بہر حال سفر شروع کیا اور ارادہ کیا کہ حج کریں۔ لہٰذا سب سے پہلے حج کے لیے نکل کھڑے ہوئے ۔ابو بکر ابن العربی المالکی رحمہ اللہ جو فقہ مالکی کے مشہور امام ہیں اور امام غزالی کے شاگرد بھی تھے، فرماتے ہیں کہ جب امام غزالی رحمہ اللہ حج کے لیے نکلے ہیں تو راستے میں ہماری ملاقات ہوئی تو میں نے امام غزالی رحمہ اللہ کو دیکھا کہ ایک لاٹھی ہے اور اوپر ایک مشکیزہ رکھا ہوا ہے اور بالکل پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے ہیں تو میں کہنے لگا کہ کیا آپ وہی ہیں؟شیخنا الغزالی؟ تو انھوں نے کہا کہ ہاں ۔بہرحال انھوں نے امام غزّالی رحمہ اللہ سے کہا کہ آپ نے وہ ساری تدریس اور جو نظامیہ میں پڑھایا کرتے تھے اور ایک خلق کو آپ سے فائدہ ہوتا تھا وہ سب کیوں چھوڑ دیا؟تو امام غزالی رحمہ اللہ نے نہایت حقارت کی نگاہ سے دیکھا کہ کس قسم کی باتیں کر رہے ہو اور مشہور اشعار کہے:
لما طلع بدر السعادة في فلك الإرادة |
وجنحت شمس الوصول في مغارب الأصول |
تركت هوى ليلى وسعدى بمعزل |
وعدت إلى تصحيح أول منزل |
ونادت بي الأشواق مهلا فهذه |
منازل من تهوى رويدك فانزل |
غزلت لهم غزلا دقيقا فلم أجد |
لغزلي نساجا فكسرت مغزلي |
’’ کہ جب سعادت کا چاند ،آسمانِ ارادہ پر طلوع ہوتا ہے اور سورج جو اللہ تعالیٰ کے قریب پہنچائے گا وہ غروب ہونے کے قریب ہی ہے،امید ہے کہ اگر میں اسی رخ پر رہا تو عن قریب ان شاء اللہ ،اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاؤں گا۔لٰہذا میں نے سعدا اور لیلیٰ کی (یعنی دنیا کی) محبت اپنے دل سے خارج کی اور میں سب سے پہلی منزل کی تصحیح کی طرف واپس آگیا( اور وہ پہلی منزل’اخلاص‘کی ہے اگر وہ حاصل نہ ہو تو آگے جتنی مرضی منازل حاصل ہوتی چلی جائیں کوئی فائدہ نہیں لہٰذا میں پہلی منزل کی تصحیح کی طرف واپس آگیا)۔راستے میں شیطان باربار بلا رہا تھا کہ یہاں رک جاؤ یہی تمہاری منزل ہے لیکن میں یہ کہتا رہا کہ نہیں یہ میری منزل نہیں ہےمیری منزل تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔میں نے ان لوگوں کے لیے سوت کاتا لیکن مجھے اس سوت سے کوئی کپڑا بُننے والا نظر نہیں آیا تو میں نے اپنے تمام دھاگے توڑ دیے‘‘۔آج ہمارے ہاں بھی یہ رواج ہے کہ اصل شے نفعِ متعدی ہے یعنی جس سے لوگوں کو نفع پہنچے لیکن جاننا چاہیے کہ نفع متعدی اگر نفع لازم کے نقصان پر ہو تو وہ کوئی نفع نہیں ہے۔پوری دنیا میری وجہ سے نجات پا جائے اور میں اللہ پاک کے دربار میں مقبولیت نہ پا سکوں تو یہ کیسا نفع ہے؟ لہٰذا نفعِ لازم ہمیشہ مقدم رہتا ہے۔ اس کے بعد امام غزّالی رحمہ اللہ حج کے لیے تشریف لے گئے ہیں اور پھر وہاں سے دمشق آئے ہیں اور ابھی دمشق میں تین چار دن سے زیادہ نہیں گزارے کہ خواب میں اشارہ ہوا کہ بیت المقدس چلے جاؤ، اس میں نکتہ کی بات یہ ہے کہ جب ان سے یہ کہا جا رہا ہے اس وقت۴۸۹ ہجری کا زمانہ ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ ۴۹۱ ہجری میں بیت المقدس پر عیسائیوں کا قبضہ ہوگیا تھا۔چنانچہ امام غزّالی رحمہ اللہ اس سے پہلے پہلے بیت المقدس تشریف لے گئے۔آپ رحمہ اللہ خود فرماتے ہی کہ میں وہاں قبةالصخرٰی کے نیچے بیٹھ کر مراقبہ کیا کرتا تھا۔چند دن آپ رحمہ اللہ نے بیت المقدس میں گزارے اور پھر آگے نکل کھڑے ہوئے۔
