لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جنگ میں خطرے تو ہوتے ہی ہیں لیکن اگر وہ امن کے نام پر ہو تو زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ اسی طرح جہل ویسے تو نقصان کا باعث ہے لیکن اگر وہ علم کے نام پر ہوتو اس کی ’جہالت‘ بڑھ جاتی ہے۔ پھر یہ پڑھا لکھا جہل اگردین کے دائرے میں ہو تو ’’دین کے دائرے ‘‘ سےنکلنے یا نکالنے کے کام زیادہ آتا ہے۔ معاملہ پیچیدہ اور حساس اس وقت ہو جاتا ہے جب یہ سب کچھ قرآن پاک کےنام پر بلکہ اس کے ذریعے ہی کیا جائے۔اب کوئی منع کرے تومذہبی اجارہ دار کہلائے اور سمجھائے تو رجعت پسند؛ لیکن سچ بہرحال سچ ہوتا ہے چاہے کڑوا کیوں نہ ہو۔

پہلا سچ تو یہ ہے کہ داعیانِ قرآن سارے ایک ہی رتبے کے نہیں ہیں۔بعض گمراہی پر ہیں اور بعض غلطی پر ، اور بعض نیکی پر ،بعض کا فائدہ زیادہ ہے اور نقصان کم اور بعض کا نقصان ان کے فائدے سے زیادہ ہے اور بعض کا نفع ہی نفع ہے۔پھر ان تینوں قسموں میں درجات بے شمار ہیں۔ اب ہمیں نام سے کیا لینا، کام کی بات کرتے ہیں۔

رجوع الی القرآن کی فضیلت اور اجر و ثواب، اب محتاجِ بیان نہیں رہا، ہاں کچھ وہ پہلو جو ہَنوز اوجھل ہیں ، ان کی طرف توجہ کی جاتی ہے۔اس سلسلے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے چند فرامین کا مطالعہ ہمارے پیش نظر ہے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے : إِنَّ أَغْرَى الضَّلَالَةِ لَرَجُلٌ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَلَا يَفْقَهُ فِيهِ، فَيُعَلِّمُهُ الصَّبِيَّ وَالْعَبْدَ وَالْمَرْأَةَ وَالْأَمَةَ فَيُجَادِلُونَ بِهِ أَهْلَ الْعِلْمِ (جامع بیان العلم و فضله)’’بے شک انتہا کی گمراہی ہے کہ ایک بندہ قرآن تو پڑھے اور اس میں گہری سمجھ بوجھ حاصل نہ کرے، پھر وہ آگے قرآن پڑھانا شروع کر دے اور وہ بچے، عورت ، غلام اور باندی تک کو پڑھا دے۔ پھر یہ لوگ اس قرآن کے ساتھ اہلِ علم سے جھگڑنا شروع کر دیں‘‘۔

بعض بھولے دوست جو بابا بھلے شاہ کی طرح ’’ علموں بس کریں اور یار ، اکو الف تیرے درکار ‘‘ کے کچھ زیادہ ہی قائل ہوتے ہیں، قرآن مجید کا ترجمہ پڑھ لینے ہی کو کل علم اور اصل علم قرار دیتے ہیں:’’عربی گرامر تمھیں آتی ہے ، درس تم دے لیتے ہو ، منتخب آیات تم نے یاد کر لی ہیں ، تمھیں کورس کرنے کی کیا ضرورت ‘‘۔ ایسے جملوں کا زہر ہم نے اپنے کانوں خود ’چکھا ‘ہے۔ تو لکھ رکھنا چاہیے کہ اس فرمان کے الفاظ کے مطابق ، علمِ دین، قرآن پڑھنے پڑھانے کے ماورا بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔بہرحال اس بندۂ خدا میں قرآن پڑھنا اور پڑھانا دونوں پائے جاتے ہیں لیکن جو چیز ناپید ہے وہ تفقہ فی القران ہے۔ مطلب یہ کہ قرآن پاک کی گہری اور پختہ سمجھ کے بغیر اس نے آگے پڑھانا شروع کر دیا، اس طرح سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں گمراہی کی انتہا تک جا پہنچا اور رہی سہی کسر اس غیرِ فقیہ معلم و مدرس کے شاگردانِ بے رشد نے نکال دی اور اس قرآن کے ذریعے اہلِ علم سے جھگڑنا شروع کر دیا !!

