نبی کریم ﷺ کی رفیقِ اعلی کی طرف مراجعت کے ساتھ ہی وحی آسمانی کا سلسلہ اختتام پذیر ہوا ۔ وحی متلو اور وحی غیر متلو کا ایک ذخیرہ آپ ﷺ چھوڑ گئے ۔ اس وحی کو تا قیام قیامت انسانوں کی ہدایت کا ذریعہ قرار دیا ہے اسی لیے یہ امانت ان تک لفظا و معنا منتقل کرنے کی ضرورت تھی ۔﴿بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ﴾کے فحوی کے مطابق علماء کو اس ذمے داری پر فائز کیا گیا۔ یہ ذمےداری اس حدیث سے بھی واضح ہوتی ہے کہ جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ﴿إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ﴾’’بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں ‘‘ اور آپ ﷺ سے یہ بھی یہ روایت ہے: ﴿وَدِدْت أَنِّي قَدْ رَأَيْت خُلَفَائِي﴾’’میری خواہش ہے کہ میں اپنے خلفا کو دیکھوں‘‘ ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے نبی آپ کن خلفا کو دیکھنا چاہتے ہیں‘‘ ؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ﴿الَّذِينَ يُحْيُونَ سُنَّتِي يُعَلِّمُونَهَا النَّاسَ﴾’’ جو میری سنتوں کو زندہ کریں گے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیں گے‘‘۔
تو صحابہ کے دور سے علماے کرام نے قرآن و سنت کو سینہ بہ سینہ آگے منتقل کر کے اپنی حفاظت دین کی ذمے داری کو ادا کیا ۔ نصوص شرعی کو آگے منتقل کرنا کافی نہ تھا بلکہ اس سے اہم تر کام یہ تھا کہ گنتی کے اعتبار سے محدود اور پس منظر کے اعتبار سے مخصوص ، نصوص کو نئی پیش آیندہ احوال پر منطبق کرتے ہوئے لوگوں کو حکم شرعی بتایا جائے ۔ یہی وہ اجتہاد ہے جس کا نہ صرف دروازہ نبی کریم ﷺ نے کھولا تھا بلکہ ایک خاص انداز میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گویا اس کی تربیت بھی دی تھی جب ریاست اسلامی میں وسعت پیدا ہونے کی وجہ سے اجتہاد کی ضرورت میں اضافہ ہوا تو تابعین و تبع تابعین میں سے کئی ایک مجتہدین نے اس میدان میں عمریں صرف کیں ،جنھیں امت نے ائمہ کرام کا لقب دیا۔ ائمہ کرام نے جب اجتہاد کیا تو بعض فروعی مسائل میں ان کے ہاں اختلاف بھی ہوا ۔ یہی وہ اختلاف ہے جسے بعض روایات میں امت کے لیے باعث رحمت قرار دیا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے لوگوں کے لیے مختلف حالات میں عمل کرنے کے لیے آسانی ہوجاتی ہے۔جیسا کہ صحابہ کرام کے دور میں اس کی کئی ایک مثالیں ملتی ہیں، مثلاً: بنو قریظہ کا مشہور واقعہ جب صحابہ کرام کو حضور ﷺ نے وہاں پہنچ کر نمازِ عصر کی ادائیگی کا کہا تھا، راستہ میں جب نماز قضا ہونے کا خدشہ ہوا تو بعض نے اصل علت کو سامنے رکھ کر راستے ہی نماز پڑھ لی اور بعض نے ظاہری الفاظ کو دیکھتے ہوئے نماز قضا ہوجانے دی اور وہاں پہنچ کر ہی نماز ادا کی۔ بعد میں جب حضور ﷺ سے پوچھا گیا تو دونوں کی تصویب فرمائی۔ اس طرح کے واقعات سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ علماء کی آراکے اختلاف کو نزاع کا باعث بنانا درست نہیں، بلکہ اس اختلاف میں بھی امت کے لیے سہولت کے دروازے کھلتے ہیں۔
اس کی مثال یہ بھی ہے کہ بنو نضیر کے محاصرے کے وقت صحابہ میں کھجوروں کے درخت کاٹنے پر اختلاف ہوا۔ بعض نے کہا کہ یہ مسلمانوں کے لیے مال غنیمت ثابت ہوں گی اس لیے ان کا کاٹنا درست نہ ہو گا جب کہ بعض نے جنگی حکمت عملی کے طور پر ان درختوں کا کاٹنا زیادہ اہم سمجھا ۔پھر جب قرآن کریم کی اس بابت آیات نازل ہوئیں تو دونوں طریقوں کو درست قرار دیا :﴿مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ﴾(الحشر:۵) ’ ’جو تم نے کھجور کا تنا کاٹا اور جسے تم نے اس کی جڑوں پہ رہنے دیا تو یہ اللہ کے اذن ہی سے تھا‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ اجتہاد کے نتیجے میں اختلاف کا ہو جانا فطری امر ہے۔البتہ یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ اُصولی اَحکام کے مسائل جن کا تعلق عقائد سے ہے یا اسی طرح وہ مسائل جن میں اہلِ سنت والجماعت کا اجماع ہو، ان میں اختلاف کرنا گم راہی ہے اور ذکر کردہ ’’رحمت‘‘ کے تحت شامل نہیں ہے۔
