لاگ ان

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

لاگ ان

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

جدیدیت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ جدیدیت ایک Weltanschauung ایک مکمل ورلڈ ویو ہے۔ اور کسی بھی ورلڈ ویو میں تین سوال کلیدی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اقبال کے الفاظ میں چیست عالم، چیست آدم، چیست حق، ( ١) یعنی کسی بھی تہذیب کو جاننا ہو تو اس کے بارے میں ان تین سوالات کے جواب حاصل کرنا ضروری ہے۔ 

    (١)     حقیقت یا حق کیا ہے؟

    (٢)    انسان کیا ہے؟

    (٣)   کائنات کیا ہے؟

جدیدیت چونکہ اپنا کوئی ایک مرکزی ادارہ نہیں رکھتی، اس اعتبار سے اس کا بیانیہ دریافت کرنا آسان نہیں ہے جیساکہ اقبال نے اس شعر میں بیان کیا ہے کہ:

تہی وحدت سے ہے اندیشہ غرب

کہ تہذیب فرنگی بے حرم ہے(٢)

جدیدیت کی تعریف کی یہی دقت ہے جس کی وجہ سے پچھلی صدی میں امت مسلمہ کے ایک بڑے دماغ ڈاکٹر فضل الرحمن نے جدیدیت کی تحدید کیے بغیر ایک پوری کتاب اسلام اور جدجدیت کے عنوان سے تصنیف کر ڈالی۔ (٣) ایک اور بات جو ہمارے ہاں بہت عام ہے کہ دراصل مغرب اور اس کی جدیدیت اسلام کی پروردہ ہے اور مسلمانوں نے مغرب میں احیائے علوم کی راہ ہموار کی ہے۔ سید حسین نصر اس تصور کی تغلیط کرتے ہوئے رقم دراز ہیں:’’یہ استدلال کا ایک بے ہودہ طریقہ ہے، اس لیے کہ آج مغربی آدمی کے دکھوں کا سبب اکثر وہ اقدامات ہیں جونشاة ثانیہ کے زمانے میں کیے گئے ۔ جب مغربی آدمی نے بہت حد تک اپنے الوہی مغرب کے خلاف بغاوت کی ـــ یہ درست ہے کہ اسلامی علوم اور اسلامی تہذیب مغرب میں نشاة ِثانیہ کا ایک عنصر تھا لیکن ان اسلامی عناصر کوان کے اسلامی کردار سے اور اس مکمل نظام سے جدا کر کے استعمال کیا گیا جہاں ان کی اصل معنویت تھی‘‘۔ (٤)

جدیدیت کا بنیادی مسئلہ ہر طرح کی ماورائیت (Transcendence) یا نیم ماورائیت(Semi-Transcendence ) کا انکار ہے جو خدا ، اور دین کے سماجی، تاریخی اور قانونی انکار کو لازم کردیتا ہے اور اپنے اس ہدف کو وہ جمہوریت کے ذریعے حاصل کرتی ہے۔جدیدیت سیکولرازم کو ریاستی پالیسی اور معاشرتی قدر کے طورپر وجود میں لاتی ہے۔اس میں چیزوں کو دیکھنے کا تناظر مادی اور تجربی ہے جو کہ انسان کے حواس کا فراہم کردہ ہے کیونکہ کسی شے کے ساتھ تعلق یا تو کسی مادی ضرورت کی وجہ سے یا نفس کے اقتضائے لذت اور جذبہ ٔ آزادی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ جدیدیت ایسی علمی سرگرمیوں کو قبول کرتی ہے جو مقصودِ افادیت یا مطلوب ِلذت کو حاصل کرنے میں کام آئیں۔ افادیت جوئی اور لذت کوشی پر اصرار کی وجہ سے ان کا تصورِ علم ہی نہیں بلکہ پورا تصور انسان اور تصورِ دنیا مختلف ہوگیا اور ان بنیادی فطری تصورات کا اصل اور مقوم یعنی تصورِ خدا بلا جواز ہوگیا۔دینی تصور میں افادیت کی بنیاد زیادہ تر اخروی ہے اور لذت پر ایسی قیدیں لگی ہوئی ہیں جو اس داعیے کو نفس اور اس کے فوری متعلقات کے درمیان ابھرنے ہی نہیں دیتی۔ دین افادیت اور لذت کو فطری مطالبات کی حیثیت سے اہمیت تو دیتا ہے لیکن اسے تعلق باللہ سے مشروط رکھتا ہے۔یعنی افادیت اور لذت کو جبلی سطح سے بلند کرکے روحانی اور اخلاقی تسکین کے اسباب بناتا ہے۔اسی لیے وہ ان داعیات کی تشفی کو اخلاقی وجود کی بیداری کے ساتھ آخرت پر مؤخر رکھتا ہے اور اس طرح انسان کو ذوقی اور تجربی سطح پر یہ باور کروادیتا ہے کہ وہ محض فنا اور عدم کے گارے سے بنا ہوا وجود نہیں ہے بلکہ بقا کا ایسا عنصر رکھتا ہے جس میں اس کے حاصلات اور دنیا میں اس کی سرگرمیوں کے نتائج ہمیشگی کے ساتھ محفوظ رہتے ہیں۔اس تفصیل کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو جدیدیت کے تمام مسلمات اور اقدار اس پوری الہی ا سکیم سے بغاوت کے نتائج ہیں۔

