﴿عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِﷺ: أَيُّ النَّاسِ أَفْضَلُ؟قَالَ:كُلُّ مَخْمُومِ الْقَلْبِ صَدُوقِ اللِّسَانِ،قَالُوا: صَدُوقُ اللِّسَانِ نَعْرِفُهُ، فَمَا مَخْمُومُ الْقَلْبِ؟ قَالَ:هُوَالتَّقِيُّ النَّقِيُّ لاَ إِثْمَ فِيهِ وَلاَ بَغْيَ وَلاَ غِلَّ وَلاَ حَسَدَ ﴾’’سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، کہ رسول اللہﷺسے پوچھا گیا ’’کون سے لوگ افضل ہیں؟‘‘آپﷺنے فرمایا’’ ہر مخموم ِقلب اور صَدوقِ لِسان‘‘، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! صدوقِ لسان سے تو ہم واقف ہیں، یہ مخمومُ القلب کیا ہو تا ہے؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ جو متقی ہے اور صاف ستھرا ہے ،جس میں نہ گناہ ہے نہ سرکشی اور نہ ہی کدورت اور نہ ہی حسد‘‘۔(ابنِ ماجہ)
توضیح
یہ حدیثِ مبارِکہ علم و حکمت کا ایک خزانہ ہے۔انسانوں کے لیے یہ سوال ہمیشہ سے اہم رہا ہے کہ انسانیت کا معیار کیا ہے اور اچھا انسان کون ہے ۔تو یہ حدیث ہمیں نہ صرف بہتر انسان کا معیار بتاتی ہے بلکہ اسی فرمان ِ معجز میں اس معیار کے حصول کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے پوچھا گیا سوال(أَيُّ النَّاسِ أَفْضَلُ)’’لوگوں میں افضل کون ہے ‘‘ ؟ اس سوال میں ’’ اَلنَّاس ‘‘ یعنی لوگوں سے مراد کون ہیں ؟ اس کے بارے میں ابن العربی المالکی رحمہ اللہ کا یہ قول عام طور پر شارحین نے نقل فرمایا ہے: وهذاعاممخصوصو تقديرهمنخيرالناس،و إلا فالعلماءالذينحملواالناسعلىالشرائعوالسننوقادوهمإلى الخيرأفضلوكذاالصديقونكماجاءت به الأحاديث اس قول کا حاصل یہ ہے کہ ’’اَلنَّاس ‘‘عام تو ہے لیکن مخصوص ہے یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں جو ’’ اَلنَّاس‘‘ کی عمومیت میں داخل نہیں ہیں۔ اور وہ لوگ صدیقین ، شہدا ، علماے کرام رحمہم اللهاور انبیاے کرام علیہم السلامہیں۔ شارحین کی یہ بات شریعت کے دوسرے دلائل کی روشنی میں ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان موخر الذکر اصناف کو دوسرے لوگوں پر مطلق فضیلت حاصل ہے جو ان کے اس منصب کی وجہ سے ہے جو انھیں خدا تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ حدیث میں بیان کردہ صفات سے اصنافِ مخصوصہ بے بہرہ ہوتی ہیں، بلکہ وہ تو اُنھیں ان کے منصب کے بقدر لامحالہ حاصل ہوتی ہیں، البتہ ان کی فضیلت کی وجہ یہ صفات نہیں بلکہ ان کے مناصب ہوتے ہیں۔ اس تفصیل کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اس حدیث میں ’’النّاس ‘‘ یعنی لوگوں سے عام مسلمان مراد ہیں اور یہ بھی کہ وہ حدیث میں بیان کردہ صفات حاصل کر کے بھی اصناف مخصوصہ پر فضیلت نہیں پا سکتے۔ہاں البتہ یہ بات ہے کہ حدیث مبارکہ میں مذکور صفات سمیت دیگر امور ِ دین میں محنت کر کے ، منصب ِ نبوت و رسالت کے علاوہ کسی بھی دوسرے درجے میں ترقی پا سکتے ہیں۔
