عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِﷺ:(( إِنَّمَا سُمِّيَ القَلْبَ مِنْ تَقَلُّبِهِ إِنَّمَا مَثلُ القَلْبِ مَثَلُ رِيشَةٍ بالفَلاةِ تَعَلَّقَتْ فِي أصْلِ شَجَرَةٍ يُقَلِّبُها الرّيحُ ظَهْراً لِبَطْنٍ))(صحیح الجامع الصغیر، مسند احمد)
سیدنا ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:’’ دل کو قلب کا نام اس کی صفت تَقَلُّب کی وجہ سے دیا گیا ہے، بے شک قلب کی مثال ایسے پتے کی طرح ہے جو ایک صحرا میں کسی درخت کے تنے سے جڑا ہوا ہو، جسے ہوا بار بار الٹا سیدھا کرتی رہتی ہے‘‘۔
عربی زبان کے سہ حرفی مادے( ق ل ب ) میں ایک حال سے دوسرے حال میں چلے جانے کا مفہوم پایا جاتا ہے جیسے لغت عرب میں (قَلِّب الصفحة) کا ترجمہ ہو گا ’’ اس نے کتاب کا صفحہ پلٹا ‘‘۔ اسی مادہ لغوی سے تَقَلُّب کا لفظ بنا ہے جس کا معنی بھی تغیر و تبدل ہی ہے اور اسی سے دل کے لیے اسم ’’ قَلب ‘‘ وضع ہوا ہے۔ منشاے کلام نبوی یہ ہے کہ یہ وضعِ اسم ، مسمٰی کی صفت کے مطابق ہی ہوا ہے کہ جیسے دلی کیفیات بدلتی رہتی ہیں اسی طرح دل کے لیے نام بھی وہ وضع ہوا جس میں تغیر و تبدل کا مفہوم پایا جاتا ہے۔پتے کی مثال کا مفاد یہ ہے کہ انسان کا دل خارج کے خواطر و حوادث کا اثر بہت جلدی قبول کرتا ہے۔ جس طرح کھلے میدان میں درخت کے تنے کے ساتھ لٹکتا پتا ، مستقل ایک رخ پر نہیں رہ سکتا بلکہ ہواؤں کے زیر اثر وہ کبھی سیدھا ہوتا ہے اور کبھی الٹا ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح انسان کے دل کو بھی کسی ایک جانب قرار نصیب نہیں ہوتا بلکہ خارجی عوامل کے تحت وہ ہر لمحہ اپنے رخ کو بدلنے پر تیار رہتا ہے۔ مثال میں بیان کردہ پتے کے ایک حال پر برقرار رہنے کے لیے ہوا کے مقابلے میں کسی دوسرے عامل کی ضرورت ہے مثلا کوئی ہاتھ جو اسے مسلسل سیدھا پکڑے رکھے تاکہ ہوا ،اسے الٹَا نہ سکے ۔اسی طرح انسانی دل کو سیدھا رکھنے کے لیے مسلسل محنت کی ضرورت ہے ۔ صاحب قلب کو چاہیے کہ اس کی حفاظت پر بہت زیادہ دھیان رکھے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ دل میں ہر وقت اللہ تعالیٰ اور آخرت کی یاد کو بسایا جائے ۔ ایسی صحبت اور ان امور کو اختیار کیا جائے جو دل کو آخرت اور خدا کی جانب متوجہ رکھیں اور اِن سے مشغول کرنے والی صحبت اور امور سے خود کو بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