بہت ساری احادیث مبارکہ میں جماعت یا ، الجماعہ کے ساتھ وابستہ رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کون مسلمان ہو گا جو احادیث پر عمل نہ کرنا چاہے گا ۔ سو الجماعہ والی احادیث پر عمل کرنے کی کوشش متعدد لوگوں نے کی۔ بعض سطحی لوگوں کی رسائی محض لفظ تک رہی ، معنی سے صرفِ نظر کرتے ہوئے انھوں نے جماعت المسلمین کے نام سے ایک ایسی جماعت بنا لی کہ جس میں بہت کچھ تھا ، سوائے مسلمین کے!بعض حضرات نے احادیث میں وارد لفظ جماعت یا الجماعہ کا اطلاق دور جدید کی منظم و منضبط جماعتوں پر کرنا شروع کیا ۔ نوبت یہاں تک ہی رہتی تو مضائقہ نہ تھا لیکن اپنے اس فہم کو بنیاد بنا کر شیوخ الحدیث تک کی نوبت بجائی جاتی رہی کہ اجی انھیں دیکھوکہ جماعت سازی کے مفہوم و دلیل سے ہی واقف نہیں ہیں!
لفظ جماعت ، جمع سے ہے جو متفرق اشیا کو جوڑنے پر دلالت کرتا ہے ۔ اجتماع کبھی تو حسی یا بدنی ہوتا ہے جیسے میدان حشر میں لوگوں کو جمع کرنا ﴿فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعًا﴾’’ پس ہم انھیں اکھٹا کریں گے جمع کر کے‘‘یا جیسے فوجوں کی جنگ میں روانگی کے بارے میں فرمایا:﴿فَانْفِرُوا ثُبَاتٍ أَوِ انْفِرُوا جَمِيعًا﴾’’ پھر نکلو ٹکڑی ٹکڑی کر کے یا نکلو جمع ہو کر ‘‘ کبھی اجتماع معنوی ہوتا ہے کہ کسی غایت یا صفت خاص پر لوگوں کو جمع کیا جائے جیسا کہ مسلمانوں کو اعتصام بالقرآن کا حکم دیا گیا تو فرمایا ﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا﴾’’ اور اللہ کی رسی کو تھامے رکھو مل جل کر ‘‘یا جیسے مسلمانوں کو توبہ کا حکم دیتے ہوئے فرمایا﴿وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا﴾’’ اور توبہ کرو اللہ کی جناب میں سب کے سب ‘‘۔
چونکہ مل جل کر کام کرنا اکیلے کام کرنے سے عام طور پر بہتر ہوتاہے۔ اس لیے مسلمانوں کو بہت سارے امور میں جماعت کے اہتمام کی تاکید کی گئی ہے ۔ ان میں سے بعض امور وہ ہیں جن میں اجتماع حسی مطلوب ہے ۔ نماز پنجگانہ،نماز جمعہ و عیدین وغیرہ اس کی مثالیں ہیں ۔نماز باجماعت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :﴿مَا مِنْ ثَلاَثَةٍ فِي قَرْيَةٍ وَلاَ بَدْوٍ لاَ تُقَامُ فِيهِمُ الصَّلاَةُ إِلاَّ قَدِ اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَعَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ فَإِنَّمَا يَأْكُلُ الذِّئْبُ الْقَاصِيَةَ﴾ ’’کوئی بستی نہیں اور نہ کوئی دیہات کہ جس میں تین اشخاص موجود ہوں پھر وہ نماز(باجماعت ) قائم نہ کریں تو ان پہ شیطان غالب آجاتا ہے پس تم پر جماعت لازم ہے کیوں کہ بھیڑیا لگ تھلگ رہنے والی بھیڑ کو کھا جاتا ہے‘‘۔(نسائی)اس حدیث کے سیاق سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں الجماعہ سے مراد نماز باجماعت ہے ۔ تمام محدثین اس کو نماز باجماعت والے باب میں لائے ہیں اور تمام شراح نے الجماعہ سے نماز باجماعت ہی مراد لی ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ سنن نسائی کی مندرجہ بالا روایت کے آخر میں ہے:قَالَ السَّائِبُ يَعْنِي بِالْجَمَاعَةِ الْجَمَاعَةَ فِي الصَّلاَةِ’’ راوی حضرت سائب بن حُبَیش رحمہ اللہ کہتے ہیں بالجماعہ سے آپ ﷺ کی مراد ، نماز باجماعت ہے‘‘۔دنیاوی امور میں اجتماع حسی کی ایک مثال یوں بھی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:﴿كُلُوا جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُوا فَإِنَّ الْبَرَكَةَ مَعَ الْجَمَاعَةِ﴾’’الگ الگ کھانے کے بجائے مل جل کر کھانا کھایا کرو اس لیے کہ برکت جماعت کے ساتھ ہے‘‘۔(ابن ماجہ)یہاں تک تو ہم نے اجتماع حسی کی بات کی لیکن بہت ساری دوسری احادیث میں لفظ جماعت یا الجماعہ سے مراد معنوی اجتماع ہے نہ کہ حسی ، آگے ہم اسی مفہوم کے متعلق کچھ گزارشات کریں گے۔
جماعت معنوی یا الجماعہ کا اطلاق و مصداق ، کوئی ایک نہیں بلکہ متعدد ہیں جن کے مطابق ’اقسام جماعت ‘ بھی ایک سے زیادہ ہیں۔ بعض جماعتیں ایسی دائمی ہیں جو بلا تعطل جاری و ساری رہیں گی اور بعض جماعتیں ایسی ہیں جن میں تعطل و انقطاع آتا رہے گا۔الجماعہ کا اولین اطلاق و مصداق ’’ امتِ مسلمہ‘‘ ہے۔ ہر وہ آدمی جو کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو ا ، اور پھر اس کلمہ ہر قائم رہا تو اپنی عملی کوتاہیوں سمیت وہ اس الجماعہ کا حصہ ہے جب تک وہ ارتداد ، اختیار نہ کرے ۔ ایک کثیر الطرق حدیث میں ان لوگوں کا بیان ہے جن کی جان شرعی سزا کے طور پر لی جا سکتی ہے، ان میں سے ایک مرتد بھی ہے۔ مرتد کی سزا کو ایک خاص انداز میں بیان کیا گیا:﴿التَّارِكُ لِدِينِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ﴾’’دین کو ترک کر کے الجماعہ سے نکلنے والا‘‘۔(مسلم) ایک روایت میں یوں ہے:﴿التَّارِكُ لِلإِسْلاَمِ مُفَارِقُ الْجَمَاعَةِ﴾’’اسلام کو ترک کر کے جماعت سے الگ ہونے والا‘‘۔(نسائی) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے كَفَرَ بَعْدَ إِسْلَامِهِ’’اس نے کفر کیا اپنے اسلام لانے کے بعد‘‘(نسائی)عثمان رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے :اِرْتَدَّ بَعْدَ إِسْلاَمِهِ’’ اس نے ارتداد کیا اسلام کے بعد ‘‘(نسائی ) جبکہ عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے: مُرْتَدٌ بَعْدَ إِيمَانٍ (المعجم الکبیر)’’ایمان کے بعد مرتد ہو جانے والا ‘‘۔ یہ بات معلوم ہے کہ جو شخص اپنے ایمان و اسلام سے پھِر جائے وہ امت مسلمہ سے نکل جاتا ہے اور مندرجہ بالا روایات میں اسلام و ایمان چھوڑنے والے کو الجماعہ چھوڑنے والا کہا گیا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ الجماعہ کا اولین مصداق امت مسلمہ ہے اور ہر کلمہ گو انسان اس جماعت کا رکن ہے جب تک ارتداد کا مرتکب نہ ہو۔