لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

﴿عَنْ مُعَاوِيَةَ رَضِي الله عَنهُ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِىَّﷺ يَقُولُ مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِى الدِّينِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِى ، وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِىَ أَمْرُ اللَّهِ’’سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا، آپ فرماتے تھے: اللہ تعالیٰ  جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین میں سمجھ دیتا ہے اور بے شک میں تو تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ ہی عطا کرتا ہے اور یہ امت اللہ کے امر پر اس طرح قائم رہےگی کہ اس کی مخالفت کرنے والا بھی انھیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا یہا ں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے‘‘۔

یہ ایک جامع حدیث ہے۔شیخ عبدالکریم الخضیر فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اس حدیث کی شرح (کرنے یا سیکھنے ) میں ایک یا دو سال لگا دے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں اور اگر کوئی شخص اس حدیث کی شرح پر کوئی تصنیف کرے اور کل علم اس کے ذیل میں بیان کر دے تو تعجب کی بات نہیں جیسے کہ محدث ابن ہبیرہ نے اس حدیث کی شرح میں کل علم فقہ کو اس میں داخل کیا ہے۔

زیر نظر مضمون میں ہم اس حدیث کو ذرا تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔﴿مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ’’ جس سے اللہ تعالیٰ  خیر کا ارادہ کرتا ہے، اسے دین میں فقاہت دیتا ہے‘‘۔مسند احمد کی روایت کے الفاظ یوں ہیں : ﴿إِذَا أَرَادَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِعَبْدٍ خَيْرًا يُفَقِّهُهُّ فِي الدِّينِ﴾ ’’جب اللہ تعالیٰ  کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دین میں سمجھ عطا کرتا ہے ‘‘۔

اس روایت میں ﴿خَيْرًا کو نکرہ لایا گیا ہے۔اس کی تنکیر تفخیم کے لیے ہے جو کسی شے کی عظمت اور کثرت کے بیان کے لیے آتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ تفقہ فی الدین پر عظیم اور کثیر خیر ملنے والی ہے۔چونکہ یہاں تنکیر سیاق شرط میں واقع ہوئی ہے اس لیے اس میں تعمیم کا معنی بھی پایا جاتا ہے، مطلب یہ کہ خیر سے مراد ہر طرح اور ہر قسم کی خیر ہے۔ مسند احمد کی ایک روایت میں لفظ خیر معرف باللام لایا گیا ہے :﴿مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ الْخَيْرَ يُفَقِّهْهُّ فِي الدِّينِ ’’اللہ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے دین میں سمجھ عطا کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے تفقہ فی الدین سے نوازتا ہے گویا اسے کل خیر عطا کر دیتا ہے۔

ایک بار نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ ﴿مَنْ خَيْرُ النَّاسِ﴾’’بہترین لوگ کون سے ہیں‘‘؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ﴿أَفْقَهُهُمْ فِي دِينِ اللَّهِ،وَأَوْصَلُهُمْ لِرَحِمِهِ ’’جو ان میں دین کی زیادہ سمجھ رکھتا ہے اور بہتر صلہ رحمی کرنے والا ہو‘‘۔ (مسند احمد ) اس حدیث میں انسان کے بہتر ہونےمیں تفقہ فی الدین کا ذکر کیا گیا اور اس کے بعد اس کے اعمال میں سے ایک عمل کا ذکر کیا گیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں سمجھ کی وجہ سے انسان کے اعمال میں درستی پیدا ہوتی ہے۔ اہل خانہ ،پڑوس اور دوسرے رشتے داروں حتی کہ دیگر جانداروں کے ساتھ بھی اس کا برتاؤ شریعت کی روشنی میں اچھا ہوتا ہے جس کی وجہ سے خود اس کی اور اس کی وساطت سے دوسروں کی زندگی اچھی گزرتی ہے۔یہ تو اس کی دنیا کی زندگی کا امن و سکون ہے لیکن دین میں سمجھ اور اس کے مطابق پرسکون زندگی بسر کرنے والے کو بہترین اجر تو آخرت کی زندگی میں ملے گا:﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾(النحل : 97)’’جو عورت یا مرد نیک عمل کرے اور وہ صاحب ایمان ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور ان کے اعمال کا انھیں اچھا بدلہ دیں گے ‘‘۔