امام غزالی رحمہ اللہ پر کچھ لوگوں نے یہ اعتراض یہ بھی کیا کہ صلیبی جنگیں ہو رہی ہیں ،بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھوں سے چلا گیااور امام غزالی رحمہ اللہ نے اپنی کسی تصنیف میں اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ گویا امام غزّالی رحمہ اللہ کو پروا ہ ہی نہیں تھی کہ امت کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟جاننا چاہیےکہ امام غزالی رحمہ اللہ جس سفر پر نکلے ہیں اس میں آپ کا کسی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی آپ کے پاس کوئی خبریں پہنچتی تھیں۔ کبھی آپ رحمہ اللہ کسی صحرا میں بیٹھے ہوئے ہیں اور کبھی کسی بیابان میں۔ کبھی کسی وادی میں تو کبھی کسی پہاڑ کے دامن کو آپ رحمہ اللہ نے اپنا مسکن بنایا ہوا ہے ۔اور یہ بھی قابلِ غور ہے کہ امام غزالی رحمہ اللہ جس سفر پر نکلے ہوئے تھے شاید وہ سفر اُس وقت صلیبی جنگوں سے کہیں زیادہ قیمتی تھا کیونکہ اس سفر کے نتیجہ میں ہمیں امام غزّالی رحمہ اللہ ملنے تھے جو اس سفر کے بغیر نہیں مل سکتے تھے۔بہرحال امام غزّالی رحمہ اللہ کا صلیبی جنگوں میں یا مسلمانوں کے لیے جہاد کے طور پر شرکت کے لیے نہ جانا اس کے بہت سے دلائل ہوسکتے ہیں۔ بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ امام غزالی رحمہ اللہ نے مغرب جانے کا ارادہ کیا۔آپ رحمہ اللہ مرا کش جانا چاہتے تھےجہاں یوسف بن تاشفین موجود تھے مگر ابھی آپ رحمہ اللہ راستے میں ہی تھے کہ خبر ملی کہ یوسف ابن تاشفین وفات پا گئے ہیں لہٰذآپ رحمہ اللہ رستے ہی سے واپس ہوگئے۔ بہرحال بیت المقدس سے واپس پھر دمشق آئے ہیں اور وہاں ایک خانقاہ تھی وہاں تشریف لے گئے، مگر خانقاہ میں داخل نہیں ہوئے ۔کئی دن تک باہر جوتوں پر بیٹھے رہے کہ جب تک اجازت نہیں ملے گی میں اندر نہیں جاؤں گا۔دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہی نفس کُشی ہے، کیا ہی نفس کی تذلیل ہے کہ وہ ابو حامد الغزالی رحمہ اللہ کہ جن کی شہرت کا ہر جانب ڈنکا بج رہا ہے ، جوتیوں پر بیٹھے ہیں ۔ پھر آٹھ، دس دن بعد انھیں اجازت ملتی ہے کہ اندر آ جائیں، اور پھر خانقاہ میں رہائش پذیر ہوتے ہیں اور وہاں کام کیا کرتے ہیں؟ خانقاہ کےغسل خانوں کی صفائی۔یعنی دمشق میں امام غزّالی رحمہ اللہ اُس خانقاہ کے غسل خانے صاف کیا کرتے تھے۔ جاننا چاہیے کہ اعتراض کرنا بہت ہی آسان ہے۔ آج کل سوشل میڈیا پر بہت بدتمیزی ہو رہی ہے ۔اس عنوان سے آپ کو مختلف چیزیں ملیں گی’’ الغزالي الکافر ‘‘۔کھلم کھلا آپ رحمہ اللہ کی تکفیر کی جاتی ہے ۔ ویسے بھی کوئی بڑا آدمی ایسا نہیں گزراجس کی تکفیر نہ ہوئی ہو۔