اللہ کے محبوب حضرت محمد مصطفیﷺ اپنے صحابہ کرام سے بھی محبت کا تعلق رکھتے تھے۔ آپﷺنے ، ابو امامہ الباہِلی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لیا ہوا تھا اور فرماتے تھے:((یا أَبَا أُمَامَةَ إِنَّ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ مَنْ يَلِينُ لِي قَلْبُهُ))’’اے ابو امامہ بے شک وہ ایمان والوں میں سے ہے جس کا دل میرے بارے میں نرم ہے‘‘(مسند احمد)اظہارِ الفت کے ساتھ آپﷺنے ایمان کی ایک نشانی کی طرف اشارہ بھی فرما دیا ۔ لیکن اسے قدرے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔انسانی دل منبع جذبات ہے ۔ جب یہ جذبات کسی کی جانب متوجہ ہو کر اس کی ذات سے متعلق ہوجاتے ہیں تو دل میں اس ذات کی طرف ایک خاص قسم کی کشش اور رغبت پیدا ہوتی ہے جسے دل کی نرمی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ انسان کے ایمان کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے کہ اس کے دلی جذبات کی ڈور ،ذاتِ رسولﷺسے منسلک ہو اور اس کے شَغافِ قلب پر محبت رسولﷺکا برقیہ پایا جائے ۔ محبت کبھی تنہا نہیں بلکہ ہمیشہ کسی دوسری محبت کے سہارے ہی چلتی ہے ۔ جس طرح گھروں کے دروازے ہوتے ہیں جن سے داخل ہوا جاتا ہے اسی طرح محبت کے بھی دروازے ہوتے ہیں جن سے وہ دل میں گھر کرتی ہے اور جب محبت دل کے راستے رگ وپے میں سرایت کر جائے تو اگرچہ مجازی طور پر کہا جاتا ہے کہ انسان محبت میں داخل ہوا لیکن درحقیقت محبت انسان کے دل میں داخل ہوتی ہے ہاں اس کا یہ ’’ دَخلہ‘‘ اتنا گھمبیر ہوتا ہے اور وہ دل میں گھر کر کے جان و تن پر اس طرح چھاتی ہے کہ بندے کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے ۔ تب بندے کی حالت دھندمیں لپٹے ہوئے پھول کی سی ہوتی ہے کہ دھند اس پر چھائی ہے لیکن اس کا چھایا اتنا بڑا ہے کہ پھول اس میں داخل نظر آتا ہے۔
بہرحال محبت رسولﷺکا سہارا ، اور حُبِ رسولﷺکا دروازہ ، اللہ تعالی کی محبت کے سوا کچھ نہیں ۔ اس کا اشارہ اس حدیث میں ملتا ہے کہ فرمایا:((أَحِبُّونِى بِحُبِّ اللَّهِ))(سنن ترمذی)’’مجھ سے محبت کرو اللہ کی محبت کی وجہ سے‘‘اس میں تفصیل یہ ہے کہ انسان جب اپنے خالق و مالک کو پہچان لیتا ہے اور وہ یہ جان لیتا ہے کہ اسے اس کے مالک نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ۔اب رب کی مرضی یہ ہے کہ تم صراط مستقیم پر سفر کر کے میرا قرب حاصل کرو اور جب تم ایک خاص حد تک ہمارا تقرب حاصل کر لو گے تو میں تمہیں اپنے قریب پائی جانے والی سچی بیٹھک یعنی جنت میں اس طرح آباد کر دوں گا کہ وہاں سے نہ نکلنا ہو گا اور نہ نکالا جانا ،وہاں کی نعمتیں نہ مقطوع ہوں گی نہ ممنوع بلکہ ہر گزرتے پل کے ساتھ وہ مرفوع ہوتی جائیں گے اور ان سے فیض یاب جنتی بھی رفعتوں کی منزلوں پر منزلیں مارتا رہے گا! تو جب انسان میں عقابی روح بیدار ہو گئی اور ’ منزل ِ ما کبریاست‘ کے مصداق انھیں اپنی منزل آسمانوں میں نظر آنے لگی تو وہ﴿ إِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ﴾(الشوری:۵۲)’’اےنبی بے شک آپ ضرور سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرنے والے ہیں‘‘ کے مصداق اس راستے کے راہنما کے طور پر رسول اللہﷺکو جان لیتا ہے ۔ وہ سمجھ لیتا ہے کہ عبادت کے طریقے ، بندگی کے سلیقے سکھانے اور صراط مستقیم کے دریچے دکھانے کا احسان محمد رسول اللہﷺہی تو کر رہے ہیں ۔ معرفت رسول کا یہی وہ مقام ہے جس سے محرومی پر ان الفاظ میں تنبیہ کی گئی :﴿أَمْ لَمْ يَعْرِفُوا رَسُولَهُمْ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ﴾(المومنون :۶۹)’’ کیا انھوں نے اپنے رسول کو نہیں پہچانا کہ وہ ان کے انکاری ہو رہے ہیں‘‘اور اسی معرفت کا ثمرہ محبت ان الفاظ میں بیان کیا گیا کہ:((مَنْ خَالَطَهُ مَعْرِفَةً أَحَبَّهُ))(سنن ترمذی)’’جو آپ سے اختلاط کرتا معرفت کے ساتھ تو وہ آپ سے محبت کرنے لگتا ‘‘۔تو اللہ کی پہچان بطور منزل کے اور رسول اللہﷺکی پہچان بطور ، نشانِ منزل کے ہو جائے تو ان دونوں کی محبت دل میں پیدا ہو جاتی ہے:((مَنْ كَانَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا ))(متفق علیہ)’’ جس کو اللہ اور اس کا رسول سب سے بڑھ کر محبوب ہو جائیں ‘‘ اگلی بات یہ ہے کہ یہ دونوں محبتیں مطلوب بھی اپنی پوری شدت کے ساتھ ہیں۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ﴾(البقرہ:۱۶۵ )’’جو ایمان والے ہوتے ہیں وہ اللہ کی محبت میں بہت شدید ہوتے ہیں‘‘اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں:((لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ))(متفق علیہ)’’تم میں سے کوئی ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے والد ، اس کی اولاد اور دیگر تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوجاؤں‘‘۔
’’ دور ، رہ کر تمھیں اور بھی زیادہ چاہا ‘‘کے مصداق دوری سے محبت میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔اس لیے کہ بعض عارفین کے کلام سے مستفاد ، محبت کی تعریف یہ بھی ہے کہ’’محبت اس سوز و تپش کو کہتے ہیں جو محبوب کے مفقود ہوجانے سے پیدا ہوتی ہے‘‘ تو جب انسان دیکھتا ہے کہ محبوب سے دوری ہے اور ہمکناری میں دشواری ہے تو عشق کی شمع فروزاں کی لو کو تیز کرنے کے سوا وہ کر ہی کیا سکتا ہے تو پھر یہی کچھ کرتا ہے۔ چنانچہ حضورﷺکے پردہ فرمانے کے بعد آپﷺکے امتیوں میں محبت کا سوز و ساز آپ کے اُن امتیوں سے زیادہ ہوتاہے جنھوں نے آپﷺکو سر کی آنکھوں سے دیکھا ۔ مکرر سمجھ لیں ہم ہر گز یہ نہیں کہتے کہ بعد والوں کی محبت رسول ، صحابہ کرام کی حب رسول سے زیادہ ہوتی ہے ۔’’ قدر نبی دی جانن والے سو گئے وچ مدینے‘‘ !! صحابہ نے تو معرفت و محبت رسول کی انت کر دی کہ ان سے زیادہ محبت اب کی جا نہیں سکتی ۔ ہمارا کہنا یہ ہے دوری کے اصول کے تحت بعد والوں کی محبت کے اظہار میں شدت پیدا ہو جاتی ہے یعنی’’ ظرف کے فرق سے آواز بدل جاتی ہے‘‘!!