تفقہ فی الدین کی اہمیت اس طرح سمجھی جا سکتی ہے کہ انسان کی غایت تخلیق عبادت ہے اور عبادت کا درست اور مقبول ہونا تفقہ پر منحصر ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :لا خير في عبادةٍ ليس فيها تفقهٌ (جامع الاصول)  اس عبادت میں کوئی خیر نہیں جس میں سمجھ شامل نہیں ہے۔تفقہ کو عبادت کی خوبی اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ اعمال کی صحت کا دارو مدار ان کی شرائط و ارکان پر ہے اور اس علم کا تعلق فقہ کے ساتھ ہے۔ پس فقہ کی موجودگی عبادت کےدرست ہونے کے لیے لازمی ہے۔ محمد ابن الحکیم الترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ انسان اللہ تعالیٰ  کے احکام و نواہی کےمطابق ہی اس کی عبادت کرتا ہے پس جب انسان اپنی عقل و سمجھ بوجھ کے ذریعے احکام (کی تفصیل) معلوم کرتا ہے تاکہ ان کی پابندی کر سکے تو یہ عمل بھی عبادت میں شامل بلکہ محض عبادت ہی ہے۔ جس انسان کو اللہ کی طرف سے کوئی حکم پہنچے اور وہ اس حکم کی خوبی اور فائدے کو معلوم نہ کر سکے اور جسے کوئی نہی پہنچے اور وہ اس امر ممنوع کی برائی کو معلوم نہ کر سکے تو وہ اندھیرےمیں ہے۔ جب انسان حکم الہی کی خوبی اور امر ممنوع کی برائی جان لیتا ہے تو حکم پر عمل کرنا اور ممنوع سے رکنا اس کے لیے آسان ہو جاتا ہے۔وہ دل و ماغ کی پوری قوت اور آمادگی کے ساتھ اس امر ونہی کو اختیار کرتا ہے وہ اس خدائی رہنمائی پر اللہ کا شکر گزار ہوتا ہے اور جو ان چیزوں سے واقف نہ ہو اس کا دل ان احکام کے بارے میں سخت اور اس کے جوارح ان احکام پر عمل میں سست ہوتے ہیں‘‘۔(نوادر الاصول )

حدیث مبارکہ میں تفقہ فی الدین حاصل کرنے کو باعث خیرو خوبی بتایا گیا تو اب یہ سمجھناچاہیے کہ جو اس سے اعراض کرے گا وہ گویا اپنی بھلائی سے اعراض کر رہا ہے۔علامہ نور الدین سندھی رحمہ اللہ (المتوفى: 1138ھ) لکھتے ہیں : وَمَنْ لَا فِقْهَ لَهُ وَلَا طَلَبَ فَلَا خَيْرَ لَهُ لِتَنْزِيلِ الْحِرْمَانِ عَنْ خَيْرِ الْفِقْهِ مَنْزِلَةَ الْحِرْمَانِ عَنْ مُطْلَقِ الْخَيْرِ (حاشية على ابن ماجه)’’جسے فقہ حاصل نہیں ہے اور نہ ہی اس کی طلب میں لگا ہے اس کے لیے کچھ خیر نہیں ہے کیونکہ فقاہت سے محرومی کل خیر سے محرومی کے برابر ہے‘‘۔ علامہ کی اس تشریح سے دو صورتیں سامنے آتی ہیں کہ انسان یا تو حاملِ فقہ ہو یا طالبِ فقہ، اس کے علاوہ ہر صورت محرومی ہی کی کوئی شکل ہے۔اس مفہوم کی تائید دوسری احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ ایک حدیث میں وارد ہوا ہے: ﴿الْعَالِمُ وَالْمُتَعَلِّمُ شَرِيكَانِ فِى الأَجْرِ وَلاَ خَيْرَ فِى سَائِرِ النَّاسِ (سنن ابن ماجه)’’عالم اور متعلم اجر میں برابر شریک ہوتے ہیں اور ان کو چھوڑ کر دوسرے تمام لوگوں میں کوئی خیر نہیں ہے‘‘۔