جدیدیت سے جزوی مناسبت بھی دین کے ساتھ ذہنی و اخلاقی تعلق کو بے اصل بنا سکتی ہے لیکن جدیدیت بھی خود اپنی جزوی قبولیت کو روا نہیں رکھتی، اسے یا تو پورا ماننا ہے یا پورا رد کرنا ہے۔ہماری فی الوقت بڑی مشکل یہ ہے کہ ہم جدیدیت کو چند مظاہر تک محدود سمجھ کر اس کو قبول کرنے کا رجحان رکھتے ہیں یا اس کی بعض باتوں ک دین سے متصادم قرار دے کر ، رد کر دیتے ہیں اور بقیہ چیزوں میں دین سے کوئی براہ راست ٹکراؤ نہ دیکھنے کی وجہ سے انھیں اپنا لیتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ جدیدیت کو بعض اجزا میں رد کر دینے کے باوجود ، اس کی بعض چیزوں کو قبول کرنے کے سبب سے اس کا ’ کل ‘ قبول کرنے والے میں خودبخود منتقل ہوجاتا ہے ۔مثلا جیسا کہ تجربے سے ثابت ہے کہ جمہوریت کی اس خیال کے ساتھ اسلام کاری کی گئی کہ اس میں اقتدار اعلی ذات خداوندی کو حاصل ہوگی اور منتخب ارکان عوامی فلاح کے لیے اس کے تحت قانون سازی کے مجاز ہوں گے ،لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ جز کے ساتھ کل خود بخودآگیا اور وہ تبدیلیاں جو ، جمہوریت کے اصل اصول میں کی گئی تھیں وہ غیر فعال رہ گئی اور شریعت ومذہب کے بجائے انسانی عقل کے بنیاد پر فیصلے اور قانون سازی ہونے لگی ۔ اس خطرے کو سمجھنا چاہیے کہ جدیدیت کا response محض فہم کی سطح پر کرنا ناکافی ہے، اس کے لیے ایسے راسخ دینی ذوق کی ضرورت ہے جو اس کے ماورائے ذہن اثرات پر بند باندھ سکے۔ہماری صورتِ حال یہ ہے کہ ہم ذوقی سطح پر جدیدیت کو اپنے انتخاب کردہ اجزا کے ساتھ قبول کر چکے ہیں اور فہم کی سطح پر انہی اجزا سے لڑتے رہتے ہیں۔ اہل دین کو چاہیے کہ اس خطرے کو سمجھانے کے ساتھ ساتھ اس ذوقِ دین کی ترویج کا ایسا کام کریں کہ مسلمانوں کو جدیدیت سے ایک ذوقی بُعد اور عدم مناسبت حاصل ہوجائے، پھر چاہے بعض ذہنی و عملی مصلحتوں سے جدیدیت کی بعض روایتوں سے مثلاً ٹیکنالوجی وغیرہ سے پیدا ہونے والے بعض مظاہر کو استعمال کر بھی لیا جائے تو نقصان کم ہو گا ۔ البتہ اس قبول میں بھی ذوقی تردید شامل رہنی چاہیے۔

          اکیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے انسان اور انسانی تہذیب کے بارے میں تمام کلاسیکی نظریات اور تصورات تقریباً ہر پہلو سے غیر مؤثر ہو کر رہ گئے۔ چیزوں پر سے نظریاتی گرفت بہت اہتمام اور زور کے ساتھ کمزور کر دی گئی۔ اس بڑی اور بنیادی تبدیلی کے اثرات و نتائج ہمہ گیر سطح پر رونما ہوئے ہیں۔ جدید مغرب میں اسی مقصود کو سامنے رکھ کر طاقت اور علم کی یکجائی کے اتنے فعال مظاہر وجود میں آگئے ہیں کہ باقی دنیا خود کو پہچاننے ، جاننے اور اپنے آپ کو اس نصب العین تک پہنچانے کے لیے جس کا شعور انسان کی خلقت میں داخل ہے،مغرب کی غیر مشروط اور غیر محدود پیروی کرنے پر مائل ہے۔ آج انسان کی خود شعوری اور جہاں بینی کی کسی ایسی جہت کو جو مغربی ورلڈ ویو سے اختلاف تو دور کی بات غیرمتصادم امتیاز بھی رکھتی ہو موجود رہنے یا وجود پانے کی گویا اجازت ہی نہیں ہے ۔ شعور اور وجود کی ایک مطلق کنڈیشننگ کا نظام دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک غالب ہے اور اس کی باگ ڈور مغرب کے ہاتھ میں ہے۔ اس یک طرفہ آفاقیت کا احساس تو شاید مذہبی حلقوں کو تھا ،لیکن اس کا نتیجہ خیز ادراک مذہبی ذہن کے رسمیاتی ردِّ عمل سے آگے نہ بڑھ سکا۔ مذہبی ذہن ماضی میں،خصوصاً مسلمانوں کی تہذیبی تاریخ میں، ایک کارگر ردّدعویٰ( anti-thesis )کے طور پر کامیابی کے ساتھ برسرکار رہا ،لیکن دورِ جدید میں دعویٰ( thesis )کی ساخت بدل جانے کی وجہ سے اسے وہ راستہ ہی نہ مل سکا جس پر چل کر وہ دعویٰ( thesis )کے ساتھ ایک متوازی کشمکش کا ماحول پیدا کرتا یا اس کے سامنے مزاحمت،یعنی کامیاب مزاحمت کی کوئی صورت نکالتا۔ اس ذہن کے روایتی کردار کے اجنبی بن جانے کی وجہ سے اس کا جوابِ دعویٰ (anti-thesis ) ہونا بھی یوں کہہ لیں کہ بے معنی اور بے تاثیر ہو کر رہ گیا۔ جوابِ دعویٰ(anti-thesis ) ایک ایسی مربوط حرکت کا نام ہوتا ہے جو مثال کے طور پر دائرہ بنانے میں استعمال ہوتی ہے۔ دائرہ بننے کا یہ عمل دعویٰ کو اپنے اندر سمولیتا ہے اور اسے منہدم( deconstruct )کردیتا ہے۔ جدیدیت سے بننے والی دنیا میں مذہبی ذہن میں دائرہ بننے والی حرکت تو ماند پڑ گئی ، بس دائرے کا تصور اور اس تصور پر اعتماد باقی رہ گیا۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں مذہبی ذہن،شعور کے اندر ایک مغائرت میں مبتلا ہوگیا اور وجود کے دروبست میں بالکل ہی غیر مؤثر ہوگیا۔ مذہبی تصورات جب ذہن کا نظام ہی بدلنے پر قادر نہ رہے تو لامحالہ دنیا بھی ان کے تصرف سے نکل گئی۔

یہ وہ پورا منظر نامہ ہے جس کا حصہ ہوتے ہوئے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس منظر میں چھوٹی بڑی تبدیلی لاسکنے والی کوئی ایک قوت بھی ہمارے مذہبی شعور کی تحویل میں کیوں نہیں ہے۔ مؤثر دینی بیانیہ اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ جو شعور کو بھی معنی دے اور وجود کو بھی اس کی حقیقت سے جڑا رکھے۔ ہمارے پاس فطرتِ شعور کی تائید رکھنے والی ایک چیز شروع سے مہیا تھی اور وہ یہ کہ کسی نظریے کی غیر موجودگی میں ذہن انسانی میں علم کی تشکیل کا عمل ہو ہی نہیں سکتا۔ پیشگی نظریہ ہی ذہن کو علم کا مادہ فراہم کرتا ہے اور اس مادے کی تمام تشکیل کی مسلسل نگرانی رکھتا ہے۔ مغرب نے تو شعور کو اس کی فطرت اور وجود کو اس کی حقیقت سے منقطع کر ہی رکھا ہے لیکن اس کی یہ کامیابی ایک حد تک ہماری غفلت کا بھی نتیجہ ہے۔ ہم نے ان دونوں اصول سے طولِ تاریخ میں کام لینے کی روایت کو یوں لگتا ہے کہ اچانک ہی چھوڑ دیا اور خود کو مغرب کے لیے ایک خالی گھر بنا لیا جس کے دروازے اس کے قبضے سے پہلے ہی کھلے ہوئے تھے۔

 ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب سے پہلے تو اپنے دینی بیانیے کا دروبست اور اس کے لوازم کو ڈھونڈنے کی کوشش کریں اور پھر اس کو عہد ِجدید کے تناظر میں رکھ کر یہ دیکھنے کی سعی کریں کہ اس کے لاتعلق اور غیر مؤثر ہونے کے واقعی اسباب کیا ہیں اور ان اسباب کا تدارک کیسے کیا جا سکتا ہے۔