محبت کے اس اصول سے ناواقفی کی وجہ سے یار لوگ ان بعد والوں کی بعض بد اعمالیوں کو دیکھ کر ان کی محبت پر سوال اٹھاتے ہیں اور ایسے تبصرے کرتے ہیں کہ دیکھیں جی ابو بکر اور عمر (رضی اللہ عنہما ) کا عشق تو ایسا نہ تھا ۔ ’’ یہ رازِ محبت ہے پیارے تم رازمحبت کیا جانو‘‘ عشق رسول کی چوٹ حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کے دل پر بھی وہی پڑی تھی جو بعد والوں کے دل پر پڑی لیکن ظرف اور ساتھ ہی ’ ظرفِ زمان و مکان کے بدلنے سے آواز بدل گئی ہے۔ محبوب حقیقیﷺ، عام محبوبوں کے طرح محبت سے ناواقف نہیں تھے اس لیے انھوں نے محبت کےاس اصول کی طرف اشارہ کیا :((مِنْ أَشَدِّ أُمَّتِى لِى حُبًّا نَاسٌ يَكُونُونَ بَعْدِى يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ رَآنِى بِأَهْلِهِ وَمَالِهِ))(صحیح مسلم )’’میری امت میں مجھ سے شدید ترین محبت کرنے والے لوگ وہ ہوں گے جو میرے بعد آئیں گے ان میں سے ہر ایک تمنا کرے گا کہ کاش وہ اپنے اہل و عیال اورمال و دولت قربان کر کے کسی طر ح مجھے دیکھ پاتا ‘‘۔
دور ی زمان و مکان کے علاوہ مقام کی بھی ہوتی ہے ۔ یعنی آج کل کے تمام امتی زمانی اور مکانی اعتبار سے آپﷺسے دور ہیں ۔ لیکن بعض لوگ اپنی نیکو کاری کے سبب ایک معنوی قرب آپﷺسے رکھتے ہیں جبکہ ان کے برعکس بعض لوگ اپنی بداعمالیوں کے سبب اس معنوی قرب سے بھی محروم ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ گویا مقام رسول عربیﷺسے دور ہیں ۔ ان لوگوں کی دوری دوسروں سے دو چند ہے ۔ چنانچہ ان کی محبت کے اظہار میں شدت بھی دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ہو جاتی ہے۔ آخر کوئی جذبہ تو تھا جو جگر مراد آبادی جیسے بلا نوش کو نعتیہ مشاعرے میں شرکت سے پہلے مے کشی سے توبہ کرا دیتا ہے ۔ وہ کوئی کسک تو تھی جو اختر شیرانی کو عین حالت نشہ میں ذکر ذات رسولﷺپر سسکا دیتی ہے؟ کوئی محبت تو تھی کہ جس کے تحت علَم دین غزوہ محبت میں کود کر غازی و شہید کے رتبے پر اس طرح سرفراز ہوتا ہے کہ علامہ کو کہنا پڑا ’’ اسی گلاں کردے رہ گئے تے ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا ‘‘!!