حدیث زیر ِمطالعہ کے ذیل میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :وَمَفْهُومُ الْحَدِيثِ أَنَّ مَنْ لَمْ يَتَفَقَّهْ فِي الدِّينِ أَيْ يَتَعَلَّمْ قَوَاعِدَ الْإِسْلَامِ وَمَا يَتَّصِلُ بِهَا مِنَ الْفُرُوعِ فَقَدْ حُرِمَ الْخَيْرَ: (فتح الباري ) ’’حدیث کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ جو شخص دین میں فقاہت پیدا نہ کرے یعنی اسلام کے قواعد واصول اور فروعی احکام نہ سیکھے تو وہ کل خیر سے محروم ہو گیا ‘‘۔

فقہ کی تعریف

فقہ کسی چیز کے گہرے ، پختہ اور مبنی بر ذہانت علم کو کہتے ہیں۔ قلیل الفاظ سے کثیر معنی اخذ کرنے کو بھی فقہ کہا گیا ہے۔ امام راغب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ معلوم پر غور و فکر کے ذریعے غیر معلوم تک پہنچنے کا نام فقہ ہے اور اسی لیے یہ علم سے الگ اور برتر شے ہے۔ گویا علم عام ہےاور فقہ خاص ہے اور علم شریعت کو فقہ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ علم کلام خداوندی اور کلام النبیﷺ کی معرفت پر مشتمل ہوتا ہے۔ علم فقہ ، لغت اور نحو وغیرہ کے علم سے ممتاز ہے اس لیے کہ علمِ فقہ شرعی دلائل اور اصول قیاس و اجتہاد اور گہرے غور و فکر پر مبنی ہوتا ہےجبکہ لغت اور نحو وغیرہ کا تعلق استنباط و تفکر سے نہیں بلکہ ان کی بنیاد سماع پر ہے۔ (ملخصا الكليات معجم في المصطلحات أبو البقاء الحنفي (المتوفى: 1094ه)

فقہ کے اصطلاحی معنی

اصطلاح فقہ کے دو معنی ہیں۔ایک اس کا عام اصطلاحی معنی ہے اور ایک خاص اصطلاحی معنی ہے۔ فقہ کی عام اصطلاح میں فقہ سے مراد سے علم دین اور اس کے تمام شعبے مثلا علم عقیدہ ، علم تفسیر ، علم حدیث ، علم اخلاق مراد لیے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ فقہ کی اصطلاح کا ایک خاص معنی بھی ہے اس معنی کے اعتبار سے فقہ دین و شریعت کے عملی احکام کو کہا جاتا ہے۔آج کل فقہ کی اصطلاح سے زیادہ تر یہ دوسرے معنی مراد لیے جاتے ہیں۔اسے رائج اصطلاح بھی کہا جا سکتا ہے۔ذیل میں ہم اصطلاحِ فقہ کے ان دونوں معانی کا تعارف کراتے ہیں۔