امام غزّالی رحمہ اللہ جس محنت اور مشقت سے گزرے ہیں اور جس سفر کے بعد امام غزّالی بنے ہیں وہ سارا سفر پیشِ نظر نہ رہے، کسی بندے کی قربانیاں نظر نہ آئیں اور ایک، دو باتیں پکڑ کر اس پر فتوی لگا دیا جائے تو یہ کوئی طریقہ نہیں ہے ۔ ایک مرتبہ جس خانقاہ میں امام غزالی رحمہ اللہ موجود تھے وہاں ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ اس خانقاہ میں معمول تھا کہ عصر اور مغرب کے مابین وہاں کے مفتی حضرات چہل قدمی کیا کرتے تھے اور لوگ آتے تھے اور چلتے پھرتے ان سے مسائل دریافت کرتے تھے۔تو خود آپ رحمہ اللہ اپنا واقعہ بتاتے ہیں کہ میں غسل خانے کی صفائی کر رہا تھا تو دیکھا کہ ایک اعرابی آیا اور اس نے آکر ان مفتی حضرات سے ایک فتوی پوچھا، ان کو جواب نہ آیااور انھوں نے کہہ دیا کہ ہمیں نہیں معلوم! یہ اعرابی بہت ہی اڑیل تھا، اس نے زور سے آواز لگانی شروع کر دی کہ دیکھو ان کو کچھ آتا ہی نہیں ہے ۔امام غزّالی رحمہ اللہ نے اُسے دور سے اشارہ کیا اوراپنے پاس بلایا اور کہتے ہیں کہ میں اس وقت اس مخمصے کا شکار تھا کہ اگر میں نے اس کوصحیح طریقےپر فتوی بتا دیا تو میں ظاہر ہو سکتا ہوں جبکہ اس وقت تو میرا مقصد ہی پوشیدہ رہنا ہے۔ مگر چونکہ یہ علم کا طالب ہے اور اس وقت اسے بتانے والا کوئی بھی نہیں ہے تو یہ مجھ پر فرضِ عین ہے کیونکہ اگر فتوی دینے والا شہر میں ایک ہی ہو تو پھر اس پر فتوی دینا فرض عین ہو جاتا ہے ۔ لہٰذا، اسے بلا کر پوچھاکہ کیا مسئلہ ہے ؟اس نے مسئلہ پیش کیا تو میں نے کہا کہ شاید اس کا جواب اس طرح سے ہو۔اب وہ کچھ اس قسم کا آدمی تھا کہ اس نے پھر شور مچانا شروع کر دیا کہ بھائی دیکھو جو فتوی ان مفتیوں کو نہیں آتا وہ ایک غسل خانے کی صفائی کرنے والا بتا رہا ہے۔ جب مفتی حضرات نے آکر دیکھا اور پوچھا کہ تم نےکیا جواب دیا؟ تو امام غزالی رحمہ اللہ نے بتا دیا کہ یہ جواب ہے تو وہ کہنے لگے کہ تم کون ہو؟ اور پھر خود ہی ان مفتی حضرات نے انھیں پہچان لیا کہ ہم نے سنا ہے کہ امام ابو حامد الغزالی رحمہ اللہ مدرسہ نظامیہ چھوڑ کر راہ نوردی کر رہے ہیں، تو کہیں تم ابوحامد تو نہیں ہو؟بہر حال جب ان سے پوچھا تو انھوں نے اعتراف کر لیا۔ تو مفتی حضرات نے کہا کہ کل سے آپ کی یہاں مجلسِ تدریس ہوا کرے گی۔ امام غزّالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ راتوں رات میں نے اپنا سامان سمیٹا اور فرار ہوگیا ۔کیونکہ میں یہاں ظاہر ہوچکا تھا اور میں نہیں چاہتا تھا کہ اپنی اس محنت و مشقت کو یوں ضائع کر دوں کہ نظامیہ کی بجائے دمشق میں مسندِ تدریس پر بیٹھ جاؤں، چنانچہ امام غزالی رحمہ اللہ وہاں سے رخصت ہوگئے ۔اس کے بعد امام غزّالی رحمہ اللہ دمشق شہر میں چلے گئے،خانقاہ اس کے مضافات میں تھی ۔دمشق میں انھوں نے آٹھ سے دس سال قیام کیا اور اس دوران اُن کا معمول یہ رہا کہ مسجد اموی کے المنارۃ الغربیہ پرجا کر بیٹھ جاتے ۔ کہتے ہیں کہ فجر سے بھی پہلےمیں مینارے پر چڑ ھ جاتا تھا اور دروازہ بند کر لیتا تھا اور بس نمازوں کے لیے اترتا تھا اور سارا وقت غور و فکر سے کام لیتا تھا۔یا ساتھ جو کتابیں تھیں وہ پڑھتے تھے ۔بنیادی طور پر ان کے ساتھ دو کتابیں تھیں۔ کتاب الرعایة،امام حارث المحاسبی رحمہ اللہ کی اور قُوت القلوب ،امام ابوطالب مکی رحمہ اللہ کی،آپ دیکھیں گے تو امام حارث المحاسبی رحمہ اللہ کی کتاب الرعایة اور امام غزّالی رحمہ اللہ کی احیاء العلوم میں آپ کو گہری مماثلت نظر آئے گی۔ امام حارث المحاسبی رحمہ اللہ کے بارے میں امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علم المعاملہ میں امت میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے امام حارث المحاسبی رحمہ اللہ ہی ہیں۔ امام غزّالی رحمہ اللہ نے علوم کو دو حصوں میں تقسیم کیا،ایک علم المعاملہ اور دوسرا علم المکاشفہ ۔علم المعاملہ کیا ہے ؟ کہ انسان اور اللہ، عبد اور معبود کا رشتہ صحیح بنیادوں پر استوار ہو جائے یہ علم المعاملہ ہے جس کو درست کرنے کے نتیجہ میں اللہ تعالی کی طرف سے انسان پر علوم کھلیں گےجو کہ علم المکاشفہ میں شامل ہیں۔ علم المعاملہ تو بہرحال تربیت اور پڑھنے ،پڑھانے کی شے ہے جبکہ علم المکاشفہ بیان کرنے کی شے نہیں ہے ۔ لہٰذا آپ دیکھیں گے کہ احیا ءالعلوم میں امام غزّالی رحمہ اللہ بیان کرتے کرتے اچانک اپنا قلم روک لیتے ہیں کہ یہاں سے علم المکاشفہ کی حدود شروع ہو رہی ہیں۔ لہٰذا بس!اب میں آگے بیان نہیں کروں گا۔ بہرحال امام غزالی رحمہ اللہ نے آٹھ، دس سال دمشق میں اس طریقہ پر گزارے ہیں اور پھر فرماتے ہیں کہ اللہ پاک کی طرف سے مجھے کچھ خواب نظر آئے اور بعض صالحین نے بھی خواب دیکھے اور ایک اور بات بھی انھوں نے ذکر کی جو عموماً بیان نہیں کی جاتی فرماتے ہیں کہ بیٹیوں کی محبت بھی میرے دل میں واپس لوٹ آئی اور مجھے خیال ہوا کہ جو چھوٹی ،چھوٹی میری بچیاں تھیں انھوں نے دس سال سے اپنے والد کو نہیں دیکھا تو میرے دل میں ان کی محبت پیدا ہو گئی اور خیال ہواکہ واپس جاؤ اور اللہ تعالی کی طرف سے بھی یہی سمجھ میں آئی ،اب امام غزّالی رحمہ اللہ اس درجے پر پہنچ چکے ہیں کہ وہ اپنی تعریف بھی کر سکتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ مجھے خیال ہوا کہ اللہ کے نبیﷺنے جو یہ فرمایا کہ ہر صدی کے شروع میں امت کی اور دین کی تجدید ہوا کرے گی تو شاید یہ کام اللہ پاک مجھ سے لے لیں ۔
کچھ عرصہ قبل امام غزّالی رحمہ اللہ کے فارسی خطوط، عربی میں چھَپے ہیں جو انھوں نے مختلف بادشاہوں کے نام لکھے ہیں۔ ملک سنجر سلجوقی اور کچھ وزرا کے نام۔ ملک سنجر کے نام لکھےخط میں کہتے ہیں کہ میں نے تعلیم و تعلّم میں ۴۰ سال گزارے ہیں، اور میں اس درجے پر پہنچ چکا ہوں کہ آج کل کے علماء کی انتہا یہ ہے کہ وہ میرے بعض کلام کو سمجھ سکیں بس ۔