عام طور پر محبت کو دو طرفہ کہا جاتا ہے گویا یہ دو فریقی ہے لیکن حقیقت میں یہ سہ فریقی ہے۔ محبت میں محب اور محبوب جتنا ضروری ہیں ۔ اتنا ہی ضروری رقیب بھی ہے ۔ چنانچہ بعض مجازی عاشقوں نے رقیب سے خطاب بھی کرنا چاہا : ’’ آ کہ وابستہ ہیں اس حُسن کی یادیں تجھ سے‘‘ تو محبوب کی رفاقت و محبت کے ساتھ ساتھ رقیب سے رقابت بھی ضروری ہے ۔ اگر آپ کسی سے محبت کرتے ہیں تو اس کے مخالف سے نفرت بھی ضرور کریں گے۔ یہ اصو ل ہر محبت میں کار فرما ہے ، مجازی ہو چاہے حقیقی۔!! دونوں ایک حدیث میں آتا ہے :((إِنَّ أَوْثَقَ عُرَى الْإِيمَانِ: الْمُوَالَاةُ فِي اللهِ وَالْمُعَادَاةُ فِي اللهِ وَالْحُبُّ فِي اللهِ وَالْبُغْضُ فِي اللهِ))(صحیح الجامع)’’ ایمان کی مضبوط کنڈا یہ ہے اللہ کی خاطر دوستی اور اللہ کی خاطر دشمنی کرنا اور اللہ کی خاطر محبت اور اللہ کی خاطر نفرت کرنا ہے‘‘ایک حدیث میں فرمایا((مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ وَأَبْغَضَ لِلَّهِ وَأَعْطَى لِلَّهِ وَمَنَعَ لِلَّهِ فَقَدِ اسْتكْمل الْإِيمَان ))(سنن ابی داؤد)’’ جس نے اللہ کے لیے محبت کی اور اللہ ہی کے لیے نفرت کی ، اللہ ہی کے لیے دیا اور اللہ ہی کی خاطر روکا تو اس نے اپنے ایمان کی تکمیل کی‘‘۔
تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ دوستی کے ساتھ دشمنی اور محبت کے ساتھ نفرت کا لفظ بھی لایا جا رہا ہے اس لیے کہ روشنی کو اندھیرے ہی سے پہچانا جاتا ہے۔ بطور مثال نیوٹن کے تیسرے قانون حرکت کو بھی لینے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ہر عمل کا رد عمل ، قوت میں عمل کے برابر لیکن سمت میں مخالف ہوتا ہے ‘‘تو انسان اللہ سے جتنی زیادہ محبت کرے گا تو اس کے مخالف سے اس کی نفرت بھی اتنی ہی شدید ہو گی:
محبت ہو تو بے حد ہو، جو نفرت ہو تو بے پایاں کوئی بھی کام کم کرنا مجھے ہر گز نہیں آتا
تو عام طور پر اللہ تعالی سے محبت کرنے والا اور اللہ کی خاطر دوسروں سے الفت کرنے والا ، اللہ ہی کی خاطر کسی سے نفرت و عداوت کا شدید مظاہرہ بھی ضرور کرے گا ۔ الا یہ کہ اس کا دعوی محبت جھوٹا ہو یا یہ کہ اس کی شخصیت دوغلی و دہری ہو یا نفسیاتی طور پر وہ بیمار ہو :
ہو حلقہ ٔیاراں تو بریشم کی طرح نرم رزم ِحق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
اب اس فرمان رسولﷺکی طرف آتے ہیں جس سے ہماری بات شروع ہوئی تھی کہ ’’مومن وہ ہے جس کا دل ہمارے لیے نرم ہے‘‘ تو جس کا دل رسول اللہﷺکے لیے نرم ہو گا تو اس کا دل رسول اللہﷺکے مخالفوں کے لیے سخت بھی ضرور ہوگا ۔ جس کا دل رسول اللہﷺکے لیے زیادہ نر م ہوگا اس کا دل مخالف رسول کے لیے زیادہ سخت ہو گا ۔ جو اللہ کے رسولﷺکی محبت میں پختہ ہو گا وہ دشمن رسول کی نفرت میں بھی پکا ہو گا ۔ جس کے دل میں عشق رسولﷺکی شمع دہک رہی ہو گی اس کے دل میں شاتم رسول کے خلاف نفرت کا الاؤ بھی ضرور بھڑک رہا ہو گا۔ سوال ہے کہ دورِ پیغمبر سے سینکڑوں سال کی دوری پر کھڑا ، ایک امتی جو اپنے حضور کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے جان و مال قربان کرنے پرآمادہ ہے تو کیا وہ اپنےپیغمبر کی توہین پر خاموش رہے گا ؟ کیا وہ توہین کرنے والوں اور ان شاتموں کی دوستی کا دم بھرنے والوں سے آمادہ پیکار نہ ہو گا ۔’’دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا ‘‘ تو اپنی جان نچھاور کرنے پر تیار ہو نا اور جان نچھاور کر دینا کوئی نئی بات نہیں۔