﴿صَدُوقِ اللِّسَانِ﴾’’زبان کا سچا ‘‘۔ صدوق: مبالغے کا صیغہ ہے یعنی سچ کا خوب اہتمام کرنے والا ۔اس میں واقع کے مطابق کلام کرنا بھی شامل ہے، جسے بات کی سچائی کہتے ہیں اور اپنے قول کے مطابق عمل کرنا بھی شامل ہے جسے عمل کی سچائی کہتے ہیں، جیسا کہ ملا علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اپنی اس صفت کی بنا پر انسان منافی اور مرائی ہونےسے بچ جاتا ہے، یعنی اس کا عمل اس کے قول کے منافی نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کا عمل ریاکاری پر مبنی ہوتا ہے۔ صدقِ لسانی کی تفسیر استقامت لسانی سے بھی کی گئی ہے یعنی انسان زبان کا استعمال درست کرے ۔زبان کے درست استعمال میں کثرتِ کلام اور غلطِ کلام دونوں سے اجتناب داخل ہے ۔
ہم احادیث کی رو سے پڑھ چکے ہیں کہ انسان کے اعمال کی اصلاح و فساد کا دارومدار ، قلب کی اصلاح و فساد پر ہے اگر قلب میں اصلاح ہو گی تو عمل میں بھی اصلاح ہو گی اور اگر قلب میں فساد ہو گا تو اس فساد کا ظہور اعمال میں بھی ہو گا ۔ لیکن اب جاننا چاہیے کہ اعمال کی اصلاح کا ایک مدار ، زبان پر بھی ہے اس لیے کہ زبان کو ترجمانِ قلب کہا جاتا ہے ۔ قلبی کیفیات، اچھی ہوں یا بُری، ان کا پہلا اظہار انسان کی زبان سےہوتا ہے اور دوسرا اظہار؛ انسان کے عمل سے ہوتا ہے۔ لہذا، اصلاح ِ قلب و عمل کے لیے زبان کی اصلاح ضروری ہے ۔اس ضمن میں چند احادیث کی طرف توجہ کرنا مفید رہے گا: ﴿لَا تُكْثِرُوا الْكَلَامَ بِغَيْرِ ذِكْرِ اللَّهِ، فَإِنَّ كَثْرَةَ الْكَلَامِ بِغَيْرِ ذِكْرِ اللَّهِ قَسْوَةٌ لِلْقَلْبِ، وَإِنَّ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنَ اللَّهِ الْقَلْبُ الْقَاسِي﴾’’ذکر ُاللہ کے بغیر کثرتِ کلام نہ کرو اس لیے کہ اللہ کے ذکر کے علاوہ کثرتِ کلام ، دل کو سخت کرتا ہے اور سخت دل والے ہی اللہ سے زیادہ دور ہوتے ہیں‘‘۔(ترمذی)
﴿إِذَا أَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ، فَإِنَّ الْأَعْضَاءَ كُلَّهَا تُكَفِّرُ اللِّسَانَ، فَتَقُولُ:اتَّقِ اللَّهَ فِينَا، فَإِنَّمَا نَحْنُ بِكَ، فَإِنِ اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنَا، وَإِنِ اعْوَجَجْتَ اعْوَجَجْنَا﴾’’جب صبح ہوتی ہے تو تمام اعضاے انسانی ، زبان کو اللہ کا واسطہ دے کر عرض کرتے ہیں ، ہمارے بارے میں اللہ سے ڈرتی رہ، کیونکہ ہمارا انحصار تجھی پر ہے۔ اگر تو سیدھی رہی تو ہم سیدھے رہیں گے اور اگر تو نے ٹیڑھ اختیار کیا تو ہم ٹیڑھے ہو جائیں گے‘‘۔(ترمذی)