یہ خود اپنے بارے میں کہا کہ میں اس وقت اس درجے پر ہوں کہ میرے مقابلے میں کوئی نہیں ہے اور وہ لوگ جو علماء کے نام سے منسوب ہیں وہ میرے کلام کو سمجھ ہی لیں تو بہت ہے ۔خیال رہے کہ امام غزّالی رحمہ اللہ کو دیکھ کر ہم ایسے چھوٹے لوگ یہ سمجھنا شروع کر دیں کہ ہم بھی اپنے منھ سے ایسے کلمات نکال سکتے ہیں تو یہ بہت بعید از قیاس بات ہوگی۔ بہر حال واپس آتے ہیں اور سب سے پہلے اپنے بیوی بچوں سے ملنے کے لیے طُوس جاتے ہیں۔ اس کے بعد کچھ بزرگوں کی طرف سے یہ بات آئی کہ آپ رحمہ اللہ واپس جائیں اور مدرسہ نظامیہ میں تدریس کریں۔ ۴۹۸ہجری میں آپ رحمہ اللہ سفرسے واپس آئے ہیں اور ۵۰۵ ہجری میں ان کا انتقال ہوگیا ۔۵۵ سال کل عمر تھی۔ بہرحال وہ واپس آئے اور مدرسہ نظامیہ میں کچھ ایک ،دوسال پڑھایا پھر کہتے ہیں کہ دل نہیں لگا ۔وہاں سے واپس آئے اور پھرمدرسہ نظامیہ نیشاپور میں کچھ عرصہ پڑھا یا وہاں بھی دل نہیں لگا۔ وہاں سے پھر واپس طوس گئے ہیں اور اپنے گھر کے ساتھ ایک مسجد بنائی جس میں تعلیم وتعلّم ہوا کرتا اور ایک خانقاہ بنائی جس میں تربیت وتزکیہ ہوا کرتا تھا، اسی طریقے پر دو تین سال گزارنے کے بعد امام غزالی رحمہ اللہ ۵۰۵ ہجری میں دنیا سے رخصت ہو گئے ۔وفات کے وقت کی جو کیفیت ان کے بھائی نے بیان کی ہےجسےامام عبد الرحمن الجوزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الثبات عندالممات میں نقل کیا۔ فرماتے ہیں کہ جس دن ان کی وفات ہوئی ،پیر کا دن تھا اور صبح فجر کی نماز پڑھنے کے بعد آپ رحمہ اللہ نے کفن منگوایا اور کفن ہاتھ میں لے کر چومتے ہیں اور کہتے ہیں:مرحباً بالدخول علی الملک، کہ بادشاہ کے پاس اب میری پیشی ہوگی اور میں اس کو قبول کرتا ہوں ۔میں اللہ تعالی کے سامنے پیش ہونے کے لیے تیار ہوں ۔ یہ کہا ہے اور ان کی آنکھیں بند ہوگئیں اور یہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔ آپ دیکھیں کہ اصل شےتو موت ہے: إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِيمِ ،کہ اعمال کا دارومدار ان کے خاتمے پر ہے۔تو موت بھی بہت ہی عمدہ، شریف قسم کی موت ہے۔
آخر میں کچھ واقعات نقل کرتے ہیں جو قارئین کے لیے مفید ثابت ہوں گے۔ ایک بڑا زبردست قسم کا واقعہ نقل کیا گیا ہے اور اس کی سنَد بھی بالکل ٹھیک ہے اور وہ سند بزرگوں سے مروی ہے۔ابو العباس المرسی رحمہ اللہ جنھیں اپنے زمانے کا قطب عالم کہا جاتاہےاور ان کے بعد ابوالحسن الشاذلی رحمہ اللہ وغیرہ سے مروی ہے۔یہ واقعہ امام غزّالی رحمہ اللہ کی کرامات میں سے ہے، اس کی تفصیل یہ ہےکہ مراکش کے ایک بہت بڑے عالم تھے، انھوں نے ارادہ کیا کہ احیاءالعلوم کے تمام نسخے جمع کر کے جلا دیے جائیں اور اس مقصد کے لیے نسخے جمع بھی کر دیے گئے ۔جمعےکے دن ان کتابوں کوجلایا جانا تھا، ایک روز قبل رات کو خواب میں دیکھتے ہیں کہ جس مسجد میں ان کی تدریس ہوا کرتی ہے اس میں داخل ہو رہے ہیں تو دیکھا کہ ایک کونے میں نور ہے اور وہاں اللہ کے نبیﷺموجود ہیں اور آپﷺکے دائیں بائیں، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر ِفاروق رضی اللہ تعالی عنہ موجود ہیں اور امام غزالی رحمہ اللہ بھی سامنے موجود ہیں۔ امام غزّالی رحمہ اللہ نے میری طرف اشارہ کرکے کہاکہ یا رسول اللہ! یہ میری کتابوں کو جلانا چاہتا ہے ، مجھے انصاف فراہم کیجیے۔ اللہ کے نبیﷺنے فرمایا کہ کس کتاب کو جلانا چاہتا ہے؟ انھوں نے کہا کہ احیاء العلوم کو، اور ساتھ ہی کتاب بھی پیش کر دی۔ تو اللہ کے نبیﷺنے احیاءالعلوم دیکھی اور کہتے ہیں کہ اوّل سے لے کر آخر تک تمام صفحات پلٹ کر دیکھے اور پھر کہا: والله إنه لحسن’’اللہ کی قسم! یہ اچھا کلام ہے‘‘ ۔ پھر انھوں نے کتاب ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دی انھوں نے بھی یہ کام کیا اور پھر عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی یہی کام کیا۔ اب خواب میں سارے صفحے کیسے پلٹائے گئے یہ تواللہ پاک بہتر جانتے ہیں۔اس پر اللہ کے نبیﷺنے اس آدمی سے کہا کہ تم آگے آؤ اور تمھیں چالیس کوڑے لگیں گے، پھرانھیں اللہ کے نبیﷺنے کوڑے لگانے شروع کیے اورابھی پانچ کوڑے ہی لگے تھے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے شفاعت کر دی کہ بہرحال اس نے بھی اجتہادی خطاکی ہے اور آپﷺکی سنت کی محبت کی وجہ سے ہی کہہ رہا ہے کہ یہ کفر اور زندقہ ہے تو آپﷺانھیں معاف کر دیں۔ اللہ کے نبیﷺنے کہا کہ غزّالی جب تک معاف نہیں کریں گے تو ہم کیسے معاف کر دیں۔ اس پر امام غزالی رحمہ اللہ نے کہا کہ میں بھی معاف کرتا ہوں ۔بہرحال جب اٹھے ہیں تو انھوں نے سب کو یہ خواب سنایا اور کہا کہ یہ جلانے کا سب پروگرام ختم اور اس کے بعد خود ہی احیاء العلوم کی تدریس شروع کر دی کہ اب سےیہ کتاب پڑھائی جائے گی۔ بہرحال اس واقعےکی سند بالکل ٹھیک ہے یہ کوئی سنی سنائی کہانی نہیں ہے بلکہ بالکل صحیح سند سے نقل کی گئی ہے۔
امام حسن البناء شہید رحمہ اللہ کے ہاں بھی ایسا ہی واقعہ ہوا ۔کیونکہ امام حسن البنا رحمہ اللہ نے ایک خاص مکتبہ قائم کیاتھا جس کا مقصد صرف احیاءالعلوم کی پرنٹنگ تھاتاکہ اسے بہت ہی کم قیمت پربانٹا جائے اور تقسیم کیا جائے۔ اس کا سبب امام عبد الحلیم محمود رحمہ اللہ جو امام حسن البناء رحمہ اللہ کے شاگرد رہے ہیں انھوں نے بیان کیا ہے کہ امام حسن البناء رحمہ اللہ کے پاس ایک طالب علم آیا کرتا تھا، چند دن وہ نہیں آیا تو آپ رحمہ اللہ نے پوچھا کہ اس کی خبر؟ کہاں ہے؟کیا ہوا؟ تو پتا چلا کہ وہ عیسائی ہو گیا اور اس سے وجہ پوچھی تو وجہ یہ تھی کہ وہ ایک عیسائی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا یہ اس سے شادی کرنا چاہتا تھا اور وہ تیار نہیں ہوتی تھی۔ یہ کہتا تھا کہ ہمارے مذہب میں جائز ہے کہ تم عیسائی رہتے ہوئے میرے نکاح میں آ جاؤ وہ کہتی تھی میرے مذہب میں یہ جائز نہیں ہے لہذا تمھیں عیسائی ہونا پڑے گا۔ بہرحال یہ آدمی عیسائی ہو گیا اور پھر اس لڑکی نے کہا کہ تم اندر سے عیسائیت کے لیے مخلص نہیں ہو، اخلاص ظاہر کرنے کے لیے تمھیں کلیسا میں خادم کے طور پر کام کرنا ہو گا ۔ اس پر بھی یہ آدمی تیار ہو گیا اور جا کر کلیسا میں کام کرنے لگا تو کہتا ہے کہ میں کام کاج کرتے کرتے سو گیا تو خواب میں دیکھاکہ اللہ کے نبیﷺکے دائیں اور بائیں سیدنا موسی علیہ السلام اور سیدنا عیسی علیہ السلام تشریف فرما ہیں ۔اللہ کے نبیﷺنے پہلے سیدنا موسی علیہ السلام سے پوچھا کہ جو اس آدمی نے کام کیا ہے کیا تم اس سے راضی ہو ؟انھوں نے کہا کہ میں اس سے بالکل راضی نہیں ہوں۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھا کہ کیا تم اس سے راضی ہو ؟تو سیدنا عیسٰی علیہ السلام نے کہا کہ میں بھی اس سے راضی نہیں ہوں ! تو کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے نبیﷺسے پوچھا کہ اب میں کیا کروں ؟تو آپﷺنے اشارہ کیا تو مثالی طور پر جنت نظر آنے لگی اور اس جنت کے ایک اعلیٰ باغیچے میں سیدنا امام غزالی رحمہ اللہ نظر آنے لگے، کہا کہ ان کے پاس چلے جاؤ اور ان سے احیاء العلوم کی تعلیم حاصل کرو ۔ کہتے ہیں کہ میں وہاں گیا اور وہاں پہنچ کر میری آنکھ کھل گئی۔ آنکھ کھلنے کے بعد میری کیفیت یہ تھی کہ اللہ کے نبیﷺاور اسلام سے بڑھ کر مجھے کوئی محبوب نہیں تھا۔ میں عیسائیت چھوڑ کر اپنے دین پر واپس آ گیا۔ امام حسن البناء رحمہ اللہ کو یہ قصہ خود اس آدمی نے سنایا، جب آپ نے یہ قصہ سنا تو ارادہ کیا اب احیاءالعلوم کو چھاپا جائے اور بہت ہی کم قیمت میں اس کو تقسیم کیا جائے ۔ تو بہرحال اس طرح کے اور بھی بہت سے واقعات اور کرامات ہیں ۔ بہت سے بزرگوں نے یہ خواب دیکھا کہ اللہ کے نبیﷺموجود ہیں اور امام غزّالی بھی موجود ہیں اور سیدنا عیسی علیہ السلام بھی موجود ہیں اور اللہ کے نبیﷺحضرت عیسی علیہ السلام پر فخر فرما رہے ہیں کہ تمہاری امت میں غزالی جیسا کوئی آدمی نہیں ہے ۔گویاامام غزّالی رحمہ اللہ اس درجے کے بزرگ ہیں کہ شاید ان سے تعلق قائم کرلینا اور ان کی شدید محبت کا پیدا ہوجانا ہم ایسے لوگوں کے لیے باعثِ نجات اور وسیلہ فلاح ہو جائے۔
امام غزّالی رحمہ اللہ پر جو ضعیف اور موضوع احادیث جمع کرنے کا الزام ہے اس سلسلےمیں بھی عبدالوہاب تاج الدین السبکی رحمہ اللہ نے احیاءالعلوم کی وہ ساری کی ساری احادیث نقل کی ہیں جن کی کوئی اصل نہیں ہے، یہ قریباً۹۳۴ احادیث بنتی ہیں۔احیاء العلوم میں ۹۳۴ احادیث ایسی ہیں جن کی کوئی سنَد پائی ہی نہیں جاتی۔ لیکن وہ فرماتے ہیں کہ اگر آپ احیاءالعلوم کے اسلوب پر غور کریں تو امام غزالی رحمہ اللہ پہلے آیات نقل کرتے ہیں ،پھر احادیثِ مبارکہ لاتے ہیں اس کے بعد صحابہ اور تابعین کے آثار لاتے ہیں اور پھر آخر میں اپنا کلام لے کر آتے ہیں تو اگر آپ ساری کی ساری موضوع اور ضعیف احادیث نکال بھی دیں تو احیاء العلوم میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔کیونکہ امام غزالی مسائل کے استنباط میں استدلال آیات قرانی اور صحیح و مشہور احادیث سے کرتے ہیں ۔