۵) افادیت پسندی (Utilitarianism): ڈیکارٹ کی آمد کے بعد یعنی روح اور مادّے میں اصولی اور مستقل دوئی پیدا ہوجانے کے نتیجے میں انسان کا اپنے اور دنیا کے بارے میں جو کلاسیکی تصور تھا وہ بالکل بدل کر رہ گیا۔ روح اور مادّہ یا خداور دنیا، علم اور وجود کی بالکل لاتعلق قسموں میں بٹ کر رہ جائیں تو اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکل سکتا کہ انسان کی زندگی کے تمام قوانین اور مقاصد مابعدالطبیعی یا دینی اصول سے بالکل منقطع ہوجائیں۔جرمی بینتھم کے الفاظ میں: ’’فطرت نے ہمیں دو مختار آقاؤں کی سپرداری میں دیا ہے : لذت اور درد‘‘۔ (۱۱)
دیکارت کی فکر نے مغرب کے ذہن کو اس طرح condition کردیا کہ اس کے لیے خدا کو ماننے کا پورا عمل نہ صرف یہ کہ علمی نہیں رہا بلکہ ذہن میں اس کی مرکزیت غائب ہوجانے سے وہ دینی یا روحانی سیاق وسباق میں اخلاقی بھی نہیں رہ گیا۔ خودی کی آزاد، غیر منضبط اور نامربوط خودآگاہی ،جو عقلی سے زیادہ جبلی اور علمی سے زیادہ احساساتی تھی، اس نے وجود کی نفسیاتی معنی میں بھی subjective structuring کو کچھ ایسا بنادیا کہ انسان کے لیے اپنی حقیقت اور غایت کو اپنے باہر سے اخذ کرنا بہت مشکل ہوگیا۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں مادہ ہی لائق تصدیق رہ گیا ہو وہاں چیزوں کو دیکھنے کا بنیادی تناظر وہ نہیں رہتا جو مابعدالطبیعی حقائق کو ماننے سے تشکیل پاتاہے۔ حق یا حقائق کی بے مرکز subjectivization نے ذہن اور طبیعت دونوں کو محض مادیت کی طرف یکسو ہونے پر مجبورکردیا۔ بنیادی تناظر کی اس تبدیلی سے انسان نے اپنے بارے میں کچھ ایسے فیصلے کیے جن کا تعلق دین وغیرہ سے نہیں تھا۔ ان میں سے ایک فیصلہ افادیت پسندی (utilitarianism)کا تھا، یعنی ہر چیز، ہر خیال، ہر عمل کو دنیاوی پیمانے پر مفید ہونا چاہیے اور جو امر یا نظریہ دنیاوی افادیت نہیں پیدا کرتا اسے انسانی زندگی کی صورت گری کرنے والے لازمی عناصر سے نکال دینا چاہیے ۔ خدا اور انسان کے تعلق میں پہلی ہمہ گیر دراڑ یہیں سے پڑی، جس کی وجہ سے مذہب کی اعتقادی ساخت تو غائب ہوئی ہی تھی، اس کے اخلاقی اصول بھی بے مصرف قرار پائے۔ یعنی اب مادہ ہی حقیقت اور دوسروں کو خوش رکھنا،اخلاق ہے ۔ افادیت پسندی کا نظریہ اس شدت کے ساتھ مانا گیا کہ مغرب کی تقریباً تمام علمی، سیاسی، معاشی روایتیں، اس نظریے کی تصدیق کے لیے پیدا ہوئیں۔ یہ دیکھنا اب شاید زیادہ مشکل نہیں ہے کہ خدا پرستی کا سب سے مقبول متبادل دراصل یہی افادیت پرستی ہے۔اس social theory میں افادیت کا مفہوم صرف اتنا نہیں ہے کہ مادّی فوائد میسر آجائیں، بلکہ اس کا ایک نفسیاتی version بھی ہے، اور وہ ہے حصولِ مسرت،یعنی انسان کو بس ایک خوش حالی کی ضرورت ہے جو اس کے حالات اور کیفیات دونوں میں ہو۔جس طرح مادی افادیت کے امکانات لامتناہی ہیں،نفسیاتی مسرت کے ذرائع بھی غیر محدود ہیں۔اسی سے آزادی کے اس تصور کا بیج پڑا جو آج ایک بڑے درخت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے، اور یہیں سے خدا، اور آخرت سے لاتعلقی کی وہ بنیاد استوار ہوئی جس پر آج جدید مغرب نے پوری عمارت تیار کر رکھی ہے۔ مفادِ عاجلہ کے حصول کو مقصد ِزندگی بنا کر ظاہر ہے کہ آخرت اور خدا کی کوئی ضرورت نہیں رہ جاتی۔