کسی تہذیب کی تشکیل کرنے اور اس کی روبہ کمال حرکت کو جاری رکھتے ہوئے اس کی حفاظت کرنے والا بیانیہ بڑی حد تک ایسی قوت پر اساس رکھتا ہے جو مدلول کو ذہنی استدلال سے ماورا حالت میں شعور اور وجود کی اجتماعی ہیئتوں میں راسخ اور نتیجہ خیز رکھتا ہے۔ قوت کا عنصر اگر غائب یا معطل ہوجائے تو کوئی تہذیب کسی دوسرے ذریعے سے خود کو موجود نہیں رکھ سکتی۔ انسان اور دنیا بلکہ خود اس کے نفس میں تعلق کی کوئی نوع ایسی نہیں ہے جو قوت سے مستغنی ہو۔ یہ قوت کوئی رومانوی تصور نہیں ہے بلکہ اس غلبے کا نام ہے جو ذہن کو اپنے موضوع پر ہونا چاہیے۔ جب کبھی تہذیب میں غالب رہنے کا ملکہ کمزور پڑ جاتا ہے تو اس کے اصول و اقدار خود اسی پر بوجھ بن جاتے ہیں اور جبرو ناگواری کی یہ صورت خود انسان کو اپنے معتقدات اور نظریات ،جنھیں ہم نے ابھی اصول و اقدار سے تعبیر کیا ہے، کے ساتھ بھی پیدا ہوجائے تو یہ ایسی ہی حالت ہوتی ہے جیسے درخت اپنے بیج سے منحرف ہونے لگے۔ انسان اپنی کسی بھی وجودی سطح پر اس اندرونی دو لختی اور کشمکش کو سہارہ نہیں دے سکتا ۔ مضبوط تہذیب اپنے اندر دَر آنے والی کشمکش کو ہاتھ کے ہاتھ فیصل کرتی ہے اور داخلی تصادم کو رفع کرنے کا یہ عمل ہی دراصل تہذیب کی وہ قوت ہے جسے اس کی اساسِ بقا کی حیثیت حاصل ہے۔

موجودہ دنیا جس میں ہم دینی بیانیے کے فقدان کا المیہ جھیل رہے ہیں ،اپنی اصولی بناوٹ میں مغربی ہے۔ یعنی ساری دنیا یا تو مغربی بن چکی ہے یا ایسا بننے کے انتظار میں ہے۔اس بات کا ادراک کیے بغیر ہم آج کی دنیا کو ٹھیک سے سمجھ نہیں سکتے۔ بظاہر کچھ چیزیں مغرب کی سکیم اور ترتیب سے باہر یا اس سے متصادم دکھائی دیتی ہیں ،لیکن ذرا غور سے دیکھا جائے تو یہ چیزیں بھی مغرب کی توسیع کا ذریعہ بننے کے سوا ،اور کوئی قابل ذکر نتیجہ نہیں پیدا کررہیں۔مغرب نے دنیا کا کلاسیکی جدلیاتی نظام بدل کر رکھ دیا ہے۔ اب دعویٰ( thesis )ہی ترکیب (synthesis )ہے اور جو تہذیبی یا نفسیاتی مظاہر ردّ دعویٰ (anti-thesis )کے طور پر نظر آتے ہیں انھیں بھی یہ دعویٰ( thesis ) یا تو نگل لیتا ہے یا پھر بالکل اجنبی ،غیر مؤثر اور ڈراؤنا بنا دیتا ہے۔ تاریخ کا یہ جدید نظامِ حرکت کسی طرح کی اجزائی مزاحمت سے نہیں روکا یا بدلا جا سکتا ۔ اس کے لیے ایک مجموعی نظریاتی، تہذیبی اور اخلاقی قوت یعنی ایک مکمل دعویٰ درکار ہے جوپھیلاؤ کی ایسی طاقت رکھتا ہو کہ دنیا کو اس کے موجودہ ideals اور actualities سے خالی کر دے۔ مغرب کے مکمل نظریاتی اور تہذیبی انخلا کو مقصود بنائے بغیر اسلامی بیانیہ جڑ نہیں پکڑ سکتا۔ گویا آج دینی بیانیہ وہ ہوگا جو مغربی thesis کے مقابلے میں anti-thesis نہیں بلکہ ایک نیا synthesized thesis بن کر سامنے آئے گا۔اسلام اپنے مزاج ہی میں محض anti-thesis ہونا قبول نہیں کرتا، بلکہ یہ ایسا synthesis ہے جو خود سے مغائرت رکھنے والے جدلیاتی، تاریخی،اخلاقی ڈھانچوں (structures) کو بے اثر اور بے معنی بنا دیتا ہے اور حق اور زمانے کی حقیقی نسبت کا انکشاف کردیتا ہے، جو جوہری طورپر تقدیری ہے، محض تاریخی نہیں۔

 آج کی دنیا ایسی ہوچکی ہے کہ اس میں بامعنی اور پراثر طریقے سے موجود رہنے کے لیے ہر رُخ پر مغرب کا سامنا ہے۔ مغرب سے اپنے تصادم یا توافق یا لاتعلقی کو اچھی طرح متعین کیے بغیر کوئی ایسا نظریہ اور تصور باہر کی دنیا ہی نہیں ذہن میں بھی اپنی تشکیل کا جواز اور گنجائش نہیں پیدا کرسکتا' جو اپنی اساسات اور مقاصد میں مغرب سے مختلف ہے اور مختلف رہنا چاہتا ہے۔ اس لیے ہمیں بھی زندگی اور عقیدے کے تعلق کو نتیجہ خیز سطح پر بروئے کار لانے کے لیے جہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہمارا دین اور اس کے بنیادی مطالبات کیا ہیں، وہیں اس بات کا فہم بھی ناگزیر ہے کہ مغرب کیا ہے اور دنیا پر اس کی عملی اور علمی حکومت کے اسباب، ذرائع اور مقاصد کیا ہیں؟ڈاکٹر عبدالوہاب سوری کے الفاظ میں:

’’ مغربی تہذیب چند جغرافیائی حد بندیوں کی مرہونِ منت نہیں بلکہ کچھ خاص عقائد (مابعد الطبیعیات) ، اقدار اور نظریات پر مبنی ایک مخصوص ذہنیت کی عکاس ہے۔ کسی بھی تہذیب میں انسان کا ایک خاص تصوراور مقام ہوتا ہے۔ اگر اس تصور انسان کو اپنا لیا جائے تو اس تہذیب کو انہی علمی بنیادوں پر رد کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ مغرب کی تہذیبی برتری اس کی فکری برتری میں پنہاں ہے۔ کسی بھی تہذیبی غلبہ میں گو کہ عسکری عنصر کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا لیکن تاریخ شاہد ہے کہ محض عسکری بنیادوں پر حاصل کردہ غلبہ زیادہ دیرپا نہیں ہوتا ۔ کسی تہذیب کا زوال اس کی علمی بنیادوں کی شکست و ریخت کا پیش خیمہ ہوتا ہے‘‘۔ (٥)

 مغرب کے عالمگیر غلبے کے بنیادی اسباب یہ ہیں:

علم اور اخلاق کے بارے میں تمام مذہبی اور کلاسیکی تصورات کو بالکل منقلب کردینا، یونانی علوم کو دینی علوم پر ترجیح دے دینا ، انسان کو موجودات میں سب سے اہم سمجھنا اور ہر بات پر انسانی نقطہ نظر سے غور کرنا ۔انسانی شعور کو ہر طرح کے مابعد الطبیعی تصور سے خالی کردینا ،بلکہ ایسے امور کے بارے میں وحشت، تحقیر، انکار اور لاتعلقی کے رویے پیدا کردینا۔ ان رویوں کے نتیجے میں جو حسی بلکہ جبلی اور افادی شعور پیدا ہوا، اس شعور کو باقی دنیا کے لیے بھی علم کا واحد معیار بنادینا۔ آزادی کے ایسے تصور کی تشکیل کرکے اسے ایک عالمگیر توسیع دینے میں کامیابی حاصل کرلینا جس کا زیادہ زورانکار کی طرف ہے۔ یہ انکار یا خوئے انکار، جسے مغرب نے آزادی کا عنوان دیا،دراصل انسان کے ہمہ گیر ماضی اور اس کے تمام مشمولات سے چھٹکارا پانے کے لیے تھا۔

    آزادی کے تصور کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ انسان نے اپنے اوپر بہت سی پابندیاں، مذاہب، روایات اور اقدار کی شکل میں مسلط کرلیں اور اس وجہ سے اپنی عقل کا مناسب استعمال نہیں کرسکا۔وہ ذہنی و فکری طور پر نابالغ ہی رہا۔تحریک روشن خیالی کے بنیادی مفکر ایمانویل کانٹ کے الفاظ میں:’’روشن خیالی انسان کے غور و فکر سے عاجز ہونے کے خود ساختہ تصور سے نکلنے کا نام ہے۔ غور وفکر سے عاجز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان بغیر کسی کی رہنمائی کے اپنی عقل کا استعمال نہیں کر سکتا۔اگر اس رویہ کی وجہ قوت استدلال کے بجائے بغیر کسی رہنمائی کے خود سے عقل کا استعمال کرنے میں پس و پیش ہونا ہو تو پھر یہ سمجھنا چاہیے کہ انسان نے اس تصور کو اپنے اوپر اپنی مرضی سے نافذ کیا ہے۔ جاننے کا حوصلہ پیدا کرو ! اپنی عقل کے استعمال کا حوصلہ پیدا کرو! یہی روشن خیالی کی تحریک کا مقصد ہے اور یہی اس کانعرہ ہے‘‘۔ (٦)

 یہ آزادی عمل میں کبھی کسی ایجابی قدر تک نہیں پہنچی اور نہ مغرب اپنے لوگوں کو یا باہر کی دنیا کو اس کی اجازت دیتا ہے کہ وہ آزادی کو اس کے اپنے بنائے ہوئے نقشے سے باہر کسی تعمیر کا ذریعہ بنائیں۔اس یک رخی آزادی نے دنیا میں تبدیلی کا سارا نظام مغرب کے ہاتھوں میں دے دیا اور یہ تبدیلی بھی ایسی تھی جس نے مختلف ناموں سے انسانی ماضی کو اس کی کلیت کے ساتھ رد نہیں بلکہ غائب کردیا۔ شعور کی فطری ساخت میں کامیابی کے ساتھ بنیادی ترمیم کردینے کے بعد اس مشروط آزادی نے جو بظاہر غیر مشروط نظر آتی ہے' انسان کا اپنے بارے میں تصور بدل کر رکھ دیا۔ مغرب کی غالبا ً سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ اس نے تصور ِ انسان کو یکسر تبدیل کردیا۔

