لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

الدنیا یوم ولنا فیه صوم ’’دنیا؛ دن ہے اور ہم اس میں روزے دار‘‘

تفسیر ِنیشاپوری اورتفسیرِ حقی دونوں میں سورۂ مریم کی آیت نمبر ۲۶کی تفسیر کے ضمن میں علماء کی جانب نسبت کرتے ہو ئے جبکہ تفسیرِ مظہری اور معارف القرآن از مفتی محمد شفیع صاحب علیہ الرحمہ میں سور ۃالحشر کی آیت نمبر۱۸کی تفسیر کے ذیل میں حدیثِ نبویﷺ کی حیثیت سے وہ قول نقل کیا گیا ہے جسے اس تحریر کے عنوان کی حیثیت سے درج کیا گیا ہے۔ اس قول کا مطلب ہے:’’ دنیا ( کی زندگی )ایک دن ہے اور اس دن میں ہمارا روزہ ہے‘‘۔ اس جملے میں دو باتیں انتہائی قابلِ غور ہیں :

۱۔پورے دنیاوی عرصۂ حیات کو بس ایک دن کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔

۲۔اس دورانیہ میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے بندوں کی کیفیت روزے دار کی سی ہو تی ہے۔

اگر ان دو باتوں پرقرآن و سنت کی روشنی میں غور کیا جائے تو ہماری عبرت و نصیحت کے لیے سامانِ وافر دستیاب ہو جائے گا۔ان شاء اللہ

صرف ایک دن کی زندگی

انسانی زندگی کی طوالت پر غور کیا جا ئے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسانی زندگی ایک بحرِ ناپیدا کنار ہے۔ اس کی وسعتوں کا کو ئی اندازہ نہیں۔یہ انسانی روحوں کی پیدائش سے کسی نہ کسی شکل میں جاری و ساری اور آخرت میں حساب کتاب اور نتائج کے اعلان کے بعد ابد الآباد تک جاری رہے گی۔ بقولِ شاعر:

تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی

لیکن اسی حیاتِ انسانی کے ایک خاص اور نتائج کے اعتبار سے اہم ترین حصے یعنی حیاتِ دنیوی پر غور کیا جائے کہ جس پرکہ اس کی حیاتِ برزخی اور حیاتِ اخروی کا دارو مدار ہو گا تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ عرصہ عجیب و غریب کیفیات کا حامل ہے۔ انسانوں کی اکثریت اس کی اصل حقیقت اور کیفیت نہیں پہچان پاتی۔ اس کے بارے میں مختلف مغالطوں اور دھوکوں کا شکا ر ہو جا تی ہے۔ جس کے نتیجے میں ایسی موہوم راہوں میں الجھ کر اپنی منزل کھوٹی کر بیٹھتی ہے اور ہمیشہ ہمیش کی ناکامی و خسران کا باعث ہو جایا کرتی ہیں۔ انھی غلط فہمیوں کو رفع کر نے کے لیے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اپنے کلام میں کئی ایک مقامات پر کئی ایک طریقے اور انداز اختیار فر ما کر انسانوں کو اصل حقیقت سے روشناس کراتے ہیں۔ چنانچہ سورۃ الحشرمیں ارشادِ باری تعالی ہے: ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ﴾(الحشر: ۱۸) :ترجمہ ’’ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر ایک کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ یقینا اس سے پوری طرح باخبر ہے ‘‘۔ اس آیت کی تفسیر میں مولانا مفتی محمد شفیع صاحب علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ’’اس آیت میں قیامت کو لفظ غد سے تعبیر کیا جس کے معنی ہیں آنے والی کل ، اس میں تین چیزوں کی طرف اشارہ ہے ، اول پوری دنیا کا بمقابلہ آخرت نہایت قلیل و مختصر ہونا ہے کہ ساری دنیا آخرت کے مقابلہ میں ایک دن کی مثال ہے۔۔۔ دوسرا اشارہ اس میں قیامت کے یقینی ہونے کی طرف ہے ، جیسے آج کے بعد کل کا آنا امر یقینی ہے ،کسی کو اس میں شبہہ نہیں ہوتا ، اسی طرح دنیا کے بعد قیامت و آخرت کا آنا یقینی ہے۔تیسرا اشارہ اس طرف ہے کہ قیامت بہت قریب ہے۔ جیسے آج کے بعد کل کچھ دور نہیں ، بہت قریب سمجھی جاتی ہے ، اسی طرح دنیا کے بعد قیامت بھی قریب ہے۔ اور قیامت ایک تو پورے عالم کی ہے جب زمین و آسمان سب فنا ہو جائیں گے ، وہ بھی اگرچہ ہزاروں لاکھوں سال کے بعد ہو مگر بمقابلہ مدت آخرت کے بالکل قریب ہی ہے، دوسری قیامت ہر انسان کی اپنی ہے جو اس کی موت کے وقت آ جاتی ہے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے من مات فقد قامت قیامته، یعنی جو شخص مر گیا اس کی قیامت تو ابھی قائم ہو گئی کیونکہ قبر ہی سے عالم آخرت کے آثار شروع ہو جاتے ہیں اور عذاب و ثواب کے نمونے سامنے آ جاتے ہیں ‘‘۔اس تشریح میں بہت اہم امور کی وضاحت ہو گئی۔ سب سے پہلی بات یہ کہ دنیوی زندگی جسے بالعموم انسان بہت طویل سمجھتا ہے، دراصل انتہائی قلیل ہے۔اگر اس سوال پر غور کیا جائے کہ انسان کی دنیوی زندگی کتنی طوالت کی حامل ہے تو بالعموم ذہنوں جو بات آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس بات سے لاعلم ہیں کہ کسی انسان کی دنیوی زندگی کتنی مدت کو محیط ہے۔ لیکن قرآنِ حکیم میں بیان شدہ حقائق کی روشنی میں غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ اس سوال کے جواب میں ہمارا طرزِ فکر کیا ہونا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی دنیوی زندگی صرف ایک دن یا اس دن کے کسی ایک حصے جتنی طویل ہوا کرتی ہے اور یہ دن بھی وہی دن ہوا کرتا ہے جو کہ فی الوقت اس کی زندگی میں موجود ہے۔ گو یا ہر روز ہماری زندگی اُس ایک دن پر مشتمل ہو اکرتی ہے جو کہ ہم گزار رہے ہو تے ہیں۔اس کی دو بڑی بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ کہ ہماری زندگیوں کا جو حصہ گزر چکا ہے وہ کبھی لوٹ کروا پس نہیں آسکتا۔ پھر اس گزرے ہو ئے وقت کے بارے میں ایک نمایاں حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا وقت اورگزری ہو ئی زندگی ہر انسان کو صرف’ ایک دن یا دن کے ایک حصے کی مانند‘معلوم ہواکرتا ہے۔ چنانچہ اسی حقیقت کا اظہار ان آیات میں ہوا ہے جو سورۃ المومنون کے آخری رکوع میں وارد ہوئی ہیں: ﴿قَالَ کَمْ لَبِثْتُمْ فِیْ الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ * قَالُوا لَبِثْنَا یَوْماً أَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَاسْأَلْ الْعَادِّیْنَ * قَالَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا قَلِیْلاً لَّوْ أَنَّکُمْ کُنتُمْ تَعْلَمُون﴾ (المومنون: ۱۱۲ تا ۱۱۴) ترجمہ: ’’پھر اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا: بتاؤ تم کتنے سال زمین میں رہے؟وہ کہیں گے: یہی کوئی ایک دن یا اس کا کچھ حصہ، اور یہ بات تو شمار کرنے والوں سے پوچھیے۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا: واقعی تم تھوڑا ہی عرصہ وہاں ٹھہرے تھے۔ کاش تم یہ بات (اس وقت بھی)جانتے ہوتے ‘‘۔اہلِ جہنم کے اس جواب سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس دنیوی زندگی کو وہ بہت ہی پائیدار اور طویل سمجھ رہے تھے اور جس کے ناجائز مفادات اور فانی لذات و سامانِ تعیش کی خاطر وہ ایمان و اعمالِ صالحہ کی دولت کو سمیٹنے اور اس دن کی تیاری کر لینے سے غا فل رہے، یہی زندگی اب انھیں محض ایک دن یا اس کے کچھ حصے جتنی مختصر محسوس ہو رہی ہو گی۔اسی طرح آخرت کو نہ ماننے والے کفار کے بارے میں فرمایا: ﴿كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا﴾(النازعات:۴۶)ترجمہ:’’جب وہ اسے دیکھیں گے تو انھیں ایسا معلوم ہوگا کہ گویا وہ(دنیا میں)بس ایک پچھلا یا پہلا پہر ٹھہرے تھے ‘‘۔ جبکہ ایک اور مقام پر اسی کیفیت کا ذکر یوں فرمایا: ﴿وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ كَأَنْ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنَ النَّهَارِ﴾(یونس: ۴۵)ترجمہ:’’ اور جس دن اللہ انھیں جمع کرے گا(تو وہ یوں محسوس کریں گے)جیسے(دنیا میں)دن کی صرف ایک ساعت ہی رہے ہوں ‘‘۔ گزرے ہو ئے وقت کی اس صفتِ اختصاراورموجودہ وقت کے بہاؤکی سرعت کو ہر انسان انصاف سے غور کرنے پر باآسانی محسوس کر سکتا ہے۔دوسری وجہ کہ جس کی بدولت دنیوی زندگی کی طوالت محض ایک دن یا اس کے ایک حصے جتنی سمجھی جانی چاہیے وہ یہ کہ انسان کا مستقبل اس لحاظ سے انتہائی غیر یقینی ہوا کرتا ہے کہ اس کے پاس اس بات کی کو ئی ضمانت نہیں کہ مستقبل میں آنے والا وقت یا دن اسے اپنی زندگی میں دیکھنا نصیب بھی ہو گا یا نہیں۔ ممکن ہے کہ آنے والادن اس کی زندگی میں موت کا پیغام لےکر آرہا ہو اور اسے اس کی کو ئی خبر ہی نہ ہو۔ اس بات کو آخر کس بنیاد پر یقینی سمجھا سکتا ہے کہ اسے اپنی زندگی میں ایک اور دن عافیت کے ساتھ گزارنا نصیب ہو سکے گا۔ اس لیے حقیقت یہی ہے کہ انسان کی زندگی ہر روز صرف اسی ایک دن پر مشتمل ہوا کر تی ہے جو کہ اس کی زندگی میں موجود ہے۔اس بات کا تیقن حاصل کر لینے کے بعد انسان کو اپنی دنیوی زندگی کے بارے میں کیا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے، اس کی وضاحت اس فرمان رسول اللہ ﷺ میں ہوتی ہے جو آپﷺ نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے کندھے پکڑ کر فرمایا تھا : ((كُنْ فِى الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ وَعُدَّ نَفْسَكَ فِى أَهْلِ الْقُبُورِ ترجمہ: ’’دنیا میں کسی مسافر یا کسی راہ گیر کی طرح رہو اور خود کو قبر والوں میں شمار کرو‘‘۔ حضرت مجاہد علیہ الرحمہ فرماتےہیں کہ پھر ابن عمررضی اللہ تعالی عنہما نے مجھ سے فرمایا: إِذَا أَصْبَحْتَ فَلاَ تُحَدِّثْ نَفْسَكَ بِالْمَسَاءِ وَإِذَا أَمْسَيْتَ فَلاَ تُحَدِّثْ نَفْسَكَ بِالصَّبَاحِ وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ قَبْلَ سَقَمِكَ وَمِنْ حَيَاتِكَ قَبْلَ مَوْتِكَ فَإِنَّكَ لاَ تَدْرِى يَا عَبْدَ اللَّهِ مَا اسْمُكَ غَدًا)) ( سنن ترمذی) (اگر صبح ہو جائے تو شام کا بھروسانہ کرو اور اگر شام ہو جائے تو صبح کا انتظار نہ کرو بیماری آنے سے پہلے صحت سے اور موت آنے سے پہلے زندگی سے فائدہ حاصل کرو کیونکہ تمھیں نہیں معلوم کہ کل تمہارا نام کیا ہو گا‘‘۔ یعنی کیا تمھیں عبد اللہ کے نام سے پکارا جائے گا یا میت کے نام سے۔ توحضرت رسول اللہ ﷺ کے الفاظِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہو گئی کہ دنیا کو اپنا اصلی وطن اور اصل ٹھکانہ سمجھنا خام خیالی کے سوا اور کچھ نہیں۔اس کے اختصار اور ناپائیدار ہونے کی کیفیت کو رسول اللہﷺ نے اپنے ایک ارشاد میں یوں بیان فرمایا: ((وَاللَّهِ مَا الدُّنْيَا فِى الآخِرَةِ إِلاَّ مِثْلُ مَا يَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَهُ هَذِهِ – وَأَشَارَ يَحْيَى بِالسَّبَّابَةِ – فِى الْيَمِّ فَلْيَنْظُرْ بِمَ يَرْجِعُ))(صحیح مسلم ) ترجمہ:’’خدا کی قسم دنیا کو آخرت کے ساتھ صرف اتنی ہی نسبت ہے جتنی تم میں سے کسی شخص کی انگلی سمندر میں ڈوبنے پر قطرے کو سمندر سے ہوتی ہے، کہ جب وہ یہ انگلی ڈبوتا ہے تو باہر نکال کر دیکھے کہ اس پر کتنا پانی لگا ہے‘‘۔یہی موازنہ دنیا اور آخرت کی زندگی کے بارے میں انسان کے پیشِ نظر رہنا چاہیے۔دنیا کے عارضی ہو نے کا یقین کر لینے کے بعداس کیفیت کو یوں اپنے اوپر طاری کر لینا چاہیے کہ انسان اپنے آپ کو ان میں سے شمار کرنا شروع کرے جو کہ اس دنیا سے جا چکے ہیں۔ جس طرح ان کا اپنے مال سے، اپنی جائیدادسے، اپنے گھر اور گھر والوں سے ، اپنے رشتے داروں اور دوسرے متعلقات سے رشتہ ٹوٹ چکا ہے اسی طرح اس کا بھی ان تمام سے یہ رشتہ ٹوٹا ہی چاہتا ہے۔جس طرح وہ یہ سب کچھ اسی فانی دنیا میں چھوڑکر کسی اورعالَم کی طرف سدھار چکے ہیں اسی طرح اس کی روانگی کا وقت بھی آیا ہی چاہتا ہے۔ اسی کے نتیجہ میں اس بات کا امکان ہے کہ انسان کا دل دنیا کی محبت سے فارغ ہو جا ئے۔ اس کے بعد وہ یکسوئی کے ساتھ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی محبت و فرمانبرداری اور آخرت کی تیاری کی طرف متوجہ ہو سکے گا۔لیکن انسانوں کی اکثریت کا المیہ یہ ہے کہ وہ اس اظہر من الشمس حقیقت کا ادراک نہیں کر پاتے۔ وہ یہ جا نتے ہیں کہ ہر گزرنے والا دن انھیں ان کی موت سے قریب تر کرتا چلا جا رہا ہے۔ پھر آج کے بعد کل کا دن دیکھنے کا موقع ملنا بھی انتہا ئی غیر یقینی ہے۔ لیکن اس کے باوجوداکثر و بیشتر انسان اس دنیا کے ساتھ ہی چمٹے رہنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک ارشاد میں انسان کی عجیب و غریب نفسیات کو بڑی خوبصورتی سے واضح فر مایا ہے:  ((يَكْبَرُ ابْنُ آدَمَ وَيَكْبَرُ مَعَهُ اثْنَانِ حُبُّ الْمَالِ ، وَطُولُ الْعُمُرِ))( صحیح بخاری) ترجمہ:’’آدمی کی عمر بڑھتی جاتی ہےاور اس کی دو اور چیزیں بھی بڑی ہوتی جاتی ہیں مال کی محبت اور درازی عمر کی خواہش ‘‘۔اگر چہ انسان اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے کہ ہرگزرتا ہو ا لمحہ اس کی زندگی میں ہر گز کو ئی اضافہ نہیں کر رہا بلکہ اس کومہلتِ عمل کو برف کی طرح مسلسل پگھلاکر اختتام ہی کی جانب لے کر جا رہا ہے۔ بقولِ شاعر:

غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی گَردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی

اس کے باوجود ناقابلِ یقین واقعہ یہ ہے کہ انسان اپنی عمر کی طوالت کی خواہش کے سحر میں نہ صرف گرفتار رہتا ہے بلکہ اپنے اس مفروضے کو ایک اٹل حقیقت مانتے ہوئے اپنے آپ کو پوری طرح مطمئن کر کے زندگی گزارتا چلا جاتا ہے۔اس پر مزید حیرت انگیز امر یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے دل میں طویل زندگی کی خواہش مضبوط سے مضبوط تر ہو تی چلی جاتی ہے۔موت انتہائی ناگوار شے محسوس ہوا کرتی ہے اور اس کا تذکرہ تک سننا انسان کا گوارہ نہیں ہو تا۔ قومِ یہود بحیثیتِ مجموعی اسی کیفیت کابد ترین انداز میں شکار ہو ئی، اسی لیے قرآن ان کی نفسیات یوں بیان فرماتا ہے:﴿ يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ ﴾(البقرہ: ۹۶) ترجمہ:’’ان میں سے ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ہزار برس جیے‘‘۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان اپنی حیاتِ دنیوی کی طوالت کا کتنا ہی حریص ہو جائے، اپنے مستقبل کے لیے کیسے ہی لمبے چوڑے منصوبے تخلیق کرلے، کتنے ہی ہزار برس کا سامان جمع کر لے غرض یہ کہ کیسا ہی ایڑی چوٹی کا زور لگا لے،موت اپنے طے شدہ وقت پر آکر اس کی مہلتِ عمل کا خاتمہ کر کے رہتی ہے۔ اس سے بھاگنا بے سود اور لاحاصل ہے۔ دنیا کا کو ئی مقام یا بچاؤکی جگہ موت سے حفاظت کے لیے َسپر کا کام نہیں دے سکتی۔چنانچہ سورۃ الجمعہ میں یہود کو مخاطب کر کے یہی حقیقت بیان کردی گئی: ﴿قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلَاقِيكُمْ﴾(الجمعہ: ۸) ترجمہ: ’’آپ ان سے کہیے: جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تو تمھیں آکے رہے گی ‘‘۔ ایک اور مقام پر اسی حقیقت کا بیان یوں فرمایا: ﴿قُلْ لَنْ يَنْفَعَكُمُ الْفِرَارُ إِنْ فَرَرْتُمْ مِنَ الْمَوْتِ أَوِ الْقَتْلِ﴾ (الاحزاب:۱۶) ترجمہ: ’’اے نبی ﷺ ! ان سے کہو، اگر تم موت یا قتل سے بھاگو تو یہ بھاگنا تمہارے لیے کچھ بھی نفع بخش نہ ہوگا‘‘۔ جبکہ سورۃ النساء میں بالکل دو ٹوک انداز میں واضح فرما دیا کہ: ﴿أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكْكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ﴾ (النساء: ۷۸) ترجمہ: ’’رہی موت ، تو جہاں بھی تم ہو وہ بہرحال تمھیں آکر رہے گی خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو‘‘۔گویا موت کا ٹھیک وقت پر وارد ہوجانا بالکل بر حق ہے، لازم ہے، اٹل ہے اور شدنی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود انسان کی غفلت کا عالم یہ ہے کہ وہ اکثر و بیشتراس زندگی کی طوالت ہی کی خواہش کرتا رہتا ہے اور اسی فانی دنیا کو اپنا اصل وطن سمجھتے ہو ئے ہمیشہ یہیں کا باسی بنا رہنا چاہتا ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا کلام یہ بات بالکل دوٹوک انداز میں واضح فرماتا ہے کہ اس کاموت سے یہ فرار اسے کو ئی نفع نہیں پہنچاسکتا: ﴿وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذَلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيدُ﴾ (ق: ۱۹)ترجمہ:’’اور یہ حقیقت کھولنے کے لیے موت کی بے ہوشی آپہنچی، یہی وہ بات ہے جس سے تو (اے انسان)گریز کرتا رہا‘‘۔حقیقت تو یہی ہے یہاں کو ئی انسان بھی ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا: ﴿وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ * كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۔۔۔ ﴾ (الانبیاء:۳۴، ۳۵) ترجمہ:’’(اے نبی!) آپ سے پہلے بھی ہم نے کسی انسان کے لیے دائمی زندگی تو نہیں رکھی، اگر آپ مرجائیں تو کیا یہ ہمیشہ زندہ رہیں گے؟ ہر جاندار کو موت کا مزا چکھنا ہے ‘‘۔ یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن ہمارے قلوب میں جاگزیں کرنا چاہتاہے اور اسی کے نتیجے میں بندہ اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اپنی توجہات آخرت کی تیاری اور کامیابی پر مرکوز کر دیتا ہے۔ اسی طرزِ عمل کو حضرت رسول اللہ ﷺ نے اصل عقلمندی قرار دیا ہے: ((الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ)) ( سنن ترمذی) ترجمہ:’’ عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کوپہچانے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے جبکہ بے وقوف وہ ہے جو اپنے نفس کی پیروی کرے اور اللہ تعالی سے امید رکھے۔امام ترمذی فرماتے ہیں  مَنْ دَانَ نَفْسَهُ کا مطلب حسابِ قیامت سے پہلے،اس دنیا میں نفس کا محاسبہ کرنا ہے۔ اس کے بعد امام ترمذی نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے آپ فرمایا کرتے: حَاسِبُوا أَنْفُسَكُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا وَتَزَيَّنُوا لِلْعَرْضِ الأَكْبَرِ وَإِنَّمَا يَخِفُّ الْحِسَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى مَنْ حَاسَبَ نَفْسَهُ فِى الدُّنْيَا اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو اس سے قبل کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور بڑی پیشی کے لیے تیار ہو جاؤ بے شک قیامت کے دن اس آدمی کا حساب آسان ہوگا جس نے دنیا ہی میں اپنا حساب کر لیا‘‘۔ یہ تیاری اور محاسبہ ہم سب کوبغیر کو ئی وقت ضائع کیے فوراً شروع کر دینا چاہیے۔ اپنی زندگی کا ہر دن اسی محاسبے اور تیاری کی کوششوں میں یہ سمجھتے ہو ئے بسر کرنا چاہیے کہ یہ دن ہماری زندگی کا آخری دن ہے۔ اس کے بعد نہ جانے ایسا موقع مل بھی سکے گایا نہیں۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ ابن عمررضی اللہ تعالی عنہما نے اسی بات کی نصیحت اوپر گزری حدیثِ مبارکہ کے راوی حضرت مجاہد علیہ الرحمہ کو فرمائی تھی کہ اگر زندگی کے کسی دن صبح کا وقت دیکھنا نصیب ہو جائے تو نیک اعمال، سچی تو بہ اور آخرت کی تیاری کی کوششوں کو شام تک مؤخر نہ کرو۔ اسی طرح شام کا وقت نصیب ہو جا ئے تو ان امور کو اگلی صبح کے لیے باقی نہ رکھ چھوڑو۔ نہ جانے زندگی میں اس صبح کے بعد کی شام یا شام کے بعد کی صبح میسر بھی آ سکے گی یا نہیں۔ایک سچے مومن اور غافل انسان کی زندگیوں میں بنیادی طورپراسی مثبت احساسِ عجلت (Urgency) کی وجہ سے فکر و عمل کا فرق نمایاں طور پر نظر آرہا ہو تا ہے۔ مومن اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کی قدروقیمت اوراس سے پیدا ہو نے والے نتائج سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے۔اسی لیے وہ اس کا ایک لمحہ بھی کسی بے فائدہ کام میں صَرف نہیں کرتا۔ وہ اس حقیقت سے بھی خوب اچھی طرح واقف ہوا کرتا ہے کہ اس کا اصل سرمایہ اور اس کی اصل دولت مسلسل گھل کر ختم ہو رہی ہے اور اگر اس نے اس وقت کو آ خرت کی تیا ری میں لگا کر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کی تو اسے ایک بہت بڑے خسارے اور گھاٹے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وہ اس متاعِ وقت کے ایک ایک لمحے کودنوں، اس کے ایک ایک منٹ کو مہینوں اور اس کے ایک ایک گھنٹے کو سالوں کے برابر گردانتے ہو ئے اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوششوں میں لگا رہتا ہے۔پھرایسے ہی لو گوں کی پُر خلوص محنتوں اور کاوشوں کی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ بھی بھرپو ر پذیرائی فرمائے گا اور محض اپنے فضل و کرم اور عنایت سے انھیں معاف فرما کر اپنی رضا کے مقام جنت میں داخل فر ما دے گا۔ اس جنت میں داخلے کے بعد ان خوش نصیبوں کو اپنے گزرے ہو ئے وقت میں سے صرف ان گھڑیوں پر افسوس ہو گا جو اللہ کے ذکر کے بغیر گزر ی ہوں گی ( شعب الایمان) ۔اس کے برعکس ایک غافل اور آخرت پر یقین نہ رکھنے والے انسان کا طرزِ عمل یہ ہو تا ہے کہ وہ اپنا وقت مسلسل غیر مفید کاموں یا دنیا کو زیادہ سے زیا دہ جمع کرنے کو کوششوں میں کھپا دیتا ہے۔ آخرت کی تیاری سے غفلت برتتا ہے۔ جب کبھی آخرت کی یاددہانی یا کسی اچھی نصیحت یادل پذیر وعظ کے نتیجے میں اس کا دل نرم پڑتا ہے اور اس کے باطن میں اپنی اصلاح کا داعیہ پیدا ہو تا ہے تو بد قسمتی سے ان اصلاحِ احوال کی کاوشوں کو زندگی کی طوالت کی امید پر مؤخر کرتے ہو ئے مستقبل پرٹالتا چلا جاتا ہے۔ کبھی اپنے موجودہ وقت اور اپنے آج سے فائدہ اٹھاتے ہو ئے اپنی فوری اصلاح اور سچی توبہ کی طرف پیش قدمی نہیں کرتا بلکہ اس کا نفس اس کو مستقبل کے حسین نقشے دکھا کرتھپکی دیتا ہے اورشیطان اسی غفلت کی نیند میں سلائے رکھنے کی کوششوں میں لگا رہتا ہے۔اسی تاخیر اور ٹال مٹول کی روش میں ایک ایک کرکے دن پر دن، ہفتوں پر ہفتے ، مہینوں پر مہینے اور سالوں پر سال گزرتے چلے جا تے ہیں یہاں تک کہ اس کی زندگی کا آخری دن آجاتا ہے۔ اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے بعد اس کی زندگی میں اپنی اصلاح کے لیے مزیدکو ئی دن اور وقت ہی نہیں بچا ہے۔ وہ اسی طرح اپنی زندگی کی طوالت کی امید کے نشے میں مسحور ہوکر یہ دن بھی گزاررہا ہوتا ہے کہ اچانک موت اس کے سر پہ آکھڑی ہو تی ہے۔ایسے ہی غافل انسان پھر موت کے وقت اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے درخواستیں کرتے ہیں: ﴿رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنَ الصَّالِحِينَ﴾(المنافقون: ۱۰)ترجمہ:’’اے میرے پروردگار! تو نے مجھے تھوڑی مدت اور کیوں مہلت نہ دی کہ میں صدقہ کرلیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہوجاتا ـ ‘‘۔ اسی طرح ایک اور مقام یہ الفاظ آئے ہیں: ﴿حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ * لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا﴾(المومنون:۹۹،۱۰۰)ترجمہ : ’’(یہ لوگ اپنی کارستانیوں میں لگے رہیں گے)جہاں تک کہ ان میں سے کسی کو جب موت آئے گی تو کہے گا: پروردگار!مجھے دنیا میں واپس بھیج دے۔ جسے میں چھوڑ آیا ہوں امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا‘‘۔(لیکن اللہ کی جانب سے انھیں یہی جواب دیا جا تا ہے کہ)ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ یہ بس ایک(محال) بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے‘‘۔ اللہ تعالی نے ایک اور جگہ یہ اصول بیان فرمایا ہے ﴿وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا﴾ (المنافقون:۱۱)ترجمہ:’’ اور جب کسی کی موت کا وقت آجائے تو پھر اللہ اس کو ہرگز مہلت نہیں دیتا‘‘۔ یہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا اٹل قانون ہے کہ انسان کی موت کا وقت آ چکنے کے بعد اسے کو ئی مہلت نہیں دی جاتی۔ایسے موقعے پر وہ سارا مال، وسائل، جمع پونجی، خوبصورت گھر اور مکانات، رشتے دار، اہل و عیال غرض کو ئی شے سوائے انسان کے عمل کے اس کے ساتھ نہیں جاتی۔ یہ سب یہیں رہ جاتا ہے اور اسے ایک تاریک گھر میں خواہی نخواہی بالکل تنہا سکونت اختیار کرنی پڑتی ہے۔اسی لیے حضرت عبد اللہ ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما تلقین فرمارہے ہیں کہ موت سے پہلے زندگی سے اچھی طرح فائدہ اٹھا لینا مبادا کل کوتم کفِ افسوس ملتے رہ جاؤ اور اس پچھتاوے کا اس وقت کو ئی فائدہ نہ ہو: ﴿يَالَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي﴾ (الفجر: ۲۴)ترجمہ:’’کاش میں نے اپنی اس زندگی کے لیے کچھ پیشگی سامان کیا ہوتا! ‘‘۔حضرت رسول اللہ ﷺ کا بھی ارشادِ گرامی ہے:  ((اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ : شَبَابَکَ قَبْلَ ھَرَمِکَ وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سُقْمِکَ وَغَنَائَکَ قَبْلَ فَقْرِکَ وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ))(سنن ترمذی) ترجمہ:’’تم پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو! اپنی جوانی کو ضعیفی سے پہلے غنیمت جانو، اپنی صحت کو بیماری سے پہلے اور مالدار ی کو تنگدستی سے پہلے اور فرصت کو مشغولیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے‘‘۔ 