یہ تو خیر عملی مسائل پر اختلاف تھا لیکن بعض مرتبہ علمی اعتقادی مسئلہ پر بھی اختلاف ہو جاتا ہے ۔ خیرالقرون میں اس کی مثالیں موجود ہیں جیسے یہ بحث کہ مردے اپنے زندہ لوگوں کی آواز سنتے ہیں کہ نہیں یا یہ بات کہ میت پر اس کے ورثا کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے کہ نہیں یا یہ امر کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا یا نہیں۔ ان مسائل میں دونوں جانب بڑے بڑے لوگوں کی آرا موجود ہیں ۔
اہل سنت کے ان اختلافات کی بہترین مثال انبیاے کرام کی شریعتوں کا اختلاف ہے ۔ یہ معلوم ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری رسول حضرت محمد ﷺ تک سب انبیا کا اصول دین ایک ہی تھا اور وہ اللہ کی عبادت تھا:﴿شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ﴾(الشوریٰ:۱۳)’’اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ طے کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا، اور جو (اے پیغمبر) ہم نے تمہارے پاس وحی کے ذریعے بھیجا ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا تھا کہ تم دین کو قائم کرو، اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا‘‘۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ دین مشترک رہا اور دین کے مشترک ہونے سے مراد یہ ہے کہ اصول دین مشترک رہا ہے اور وہ اصول دین اللہ کی توحید ، اس کی عبادت اور شرک سے اجتناب ہے:﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ﴾(النحل: ۳۶ )’’اور واقعہ یہ ہے کہ ہم نے ہر امت میں کوئی نہ کوئی پیغمبر اس ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، اور طاغوت سے اجتناب کرو‘‘۔ دین اور اصولِ دین کے بعد عبادت کے طریقے یعنی شریعت میں اختلاف رہا جس کی طرف اشارہ کیا گیا ان الفاظ مبارکہ میں:﴿لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا﴾(المائدہ:۴۸) ’’تم میں سے ہر ایک (امت) کے لیے ہم نے ایک (الگ) شریعت اور طریقہ مقرر کیا ہے‘‘۔اسی کی وضاحت اس حدیث شریف میں ملتی ہے جس کے مطابق نبی کریم ﷺ نے فرمایا:﴿الْأَنْبِيَاءُ إِخْوَةٌ مِنْ عَلَّاتٍ، وَأُمَّهَاتُهُمْ شَتَّى، وَدِينُهُمْ وَاحِدٌ﴾(مسند احمد)’’انبیاے کرام باپ شریک بھائی ہیں ،ان کی مائیں (یعنی شریعتیں ) مختلف ہیں لیکن ان کا دین ایک ہے ‘‘ ۔
پس جس طرح انبیاے کرام کا دین یعنی اصول دین مشترک ہیں لیکن ا ن کے احکام و فروع میں اختلاف ہوا اور ان کی شریعتیں مختلف رہی ہیں ۔اسی طرح اہلِ سنت کے اصول دین یعنی قرآن و سنت اور اجماع کا ماخذ شریعت ہونا یہ اتفاقی بات ہے اس کے بعد ان کے اصول دین بھی اجماع سے ثابت ہیں جس طرح نبیوں کے دینوں میں کوئی اختلاف نہیں اس طرح اہل سنت کے ہاں ان اصولوں پر کوئی اختلاف نہیں جو ان اصولوں پر آ گیا وہ خالص اسلام اور اہل سنت میں داخل ہو گیا ۔ باقی جو ان کے عملی اور فروعی اختلافات ہیں تو وہ اسی طرح کا اختلاف ہے جو انبیائےکرام کی شریعتوں میں رہا ہے۔جس طرح تمام انبیائے کرام اللہ تعالی کے دین کے برحق ہونے ، لزوم عبادت اور پابندی شریعت پر متفق رہے ہیں اسی طرح ائمہ اہل سنت کے ہا ں شارع اور مأخذ شریعت ایک ہی ہے البتہ نصوص کے فہم اور اس سے مسائل کے أخذ کرنے میں ان کا اختلاف ہوا جو فروعات کے متعلق ہے اور اتحاد امت کے منافی نہیں ہے ۔