ان مسائل کی تفصیل یا بیان فضائل میں وہ ضعیف احادیث بھی نقل کرتے ہیں جن میں کافی موضوع روایات بھی شامل ہو گئی ہیں تو کتاب کی بنیاد قرآن پاک اور صحیح احادیث پر ہے۔اور اب تو ویسے بھی جو احیاءالعلوم کا نسخہ چھپتا ہےاس میں تخریج بھی ساتھ ہوتی ہے جس میں ہر حدیث پر حکم لگا دیا گیا ہے تو اب یہ اعتراض قابل حجت نہیں رہا۔ کچھ لوگ ا س اعتراض کے سبب احیاء العلوم پڑھنے سے روک دیتے ہیں کہ اس میں بڑی گمراہی ہے اور زندقہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ امام غزّالی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد بھی اور پہلے بھی کفر اور زندقہ کا حکم لگا ہے اور سب سے زیادہ حکم لگانے والے مراکش کے علماء تھے ۔علی ابن یوسف ابن تاشفین نے حکم دیا کہ احیاءالعلوم کی تمام جلدیں جمع کی جائیں اور جتنے بھی نسخے پائے جاتے ہیں ان سب کو آگ لگا دی جائے اور اس نے یہ کام کیا اور وہاں کے بڑے بڑے علماء نے یہ فتویٰ دیا کہ ہاں ایسا ہی ہے اس کے اندر بڑا کفر ہے، زندقہ ہے لہٰذا اس کو جلا دیا گیا۔امام غزالی رحمہ اللہ پر جو اعتراضات ہوئے ہیں ان میں سے ایک اعتراض جو بہت سے لوگوں نے بار بار دہرایا کہ امام غزّالی رحمہ اللہ کی فکر میں اور احیاء العلوم میں تصوف کے ساتھ ساتھ فلسفے کی آمیزش ہوگئی ۔ اس حوالے سے لوگابو بکر ابن العربی المالکی رحمہ اللہ کا ایک مشہور بھی نقل کرتے ہیں کہ :’’ہمارے شیخ نے تمام فلاسفہ کو نگل لیا مگر جب قے کرنے لگے تو قے کر نہیں سکے‘‘۔ بہرحال اس اعتراض کا جواب تو علماء ہی دے سکتے ہیں ہمیں نہیں معلوم کہ ان کی فکر میں کس حد تک فکر و فلسفےکی آمیزش ہوئی لیکن عبدالوہاب تاج الدین السبکی رحمہ اللہ نے ، جو امام تقی الدین السبکی رحمہ اللہ کے بیٹے تھے ، ان تمام اعتراضات کا دلیل کے ساتھ رَد کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:نہیں، ہمارے شیخ نے فلاسفہ پر حملہ کیا اور جب واپس لوٹے تو ان کے ناخن پر بھی ان کا خون نہیں پایا جاتا تھا‘‘۔ بہرحال یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے مگر اس سے امام غزّالی رحمہ اللہ کی فضیلت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
یہ امام غزّالی رحمہ اللہ کی ۵۵ سالہ زندگی کا ایک مختصرخلاصہ تھا اور جہاں تک امام غزالی رحمہ اللہ کی تعریفات کی گئی ہیں تو بہت سے علماء نے اس موضوع پر لکھا ہے ۔تفصیل سے دیکھنا ہو تو امام غزّالی رحمہ اللہ کا سب سے طویل تعارف اور ترجمہ ، امام عبدالوہاب تاج الدین السبکی رحمہ اللہ کی مشہور کتاب طبقات الشافعیة میں پایا جاتا ہے ۔ جس کی چھٹی جلدمیں ،امام غزّالی رحمہ اللہ کے حالات تفصیل کے ساتھ موجود ہیں۔مختصراً دیکھنا ہو تو امام ذہبی رحمہ اللہ کی’’سیرأعلام النبلاء‘‘میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ مولانا ابو الحسن علی الندوی رحمہ اللہ کی کتاب ’’تاریخِ دعوت و عزیمت‘‘ کی جلد اول میں بھی امام غزّالی رحمہ اللہ پر گفتگو پائی جاتی ہے۔