اصطلاح فقہ اپنے خاص معنوں میں

فقہ کی اصطلاحی تعریف یوں بیان کی جاتی ہے:الْعِلْمُ بِالأْحْكَامِ الشَّرْعِيَّةِ الْعَمَلِيَّةِ، الْمُكْتَسَبُ مِنْ أَدِلَّتِهَا التَّفْصِيلِيَّةِ (موسوعہ فقہیہ) ’’فقہ شریعت کے عملی احکام کے علم کو کہا جاتا ہے جو اس کے تفصیلی دلائل سے حاصل کیا جائے‘‘۔دلائل سے مراد ، قرآن و سنت اور قیاس اور اجماع ہے۔ الْمُكْتَسَب کا لفظی معنی کمایا ہوا ہے لیکن اس سے مراد وہ علم ہے جو شریعت کے دلائل کی روشنی میں استنباط شدہ ہو، اس لیے ابن الملقن  رحمہ اللہ کے ہاں تعریف یوں ہے:الْعِلْمُ بِالْأَحْكَامِ الشَّرْعِيَّةِ الْعَمَلِيَّةِ النَّاشِئَةِ عَنْ الِاجْتِهَادِ (تحفة المحتاج في شرح المنهاج)

اس تعریف میں الشَّرْعِيَّة کی قید سے معلوم ہوتا ہے کہ دیگر مفید اور ضروری علوم جیسے طب اور تعمیر وغیرہ ، فقہ میں داخل نہیں ہیں۔ اسی طرح عملیہ کی قید سے علم عقیدہ یعنی علم کلام اور علم اخلاق یعنی سلوک و تصوف کے بارے میں پتا چلا کہ وہ اصطلاحی فقہ میں داخل نہیں ہیں۔ المکتسب یا المستنبط یعنی استنباط شدہ ہونے کی قید سے یہ بتایا جارہا کہ اللہ تعالیٰ  کا یا رسول اللہ ﷺ کا علم؛ فقہ میں شامل نہیں ہے،اس لیے کہ وہ وحی ہے جو فقہ سے بالاتر شے اور فقہ کے لیے ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے، اس لیے فقہ میں شامل نہیں ہے۔فقہاء کے نزدیک اللہ تعالیٰ  کے لیے فقیہہ کےلفظ کا استعمال جائز نہیں ہے۔اسی طرح ان الفاظ سے ادھر اشارہ کرنا بھی مقصود ہے کہ مقلدین کا علم بھی فقہ میں شامل نہیں ہے بلکہ فقہ تو وہ علم ہے جو(النَّاشِئَة عَنْ الِاجْتِهَادِ ) بطرز اجتہاد اور غور و فکر معلوم کیا جاتا ہے۔

اصطلاحی فقہ کا دائرہ

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ علم فقہ کا تعلق صرف نماز روزے ہی سے ہے ۔لیکن یہ ان کی لاعلمی ہے۔ الموسوعة الفقهیة الکویتیة میں اصطلاحی فقہ کا تعار ف اس اشکال کے جواب کےطور پر یوں کرایا گیا ہے۔’’فقہ بندوں کے افعال و اعمال کے بارے میں خدائی احکام کو کہا جاتا ہے اور اس کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اس کے موضوعات کثیر ہیں، بندے اور اس کے رب کے تعلق والے احکام کو عبادات کا نام دیا جاتا ہے چاہے وہ عبادات بدنی ہوں جیسے کہ نماز اور روزہ وغیرہ یا چاہے وہ عبادات مالی ہوں جیسے زکاۃ ، یا بدنی اور مالی دونوں کا مجموعہ ہو جیسا کہ حج اور احوال شخصی سے مراد عائلی زندگی کے احکام ہیں جیسے نکاح و طلاق،نفقہ ،خضانت،ولایت،نسب ،وصیت و وراثت وغیرہ کے احکام۔فقہ میں معاملات بھی شامل ہیں۔ معاملات وہ احکام کہلاتے ہیں جن کے ذریعے لوگوں کے معاملات کی تنظیم کی جاتی ہے، اسے قانون مدنی یا تجاری بھی کہا جاتا ہےاس میں خرید وفروخت کی جملہ صورتیں اور ، رہن ،کفالہ ، وکالہ ، ہِبہ اور اجارہ وغیرہ کے احکام شامل ہوتے ہیں۔ اسی طرح حکومت و رعایا کے باہمی تعلق کو قانون دستوری کہا جاتا ہے اور مسلمانوں کے غیر مسلمانوں کے ساتھ صلح و جنگ کے قوانین کو سِیَر یا قانون دُوَلی کہا جاتا ہے۔ یہ بھی فقہ میں شامل ہیں۔ بندوں کے مالی اور دیگر ہر طرح کے تصرفات کے قانون کو فقہاء نے حظر و اباحت سے موسوم کیا ہے۔وہ احکامات جن میں جرم اور اس کی سزا اور حدود وغیرہ کا بیان ہے انھیں جنایات یا تعزیرات کہا جاتا ہے۔ اسے قانون جزائی بھی کہا گیا ہے، اسی ذیل میں وہ احکام بھی ہیں جن کے ذریعے قضا اور عدالت ، شہادت ، دعوی اور ثبوت دعوی کے طریقوں وغیرہ پر بات کی جاتی ہے اسے قانون مرافعات بھی کہا جاتا ہے۔اس مختصر بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ فقہ اسلامی تمام انسانی معاملات سے بحث کرتی ہے اور ان کی رہنمائی سے کسی طرح قاصر نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا ، غلط طور پر یہ سمجھتے ہوئے کہ فقہ تو محض رب اور اس کے بندے کے درمیان تعلق سے بحث کرتی ہے، یہ نظریہ ہے پس جس کا یہ نظریہ ہے وہ یا جاہل ہے یا کسی وجہ سے جان بوجھ کر فقہ اسلامی اور اس کے موضوعات سے انجان بنتا ہے۔ (الموسوعة الفقهیة الکویتیة)