جب اہلیت کے حامل مجتہدین نے اپنی صلاحیت کے مطابق محنت سے اجتہاد کیا اور کسی نتیجے کو پہنچے جو اصلا مختلف تھا دوسرے مجتہد کی رائے کے تو بعض لوگ نے دونوں کو مصیب گردانا اس لیے کہ انہوں نے اپنی استطاعت کے بقدر خدائی تقاضا پورا کر دیا لیکن جمہور اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ اجتہاد میں اختلاف کرنے والے مجتہدین میں سے نفس الامر کے مطابق ، عند اللہ ایک ہیمجتہد اپنے اجتہاد میں مصیب ہے اور دوسرے کو مُخطی کہا جائے گا۔ مجتہد مصیب کے لیے دوہرا اجر ہے جبکہ مجتہد مُخطی کو اپنی خطا میں کوئی گناہ نہیں بلکہ اس کے لیے اکہرا ، اجر ہے ۔
علماء و مشائخ کا اجتہاد ایک اعتبار سے پیغمبروں کے اجتہاد کے برابر ہے اور ایک اعتبار سے ان میں فرق ہے ۔ اپنی حجیت اور لزوم اتباع کے اعتبار سے ، معصوم(انبیاےاکرام) اور غیر معصوم(ائمہ اکرام) دونوں کے اجتہاد برابر ہیں کہ دونوں کے اجتہاد کی پیروی شرع میں لازم کی گئی ہے۔ البتہ صحت کے اعتبار سے علماء کا اجتہاد پیغمبروں کے اجتہاد سے مختلف ہے کہ انبیا خدائی حفاظت سے معصوم ہوتے ہیں ، ان کے اجتہاد میں خطا کا احتمال نہیں ہوتا ہے۔
بعض اوقات مجتہدین کی آرامیں اختلاف کا ایک سبب یہ ہوتا ہے ایک مجتہد کو کوئی ایسی روایت ملتی ہے جو دوسرے کو نہیں ملتی اور بسا اوقات کسی آیت یا کسی حدیث کی تفسیر میں اختلاف ہوتا ہے جس کے نتیجے میں مجتہدین کے درمیان فروعات میں اختلاف ہو جاتا ہے۔ مجتہدین کے اختلاف کی وجوہات کثیر ہیں جن کا احاطہ یہاں پیش نظر نہیں ہے۔ یہ جان لینا چاہیے کہ فقہاے کرام کا یہ اختلاف اس آیت کے منافی نہیں ہے کہ جس میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ دین قائم کرو اور آپس میں تفرقہ نہ کرو اس لیے کہ اس آیت میں دین کے اصول میں اختلاف کو تفرقہ کہا گیا ہے ناکہ فروع میں اختلاف کو اور اس لیے بھی کہ فروعات میں اختلاف کرنے والے مجتہدین اصولی طور پر کتاب و سنت اور مصادر ِ شریعت پر متفق ہوتے ہیں۔ تو حقیقت یہ ہے کہ ان کے اختلاف کو تفرقہ قرار دینا درست نہیں ہے ۔
البتہ اگر مجتہدین کا کسی امر پر اجماع ہو جائے تو وہ اجماعی موقف چاہے اجتہاد ہی کے نتیجے میں وجود میں آیا ہو ، گمراہی اور غلطی سے محفوظ ہو گا کیونکہ قرآن و سنت اس بات پر شاہد ہیں کہ امت کے علماء گمراہی پر جمع نہیں ہوں گے۔ ہم نے مجتہدین کا جو اجر بیان کیا کہ مصیب ہونے کی صورت میں دہرا جبکہ مُخطی کو اکہرا ، اجر ملے گا تو یہ اس صورت میںملے گا جب وہ حتی المقدور ، درست رائے تک پہنچنے کے لیے اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اجتہاد کریں گے نہ کہ اپنے نفس کی تسکین کے لیے ،اور ان کا مقصد ، اللہ وحدہ و لاشریک کی عبادت اور کتاب و سنت کا اتباع ہو تو بلاشبہہ یہ اجتہاد انبیاے کرام علیہم السلام کے منہج کے مماثل اور لائق اجر و ثواب ہے ۔ مجتہد کو چاہیے کہ وہ اپنے اجتہاد کے موافق حق بات بیان کرے ایسی حق بات جس پر خطا کے احتمال کے باوجود عمل واجب ہے ۔ البتہ کسی مجتہد کے لیے یہ بات درست نہیں کہ وہ دوسرے مجتہد پر اپنی اطاعت واجب کرے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ دوسرے مجتہد کو کوئی ایسی ظاہر دلیل مل گئی ہو جو پہلے مجتہد پر مخفی رہ گئی تھی۔ اختلافی مسائل میں صحابہ کا یہ طرز عمل تھا کہ وہ غیر منصوص شدہ احکام میں اپنے فریق کی کی اجتہادی آراکو تسلیم کرتے تھے۔
حاصل یہ ہے کہ ہر ایک کو ہر حال میں اللہ کی رضا مطلوب رہے اور ہر موقع کے مطابق اللہ تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری بجا لائے ۔ جو کوئی اجتہاد کا اہل ہو تو وہ اپنے اجتہاد میں اللہ کے اوامر کا خیال رکھے اور جو کئی اجتہاد کا اہل نہیں ہے تو کسی مجتہد کی تقلید عدل کے ساتھ کرتا رہے۔ ایسا کرنے والے درمیانی راہ پہ چلنے والے شمار کیے جائیں گے کیونکہ اللہ تعالی کسی شخص کو اس کے مقدور سے زیادہ کا مکلف نہیں ٹھراتا۔ لوگوں کو چاہیے کہ اس اصول پر غور کریں کہ یہ ایک عظیم اور نافع اصول ہے۔
( مستفاد من فتاوی ابن تیمیہ )