دین چھوڑنے کو صرف تارک دین کہہ کر بیان کیا جا سکتا تھا لیکن اس کے ساتھ ، مفارق جماعت بھی کہا گیا جس سے ایک تو اس طرف اشارہ مطلوب ہے کہ اسلام ، محض ایک نام نہاد عقیدے کا نام نہیں بلکہ ایک زندہ جاوید نظریے کا نام ہے جس کے حاملین ایک سماجی و معاشرتی وحدت میں پروئےہوئے ہیں۔ یہ گروہ انسانی ، تمثیل نبوی کے مصداق ایک ایسی عمارت کی مانند ہے جس کی ہر اینٹ دوسرے کو سہارے دیے ہوئے ہے ۔یہ قوم ایک جسد واحد کی طرح ہے کہ جس کاایک عضو ،درد کا شکار ہوتو پورا جسم مبتلائے آزار و بخار ہو جاتا ہے۔دوسرے یہ کہ اس قوم کی بنیاد دوسری قوموں کی طرح جغرافیائی حدود اور کوہ و دمن پر نہیں ہے بلکہ یہ نظریاتی جماعت ہے جس کی بنیاد نظریہ توحید و رسالت اور معاد پر ہے ۔
الجماعہ کا دوسرا ، اطلاق
اگر کبھی نظریاتی الجماعہ ،سیاسی طور پر بھی اپنے میں سے کسی امیر و حکمران کے ماتحت جمع ہو جائے تو اس جماعت پر بھی الجماعہ کا اطلاق کیا جاتا ہے ۔الجماعہ کا یہ وہ مصداق ہے جس میں تعطل و ضعف آتا رہے گا ۔ لیکن الجماعہ کے اس اطلاق و مصداق کے زائل ہونے سے ،الجماعہ کا پہلے والا اطلاق زائل نہیں ہو گا بلکہ وہ اطلاق اپنی جگہ پر قائم رہے گا ۔ بعض اوقات مسلمانوں کا کوئی گروہ یا ملک کسی کافر قوم کے ہاتھوں مغلوب و مقبوض ہو جاتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس علاقے کےلوگ اسلام و ایمان سے نکل گئے ۔تو کسی خاص وقت میں حالات کے جبر کے تحت مسلمانوں پر سیاسی مفہوم میں الجماعہ نہ کہا جا سکے تب بھی ایمانی و نظریاتی اعتبار سے وہ الجماعہ ہی کہلائے گی اور مسلمان اس الجماعہ کےرکن ہی کہلائیں گے۔
صحیحین میں حذیفہ بن یما ن رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے مطابق ، دور، ِ رسالت و صحبت کے مبنی بر خیر دور کے بعد ، شر اور برائی کا ایک دور آئے گا ۔ اس کے بعد پھر صلاح و خیر کا ایک ملگجا سا دور آئے گا جس کے خیر میں کچھ برائی کی آمیزش بھی ہو گی ۔اس کے بعد پھر برائی (اور افراتفری )کا دور آئے گا اور گمراہ کن داعی کھڑے ہوں گے ۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اس دور کا ذکر کیا تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ یا رسول َ اللہ ، اگر میں یہ دور پاؤں تو کیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :﴿تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ﴾’’ تم خود کو جماعت مسلمین اور ان کے امام سے وابستہ کیے رکھو ‘‘سوال کیا گیا ’’ یا رسول اللہ اگر نہ ان کی کوئی جماعت ہو اور نہ ہی ان کا کوئی امیر ہو تو پھر کیا کروں ؟ آپﷺ نے فرمایا فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا ان تمام فرقوں سے الگ ہو جاؤ۔۔۔‘‘(متفق علیہ )
