فتاویٰ یسئلونک
دارالافتاء، فقہ اکیڈمی
سوال: ایک روایت ہے کہ عامر بن سعد کہتے ہیں کہ میں ایک شادی میں قرظہ بن کعب اور ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہما کے پاس پہنچا، وہاں لڑکیاں گانا گارہی تھیں، میں نے کہا: آپ دونوں رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں اور اہل بدر میں سے ہیں، اور یہ کچھ (گانا) آپ کے سامنے ہورہا ہے؟ تو انھوں نے فرمایا: اگر چاہو تو ہمارے ساتھ بیٹھ کر سنو اور چاہو تو چلے جاؤ، ہمیں شادی کے موقعے پر لہو کی رخصت دی گئی ہے۔ کیا یہ روایت مستند ہے؟ اور اگر مستند ہے تو اس کی وضاحت فرمادیں۔
جواب:سوال میں جس روایت کا ذکر کیا گیا ہے وہ سنن نسائی میں منقول ہے۔
عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى قُرَظَةَ بْنِ كَعْبٍ، وَأَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، فِي عُرْسٍ، وَإِذَا جَوَارٍ يُغَنِّينَ، فَقُلْتُ: أَنْتُمَا صَاحِبَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمِنْ أَهْلِ بَدْرٍ، يُفْعَلُ هَذَا عِنْدَكُمْ؟ فَقَالَ: اجْلِسْ إِنْ شِئْتَ فَاسْمَعْ مَعَنَا، وَإِنْ شِئْتَ اذْهَبْ، قَدْ «رُخِّصَ لَنَا فِي اللَّهْوِ عِنْدَ الْعُرْسِ» (سنن النسائی، کتاب النکاح، اللهو والغناء عند العرس)
ترجمہ: حضرت عامر بن سعد فرماتے ہیں کہ میں حضرت قرظہ بن کعب اور حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہما کے پاس ایک شادی میں پہنچا، تو وہاں بچیاں گارہی تھیں، میں نے کہا: آپ دونوں رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں اور اہل بدر میں سے ہیں، اور یہ (گانا) آپ کے سامنے ہورہا ہے؟ تو انھوں نے فرمایا: اگر چاہو تو ہمارے ساتھ بیٹھ کر سنو اور چاہو تو چلے جاؤ، ہمیں شادی کے موقعہ پر لہو کی رخصت دی گئی ہے۔
عربی زبان میں غنا کا لفظ صرف گانے کےلیے استعمال نہیں ہوتا، بلکہ ایک حدیث میں قرآن کریم کو خوبصورت آواز اور اچھے انداز سے پڑھنے کےلیے بھی غنا کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں روایت ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ. (صحيح البخاري، كتاب التوحيد)
ترجمہ: جو قرآن کریم کو خوش الحانی سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں۔
ابن جوزی رحمہ اللہ نے غناکے مختلف معانی بیان فرمائے ہیں، جن میں آواز کی خوبصورتی، مشغول ہونا اور لذت حاصل کرنا بھی شامل ہیں۔ وقال ابن الجوزي: اختلفوا في معنى قوله: ’’ يتغنى ‘‘ على أربعة أقوال: (أحدها): تحسين الصوت. (والثاني): الاستغناء. (والثالث): التحزن. قاله الشافعي. (والرابع): التشاغل به، تقول العرب: تغنى بالمكان أقام به. قال الحافظ: وفيه قول آخر، حكاه ابن الأنباري في ’’ الزهر ‘‘ قال: المراد به التلذذ، والاستحلاء له. (ذخيرة العقبى، كتاب الامامة، تزيين القرآن بالصوت)
اس لیے سنن نسائی کی روایت میں موجود لفظ غناء سے (ناجائز) گانے والا معنی مراد نہیں لیا جاسکتا۔