اصطلاح فقہ تاریخی تناظر میں

علم فقہ کی مندرجہ بالا تفصیل میں ایک خاص اصطلاح فقہ کا ذکر ہوا جو شریعت کے عملی احکام سے متعلق ہے۔ عرض کیا گیا تھا کہ فقہ کی اصطلاح کا ایک عام معنی مراد بھی ہے جس میں پورا علم دین شامل ہے۔یہ ایک وسعت کا حامل تصور ہے اور ہماری امت کی ابتدائی ایک دو صدیوں میں ، فقہ سے یہی مراد لیا جاتا تھا۔

لیکن بعد میں اصطلاح فقہ، شریعت کے عملی احکام کے لیے استعمال ہونے لگی اور عمومی اصطلاح فقہ کے مفہوم میں شامل علوم دین کے دوسرے شعبوں کے لیے الگ الگ اصطلاحی نام معروف ہونے لگے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب تدوین فقہ میں اس بابت عمدہ کلام کیا ہے آپ لکھتے ہیں :’’وحی و نبوت کے دلالات، اشارات، مضمرات و مقتضیات کا سمجھنا، اسی کا نام فقہ ہے، چاہے ان نتائج کا جو اس ذریعے سے حاصل کیے گئے ہوں دین کے کسی شعبے سے تعلق ہو خواہ ان کا تعلق اعتقادات سے ہو یا وجدانیات سے ہو یا عملیات سے ، سبھی پر فقہ کا اطلاق ہوتا تھا مگر بعد کو اصطلاح بدل گئی، ان مسائل میں سے جن کا تعلق اعتقادات سے ہوا ، انھیں علم کلام کہنے لگے۔ وجدانیات سے جن کا تعلق ہوا ، اسے علم الاخلاق یا تصوف کہنے لگے آخر میں عملیات کا نام فقہ رہ گیا یعنی فقہ یا علم فقہ کا اطلاق پچھلے دنوں میں عملیات کی چند مخصوص شاخوں تک محدود ہو کر رہ گیا‘‘۔(ص:۱۷۳)