۶) انکارِ دین (Atheism) : جب مذہبی لوگوں نے افادیت پسندی کی زمین پر بھی چلنا سیکھ لیا تو ان کے قدم اکھاڑنے کے لیے ایک زلزلہ ایجاد کیا گیا۔یہ زلزلہ تھا utilitarianism کے اصل چہرے کی رونمائی! یہ کہنا تو مشکل ہے کہ کب، مگر یہ بہرحال تیقن کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ انکار ِ دین کا رویہ افادیت پسندی کے پہلے ہی دور میں کچھ کچھ سامنے آنے لگا تھا،لیکن اس رویے کا مکمل اظہار مختلف شعبوں میں کچھ عرصے بعد ہوا۔جدیدیت کی ابلیسیت نامی مضمون میں جمال پانی پتی لکھتے ہیں:’’نشاةِ ثانیہ کے بعد مغرب میں جو تہذیب پیدا ہوئی اور وہاں سے دنیا کے دوسرے حصوں میں پھیلی وہ مکمل طور پر ایک غیر روایتی تہذیب ہے۔ جس کا مطمح نظر مادیت پرستی اور دنیا پرستی ہے۔ یہ تہذیب ان تمام آفاقی اور مابعد الطبیعیاتی اصولوں کی نفی پر قائم ہے، جو اس سے پہلے تمام روایتی تہذیبوں کی مشترک اساس تھی‘‘۔ (۱۲)
انکار ِ دین محض کلیسا کے استبداد کا ردِ عمل نہیں ہے، بلکہ اصل میں افادیت پسندی کے شجر کا پھل ہے، کیونکہ افادیت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمات و عقائد اور پھر نظری مابعد الطبیعیات کو شعور کی اقلیم سے خارج کردیا جائے، اور انسان کو یہاں تک پہنچا دیا جائے کہ وہ خدا کو اپنی نادانی اور کمزوری کا نتیجہ سمجھنے لگے۔ یہ انکارِ دین ذہن اور زندگی کے ان گوشوں میں بھی سرایت کرگیا جو neutral zones کی طرح تھے۔ یعنی ٹھیٹھ دنیاوی اور نفسیاتی علوم میں بھی کسی سمجھ میں آسکنے والے جواز و ضرورت کے بغیر خدا اور دین سے انحراف یا لا تعلقی کا رنگ داخل کردیا گیا۔مثلاً میز بنانے میں خدا کو ماننا یا نہ ماننا لازمی شرط نہیں ہے ،لیکن اس سطح پر بھی اس رویے کو گویا رچا بسا دیاگیا۔ انکار ِ دین کی ایسی روایت کے تسلسل میں جدیدیت پیدا ہوئی جس کی روح ہی انکار ہے۔شروع میں آرائشی طور پر بعض دنیاوی مسلمات کا انکار کیا گیا ،لیکن فوراً ہی بعد اس انکار کا رخ خدا، دین وغیرہ کی طرف پھیر دیا گیا۔ اب جدیدیت ایک منتخب انکار کی آزادی بن کر سامنے آئی۔ چونکہ مغرب اپنے تمام اصول و اقدار کو آفاقی بنانے میں بہت حد تک کامیاب چلا آرہا ہے لہٰذا اہل دین کو انکار ِ دین کے اس مزاج کو ،جسے مغرب ِ جدید میں پیدا ہونے والے تمام علوم کی پشت پناہی حاصل ہے،نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور اس کا سامنا کرنے کے لیے درکار وسائل کا پورا شعور اور استطاعت حاصل کرنی چاہیے۔ سردست اسے ایک کلامی اور منطقی مبحث سمجھ کر جو طبع آزمائی کی جارہی ہے ، ایک تو اس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں اور دوسرے وہ اس مزاج کو مزید تقویت پہنچا رہی ہے۔ اس زہریلے سیلاب سے بچنے کے لیے زندگی اور اس کے مؤثرات پر جس طرح کی قدرت درکار ہے وہ فی الحال کہیں نظر نہیں آتی۔ ہم انکارِ دین کو ایک مجموعۂ استدلال سمجھ کر اس کی تردید کی اَن گھڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ گویا ایسی تیراندازی ہے جو دشمن کے مخالف رخ پر کی جارہی ہے۔
لبالب شیشہ تہذیب حاضر ہے مئے لاسے | مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ اِلّا |
جدیدیت اپنے تازہ ترین بیانیے میں خدا کا منکر بنانے سے دلچسپی نہیں رکھتی، یہ خدا سے لاتعلق رہنے پر اصرار کرتی ہے۔یہ دین کو محض ایک انفرادی مسئلہ منوا کرخدا کو ماننے کی رعایت دیتی ہے ۔یہ دینی تناظر میں جدیدیت کا خلاصہ ہے کہ چاہو تو اس طرح خدا کو مان لو، اجتماعی زندگی سے اسے بے دخل کر کے۔اس سے پیدا ہونے والا نظامِ علم و معاشرت ایسا ہوچکا ہے کہ خدا کو ماننا بس ان لوگوں کا مسئلہ رہ گیا ہے جو جدیدیت کے معیارِ آدمیت کے حساب سے کم تر درجے پر ہیں۔
۷) تجربیت (Empirism) : مغرب میں دیکارٹ کے بعد ایک پورا نظریہ علم پیدا ہوا جس کا یک عنوان تجربیت (Empiricism) ہے، یعنی علم کا صحیح ہوناحسی تصدیق سے مشروط ہے ۔سلیم احمد کے الفاظ میں:’’جدیدیت کی روح یہ اصول ہے کہ کسی بات کو اس بنا پر تسلیم نہ کیا جائے کہ وہ ہم سے پہلے سے چلی آ رہی ہے، یا ہم پر خارج سے عائد کی گئی ہے یا ہم سے بالاتر ہے بلکہ ہر چیز کے حسن و قبح،خیر و شر، منفعت و مضرت کا فیصلہ تجربے کی روشنی میں کیا جائے۔اس لیے جدیدیت کے معنی زیادہ سے زیادہ تجرباتی ہونے کے ہیں‘‘۔ (۱۴)
دائرہ ٔ حواس سے باہرہم کوئی بامعنی تصور تو تشکیل دے سکتے ہیں لیکن اس تصور کو اس کی ممکنہ تاثیر کے باوجود علم نہیں کہا جائے گا۔ اس مکتبِ فکر میں محسوس ہی معلوم ہے اور معقول کا کردارمحسوسات کی تنظیم، توجیہہ اور معنویت سازی تک محدود ہے۔گو کہ حسی علم پر اصرار کرنے والی روایت قدیم سے چلی آرہی تھی لیکن دیکارٹ سے کچھ پہلے تک اس روایت نے’’علم کیا ہے؟‘‘ کا ایک مستقل جواب تیار کیا اور اسے ذہن اور شے کے تعلق اور اس تعلق سے برآمد ہونے والے نتائج، بلکہ یہاں تک کہا جاسکتا ہے کہ اس تعلق کے مقاصد کو بھی ،اپنے بنائے ہوئے جواب کے دائرے میں سمولیا۔شروع شروع میں تصدیق کے تمام حدود حسی نہیں تھے،بلکہ منطقی استدلال کو بھی کسی علم کی صحت میں کچھ نہ کچھ دخل ضرور تھا لیکن آگے چل کر منطقی معقولات بھی غائب ہوگئے اور تصدیق کا محض ایک مطلب حسی تجربہ باقی رہ گیا ۔ یہ ٹھیک ہے کہ دیکارت تجربیت پسند (Empiricist) نہیں تھا، تاہم اس کے نظریۂ ثنویت نے تجربیت کے لیے سنگ بنیاد کا کام دیا۔ تجربیت کو جب فلسفے کے علاوہ دیگر سائنسی اور معاشرتی علوم کی تائید بھی حاصل ہوگئی تو اس نے ایک مجموعی ذہن تعمیر کیا ،یعنی جدید آدمی کا ذہن ،جس کا ایک موضوع بھی وہ دنیا تھی جو صورت و معنیٰ دونوں اعتبار سے مادّی تھی۔ تجربیت کے قوام سے بننے والا مجموعی ذہن وہی ہے جس نے جدید مغرب کو اس کے تمام اصول و مظاہر سمیت جنم دیا، اور اب وہی اسے چلا رہا ہے۔ انسانی زندگی کے تمام محرکات و مقاصد اسی ذہن سے متعین ہوتے ہیں اور نفسیات سے لے کر تہذیب تک کے تمام مراحل اسی کی رہنمائی میں طے ہوتے ہیں۔ اس ذہن کا غلبہ اب مقامی نوعیت کا نہیں ہے بلکہ عالمگیر ہونے کی کیفیت رکھتا ہے۔ اب یہ بات شاید فرض بھی نہ کی جاسکے کہ تجربیت کے رویے سے بننے والے دائرے کو کسی بھی استدلال سے توڑا جاسکتا ہے۔ مغرب اپنے بعض دیگر اصول کی طرح صحت ِعلم کے اس عقیدے کو ایک ایسا معیار بنانے میں پوری طرح کامیاب ہوچکا ہے کہ دنیا کے جو حصے یعنی غیر مغربی تہذیبیں فی الحال اس طغیانی سے کسی قدر بچی ہوئی نظر آتی ہیں ان کا رویہ بھی بچ کر خوش ہونے والوں جیسا نہیں ہے بلکہ وہ اس طغیانی میں رشک اور احساسِ کمتری کے ساتھ چھلانگ لگانے کی تیاری کررہی ہیں۔اس وقت یہ کہنا خود کو دھوکہ دینا ہے کہ وجود اور علم دونوں میں واحد معیار مغرب نہیں ہے۔باقی جو پسماندہ قومیں ہیں وہ اس معیار پر پورا اترنے کی کوشش کررہی ہیں یا اس کی حسرت میں مبتلا ہیں۔دیگر پہلوؤں سے قطع نظر،تجربی ذہن اب دینی علم کی روایت میں بھی کارفرما ہوچکا ہے۔اس معاملے میں سارے عالم اسلام کی ایک سی صورتِ حال ہے۔روایتی عقیدہ یا فکر عملاً اجنبی ہوچکا ہے اور دین کی اس تعبیر کو مسلمانوں میں مقبولیت اور علمی اہمیت حاصل ہوچکی ہے جومغرب کے بنائے ہوئے ،گویا عالمگیر ذہن سے مناسبت رکھتا ہے۔ ٹھیٹھ مذہبی فکر اسے تجدد وغیرہ کا عنوان دے کر فی الحال رد تو کر رہی ہے ،لیکن یہ تردید آج بننے والی علمی فضا کے اندر کوئی وزن نہیں رکھتی اور کوئی کشش بھی نہیں رکھتی۔ دین کی منتقلی اور تسلسل کا عمل ظاہر ہے کہ تعلیم و تربیت کی ایسی روایت کی پاسداری کے ساتھ ممکن ہوسکتا ہے جو آغاز ِدین سے چلی آرہی ہے۔لیکن آج بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دین کے ساتھ خِلقیمناسبت رکھنے والا علم اور اخلاق، موجودہ آدمی اور موجودہ دنیا میں کسی طرح کی تاثیر نہیں رکھتے۔یعنی اب ٹھیٹھ مذہبی فکر نہ آدمی کو بدل سکتی ہے اور نہ دنیا کو، اور جہاں اس کے تصرفات کا مظاہرہ ہورہا ہے، وہاں تعمیر کا پہلو نہیں دکھائی دیتا تخریب کی حکومت نظر آتی ہے ۔ اس صورتِ حال میں ،جو تخیل نہیں ہے بلکہ ہر شخص کو دکھائی دے سکنے والاواقعہ ہے ، مذہب کی ترویج تو دور کی بات ہے، اس کے دفاع کا سامان بھی ہمیں میسر نہیں۔تجربیت کی وبائے عام کا ایک اثر یہ ہے کہ علمی سطح پر ایمانیات کو حِسی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اخلاقیات میں اللہ اور آخرت سے دوری پر مطمئن رہنے والی خدمت ِخلق اور تسخیرِدنیا ایک جنون کی طرح پھیل رہی ہے اور مسلم معاشروں میں پھیلائی جارہی ہے۔