اس حدیث میں جماعت المسلین کے ناپید ہونے کا جو ذکر کیا گیا اس سے مراد مسلمان افراد کا ناپید ہونا نہیں ہے کیوں کہ مسلمان افراد تو لا محالہ موجود رہیں گے اور باہمی جنگ و جدل اور مناقشے کے باوجود، وہ اسلام پر باقی بھی رہیں گے لہذا ،جماعت المسلمین کے نہ ہونے کا مطلب ،اس ہیئت اجتماعی کا نہ پایا جانا ہے جو کسی حکمران کے ماتحت ہو۔اس اجتماعیت کے لیے ایک حدیث میں الجماعہ کا لفظ بھی ارشاد فرمایا گیا ہے:﴿مَنْ رَأَى مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلْيَصْبِرْ،فَإِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ يُفَارِقُ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَيَمُوتَ إِلَّا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً﴾(متفق علیہ)اس حدیث میں وارد لفظ ’الجماعہ‘ کی وضاحت ان الفاط میں کی گئی ہے الْمُنْتَظِمَة بِنَصْبِ الْإِمَامَةِ(مرقاۃ )یعنی وہ جماعت مسلمین جو کسی امام پر متفق ہو۔تو الجماعہ کا دوسرا مصداق، مسلمانوں کا سیاسی یا ریاستی سطح پر منظم ہونا ہے ان احادیث کے چند نکات قابل وضاحت ہیں ۔ پہلی اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی ہیئتِ اجتماعی پر الجماعۃ کا اطلاق اس صورت میں بھی جائز ہو گا جب وہ کسی مسلمان لیکن فاسق و فاجر ہی کے ماتحت کیوں نہ ہوں ۔ یہ بات متعدد شارحین حدیث اور فقہاے کرام نے لکھی ہے اور حدیث حذیفہ کے مضمون پر غور کرنے سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے ۔وہ یوں کہ اس حدیث میں خیر کے دوسرے ’’ ملگجے دور‘‘ کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے﴿قَوْمٌ يَسْتَنُّونَ بِغَيْرِ سُنَّتِي، وَيَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي، تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ﴾’’کچھ لوگ ہوں گے جو میری سنت کے برخلاف طریقے اختیار کریں گے اور میری ہدایت کے خلاف چلیں گے ان سے تم اچھے کام بھی دیکھو گے اور برے کام بھی دیکھو گے،یہاں لوگ سے مراد حکمران ہیں جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں امام کے لفظ سے اس کی تصریح موجود ہے ﴿يَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ﴾ان کے کردار سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فسق و فجور کے مرتکب اور خلیفہ عاد ل سے بہرحال کم تر رتبے کے تھے۔اس دور کے بعد وہ دور آئے گا جس میں گمراہ کن دعاۃ ہوں گے ۔ ﴿دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ﴾ ’’داعی ہوں گے جہنم کے دروازے پر ‘‘ یہ بھی کوئی عا م داعیان نہیں ہوں گے بلکہ درحقیقت یہ مدعیان حکومت ہوں گے ، جیساامام نووی نے اس طرف اشارہ کیا كان من الأمراء اور ان کی مثال خوارج اور قرامطہ وغیرہ سے بیان کی تو یہ محض اپنی بدعت کی طرف بلانے والے داعی نہ تھے بلکہ اپنی بدعت کے باوجود مسلمانوں پر اپنا تسلط جمانے کے لیے مصروف پیکار گروہ تھے۔ اب ان متحارب گروہوں میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے فرمایا جا رہا ہے﴿تلزم جماعت المسلمین وأمیرهم﴾ تو یہاں کسی خلیفہ راشد کی موجودگی اور اس کی اطاعت کی بات نہیں کی جا رہی ہے بلکہ اس افراتفری کے دور سے پہلے والی گدلی حکومت بھی پائی جاتی ہوتی تو وہ بھی قابل قبول تھی۔ اس لیے کہ التزام جماعت کا حکم دینے والے رسول اللہﷺ، پچھلے دورِ امن کے حکمرانوں کے فسق و فجور کو جاننے کے باوجود ،افراتفری والے دور میں لوگوں کو جماعت المسلمین اور اس کے امیر سے وابستہ رہنے کی تلقین فرما رہے ہیں ۔ جو حالت آپﷺ بیان فرما رہے ہیں تو ان حالات میں خلیفہ راشد کہاں پایا جا سکتا تھا۔ سابقہ دورِ امن والا کوئی غیر عادل سلطان ہی مل جاتا تو غنیمت تھا ۔ یہ طرز استدلال ہمیں شارح بخاری علامہ ابن بَطَّال رحمہ اللہ(المتوفى۴۴۹ھ) کے ہاں ملتا ہے جس کے بعد آپ لکھتے ہیں:وفيه حجة لجماعة الفقهاء في وجوب لزوم جماعة المسلمين وترك القيام على أئمة الجور’’جماعت فقہاء کے لیے اس حدیث میں التزامِ جماعت المسلمین کے واجب ہونے اور فاسق حکمران کے خلاف اٹھ کھڑے نہ ہونے کی دلیل پائی جاتی ہے ‘‘۔ دوسرے شارحین نے بھی اس حدیث کے ذیل میں اسی سے ملتی جلتی بات لکھی ہے۔مثلا امام نووی لکھتے ہیں : وفي حديث حذيفة هذا، لزوم جماعة المسلمين وإمامهم، ووجوب طاعته وإن فسق،وعمل المعاصي’’حدیث حذیفہ میں جماعت المسلمین اور ان کے امام کے ساتھ وابستگی نیز حکمران کے اطاعت کی بھی دلیل ہے چاہے وہ فسق و فجور اور معاصی کا مرتکب ہو‘‘۔(شرح صحیح مسلم)
فاسق و فاجر کی اطاعت اور اس کے خلاف خروج کی ممانعت اوپر بیان کی گئی حدیث ابنِ عباس سے بھی ثابت ہے :﴿مَنْ رَأَى مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلْيَصْبِرْ، فَإِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ يُفَارِقُ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَيَمُوتَ إِلَّا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً﴾اس حدیث کے الفاظ فَلْيَصْبِرْ کی وضاحت میں علامہ ابن حجر لکھتے ہیں :فِي الْحَدِيثِ حُجَّةٌ فِي تَرْكِ الْخُرُوجِ عَلَى السُّلْطَانِ وَلَوْ جَارَ وَقَدْ أَجْمَعَ الْفُقَهَاءُ عَلَى وُجُوبِ طَاعَةِ السُّلْطَانِ الْمُتَغَلِّبِ وَالْجِهَادِ مَعَهُ وَأَنَّ طَاعَتَهُ خَيْرٌ مِنَ الْخُرُوجِ عَلَيْهِ لِمَا فِي ذَلِكَ مِنْ حَقْنِ الدِّمَاءِ وَتَسْكِينِ الدَّهْمَاءِ وَحُجَّتُهُمْ هَذَا الْخَبَرُ وَغَيْرُهُ’’ اس حدیث میں حکمران کے خلاف خروج کرنے کی ممانعت پائی جاتی ہے چاہے وہ ظالم و فاسق کی کیوں نہ ہو اور فقہاے کرام ، سلطانِ متغلب کی اطاعت اور اس کے ماتحت جہاد کے واجب ہونے پر اجماع ہے۔ اور اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے حکمران کی اطاعت اس کے خلاف خروج سے بہتر ہے کیونکہ اس میں خون ریزی سے تحفظ اور عوام کا سکون پوشیدہ ہے‘‘۔(فتح الباری)