اس عبارت سے ایک طرف تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وحی و نبوت کی نصوص بعض احکام پر واضح دلالت رکھتی ہیں،اس دلالت کے اصول و ضوابط کے علاوہ ، ان احکام کے کچھ اشارات بھی ہوتے ہیں۔ یہ احکام کچھ دیگر امور کا لازمی طور پر تقاضا کرتے ہیں۔پھر ان احکام سے جڑے،قدرے پوشیدہ تقاضے بھی ہوتے ہیں، تو نصوص کی دلالات کے ساتھ ان مقتضیات و مضمرات واشارات کوسمجھنابھی فقہ میں داخل ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اصطلاح قدیم کے لحاظ سے علم فقہ میں اعتقادی مسائل ، اخلاقی معاملات و اصول اور عملی احکام شامل تھے۔ بعد میں اعتقادی مسائل کو الگ سے مرتب کیا گیا اور ان کے لیے علم کلام کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ اخلاقیات کے لیے ایک الگ سے علم مرتب کیا گیا جسے تصوف کا نام دیا گیا۔ جب یہ دونوں علم فقہ سے الگ ہو کر اپنے مخصوص عنوانات کے تحت مرتب ہو گئے تو اصطلاحی علم فقہ میں عملی احکام ہی باقی بچے اور انہی پر اصطلاح فقہ کا اطلاق ہونے لگا۔ الموسوعة الفقهیة الکویتیة میں اصطلاح فقہ کا تطور بیان کیا ہے۔ ہم ان کی اس بحث کو اپنے عنوانات کے ساتھ پیش کرتے ہیں:

اصطلاح فقہ کا پہلا دور

’’ پہلے دور میں فقہ لفظ شرع کے مرادف ہے، پس جو بھی تعلیمات اور احکام اللہ کی طرف سے دیے گئے چاہے وہ عقیدے و اعتقاد کے متعلق ہوں یا اخلاق یا اعمال قلب کے متعلق ہوں یا افعال جوارح یا اعمال ظاہری کے متعلق ہوں،علم فقہ میں شامل تھے اسی لیے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فقہ کی تعریف یوں کی کہ: هُوَ مَعْرِفَةُ النَّفْسِ مَا لَهَا وَمَا عَلَيْهَا ’’فقہ معرفت نفس کا نام ہے بہ اعتبار اس کے کہ کیا اس کے حق میں بہتر ہے اور کیا اس کے لیے نقصان کا باعث ہے‘‘۔ اسی لیے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی عقائد کے بارے میں مرتب کردہ کتاب کا نام الفقہ الاکبر ملتا ہے۔

اصطلاح فقہ کا دوسرا دَور

دوسرے دور میں فقہ کی اصطلاح میں کچھ تخصیص واقع ہوئی اور علم عقیدہ کو فقہ کی اصطلاح سے خارج کیا گیا ( اس لیے کہ یونانی فلسفے کے حملوں کے نتیجے میں نت نئے اعتقادی مسائل پیدا ہو جانے کے سبب اعتقاد کے شعبے میں خاص کام کرنا پڑا تو اس کے لیے) علم توحید یا علم کلام اور علم العقیدہ کے نام سے ایک مستقل علم مرتب کیا گیا، اس دور ثانی میں فقہ کی تعریف یہ کی گئی کہ الْعِلْمُ بِالأَْحْكَامِ الْفَرْعِيَّةِ الشَّرْعِيَّةِ الْمُسْتَمَدَّةِ مِنْ الأَْدِلَّةِ التَّفْصِيلِيَّةِ یہ ایک ایسا علم ہے جو شریعت کےان فرعی احکام سے بحث کرتا ہے جو دین کے دلائل تفصیلیہ سے ماخوذ ہوں۔

