فتاویٰ یسئلونک
دارالافتاء، فقہ اکیڈمی
سوال: السلام علیکم!شب برات کی عبادت اور روزے کے حوالے سے رہنمائی فرماديں۔
جواب:۱۵ شعبان کی شب(شبِ براءت) کے حوالے سے ہمارا معاشرہ افراط و تفریط کا شکار ہے۔بعض افراد اس رات کی فضیلت کی مطلق نفی کرتے ہیں جب کہ بعض اس رات میں ان کاموں کا ارتکاب کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جن کا قرآن و حدیث میں کوئی تذکرہ نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں طرح کے طرز عمل دو انتہاؤں کی عکاسی کرتے ہیں۔اس رات کی فضیلت کے ضمن میں دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے احادیث مروی ہیں جن میں آپﷺ نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ان میں سے بعض احادیث سنداً کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض افراد یہ خیال فر ماتے ہیں کہ اس رات کی فضیلت ثابت نہیں ، لیکن امت کے محدثین و فقہا کا فیصلہ یہ ہے کہ اگر چہ ایک روایت سند کے اعتبار سےکمزور ہو، اگر اس کی تائیدمیں بہت سی احادیث جمع ہو جائیں تو اس کی کمزوری دور ہو جاتی ہے،اورجیسا کہ عرض کیا گیا کہ اس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے روایات مو جود ہیں لہذا اس کو بے بنیاد کہنا غلط ہے۔
ان احادیث سے ثابت ہو تا ہے کہ اس رات میں عبادات انجام دینا باعثِ اجر و ثواب ہے۔لیکن یہ عبادات انفرادی نوعیت کی اور تنہائی میں ہو نی چاہییں۔ مساجد میں مجمع لگانا ، خاص طریقے کی نماز ادا کرنا ، چراغاں کرنا ،حلوہ ودیگر فضولیات کا ارتکاب بدعت کے زمرے میں شمار ہوگا ۔ ایک حدیث شریف میں ۱۵شعبان کے روزے کا ذکر ہے، حدیث سندی اعتبار سے نہایت کمزور ہے ۔لہذا سنت سمجھے بغیر اگر کوئی شخص ۱۵شعبان کا روزہ رکھ لے تو بہتر ہے، کیونکہ شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنے کی فضیلت دیگر احادیث میں وارد ہوئی ہے اور ۱۵تاریخ ایامِ بیض میں سے ہے اور ایامِ بیض کے روزوں کی بھی حدیث شریف میں فضیلت آئی ہے۔لہذا خاص پندرہ شعبان کے روزے کی فضیلت کا اعتقاد نہ ہو تو روزہ رکھ لینا بہتر اور مستحب ہے۔حدیث شریف میں ہے:’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا: جب نصف شعبان کی رات ہو تو رات کو عبادت کرو اور آئندہ دن روزہ رکھو، اس لیےکہ اس میں غروبِ شمس سے فجر طلوع ہونے تک آسمان دنیا پر اللہ تعالیٰ نزول فرماتے ہیں اور یہ کہتے ہیں ہے کوئی مغفرت کا طلبگار کہ میں اس کی مغفرت کروں؟کوئی روزی کا طلبگار کہ میں اس کو روزی دوں؟ ہے کوئی بیمار کہ میں اس کو بیماری سے عافیت دوں ؟ہے کوئی ایسا ؟ ہے کوئی؟ یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے ‘‘۔ (ابن ماجه، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في ليلة النصف من شعبان)
حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب اپنے رسالے میں پندرھویں شعبان کے روزے کے استحباب پر علماے کرام کی تصریحات اس طرح نقل فرماتے ہیں: ’’علماے حنفیہ:حکیم الامت مجدد ملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب قدس سرہ فرماتے ہیں:پندرھویں تاریخ شعبان کو روزہ رکھنا مستحب ہے۔(زوال السنہ) حضرت مفتیٔ اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع صاحب علیہ الرحمہ نے بھی اس کو پندرھویں شعبان کے مسنون اعمال میں شمار فرمایا یعنی اس کی صبح کو روزہ رکھنا مستحب ہے ۔علامہ قطب الدین محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے مشکو ۃ شریف کی شرح مظاہر حق ،جلد ۲،ص ۳۶۴پر باب صیام التطوع میں پندرھویں شعبان کا روزہ بھی شمار فرمایا ہے۔ علماے مالکیہ : (و) ندب صوم يوم النصف من شعبان لمن أراد الاقتصار(بلغة السالك لأقرب المسالك المعروف بحاشية الصاوي على الشرح الصغير للشیخ الدردیر المالکی،باب الصوم،مندوبات الصوم ) ترجمہ :یعنی شیخ دردیر مالکی علیہ الرحمہ نےپندرھویں شعبان کا روزہ مستحب قرار دیا ہے۔علماے حنابلہ :شیخ مردلوی حنبلی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ’’الانصاف‘‘میں تحریر فرمایا:شیخ ابن جوزی علیہ الرحمہ نے ’’المستوعب‘‘میں لکھا ہے کہ شعبان کے روزوں میں پندرھویں شعبان کا روزہ زیادہ مؤکدہ ہے ۔نیز ابن رجب حنبلی علیہ الرحمہ نے بھی فرمایا :پندرھویں شعبان کے روزے کا حکم خصوصیت سے آیا ہے‘‘۔(ملخص از رسالہ: شب براءت کی حقیقت، از: مفتی محمدتقی عثمانی صاحب دامت برکاتہ) اسی طرح فتاویٰ ہندیہ اور مراقی الفلاح میں بھی ۱۵شعبان کے روزے کو مستحب قرار دیا گیا ہے۔ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:’’اور جن روزوں کی ترغیب دی گئی ہے وہ مختلف ہیں، پہلا محرم کا روزہ ،دو سرا رجب کا روزہ اور تیسرا شعبان کا روزہ‘‘۔مراقی الفلاح کتاب الصوم میں ہے:’’ہر وہ روزہ جو شریعت میں مطلوب ہو اور اس پر ثواب کا وعدہ ہو وہ بھی مستحب ہوتا ہے‘‘۔ لہذا بغیر سنت کی نیت کیے پندرہ شعبان کا روزہ رکھنا درست اور باعث اجر ہے۔