﴿عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَصْدُقُ وَيَتَحَرَّى الصِّدْقَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ صِدِّيقًا﴾’’تم پر سچائی اختیار کرنا لازم ہے اس لیے کہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے اور بندہ مستقل طور پر سچ بولتا رہتا ہے اور ہمیشہ سچائی کے درپے رہتا ہے تو خدا کے ہاں سچا لکھ دیا جاتا ہے‘‘۔(متفق علیہ) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زبان کا درست استعمال دل کی نرمی،اعمال ظاہری کی اصلاح کا ایک ذریعہ ہے اور یہ بھی کہ سچ پر دائمی طور پر گامزن رہنے سے انسان نیکی میں آگے بڑھتا ہے اور یہاں تک کہ خدا کے ہاں صدیق بھی لکھ دیا جاتا ہے ۔اس سے اشارہ ملتا ہے کہ انسان اگر صدقِ لسانی کو اختیار کر لے تو اس کی برکت سے دوسری نیکیوں کی طرح حدیث زیر مطالعہ میں مذکور صفات یعنی یعنی دل کی صفائی وغیرہ بھی پیدا ہو سکتی ہیں ۔
(مَخْمُومِ الْقَلْبِ)’’دل کا صاف ‘‘
عربی کے مادۂ لغوی (خ م م ) کے استعمالات متعدد ہیں ۔ اسی سے لفظ خام ہے جو اردو میں بھی مستعمل ہے جس کا معنی غیرصاف مواد ہے۔ خَمَّ یَخُم خَماً صفائی کے لیے بھی آتا ہے جیسا کہ عرب کہتے ہیں خَمَّ البيتَ’’اس نےگھر میں جھاڑو دیا‘‘ تو مخموم القلب کا معنی یہ ہو گا وہ دل جس کی صفائی کر کے اسے خام مواد سے پاک کر دیا گیا ہو ۔ملا علی قاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :’’ اس سے وہ دل مراد ہے جو اغیار کے غبار سے محفوظ اور برے جذبات سے پاک ہو‘‘۔
دلِ مخموم کی صفات
اس کے بعد نبی کریمﷺ نے قلب مخموم یا حاملِ قلبِ مخموم کی چند صفات بیان کی ہیں:
﴿التَّقِيُّ﴾تقوی ٰوالا یعنی وہ دل جو متقی ہو ۔ اس کی وضاحت میں کہا گیا کہ وہ دل جو برے خیالات اور جذبات سے محفوظ ہو۔
مخموم القلب کی دوسری صفت (اَلنَّقِيُّ)بیان کی گئی جس کا معنی ہےصاف ستھرا ہونا ۔ شارحین کرام نے فرمایا کہ ان دو صفات سے دل کی پاکیزگی مراد ہے۔یعنی انسان اپنے دل کو دنیا کی محبت ، جنسی جذبات و خیالات ،شہوت و شہوات ، جاہ و حشمت اور دنیاوی قدر و منزلت کی طلب اور درہم و دینار کی محبت سے پاک رکھے۔ غیر اللہ کی تمام محبتوں کو دل سے نکال کر، اللہ اور اس کے رسولﷺ اور آخرت کی محبت و طلب سے اپنے قلب کو معمور رکھے۔جب یہ مقام حاصل ہو گیا تو اب اگلے درجے، گناہوں سے رُستگاری کا بیان ہوتا ہے ۔
﴿لاَ إِثْمَ فِيهِ﴾’’اس میں کوئی گناہ نہ ہو‘‘ بعض روایتوں میں ﴿لَا إِثْمَ عَلَيْهِ﴾’’ اس کے ذمے کوئی گناہ نہ ہو‘‘ کے الفاظ ہیں یعنی انسان کے دل پر گناہ کے جذبات کا غلبہ نہ ہو یا پھر انسان کے عمل میں گناہ کا ظہور نہ ہو ، دونوں صورتوں میں معنی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ شارحین کے مطابق یہاں’’ لا‘‘ ، نفیِ جنس کا ہے یعنی اس پر کسی قسم کا کوئی گناہ نہ ہوگا، نہ حقوقُ اللہ کے بارے میں، نہ ہی حقوق العباد کے بارے میں ۔اس لیے کہ یہ دل ، اوّل تو اپنے خیالات و جذبات کی پاکیزگی کی وجہ سے محفوظ ہے اور ثانیاً اللہ تعالیٰ کی خصوصی نظر عنایت کے سبب مغفور ہے ۔