ان جھگڑوں کے مظاہرے خارج میں ، پائے جاتے ہیں لیکن ہم یہاں ان جھگڑوں کی مثالیں دے کر مزید ’جھگڑا‘ نہیں چاہتے۔ ہاں اس جانب متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ گہری اور پختہ سمجھ کےبغیر قرآنِ مجید کی درس و تدریس خطرناک ہے۔ فقہ سے بیر بعض لوگوں میں واضح محسوس ہوتا ہے۔ ایک صاحب طنزیہ انداز میں فرما رہے تھے: ’’ دین میں سارا بگاڑ اس ’فقے‘ نے پیدا کیا ہے۔حالانکہ کتاب اور فقہ میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔سورۂ آلِ عمران میں، کتاب پڑھنے پڑھانے والوں کو ربانی بننے کا حکم دیا گیا، تو سلف پر اللہ تعالی کی ڈھیروں رحمتیں ہوں ، ان میں سے اکثر نے ربانی کی تفسیر میں فقہ کانام لیا۔حسن بصری علیہ الرحمہ﴿كونوا ربانيين﴾کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں كونوا فقهاء علماء۔ حضرت مجاہد علیہ الرحمہ فرماتے ہیں فقهاءحضرت قتادہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں كونوا فقهاء علماء۔ امام سدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :الحكماء الفقهاء۔ امام ضحاک علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:حَقٌّ عَلَى مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ أَنْ يَكُونَ فَقِيهًا’’جو قرآن پڑھے اس پر لازم ہے کہ وہ فقیہ بنے‘‘۔

ان تفسیروں میں سب سے اہم فرمان عالی شان ،ترجمان القرآن عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ہے:(كُونُوا رَبَّانِيِّينَ)حُكَمَاءَ فُقَهَاءَ۔ امام بخاری علیہ الرحمہ سیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ کی مندرجہ بالا تفسیر نقل کرنے کے بعدلکھتے ہیں الَّذِى يُرَبِّى النَّاسَ بِصِغَارِ الْعِلْمِ قَبْلَ كِبَارِهِ ’’وہ جو لوگوں کی تربیت کرتا ہے علم کی بڑی باتوں سے پہلے چھوٹی باتوں کے ساتھ ‘‘۔یعنی جو دقیق مسائل سے پہلے واضح مسائل سکھاتا ہے یا یہ کہ کلیات سے پہلے جزئیات کا علم سکھاتا ہے یا اصول سے پہلے فروعات سکھاتا ہے یا مقاصد سے پہلے مقدمات سکھاتا ہے۔(فتح الباری )

یہاں فقہ ، علمِ فروعات کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ، بلکہ اپنے ان عام معنی میں استعمال ہوا ہے جوقرنِ اول میں مراد لیے جاتے تھے یعنی تفقہ فی الدین کہ جزیات و فروعات سمیت کل علمِ دین اور عمومی سمجھ بوجھ بھی اس میں داخل تھی۔علمِ تفسیر ، علمِ حدیث و آثار ،علمِ عقیدہ ، علمِ اخلاق سبھی کچھ فقہ فی الدین میں داخل تھا تو اب سوچیں أَنْ يَكُونَ فَقِيهًا کا مصداق بننے کے لیے کیا کچھ کرنا پڑے گا، اور اِدھر حال یہ ہے کہ کثیر تعداد نے درس و تدریسِ قرآن کی اہلیت کا کچھ معیاربنایا ہی نہیں اور جس نے کچھ معیار بنایا ہے وہ بے چارہ خود غیر معیاری ہے!!

داعیان ِقرآن کا ایک مسئلہ ، علمِ حدیث سے بے رغبتی ہے۔ بعض ازلی محروم تو قرآن و سنت کی تفریق کے مرتکب اور حسبنا کتاب الله کے قائل ہیں۔ لیکن جو حضرات سنت کی اہمیت کے اصولی طور پر قائل بھی ہیں، گہرا مطالعہ اس کا وہ نہیں رکھتے۔ ایک دفعہ ہم ایک دوست کے ساتھ، ایک نامور مدرسِ قرآن کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: فلاں آیت کی جو تفسیر آپ بیان کرتے ہیں وہ عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کے خلاف ہے، تو ان بھائی صاحب کا جواب تھا: ’’ میں نے یہ حدیث نہیں پڑھی، اب پتا نہیں کس درجے کی حدیث ہے ؟ صحیح ہے بھی یا نہیں ،بھئی ہم تو وفادار ہیں قرآن کے ‘‘!! حسن ِظن سے کام لیتے ہوئے ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں یہ بات ان مدرس کی زبان سے نکل تو گئی اور ان کا اصولی موقف و نظریہ یہ نہیں تھا، لیکن علمِ حدیث میں عدمِ ممارست بلکہ بے رغبتی تو اس انداز میں بالکل جھلکتی ہے اور یہی جھلکی پھر کئی پیروکاروں کے اندھاپے کا باعث بنتی ہے۔اب ہم سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں :سَيَأْتِي نَاسٌ يُجَادِلُونَكُمْ بِشُبُهَاتِ الْقُرْآنِ فَخُذُوهُمْ بِالسُّنَنِ، فَإِنَّ أَصْحَابَ السُّنَنِ أَعْلَمُ بِكِتَابِ الله(سنن الدارمي) ’’تمہارے پاس کچھ لوگ آئیں گےتاکہ وہ تم سے مجادلہ کریں قرآنِ مجید میں شبہات ڈال کر ، پس ان کو سنن کے ذریعے قابو کرو، پس اصحاب ِ سنن کتاب اللہ کے زیادہ جاننے والے ہیں‘‘۔