اس تعریف میں احکام کے ساتھ فرعیہ کی قید بڑھائی گئی۔ علم فرعی سے مراد وہ تمام احکام ہیں جو احکام اصلیہ سے الگ ہوں اور اصلیہ سے مراد اعتقادات ہیں کیونکہ شریعت کی اصل اور بنیاد اعتقاد ہی ہے اور کل دین کا مدار اسی پر ہے،تو اس تعریف میں فرعیہ کی قید نے اعتقادات کو الگ کر کے فقہ کو اعمال فرعیہ سے مخصوص کر دیا۔ اب ان اعمال فرعیہ میں تمام احکام عملیہ اور افعال بالجوارح یعنی کرنے کی چیزیں بھی شامل ہیں اور اعمال فرعیہ میں شریعت کے وہ احکام بھی شامل ہیں جو اعمال قلب یا اخلاق سے متعلق ہیں۔تو اس دور ثانی میں فقہ کی اصطلاح کے مفہوم و مراد میں، اعتقادات نہ تھے لیکن اعمال بالجوارح اور اعمال بالقلب شامل تھے۔

اصطلاح فقہ کا تیسرا دور

فقہ کی اصطلاح کا تیسرا دور وہ ہے جو آج تک چلا آتا ہے، اس میں فقہ کی ایک نئی تعریف کی گئی اور اب تمام علماء اسی رائے پر اعتماد کرتے ہیں۔اب علماء کے نزدیک فقہ کی تعریف یوں ہے:هُوَ الْعِلْمُ بِالأَْحْكَامِ الشَّرْعِيَّةِ الْفَرْعِيَّةِ الْعَمَلِيَّةِ الْمُسْتَمَدَّةِ مِنْ الأَْدِلَّةِ التَّفْصِيلِيَّةِ ’’فقہ وہ علم ہےجو شریعت کےان فرعی اور عملی احکام سےمتعلق ہے جو دلائل تفصیلیہ سے ماخوذ ہوں‘‘۔ اس تعریف میں سابقہ تعریف پر ( اَلْعَمَلِيَّةِ ) کی قید کا اضافہ کیا گیا۔اس تعریف کی رو سے شریعت کے وہ فرعی احکام جو اعمال قلوب و اخلاق سے متعلق تھے ، فقہ سے خارج کر دیے گئے۔ اب ان کے لیے ایک الگ مستقل علم مرتب کیا گیا جو علم اخلاق یا علم تصوف کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

دور صحابہ میں جزیات پر فقہ کا اطلاق

 فقہ کی یہ تعریف پہلی تعریفات کے مقابلے میں، اپنے اندر محدود علوم کو شامل کرتی ہے یعنی یہ تعریف محض اعمال بالجوارح یعنی کرنے کے کاموں تک محدود ہے۔اس اعتبار سے یہ ایک نئی تعریف ہے۔اگرچہ یہ تعریف و مفہوم محدود ہے لیکن اسے دور ِصحابہ رضی اللہ عنہم کی تعریف سے متضاد نہیں کہا جا سکتا ۔اس لیے کہ دور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں جزیات پر لفظ فقہ کے اطلاق کی مثالیں موجود ہیں :کچھ صحابیات رضی اللہ عنہن ،آپ ﷺ سے طہارت کے کچھ مسائل پوچھنے آئیں۔ان کے اس طرز عمل کی تعریف کرتے ہوئے سیدہ عا ئشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:﴿نِعْمَ النِّسَاءُ نِسَاءُ الأَنْصَارِ لَمْ يَكُنْ يَمْنَعُهُنَّ الْحَيَاءُ أَنْ يَتَفَقَّهْنَ فِى الدِّينِ (صحیح البخاری)اسی طرح حرام و حلال کے مسائل جن پر آج کل عام طور پر لفظ فقہ کا اطلاق ہوتا ہے، دور صحابہ میں بھی ان پر فقہ کا اطلاق پایا جاتا تھا۔دیکھیں نبی اکرمﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی تعریف یوں کی:﴿أَعْلَمُهُمْ بِالْحَلاَلِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ (ترمذی)’’ان (صحابہ میں سے ) حلال و حرام کے سب سے زیادہ جاننےوالے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں‘‘۔ اب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی اسی فضیلت علمی کو واضح کرتے ہوئے عمر رضی اللہ عنہ نے لفظ فقہ کا لفظ استعمال کیا﴿وَمَنْ أَرَادَ أَنْ يَسْأَلَ عَنِ الْفِقْهِ فَلْيَأْتِ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ(المعجم الاوسط) ’’جو فقہ کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ سے رجوع کرے‘‘۔