پوری زندگی کا روزہ

زیر بحث قول ’’دنیا دن ہے اور ہم اس میں روزے سے ہیں ‘‘ سے مترشح ہوتا ہے کہ ہماری پوری زندگی روزے پر مشتمل ہے۔ اب ہم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حیاتِ دنیوی کو حالت ِ روزہ قرار دینے کا کیا مطلب ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے حضرت مولانا ابو الحسن علی حسنی ندوی علیہ الرحمہ کی مشہور تحریر’’دوروزے‘‘ سے چند اقتباسات نقل کیے جاتے ہیں: ’’روزے دو طرح کے ہیں، ایک چھوٹا روزہ ایک بڑا روزہ۔چھوٹے روزے کی تحقیر مقصود نہیں، صرف زمانی اور وقتی لحاظ سے کہہ رہا ہوں۔ چھوٹا روزہ کتنا ہی بڑا ہو، ۱۳ گھنٹہ، ۱۴ گھنٹہ کا روزہ ہو گا، بعض ملکوں میں جہاں دن اس زمانہ میں بڑا ہوتا ہے اس سے کچھ زیادہ۔ یہ وہ روزہ ہے جو بلوغ پر مسلمان پر فرض ہو جاتا ہے، وہ صبح صادق سے شروع ہوتا ہے اورغروبِ آفتاب تک قائم رہتا ہے۔۔۔ بڑا روزہ ہے: اسلام کا روزہ! اسلام خود ایک روزہ ہے اور یہ سب روزے اور عیدین بھی، بلکہ روزہ، نماز یہاں تک کہ جنت بھی، جو اللہ تعالی عطا فرمائے گا، وہ سب اس کے طفیل ہی ہے۔ اصل بڑا روزہ، اسلام کا روزہ ہے۔ وہ کب ختم ہوتا ہے، کب شروع ہوتا ہے، یہ بھی سن لیجیے۔جو خوش قسمت انسان مسلمان گھر میں پیدا ہوا ، اور وہ شروع سے کلمہ گو ہے، اس پر بلوغ کے بعد ہی یہ طویل مسلسل روزہ فرض ہو جاتا ہے اور جو اسلام لائے، کلمہ پڑھے، یہ روزہ اس پر اسلام قبول کرنے کے وقت شروع ہوتا ہے۔اور یہ روزہ کب ختم ہوگا، یہ بھی سن لیجیے۔ رمضان کا روزہ اور نفلی روزہ تو غروب آفتاب پر ختم ہو جاتا ہے، مگر اسلام کا روزہ تو آفتاب عمر کے غروب ہونے پر ختم ہو گا۔۔۔ اس چھوٹے روزہ کا حکم اور اس کی پابندیاں سب کو معلوم ہیں۔ سب روزہ دار کھانے پینے سے اور ان تمام چیزوں سے بچتے ہیں جو ممنوع ہیں، لیکن اس بڑے روزہ کا خیال بہت کم لوگوں کو ہے حالانکہ یہ روزہ ہم لوگوں کو اس بڑے روزہ کے طفیل ہی ملا ہے، اس بڑے روزہ کی برکت سے ملا ہے، یوں سمجھیے کہ اس بڑے روزہ کے انعام میں ملا ہے، اور عید بھی اسی روزے کے طفیل میں ملی ہے‘‘۔چھوٹے روزے یعنی رمضان المبارک کے روزے اور بڑے روزے یعنی زندگی بھر کے روزے کی حقیقت سمجھانے کے بعد اس بات کی وضاحت فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک میں روزے اور دیگر عبادات کی انجام دہی کے نتیجے میں ہماری زندگیوں پر کیا اثرات مرتب ہو نے چاہییں اور یہ کہ زندگی کس انداز میں گزرنی چاہیے۔ چنانچہ مولانا علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ’’رمضان ختم ہونے کے بعد آپ یہ نہ سمجھیں کہ چھٹی ہو گئی اب ہم آزاد ہیں جو چاہیں کریں۔ ہرگز ایسا نہیں، آپ بالکل آزاد نہیں ہیں۔ آپ کے گلے میں اسلام کا طوق پڑا ہوا ہے۔ آپ کی تختی، آپ کے شناختی کارڈ پر لکھا ہے کہ آپ مسلمان ہیں۔ اللہ تعالی کے یہاں اس روز کا حساب ہو گا اور اس روزہ کا بھی حساب و کتاب ہو گا۔ ہم نے آپ کے سامنے آیت پڑھی: ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾ (المائدہ:۳) ’’آج کے دن میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا‘‘۔ چاہے کوئی تبدیلی لانا چاہے، سلطنت کہے، بادشاہ کہے، کہ ایسا کرو اور ویسا کرو، بڑے سے بڑا مسلمان اور علم کا دعویٰ کرنے والا کہے، کچھ ہونے کو نہیں۔ جو چیز حرام ہے، قیامت تک حرام رہے گی۔ دنیا میں کسی کو یہ اجازت نہیں اور نہ اس کی مجال ہے کہ اس میں ترمیم کرے۔ شریعت میں اب کوئی ترمیم نہیں ہو سکتی۔ وہ چیزیں جو حرام ہیں ، حرام ہی رہیں گی‘‘۔اسی طرح آگے چل کر اس بات کی وضاحت فرماتے ہیں ہمارا تیقن اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے بارے میں کس کیفیت کا حامل ہو نا چاہیے اور کس طرح اسی کے سامنے دستِ سوال دراز کرنا چاہیے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:’’ ہر شخص کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ اسلام کا روزہ ہے، ساری عمر کا روزہ ہے کبھی نہیں ٹوٹ سکتا، جو چیزیں حرام ہیں، حرام ہیں، جو غلط ہیں، وہ غلط ہیں، عقیدہ خالص ہونا چاہیے، سمجھ لیجیے، نہ کوئی قسمت بری بھلی بنا سکتا ہے، نہ کوئی آئی ہوئی بلا کو ٹال سکتا ہے، نہ اولاد دے سکتا ہے، نہ نوکری دلا سکتا ہے، کہ آپ کسی اور سے مانگیں، جو کچھ مانگنا ہو، اسی سے مانگیں جو سمیع و مجیب ہے، وہ فرماتا ہے: ﴿وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃ َالدَّاعِ إِذَا دَعَانِ۔۔۔﴾ (البقرہ : ۱۸۶) (اے نبی ) بندے تجھ سے میرے بارے میں پوچھے تو کہہ دیجیے کہ میں قریب ہی ہوں۔ دعا کرنے والے کی قبول کرتا ہوں اور جب بھی وہ دعا کرے‘‘۔اسی طرح آخر میں زندگی بھر کے روزے کا خیال رکھنے کی نصیحت یوں فرماتے ہیں:’’آپ یہاں سے بڑے روزے کا خیال لے کر جائیے خوش ہوئیے، اللہ کا شکر ادا کیجیے، یہ روزہ تو ختم ہو رہا ہے۔ اللہ تبارک و تعالی اور رمضان نصیب کرے۔ مگر زندگی کا کوئی اعتبار نہیں، صحت کا اعتبار نہیں، ہاں وہ مسلسل و طویل روزہ رہے گا، وہ روزہ مبارک ہو، اس روزہ کا خیال رکھیے، وہ روزہ نہ توڑیئے گا، وہ روزہ اگر ٹوٹا تو سب کچھ ٹوٹ جائے گا، سب کچھ بگڑ گیا۔بس یہی دو روزے ہیں، ایک روزہ ہے قریب المیعاد، وہ ہے رمضان کا روزہ اور دن بھر کا روزہ ہے۔ ایک روزہ وہ ہے جو زندگی کے ساتھ رہے گا، اور مسلمانوں کے لیے جب سے وہ بالغ ہوا، اس دن تک جب تک سانس اور جان میں جان ہے، اور وہ شخص جس نے اسلام قبول کیا اس کا بھی جب تک بدن میں اس کے جان اور روح ہے، اس وقت تک باقی ہے۔اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو توفیق دے کہ ہم اس روزے کو برقرار رکھیں، اس روزے کی حفاظت کریں اور قدر کریں، اوراس روزے پر جییں اور مریں‘‘۔