مغرب کو سمجھنے کے لیے تصورِ انسان کو اچھی طرح جاننا انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہ اس کے تجزیے کی کنجی ہے جسے استعمال کیے بغیر ہم اس تہذیب کے اندرداخل نہیں ہوسکتے۔اس نوزائیدہ تصورِ انسان کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ آدمی ایک مادی وجود ہے جس کے بارے میں غالب گمان یہ ہے کہ یہ غیر مخلوق ہے۔ اس مادّی وجود کے دو اصولی مطالبات ہیں: خوشی اور افادیت۔ ان مطالبات کو پورا کرنے کی کوششوں کے نتائج علمی بھی ہیں اور اخلاقی بھی۔ خوشی اخلاق کا idea ہے اور افادیت علم کا۔ چونکہ انسان مادّی وجود ہے ،لہٰذا مسرت اور فائدے کا دائرہ بھی غیر مادّی نہیں ہو سکتا۔ یعنی روحانی خوشی اور اُخروی نفع بے معنی بلکہ غیر انسانی تصورات ہیں۔خوشی ایک ایسی کیفیت ہے جس میں جبلت اور ذہن دونوں شریک ہوتے ہیں۔ اس میں جبلی عنصر نکال دیا جائے تو خوشی کا پیکر ناتمام رہ جاتا ہے۔ اسی طرح افادیت محض مادّی ہے،گو کہ اس میں کچھ اخلاقی مضمرات بھی ہوسکتے ہیں ،لیکن وہ اخلاقی مضمرات بھی کسی بڑے تصور کا حصہ نہیں ہیں یا کسی مافوق مادی مقصود کی طرف یکسو ہونے کے نتائج نہیں ہیں ،بلکہ ایک پہلو سے نفسیاتی اور دوسری جہت سے انتظامی ہیں۔ مثلاً کسی کو فائدہ پہنچانا نفسیاتی تسکین کا سبب بھی ہے ،لیکن اس کے بڑھ کر اس کی وجہ سے ریاست اور معاشرے کو درکار ایک قانونی اور عملی ہم آہنگی کا قیام بھی ممکن ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ خوشی اور افادیت کے اصول کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس پر استوار ہوجانے سے آدمی اس دنیا کا نظام کامیابی سے چلا سکتا ہے جس کا ایک سرا جبلت ہے اور دوسرا مادیت۔ مغرب ان دونوں انتہاؤں کے بیچ میں ایک نئی دنیا اور نیا انسان پیدا کرنا چاہتا ہے اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہے۔مغربی تصور ِانسان کے ان بنیادی عناصر کو اگر گرفت میں لایا جاسکے تو ان کی تہذیب کو چلانے والاپورا نظام اپنے ضروری اجزا ء کے ساتھ سمجھ میں آسکتا ہے۔مغرب کے غلبے کے اسباب کو تاریخی عوامل کے معنی میں لیا جائے تو ہمیں مغرب ِ جدید کے چند تشکیلی مراحل دیکھنے ہوں گے: Anthropological Metaphysics جس میں یونانی mythology سے لے کر معروف عیسائی عقائد شامل ہیںRomanization, Cartesian Dualism, Skepticism افادیت پسندی کا فلسفہ انکار ِ دین تجربیت کا فلسفہ ,Scientism Capitalism۔ ان مرحلوں کو مربوط انداز سے طے کرکے جدید مغرب وجود میں آیا۔ذیل میں ترتیب کے ساتھ اس پر روشنی ڈالی جائےگی کہ کس طرح ان عوامل نے مغربی غلبے میں کردار ادا کیا ۔

١) Anthropological Metaphysics جسے مادّی مابعد الطبیعیات کہنا چاہیے۔یونان جو مغرب کی جنم بھومی ہے اگر ہم وہاں سے دیکھنا شروع کریں اور عیسائیت کی معروف شکل تک پہنچیں تو ایک ہی بات تسلسل کے ساتھ نظر آتی ہے کہ اس مابعد الطبیعیات میں خدا کی کوئی مرکزی جگہ نہیں ہے،یا عیسائیت کے تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ خدا خالص نہیں ہے۔ یہی بات عسکری صاحب نے اپنی کتاب جدیدیت میں یوں ذکر کی ہے :’’ یونانی فلسفیوں کے توجہ کا مرکز انسانی معاشرہ تھا نہ کہ مبداء و معاد۔یعنی دنیا ویت ان فلسفیوں میں اچھی طرح جڑ پکڑ گئی تھی۔یونانی ہر مسئلے کو انسانی نقطہ نظر سے دیکھنے کے عادی تھے ،چنانچہ جب جب پندرہویں اور سولہویں صدی میں یورپ والوں یونانی فلسفے پر زور دینا شروع کیا تو اس تحریک کانام ہی ”انسانیت پرستی“ قرار پایا‘‘۔(۷)

