدریس کے لیے متعین فرما دیا۔عبد الغافر الفارسی علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ جب یہ بغداد میں داخل ہوئے تو صرف ان کا لباس اور ان کی سواری چار سو دینار کی تھی۔ یعنی شان و شوکت اس درجے کی تھی اس کے علاوہ آگے بھی خدم ہیں اورپیچھے بھی خدم۔ جبکہ ڈھیروں مال بھی ہمراہ ہے جونظام الملک کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ جس وقت آپ علیہ الرحمہ بغداد پہنچے ہیں تو یہ ۴۸۴ ہجری کا زمانہ ہے اور آپ علیہ الرحمہ کی عمر ۳۴ برس ہو چکی ہے۔ چار سال تدریس کی اور پھر دس سالہ خَلوت کا دور شروع ہوتا ہے۔یہ بھی بہت دلچسپ واقعہ ہے کہ خَلوت کا دور کیسے شروع ہوا؟ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے بھائی تشریف لائے جبکہ امام غزالی علیہ الرحمہ مجلس میں پڑھا رہےتھے۔ بہت ہی شان و شوکت تھی۔ اگرچہ شان و شوکت کا ہونا ولایت کے بَرخلاف نہیں ہے۔ بہت سے اللہ والے بزرگ ایسے گزرے ہیں جن کے آگے پیچھے بہت لوگ ہوا کرتے تھے جن میں ایک بڑی مثال امام ابن حجر علیہ الرحمہ کی ہےکہ جب وہ نکلتے تھے تو بیس بندے آگے اور بیس بندے پیچھے، خود بھی سواری پر ، آگے بھی سوار ،اور پیچھے بھی سوار موجود ہوا کرتے تھے۔ انھی کا ایک بہت ہی لطیف قسم کا قصہ ہے کہ وہ سفر پر نکلے تو راستے میں ایک یہودی فقیر بیٹھا ہوا تھا وہ آیا اور اس نے انھیں روک کر کہا کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ، ’’ دنیا مومن کا قید خانہ ہے اور کافر کی جنت ہے‘‘۔ اب بتاؤ کہ تم قید خانے میں ہو؟یا میں قید خانے میں ہوں ؟یعنی میری حالت دیکھو اور اپنی دیکھو۔ ابن حج علیہ الرحمہ رنے کیا ہی خوب جواب دیاکہ ان شاء اللہ! اللہ تعالیٰ جو نعمتیں مجھے آخرت میں عطا فرمائیں گے اس کی نسبت سے میں اس وقت قید خانے میں ہوں اور جو تمہارے لیے آخرت میں اللہ پاک نے عذاب تیار کر رکھا ہے اس کی نسبت سے تم جنت میں ہو۔ بہر حال ایسے علماء گزرے ہیں کہ جن کے پاس مال و دولت بہت تھا اور خوب شان و شوکت تھی۔ امام مالک رحمہ اللہ کے بارے میں بھی آتا ہے کہ آپ علیہ الرحمہ روزانہ ایک جوڑا بدلا کرتے تھے لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ روزانہ ایک جوڑا صدقہ بھی کرتے تھے کیونکہ جو اتار دیتے تھے اس کو صدقہ کر دیتے تھے ہم اس کو یوں بھی بیان کر سکتے ہیں کہ تین سو پینسٹھ جوڑے سال میں بدلتے تھے اور بیان کرنے کا ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ ۳۶۵ جوڑے سال میں صدقہ کیا کرتے تھے۔بہرحال امام غزّالی علیہ الرحمہ کے بھائی ان کی مجلس میں داخل ہوئے جبکہ امام غزّالی علیہ الرحمہ پڑھا رہے تھے تو انھوں نے یہ اشعار کہے جوامام غزّالی علیہ الرحمہ کے دل پر تیر کی طرح لگے:

أخَذْتَ بِأَعْضَادِهِمْ إِذْ وَنُوا وَخَلَّفَكَ الْجُهْدُ إِذْ أَسْرَعُوا
وَأَصْبَحْتَ تَهْدِي وَلاَ تَهْتَدِي وتُسْمِعُ وَعْظًا وَلاَ تَسْمَعُ
فَيَا حَجَرَ الشَّحْذِ حَتَّى مَتَى تَسُنُّ الْحَدِيدَ وَلاَ تَقْطَعُ