یہ باتیں مایوسی کی پیداوار نہیں ہیں بلکہ ہر سچے آدمی کا مشاہدہ ہیں۔مذہبی ذہن جب تک اس بھیانک منظر کو خوش فہمی کے بغیر دیکھنے کی صلاحیت نہیں پیدا کرے گا ،بالآخر اپنے دین اور ایمان کو بھی اسی منظر کا حصہ بنانے پر مجبور ہوجائے گا، بلکہ ہوتا جارہا ہے۔ایمان کی تاثیر فی الذہن اور اخلاق کی تاثیر فی الاشیاء کو بحال کیے بغیراور مغرب سے مکمل فصل اختیار کیے بغیر اسلامی دنیا کی بقا محالات میں سے ہے۔
۸) سائنس پرستی (Scientism) کا مطلب ہے سائنس کو معیار ِحق و باطل بنالینا۔سائنٹزم کے دو حصے ہیں،ایک پرانا اور ایک نیا۔پرانے حصے میں دین کو ماننے کی بھی گنجائش نکالی جاتی ہے،اس شرط کے ساتھ کہ دین اتنا ہی سچا اور یقینی ہے جتنا سائنس سے ثابت ہو۔جو عقائد سائنس سے ثابت نہیں ہیں ان پر ایمان عملاً معطل اورذہناً مفقود رہتا ہے۔نیا حصہ، دینیات کو مکمل طور پر رد کرتا ہے اور دینداری وغیرہ کو غیر سائنسی رویہ گردانتا ہے۔سائنٹزم تجربیت ہی کا ایک مظہر ہے، بس فرق اتنا ہے کہ تجربیت میں تمام علوم کو برابری کے ساتھ موجود رہنے کی اجازت ہے ،لیکن سائنٹزم میں ہر علم سائنس کا محکومِ محض ہے اور اس محکومیت کو مانے بغیر کسی بھی علم کا کوئی جواز نہیں ہے۔دوسرا فرق یہ بھی ہے کہ تجربیت کا بنیادی کام یہ ہے کہ صحیح اور غلط علم میں تمیز کی جائے، جبکہ سائنٹزم میں معاملہ صرف صحت علم اور اس کی شرائط تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں کسی امر کا حقیقی یا غیرحقیقی ہونا بھی طے کیا جاتا ہے۔سائنس سے متعلق حسن عسکری کہتے ہیں :’’انیسویں صدی تک سائنس مذہب پر بہت اعتراضات اور شکوک و شبہات پیدا کرتا تھا۔اب نیا سائنس ان پرانے اعتراضات کو چھوڑ چکا ہے کیونکہ سائنس نے عقلیت پرستی چھوڑ د ی ہے لیکن نیا سائنس “جبلت پرستی” ،“جسم پرستی” یا “حیات پرستی‘‘کرنے لگا ہے۔اس لیے مذہب کو ختم کرنے کے بجائے ایک نیا مذہب بنانے کی کوشش کررہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ سائنس پرانے سائنس سے بھی زیادہ مہلک ہے۔پرانا سائنس خدا کے وجود سے منکر تھا ،نیا سائنس نئے خدا ایجاد کررہاہے‘‘۔ (۱۵)
شاہ نواز فاروقی اسلامی اور مغربی تہذیب کے بنیادی اصولوں کا تقابل کرتے ہوئے لکھتےہیں:’’اس کے مقابل میں جدید مغربی تہذیب ہے جس میں وحی کی جگہ سائنس کھڑی ہے۔ ماورائے فطرت کے مقام پر صرف فطرت ہے۔ تخلیق کے خانے میں ڈارون کا ارتقا اور نجات کے خانے میں ترقی بال کھولے سو رہی ہے‘‘۔ (۱۶)اقبال نے اس بات کو اپنے مخصوص انداز میں یوں کہا ہے:
تعلیم پیر فلسفہ مغربی ہے یہ | ناداں ہیں جن کو ہستی غائب کی ہے تلاش |
محسوس پر بنا ہے علومِ جدید کی | اس دور میں ہے شیشہ عقائدکا پاش پاش(۱۷) |