ذخیرۃ العقبی میں اس روایت کی تشریح میں حضرت قرظہ بن کعب اور حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہما کے جواب کا خلاصہ اور حاصل یہ بتلایا ہےکہ بچیاں جو گارہی تھیں وہ اس گانے کے حکم میں نہیں ہے جو دین اسلام میں ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ ورنہ بدری صحابہ کرام رضی اللہ عنہما (جنھیں اللہ نے خصوصی شرف سے نوازا ہے )وہ باوجودیکہ انھیں تنبیہ کی گئی، کیسے جان بوجھ کر گناہ کی مجلس میں شریک رہ سکتے تھے۔
حاصل جوابهما أن هذا ليس من الغناء المحرم، بل هو رُخّص في مثل هذه المناسبة، حيث يُطلب إشهار النكاح، وإعلانه؛ تمييزًا بينه، وبين السّفاح، فلا ينبغي أن تنكر علينا، بل إن أعجبك، فاجلس معنا، واستمع، وإلا فاذهب حيث شئت. (ذخيرة العقبى، كتاب النكاح، اللهو والغناء عند العرس)
دوسری بات یہ کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں شادی یا خوشی کے موقعےپر پڑھے جانے والے اشعار بھی بیان کیے ہیں، جو بچیاں پڑھا کرتی تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ دف بھی بجاتی تھیں۔ ممکن ہے کہ حضرت قرظہ بن کعب اور حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہما کی موجودگی میں بھی وہی اشعار یا اسی قسم کے اشعار پڑھے جارہے ہوں اور حضرت عامر نے انھیں ناجائز سمجھ کر سوال کیا ہو۔ اور ظاہر ہے کہ یہ الفاظ ایسے نہیں کہ ان کے پڑھنے کو ناجائز کہا جائے۔
فَقَالَ فَهَلْ بَعَثْتُمْ مَعَهَا جَارِيَةً تَضْرِبُ بِالدُّفِّ وَتُغَنِّي قُلْتُ تَقُولُ مَاذَا قَالَ تَقُولُ أَتَيْنَاكُمْ أَتَيْنَاكُمْ فَحَيَّانَا وحياكم وَلَوْلَا الذَّهَب الْأَحْمَر مَا حلت بواديكم وَلَوْلَا الْحِنْطَة السمراء مَا سَمِنَتْ عَذَارِيكُمْ . (فتح الباري، كتاب النكاح، باب الانماط)
ترجمہ: (ایک انصاریہ صحابیہ فارعہ بنت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی کے موقعے پر رسول اللہ ﷺ نے) فرمایا: تم نے فارعہ کے ساتھ کوئی بچی نہیں بھیجی کہ وہ دف بجاتی اور اشعار پڑھتی، (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ) میں نے کہا: وہ کیا پڑھتی؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا:وہ یہ اشعار پڑھتی(جو بچیاں پڑھا کرتی ہیں، جس کا ترجمہ یہ ہے:) ہم تمہارے پاس آئے، اللہ تعالی ہمیں بھی برکت وسلامتی دے اور تمھیں بھی، اگر تمہارے پاس سرخ سونا نہ ہوتا تو یہ دلہن تمہاری وادی میں نہ اترتی۔ ، اور اگر سرخ گیہوں نہ ہوتے تو تمہاری کنواری بیٹیاں موٹی نہ ہوتیں۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ سوال میں جس مجلس کا ذکر کیا گیا ہے اس میں ناجائز کلمات یا ناجائز اشعار وغیرہ نہیں پڑھے جارہے تھے، جو شرعًا ممنوع ہیں، اسی وجہ سے دونوں بدری صحابہ کرام اس مجلس میں بیٹھے رہے۔ اگر ممنوع اشعار ہوتے تو دونوں حضرات اس پر نکیر فرماتے۔ لہذا اس روایت سے حرام گانوں کی اجازت یا ایسے گانوں کی محفل میں شرکت کے جواز پر استدلال نہیں کیا جاسکتا۔