 کہ تم لوگوں کے بازو کو پکڑ کر جبکہ وہ تھک گئےہیں ، انھیں کہہ رہے ہو کہ اللہ تعالی کے احکام میں چلو۔ لوگوں کوتو اللہ کی راہ میں چلنے کی ترغیب دے رہے ہو جبکہ خود پیچھے تھکاوٹ کی وجہ سے بیٹھ گئے ہو اورتمہارے شاگرد اللہ پاک تک پہنچنے میں تم سےآگے نکل گئے ہیں۔گویا تمہاری حالت اس پتھر کی مانند ہے جو چھریوں کو تیز کر رہا ہے نتیجتاً چھریاں تو کاٹ رہی ہیں مگر یہ پتھر کبھی نہیں کاٹے گا۔ یعنی اس پتھر نے ان چھریوں کو تو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ دوسروں کو کاٹ سکیں لیکن یہ خود اس قابل نہیں بنا کہ خود کوئی شے کاٹ سکے۔ تم لوگوں کو اللہ تعالی کے نزدیک کر رہے ہو اور خود تمہاری حالت یہ ہے کہ تم خود اللہ تعالی سے دور ہو۔ یہ اشعار سن کر امام غزالی علیہ الرحمہ پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہوگئی اور چھے مہینے تک ان کی حالت یہ رہی کہ آہستہ آہستہ کھانا، پینا، بولنا، چالنا سب بند ہو گیا۔ تدریس کے لیے بھی لوگ آتے تھے تو خود فرماتے ہیں کہ میں بولنے کی کوشش کرتا تھا لیکن میری زبان بولنے پر قادر نہیں تھی یہاں تک کہ مر وتاًبھی میں کسی سے بات کرنا چاہتا تھا تو بات نہیں ہوتی تھی اور پھر کھانا پینا بالکل بند ہو گیا بلکہ نیند بھی ختم ہوگئی۔بہت سے طبیب آئے اور سب نے یہ متفقہ فیصلہ کیا کہ ان کے دل کو کچھ ہوا ہے یعنی کوئی قلبی واردات ہے جس کی وجہ سے یہ اب بولنے پر اور کھانے ،پینے پر قادر نہیں ہیں۔ پھر آپ علیہ الرحمہ مسلسل استخارہ کرتے رہے اور اس فیصلہ پر پہنچے کہ یہ سب تدریس کے سلسلے کو خیرباد کہہ دیں ہمارے لیےبھی سوچنے کا مقام ہے کہ جس جگہ پر وہ موجود ہیں،ان کی شہرت چہاردانگِ عالم پھیل چکی ہے اور علم کے حصول کے لیے دور دور سے لوگ چلتے ہوئے ان کے پاس آ رہے ہیں۔ ایسے موقع پر سب کچھ چھوڑ کر نکل جانا یہ بس تخیل ہی کی بات ہے بلکہ شایدہم ایسے لوگ اس کا تخیل بھی نہ کر سکیں۔آپ علیہ الرحمہ ا س موقع پرشادی شدہ بھی تھے ابو حامد اسی لیے کہا جاتا ہےکہ ان کا ایک بیٹا تھا حامدجو بچپن میں فوت ہو گیا تھا اور مزید تین بیٹیاں ہیں جو امام غزّالی علیہ الرحمہ کے بعد بھی زندہ رہیں۔تو اس موقع پر ان کی تین بیٹیاں موجود تھیں۔ آٹھ، دس سال ان کی عمر تھی۔آپ علیہ الرحمہ نے جتنا مال موجود تھا سب اللہ پاک کی راہ میں خرچ کیا اور صرف اتنا باقی رکھا جو زادِراہ کے طور پر استعمال کر سکیں یا اپنی بیٹیوں کے لیے اور بیوی کے لیے چھوڑ جائیں۔پھراپنی بیوی اور بیٹیوں کو واپس طُوس روانہ کر دیا اور خود سفر پر نکل کھڑے ہوئے۔ وہ عجیب و غریب سفر ہر کہ جس کے نتیجے میں وہ امام غزالی علیہ الرحمہ بنے۔ اگر وہیں پڑھاتے رہتے تو بہت بڑے عالم ہوتے لیکن شاید ’’ حجۃ الاسلام‘‘ کا لقب انھیں حاصل نہ ہوتا۔ ہماری تاریخ میں یہ وہ آدمی ہیں جو ’’حجۃ الاسلام ‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئے۔گویااگر کسی نے اسلام کی دلیل دیکھنی ہو تو وہ امام غزّالی علیہ الرحمہ کی شخصیت اور ان کی سیرت کو دیکھ لے۔

جاری ہے۔۔۔

لرننگ پورٹل