ان چیدہ چیدہ اقتباسات سے اس بڑے اور طویل روزے کی تشریح ہو گئی کہ جس کی پابندیوں اور آداب کا ہمیشہ خیال رکھتے ہو ئے ہم سب کو اپنی زندگیاں گزارنی چاہییں۔اسی کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے مولانا محمد ادریس کاندھلوی اپنی تفسیر معارف القرآن میں سور البقرہ کی آیت نمبر۱۸۸کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:’’گزشتہ آیات میں روزہ اور دعا کا ذکر تھا۔ اس آیت میں حرام مال کے کھانےکی ممانعت ہے۔ اشارہ اِس طرف ہے کہ روزہ اور دعاکی قبولیت کے لیے اکلِ حلال شرط ہے۔نیز پہلے افطار اور سحری کا ذکر تھا۔ اِس آیت میں اِس طرف اشارہ فرمایا کہ افطار اور سحر ی حلا ل روزی سے ہونا چاہیے نیز اصلی مقصود روزہ سے طہارت نفس ہے تو جب طہارت ِنفس کے لیے روزہ میں حلال مال کے استعمال کی اجازت نہ رہی تو حرام مال کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے ؟ حلا ل مال سے روزہ تو صرف تیس دن کا ہے اور حرام مال سے روزہ مدت العمر کے لیے ہے یعنی یہ ساری عمر کا صوم ِ وصال ہے‘‘۔

حرفِ آخر

محترم قارئین!ہماری زندگیاں ماہِ رمضان المبارک سے ہمکنار ہو رہی ہے۔ اس عظیم قول سے ، جس کی وضاحت کی کوشش اس تحریر میں کرنے کی کوشش کی گئی ہے، یہ بات ہمارے سامنے مبرہن ہو جانی چاہیے کہ ہم اس ماہ ِ مبارک کو اپنے لیے آخری اور سنہری موقع سمجھتے ہو ئے گزاریں۔ اس کے ایک ایک لمحے کی قدر کریں اور اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ سے اپنے قصور معاف کروالینے کی بھر پور کوشش کریں۔ دن کے روزے کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں جبکہ رات کو زیادہ زیادہ وقت قیام و تلاوت اور دعا و مناجات میں صَرف کریں۔ اپنی زندگی کی طوالت کی موہوم امید پر اس عظیم موقع کو ضائع کر دینے کی عظیم حماقت سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کریں۔ پھر اس ماہِ مبارک میں ہمیں اللہ کا جو قرب نصیب ہو اس کا اظہار بقیہ زندگی میں بھی عملی اصلاح اور سچی توبہ کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے نظر آئے۔اللہم وفقنا لھٰذا۔ اپنی تنبیہ اور عبرت کے لیے ہمیں مستدرک حاکم میں وارد ہونے والے حضرت رسول اللہ ﷺ کے اس ارشادِ مبارک کوبھی سامنے رکھنا چاہیے جس میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کی ا س بد دعا پر آپ ﷺ نے آمین فرمایا کہ وہ شخص تباہ و برباد ہو جائے جو اپنی زندگی میں رمضان المبارک کا مہینہ پالے پھر اس میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ سے اپنی بخشش و مغفرت نہ کرالے،۔ بقولِ شاعر:

اس آرزو کے باغ میں آیا نہ کوئی پھول اب کہ بھی دن بہار کے یوں ہی گزر گئے

اللہ تعالیٰ ہم سب اس محرومی سے محفوظ فرمائے اوراپنی عنایتوں اور رحمتوں سے خوب بہرہ ور فرمائے۔ آمین

لرننگ پورٹل