۹) سرمایہ داری (Capitalism):مغربی ذہن کے مطابق سرمایہ داری ایک ابدی تقدیر ہے جو انسان نے دنیا کی لوح ِ محفوظ پر لکھی ہے۔آج کی دنیا میں انسان سے بلاواسطہ یا بالواسطہ نسبت رکھنے والے تمام ہی معاملات سرمایہ داری کے دست تصرف میں ہیں۔صورتِ حال یہاں تک پہنچی ہوئی ہے کہ ریاست دینی بنے گی تو اس کی مرضی سے اور سیکولر ازم اختیار کرے گی تو اس کی اجازت سے۔سوویت یونین کے ٹوٹنے اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد تو مغرب کے مفکرین کے ہاں یہ فکر عام ہو گیا کہ تاریخ کا خاتمہ ہو گیا ہے اور اب انسانیت کے لیے مغربی سرمایہ دارانہ جمہوری نظام ہی آخری حل ہے۔(۱۸)
سرمایہ داری نے انسان کو آزمائش کے ماحول اور بڑے فیصلے کرنے کی مشکلات سے نکال دیا اور عالمگیر سطح پر اپنا یہ تاثر منوالیا ہے کہ سارے مسائل ایک اَن دیکھے نظام سے حل ہوجائیں گے جس کی باگ ڈور سرمایہ داری کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے لیے نظریے کا لفظ چھوٹا ہے، اسے تو گویا انسانوں کا بنایا ہوا ’’دین‘‘ کہنا چاہیے،تو بہرحال اس نے فرد کے معاشی اختیارات سے آغاز کرکے غیر محدود ملکیت کے تصور کی تشکیل کرتے ہوئے ا ب ایک کسوٹی اور حَکم کی شکل بنالی ہے،جس کی تصدیق اور امر کے بغیر انسانی ذہن اور زندگی کا نظام چل ہی نہیں سکتا۔اور ایسا صرف مغرب میں نہیں ہے،مغرب تو کسی کونے کھدروں میں سرمایہ داری سے آزادی کا ماحول رکھتا ہے ،یہ تسلط مغرب کے باہرکی دنیا پر زیادہ ہے۔جہاں بلاشبہہ Capitalist agendaکی ادنیٰ سی خلاف ورزی محالات میں سے ہے۔خصوصاً مسلم ریاستیں اور معاشرے سرمایہ داری کے زیر نگیں ہونے کے سب سے واضح مظاہر ہیں۔یہاں دنیا کے ساتھ ساتھ دین کو بھی اس سے موافقت اور سازگاری پیدا کرنے پر مجبور یا مائل ہونا پڑرہا ہے۔دینی زندگی میں سے آخرت کے تصور کو جس باریکی اور مہارت سے بے دخل اور بے اثر کردیا گیا ہے یہ سرمایہ داری ہی کا ، کارنامہ ہے،جس پر جدید مسلمان فخر کرتے ہیں۔غرض مختصر یہ کہ انسان ،دنیا اور خدا کے تمام دینی تناظرات اور آفاقی تصورات پہلی مرتبہ سرمایہ داری کے ہاتھوں اندر سے منقلب ہوئے ہیں اور تمام کلاسیکی اورروایتی جدلیات اس کے ہاتھوں بالکل بے معنی ہوکر رہ گئی ہے۔حق و باطل،صحیح و غلط،آزادی و غلامی،فرد و معاشرہ،وغیرہ ایسے تمام جدلیاتی تناظر سرمایہ داری نے اگر پوری طرح بدلے نہیں تو بھی ان کی معنویت اور حیثیت کو یکسرتبدیل کردیا ہے، اور یہ سب کچھ مسلم دنیا میں اپنی انتہا پر نظر آتا ہے۔ سرمایہ داری کا کھلے لفظوں میں خلاصہ یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت احساسِ آزادی ،خوشی اور سامانِ عافیت کے ساتھ ایک بہت چھوٹی اقلیت کے تصرف میں رہے۔یہ چھوٹی سی اقلیت آج کل کی اصطلاح میں کوئی مجموعۂ افراد نہیں ہے بلکہ corporations کا اکٹھ ہے،جس کے اندازِکار اور مقاصد کا شاید کسی کو پوری طرح علم نہ ہو۔ان کے پاس مشکل کا حل بھی ہے اور مشکل پیدا کرنے کا فن بھی۔ سرمایہ داری مشکلات کی پیدائش اور ان کے مؤثر حل کی نمائش کو ساتھ ساتھ رکھتا ہے۔