ابن ابی جمرہ ،حدیث کے الفاظ مبارکہ﴿يُفَارِقُ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا﴾کی وضاحت میں لکھتے ہیں:الْمُرَادُ بِالْمُفَارَقَةِ السَّعْيُ فِي حَلِّ عَقْدِ الْبَيْعَةِ الَّتِي حَصَلَتْ لِذَلِكَ الْأَمِيرِ وَلَوْ بِأَدْنَى شَيْءٍ فَكُنِّيَ عَنْهَا بِمِقْدَارِ الشِّبْرِ لِأَنَّ الْأَخْذ فِي ذَلِك يؤول إِلَى سَفْكِ الدِّمَاءِ بِغَيْرِ حَقٍّ ’’مفارقت سے مراد ایسی کوشش ہے جو اس امیر کو حاصل عقد اطاعت کی گرہ کھولنے والی ہو، (الشِّبْرِ)’ ہاتھ بھر ‘ کی قید سے معلوم ہوتاہے کہ ایسی کوشش چاہے ادنیٰ سی ہو پھر بھی ممنوع ہے کیونکہ اس طرح کی کوششیں خون ریزی پہ منتج ہو سکتی ہیں‘‘۔ اور سچی بات یہی ہے کہ ایک فاسق و فاجر حکومت بھی افراتفری اور قتل و غارت گری سے بہتر ہوتی ہے یہی وہ حکمت کے جس کے پیش نظر عام پر احادیث میں خروج یعنی مسلح بغاوت سےروکا گیا اور اکثر علماء نے اس کے ناجائز ہونے کا فتوی دیا اور بعض علماء نے اس پر ایسی کڑی شرایط بیان کیں کہ جن کی پابندی کرتے ہوئے خروج کا واقع ہونا بہت ہی نادر ہو سکتا ہے ۔اس حدیث میں الجماعہ بمعنی سلطان ، سے علا حدگی پر ، ایک خاص وعید ،وارد ہوئی ہے:﴿مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً﴾’’وہ جاہلیت کی موت مرا‘‘ اس سے ملتی جلتی ایک روایت صحیح بخاری میں ہے:﴿مَنْ خَرَجَ مِنَ السُّلْطَانِ شِبْرًا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً﴾’’جو سلطان کی اطاعت سے ہاتھ بھر نکلا وہ جاہلیت کی موت مرا ‘‘۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ حکمران کی اطاعت سے نکلنے والا کفر کی موت مرے گا۔ تو یہ بات درست نہیں ہے۔ اس لیے باہم جنگ و جدل کرنے والے دو مسلمان گروہوں کو قرآن پاک نے طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ’’ مومنوں میں کے دو گروہ‘‘ قرار دیا ہے۔اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ صدر اول میں ہونے والی باہمی جنگوں میں خوارج کے علاوہ کسی نے متحارب گروہوں کی تکفیر نہیں کی اور فقہ اسلامی میں محاربین اور بغاۃ ، میں سے کسی کو مرتد یا کافر قرار نہیں دیا گیا ۔لہذا حکمران کی اطاعت سے نکلنے والے کی موت کو کفر کی موت نہیں سمجھنا چاہیے ۔ کیوں کہ سلطان و حکمران یا خلیفہ سے نکلنا ، اسلام و ایمان چھوڑنے کو مستلزم نہیں ہے ۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ ان الفاظ کی وضاحت میں لکھتے ہیں :وَلَيْسَ الْمُرَادُ أَنَّهُ يَمُوتُ كَافِرًا بَلْ يَمُوتُ عَاصِيًا ’’جاہلیت کی موت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کافر کی موت مرے گا بلکہ وہ گناہ گار کی موت مرے گا ‘‘بعض دوسرے شارحین نے مزید وضاحت کی ہےکہ ان الفاظ میں جاہلیت سے تشبیہ دینا مطلوب ہے وجہ تشبیہ ، ایام جاہلیت میں لوگوں کا نظم ِ حکومت و قانون کی پابندی سے بے بہرہ ہونا ہے یعنی وہ شخص جو الجماعہ بمعنی سلطان سے الگ ہوا ، وہ ایک اہم قانون کی خلاف ورزی ضرور کر رہا ہے ۔اس لحاظ سے یہ ایک گناہ ہے ۔ آخرت میں جس کی سزا ملنے کا اندیشہ بھی موجود ہے لیکن یہ خلاف ورزی ایسی نہیں کہ اس کو کافر اور ہمیشہ کا دوزخی سمجھا جائے۔
جاری ہے۔۔۔۔