ہمارے پیش نظر اس وقت اس قول کا آخری حصہ ہے اور ہماری بحث سےاس کا تعلق یہ ہے کہ چونکہ احادیث ، قرآن کی قولی یا عملی تفسیر پر مشتمل ہیں ،اگر ایک شخص کی احادیث کے ذخیرے پر گہری نظر نہیں ہے تو درس و تدریسِ قرآن کی اہلیت اس میں مشکل ہے۔

یہاں ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ’فاتحِ دورِ جدید ‘ حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کا وہ معیار حدیث پیش کر دیا جائے جو آپ نے ’واعظ‘ کے لیے طے کیا ہے:’’کتبِ حدیث یعنی صحاح ِستہ وغیرہ سے شغل رکھتا ہو اس طرح پر کہ حدیث کے الفاظ کو استاد سے پڑھ کر سند حاصل کر چکا ہو اور ان کے معنی کو بوجھا ہو اور ان کی صحت و ضعف کو معلوم کر چکا ہو‘‘۔ (شفاء العلیل ترجمہ القول الجمیل)

ایک اہم صفت جو دور ِ جدید میں معدوم ہوتی جاتی ہے وہ قدیم سے محبت و عقیدت ہے۔ قدیم سے ہماری مراد وہ روایت ِ علم ہےجو صدیوں سے چلتی ہوئی آ رہی ہے۔عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ قرآنِ مجید کے طالب علموں کو نصیحت فرمایا کرتے تھے :عَلَيْكُمْ بِالْعَتِيقِ (سنن الدارمي)’’ قدیم کو لازم پکڑو‘‘۔ویسے تو قدامت پسندی اچھی چیز ہے لیکن جب یہ اہلِ قرآن سے رخصت ہو جائے اور جدت طرازیاں اس کی جگہ لے لیں تو پھراس فتنے کے پیدا ہو جانے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے جس کا ذکر سیدنا معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ کے فرمان میں ملتا ہے، اسی فرمان پر ہم اپنا دست گزارشات سمیٹتے ہیں:

تَكُونُ فِتْنَةٌ يَكْثُرُ فِيهَا الْمَالُ، وَيُفْتَحُ فِيهَا الْقُرْآنُ حَتَّى يَقْرَأَهُ الْمُؤْمِنُ وَالْمُنَافِقُ وَالصَّغِيرُ وَالْكَبِيرُ وَالرَّجُلُ وَالْمَرْأَةُ، يَقْرَأُهُ الرَّجُلُ سِرًّا فَلَا يُتَّبَعُ عَلَيْهَا، فَيَقُولُ: وَاللَّهِ لَأَقْرَأَنَّهُ عَلَانِيَةً، ثُمَّ يَقْرَأُهُ عَلَانِيَةً فَلَا يُتَّبَعُ عَلَيْهَا، فَيَتَّخِذُ مَسْجِدًا وَيَبْتَدِعُ كَلَامًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا مِنْ سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِﷺ، فَإِيَّاكُمْ وَإِيَّاهُ فَإِنَّ كُلَّ مَا ابْتَدَعَ ضَلَالَةٌ (مستدرک حاکم)

’’ایک فتنہ ہو گا جس میں مال کی کثرت ہو گی اور اس میں قرآن بالکل کھول دیا جائے گا یہاں تک کہ مومن ، منافق ، چھوٹا ، بڑا ، مرد عورت سب اسے پڑھیں گے، پھر ایک شخص (لوگوں پر ) قرآن پڑھے گا لیکن کوئی اس کے پیچھے نہیں لگے گا، پھر وہ کہے گا: خدا کی قسم! اب میں اسے اعلانیہ پڑھوں گا، پھر اعلانیہ پڑھنے پر بھی اس کا اتباع نہیں کیا جائے گا، پھر وہ ایک مسجد قائم کرے گا اور (اس میں) ایسا کلام گھڑے گا جو نہ کتاب اللہ میں ہو گا، نہ ہی سنتِ رسول میں !( معاذ کہتے ہیں ) پس اے لوگو!تمھیں بھی بچنا چاہیے اور اس آدمی کو بھی بچنا چاہیے اس طرز عمل سے، کیوں کہ ہر وہ نظریہ جو گھڑ لیا جائے وہ بدعت (اعتقادی ) میں شامل ہے‘‘۔

لرننگ پورٹل