جمہوریت،حقوقِ انسانی، اوپن مارکیٹ اور غیر مشروط آزادی، انسان کے بنائے ہوئے اس دین کے بنیادی ارکان ہیں،مگر یہ الفاظ اپنے معنی بھی ساتھ لائے ہیں،پہلے سے موجود معنی کو قبول نہیں کرتے۔ سرمایہ داری نظام کسی عقیدے یا روایتی مسلمے یا کسی بھی علم وغیرہ کی تردید سے دلچسپی نہیں رکھتا ،یہ ہر چیز کو ایک binding context کا پابند بنادیتا ہے۔مذہبی ذہن اس بات کو سمجھنے میں دیر لگا رہا ہے کہ دنیاوی کی طرح دینی علم کا بھی سیاق وسباق (context)اور حیطۂ تسلیم و تاثیر بدلتا رہتا ہے۔یہ فطری قانون سرمایہ داری نے سمجھا ہے اور اسے پوری تفصیل سے کل انسان ،کل دنیا پرapply کرکے دکھایا کہcontext ہی علم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری لکھتے ہیں:’’در حقیقت سرمایہ دارانہ نظام، شخصیت، معاشرت اور ریاست کی وہ تنظیم ہے جو انسانی آزادی کا حصول ممکن بناتی ہے…کس سے آزادی؟ اللہ رب العالمین سے، انبیاء و رسل سے ،آسمانی ہدایت ا ور شریعت سے، ہم کہہ سکتے ہیں سرمایہ داری تمام ابراہیمی مذاہب سے جامع ترین بغاوت کا نام ہے‘‘۔ (۱۹) علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں یورپ کوانسان کی اخلاقی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ گردانا ہے۔ (۲۰)
مشرق کے خداوند سفیدان فرنگی مغرب کے خداوند درخشندہ فلزات(۲۱)
کہا جا سکتا ہے کہ مغرب نے مشرق کو اپنے ہی جیسا متاثر کیا ہے ۔ اس لیے مغرب کو جاننا اب ’’know thy enemy ‘‘ نہیں بلکہ بدقسمتی سے ’’ know thyself ‘‘ کی ضرورت ہے۔ سرمایہ داری کا جادو لاس ویگاس سے زیادہ دبئی کے ڈاؤن ٹاؤن میں چلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ خدا کی بستی کو دُکان میں کیسے ڈھالا جاتا ہے، اس کا مشاہدہ حرمین شریفین کے پیش و عقب میں شاید مین ہٹن سے زیادہ ملاحظہ کیاجاسکتا ہے۔
حواشی و حوالہ جات
(۱۱) Bentham, Jeremy (2000). An Introduction to the Principles of Moral and Legislation. Kitchener: Batoche Books, p14.
(۱۲) پانی پتی، جمال ، جدیدیت اور جدیدیت کی ابلیسیت، ص٢٦، کراچی،اکادمی بازیافت، ٢٠٠٥۔
(۱۳) حوالۂ بالہ، کلیاتِ اقبال اردو،ص ٣٦١۔
(۱۴) احمد، سلیم، ادھوری جدیدیت، مضامین سلیم احمد، ص ۲۹۱، کراچی، اکادمی بازیافت،٢٠٠٩۔
(۱۵) عسکری،حسن،جدیدیت، ص۸۷، لاہور،ادارہ فروغِ اسلام، ۱۹۹۷ ۔.
(۱۶) فاروقی،شاہنواز،تہذبوں کا تصادم،ص ۲۲، لاہور، ادارہ مطبوعات ،٢٠٠٨۔
(۱۷) حوالۂ بالہ، کلیاتِ اقبال اردو، ص ٢٧٤، ٢٧٣۔
(۱۸) Fukuyama, Francis (1992). The End of History and the Last Man. New York: Free Press.
(۱۹) انصاری، ڈاکٹر جاوید اکبر، سرمایہ دارانہ نظام:ایک تنقیدی جائزہ، ص ٤، کراچی، ٢٠٠٩۔
(۲۰) Iqbal, Muhammad (2012). The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Stanford, California: Stanford University Press, p142
(۲۱) حوالۂ بالہ، کلیاتِ اقبال اردو،ص ٤٣٤۔