جس طرح اللہ نے کسی شخص میں دو ، دل نہیں رکھے ، جس طرح کسی انسان کی دو مائیں نہیں بنائیں۔ وہ جیسے اللہ کے نبی نے فرمایا تھا کہ رسول خدا کی بیٹی اور دشمن خدا کی بیٹی ایک گھر میں جمع نہیں ہو سکتیں اسی طر ح کسی انسان کے دل میں رسولِ عربی اور کافرِ غربی کی محبت یکجا نہیں ہو سکتیں ۔تو اسلامی ریاست کے قیام ، اللہ کے نبی سے وفاداری اور مدینہ کی خاکروبی کا دعوی بھی ہو اور فرانس اور اہل مغرب کی چاکری و پرستاری بھی جاری رہے تو خوشامدیوں اور سرپرستوں کی ناجائز حمایتوں کے باوجود یہ آپ کے جھوٹے کارناموں میں ایک روشن کارنامے کے سوا کچھ نہیں۔روایتوں میں آتا ہے کہ جب صاحب بدعت کی تعظیم کی جائے تو اللہ کا عرش کانپ اٹھتا ہے تو اندازہ کریں صاحب سب و شِتَم کی تعظیم کرنے پر اللہ کاغضب کتنا بڑھکتا ہو گا اور تخت الہٰی کیسے کانپ اٹھتا ہو گا اور اللہ کے تخت کے اضطراب پر آپ اپنے تخت کی کا ثبات دیکھ رہے ہیں تو دیکھتے رہیں لیکن ہمیں تو آپ کا تختہ نظر آتا ہے!!
معیشت کی خرابی کا بہانہ ، نیا نہیں پرانا ہے،لوگ پہلےبھی اس بہانے کی آڑ میں اپنے خبث باطن کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن قرآن پاک میں انھیں بیمار ذہنیت کا حامل قرار دیا گیا ہے:﴿فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَى أَنْ تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ﴾(المائدہ :۵۲)’’تم ان لوگوں کو دیکھو گے کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ بھاگم بھاگ اُن میں گھستے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ ہمیں گردش زمانہ کا ڈر ہے‘‘۔اس مریضانہ سوچ کو ترک کر کے اصل میں یہ اعلان کرنا چاہیے کہ ان لوگوں سے ہمارے تعلقات نہیں رہ سکتے جو ہمارے دین اور پیغمبر کی ہنسی اڑاتے ہیں:﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاءَ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ﴾(المائدہ : ۵۷) ’’ اے اہل ایمان ، اہل کتاب اور کافروں کے ان لوگوں کو اپنا دوست نہ بناؤ جنھوں نے تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنا رکھا ہے۔اگر تم واقعی ایمان والے ہو تو پھر اللہ کا تقوی اختیار کرو ‘‘۔
اگر ہم دو رنگی ترک کر کے غیرت دینی کا مظاہرہ کرنےمیں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ہماری معاشی بدحالی کو بھی دور کر دے گا ۔ اس لیے کہ وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ (المنافقون :7)’’ آسمانوں اور زمینوں کے خزانے اللہ ہی کے لیے ہیں لیکن منافقین اس کی سمجھ نہیں رکھتے ‘‘۔
اہلِ مکہ کی معیشت کا انحصار حاجیوں کی آمد پر تھا ، حکم ہوا کہ مشرکین حرم کے نزدیک نہ آنے پائیں ۔ شیطان سے بعید نہ تھا کہ مسلمانوں کے دلوں میں خرابی معیشت کا وسوسہ ڈالتا تو اللہ تعالی نے اہل ایمان کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا :﴿وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ إِنْ شَاءَ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ﴾ (توبہ :۲۸)’’ اور اگر تم تنگدستی کا خوف رکھتے ہو تو عنقریب اللہ تمھیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا اگر وہ چاہے گا اور بے شک اللہ علم و حکمت والا ہے‘‘۔