﴿وَلَا بَغْيَ وَلَا غِلَّ وَلَا حَسَدَ﴾’’نہ تو سرکشی کرنے والا ہو ’ نہ ہی کدورت رکھنے والا ہو اور نہ ہی حسد کرنے والا ہو‘‘ سرکشی نہ ہونے کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بغاوت کرنے والا نہ ہو، اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ مخلوق پر ظلم و زیادتی کرنے والا بھی نہ ہو۔ غل یا کدورت ، دل میں دشمنی یا نقصان پہنچانے کی خواہش کو کہتے ہیں جبکہ دل میں دوسرے کی نعمت کے زوال کی خواہش رکھنےکو حسد کہتے ہیں ۔ حاصل یہ کہ نیک لوگوں کے دل ان منفی جذبات سے پاک ہوتے ہیں۔ ملا علی قاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں لاإثم علیه میں حقوق العباد اور حقوق اللہ دونوں کی نفی شامل تھی، لیکن حقوق العباد کا ذکر الگ سے کر دیا گیا تاکہ صراحت سے واضح ہو جائے کہ یہ جو کردار ہے وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد ہر دو میں زیادتی سے محفوظ ہے ۔
علامہ طیبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے مخموم کی جو شرح فرمائی وہ ارشاد باری تعالیٰ﴿أُولَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى﴾سے ملتی جلتی ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں کو تقویٰ کے لیے جانچ لیا ۔ عرب امْتَحَنَ الذَّهَبَ تب کہتے ہیں جب سونے کا کھوٹ نکال کر اسے خالص کر دیا جائے تو تقویٰ کے لیے امتحانِ قلب کا مطلب ہو گا کہ ان کے دلوں سے تقویٰ کے منافی جذبات نکال دیے گئے تاکہ ان کا دل تقویٰ سے روشن و مزیّن ہو جائے۔ تو اپنے دل کو متقی اور نقی بنانے کے لیے خوب محنت کرنی چاہیے ۔اس کے لیے ایک طرف تو اپنی زبان کی اصلاح کی ضرورت ہے اور دوسری طرف اپنے دلی جذبات پر سختی سے پہرا دینے کی کہ جہاں بھی کسی کے متعلق کوئی منفی جذبہ دل میں انگڑائی لیتا ہوا محسوس ہو ، سختی سے اسے رد کیا جائے ۔اس بری صفت کی شرعی و اخلاقی برائی کو یاد کر کے اس کی مذمت کی جائےاور تعوذ کے ساتھ ساتھ اللہ کے حضور دعا کی جائے کہ وہ اس خصلت بد کو مجھ سے دور فرما دے ۔ نیز کسی پاک دل عالم و مربی کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے اصلاح بھی لی جاتی رہے کیونکہ نیک دلوں کی برکت سے کھوٹے دل بھی کھرے ہو جاتے ہیں کیا ہم بنی اسرائیل کے تذکرے میں دیکھتے نہیں کہ ان کے دلوں پر ایک دوسرے کا رنگ چڑھا دیا گیا تھا : ﴿فَضَرَبَ اللَّهُ قُلُوبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ﴾’’ پس اللہ نے بعض دلوں کو دوسرے بعض کے ساتھ خلط ملط کردیا ‘ ‘ ۔ (ترمذی ) اصلاح کی داخلی او ر خارجی ، دونوں طرح کی کوششوں سے قلب کی اصلاح ہوتی جائے گی اور جوں جوں قلب کی اصلاح ہوتی جائے گی بندہ نیکی اور قرب الٰہی کے مراتب طے کرتا جائے گا۔