ایسی مابعد الطبیعیاتی روایت میں بہت آسانی کے ساتھ ممکن ہوجاتا ہے کہ دینی مابعد الطبیعیات یعنی عقائد سے پوری مناسبت پیدا نہ ہو اور انھیں کسی بھی مرحلے پر رد کردینا کوئی بڑا مسئلہ نہ بنے۔ مغرب کے ساتھ یہی ہوا کہ خدا کاتصور دینی نہ ہونے کی وجہ سے پہلے یہ عقلی حقیقت بنی ،پھر اخلاقی آدرش ideal بنا اور پھر نفسیاتی ضرورت تک محدود ہو کر رہ گیا ،جسے نفس پر تسکین کے دیگر ذرائع کھول کر اس کے اندر سے خارج کیا جاسکتا ہے۔

٢) Romanization: عیسائیت سیدنا عیسیٰ کے صدی دو صدی بعد ہی ایک ایسا دین بن گئی تھی جس کا مرکز خدا نہیں تھا بلکہ سیدنا مسیح ؑ تھے اور خود آنحضرت علیہ السلام بھی ایک پہلو سے خدا نما انسان تھے اور دوسرے پہلو سے انسان نما خدا ۔ اس دین کو طاقت کے بغیر حکومت کرنے کی عادت پڑ گئی تھی ،لیکن چونکہ ایسا زیادہ دیر تک ممکن نہیں تھا لہٰذا جب حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے طاقت کی لازمی ضرورت سامنے آئی تو عیسائیت کو اپنے بانیوں کے قاتلوں کے ساتھ یعنی طاقت کے واقعی مظاہر کے ساتھ سمجھوتا کرنا پڑا۔اور رومیوں کی دنیاوی طاقت نے اہل کلیسا کے روحانی دبدبے کو سب سے بڑا سہارا فراہم کیا۔ اس Romanization سے عیسائیت کی طبیعت میں رچ بس جانے والی دنیا بیزاری کا غیر فطری ڈھب سے خاتمہ ہوگیا ،جو اس کے پیشواؤں میں نہیں تھی، لیکن بہرحال اس کی روایت میں مرکزی درجہ رکھتی تھی۔گویا پہلے مرحلے میں تصور ِ خدا بدلا اور اس مرحلے میں تصور ِ دنیا۔ اور یہیں سے دین اور دنیا کی مستقل دوئی کا آغاز ہوا۔ اگر مغرب میں ظاہر پرستی اتنی بڑھ گئی ہے تو اس میں رومی لوگوں کی ذہنیت کو بڑا دخل ہے جسے یورپ کے لوگوں نے اپنے لیے نمونہ بنایا۔رومی لوگوں کا اصل وطن اور قوم تھا ۔فرد سے مطالبہ کیا جاتا تھاکہ وہ اپنی ہر چیز قوم ،وطن یا سلطنت کے لیے قربان کردے اور اس سانچے میں ڈھل جائے جو معاشرے نے اس کے لیے بنایا ہے۔یہی وہ بیج ہے جو آگے چل کر مغرب میں قوم پرستی اور معاشرہ پرستی کی شکل میں با ر آور ہوا۔

٣) دیکارت کی ثنویت (Cartesian Dualism): رومن دور میں رونما ہونے والی دین و دنیا کی دوئی بعض تاریخی اسباب سے ایک بہت بڑے نتیجے میں صرف ہو گئی، وہ تھاذہن اور مادہ، یا روح اور جسم کی دوئی کا نظریہ، جس نے ناقابل یقین تیز رفتاری کے ساتھ ایسا پھیلاؤ اختیار کرلیا کہ شعور اور وجود کی تعریف متعین کرنے کا واحد لائق اعتبار اور قابل عمل ذریعہ بن گیا۔ یہ گویا رومیوں کے سہارے سے محروم ہوجانے والی عیسائیت کو ایک باعزت راہ فراہم کرنے کی کاوش تھی۔ اس میں مادہ، حقیقی اور غیر مادی، اعتباری ہوگیا۔دیکارت کے اپنے الفاظ میں:’’جب میں ہر چیز کو جھوٹا خیال کر رہا تھا، اس سے لازم آتا ہے کہ میں جو سوچ رہا تھا کوئی شے تھا اور یہ خیال ظاہر کرتے ہوئے کہ میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں، اتنا ٹھوس اور یقینی تھا کہ متشککین کے زیادہ سے زیادہ مفروضے اسے باطل کرنے میں ناکام تھے‘‘۔ (۸)

 دیکارت یوں تو رومن کیتھولک پادری تھا اور اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں کے شکوک و شبہات دور کرکے اپنے دین کی خدمت کرناچاہتا تھالیکن نتیجہ الٹا نکلا۔مغرب کے ذہن کو مسخ کرنے کی ذمہ داری جتنی اس پر ہے شائد اتنی کسی ایک فرد پر نہیں۔فرانس کے ایک رومن کیتھولک مصنف نے تو یہاں تک کہا ہے کہ فرانس نے خدا کے خلاف سب سے بڑا گناہ دیکارت کو پیدا کر کے کیا !!۔برٹرنڈرسل کے الفاظ میں: میں سوچتا ہوں اس لیے ہوں، ذہن کو مادے سے زیادہ یقینی بنا دیتا ہے۔(۹)

دیکارت خدا کے علاوہ دو اور جوہروں کے وجود میں بھی یقین رکھتا ہے جن کو وہ ممتدد جوہر (Extended Substance) اور مفکر جوہر( Thinking Substance )کے ناموں سے موسوم کرتا ہے اور جن سے وہ علی الترتیب نفس یا روح اور مادہ مراد لیتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ان کا مبدا خدا کی ذات ہے لیکن یہ دونوں ثانوی جواہر بھی ضمنی اعتبار سے وجود بالذات کے حامل ہیں اور اپنے اپنے دائرہ کار میں مکمل طور پر آزاد ہیں۔ تمام طبعی دنیا ایک جوہر ممتد ہے جو میکانکی قوانین فطرت کی تابع ہے اور یہی متحرک مادہ بالآخر طبعی دنیا کو وجود میں لانے کا سبب بنتا ہے۔ دیکارت اس تصور کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:’’میں کہتا ہوں کہ جسم اور ذہن میں بہت فرق ہے۔ جسم کو چھوٹے چھوٹے ذرات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، مگر ذہن کو بالکل بھی تقسیم نہیں کیا جا سکتا، جسم کے کسی عضو کو جسم سے الگ کر سکتے ہیں مگر ذہن کے کسی بھی حصے کو مثلاً خواہش،محسوسات وغیرہ کو ذہن سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ پورا کا پورا ذہن ایک اکائی یایونٹ ہے ‘‘۔ (۱۰)

٤) تشکیک (Skepticism)یعنی خدا کو جاننے میں ایسی بے بسی جو خدا کو نہ ماننے کاٹھوس جواز بن جائے۔ اس کے بانی اور سب سے بڑے نمائندے ڈیوڈ ہیوم کے یہاں تشکیک کا یہی مصرف ہے کہ اقرار کو اتنا ناممکن بنادیا جائے کہ انکار بغیر کسی دعوت و اعلان کے ناگزیر ہوجائے۔ثنویت کی طرح تشکیک نے بھی مغرب کو اندر سے حتماً بدل دینے میں بنیادی کردار ادا کیا۔اس تشکیک کا پہلا حصہ یہ تھا کہ خدا کا علم تو صحیح ہو ہی نہیں سکتا ،دوسرا حصہ یہ تھا کہ دنیا کا علم بھی قطعی نہیں ہے۔یہ گویا بیج تھا knowledge & technology کے اس blend کا جو آج مغرب کی سب سے بڑی طاقت ہے۔علم کا حتمی نہ ہونا معیشت اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے ،اور اس کا دروازہ کہہ سکتے ہیں کہ ہیوم ہی نے کھول دیا تھا۔ علم حتمی ہوجائے تو ان دونوں کی نشوو نما پر روک لگ جائے گی۔ یہ نکتہ ہم آگے capitalism کے بیان میں کھولیں گے۔تشکیک کا مرحلہ اس لحاظ سے بھی بہت اہمیت رکھتا ہے کہ اس سے ذہن اور شے کی اپنی اپنی تعریف اور حدود کے ساتھ ساتھ ان کے تعلق کا بنیادی منہج بھی پوری طرح بدل گیا۔ اس دوطرفہ تبدیلی ٔ ماہیت اور انقلاب ِ تناظر کو بھی مغرب ِ جدید کی بڑی بنیادوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔کیونکہ یہ رجحان آگے چل کر انیسوں صدی میں کومت کے نظریہ ثبوتیت اور بیسویں صدی میں انگریزوں کے منطقی ثبوتیت کے شکل میں ظاہر ہوا۔ 

حواشی و حوالہ جات

 (١)     اقبال ،علامہ محمد، کلیاتِ اقبال فارسی،ص ٥١٠ ، لاہور،اقبال اکادمی پاکستان، ١٩٩٤۔

(٢)    اقبال، علامہ محمد، کلیاتِ اقبال اردو، ص ٤٠٧، لاہور ،اقبال اکادمی پاکستان،٢٠٠٧۔

(٣)   فضل الرحمن' ڈاکٹر' ترجمہ محمد کاظم' اسلام اور جدیدیت، لاہور، مشعل، ١٩٩٨۔

 (٤)   Nasr, Syed Hussain. Islam and the Plight of Modern Man. London:,p147-148

(٥)    سوری' ڈاکٹر عبدالوہاب' سرمایہ دارانہ نظام: ایک تنقیدی جائزہ، ص٨،کراچی،٢٠٠٩۔

 (۶)    Kant, Immanuel, H.B. Nisbat (2009). An Answer to the Question: What is Enlightenment? United Kingdom: Penguin. p 1.

(۷)   عسکری،حسن،جدیدیت، ص۲۶، لاہور،ادارہ فروغِ اسلام، ۱۹۹۷ ۔

 (۸)   Descartes, Rene, lan Maclean (2006). A Discourse on the Method. New York: Oxford University Press, p 28.

 (۹)    Russell, Bertrand (2003). History of Western Philosophy. New York: Routledge, p 576.

 (۱۰)   Descartes, Rene, Michael Moriorty (2008). Meditations on First Philosophy. New York: Oxford University Press, p 61.

لرننگ پورٹل