ان استعمالات سے پتا چلا کہ جزیات دین کے لیے فقہ کا لفظ دور صحابہ میں استعمال ہوا ہے۔ لہذا فقہ کی تعریف کو جزیات تک محدود کرنے کو غیر دینی طرز عمل قرار دینا درست نہیں۔

حدیث زیر مطالعہ میں فقہ سے مراد

ہم اصطلاح فقہ کے اطلاقات جان چکے،لیکن اب سوال یہ ہے کہ حدیث میں فقہ سے مراد کیا ہے؟احادیث مبارکہ کےورود با سعود کے وقت فقہ کی وسعت والی تعریف رائج تھی اس لیے احادیث میں وارد ، اصلاح ’’الفقہ ‘‘ سے وہی قدیم اصطلاحی مفہوم لینا چاہیے جو پورے دین کو حاوی ہے۔ علامہ زرقانی رحمہ اللہ شرح موطا میں فرماتےہیں کہ اس حدیث میں وارد لفظ فقہ سے اصطلاحی علم فقہ مراد لینےسے زیادہ بہتر ہے کہ فقہ کا عام مفہوم مراد لیا جائے تاکہ دوسر ے علوم اسلامی بھی اس کے ذیل میں داخل ہو سکیں۔( شرح الزرقانی علی الموطا)پس اس حدیث میں فقہ سے مراد علم دین بحیثیت کل مراد ہے نہ کہ علم دین کا کوئی ایک خاص شعبہ!

جب یہ سمجھ لیا گیا کہ اس حدیث میں فقہ سے مراد جملہ علوم دین ہیں تو جاننا چاہیے کہ جملہ علوم سے کیا مراد ہے؟ شیخ عبد الکریم الخضیر شرح سنن ابن ماجہ کے مقدمے میں فرماتے ہیں علم ِ دین میں اسلام، ایمان اور احسان کے علوم شامل ہیں جیسا کہ جبریل علیہ السلام کے سوالات کے جواب میں رسول اللہ ﷺنے ان تینوں شعبوں کا نام لیا اور فرمایا کہ﴿فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ﴾ یہ جبریل تھے جو تمھیں دین سکھانے آئے تھے، پس اسی طرح ہم حدیث ﴿يفقهه في الدين﴾ کو سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے کسی کودین میں فقاہت دیے جانے کا مطلب ہے کہ اللہ اسےدین کا پختہ فہم دیتا ہے اور اسے دین کے جمیع احکام سکھا دیتا ہے اور اس حدیث میں فقہ سےمحض ظاہری احکام کا علم مراد نہیں جو کہ عرف میں فقہ کہلاتا ہے بلکہ تفقہ فی الدین سے مراددین کے تمام شعبوں کا علم مراد ہے‘‘۔ (شرح مقدمة سنن ابن ماجه)

ایک بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ فقہ کے وسیع معنی یعنی جملہ دینی علوم مراد لینے میں، اصطلاحی علم فقہ یعنی شریعت کے عملی احکام اور ان کے متعلق قیاس و اجتہاد اور فتوی اور ان کی نفی مراد نہیں ہے یعنی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس حدیث میں وارد لفظ فقہ کی مراد میں فقہ الاحکام العملی شامل نہیں ہے بلکہ وہ لا محالہ شامل ہے۔اس لیے کہ فقہ سے کل علوم مراد لینا عموم ہے جبکہ فقہ سے علم الاحکام مراد لینا خاص ہے اور خاص کو عام میں سے جدا نہیں کیا جا سکتا ہے۔اس لیے جب حدیث میں فقہ سے کل علوم دین مراد لیےجائیں گے تو اصطلاحی علم فقہ کل علوم کا حصہ ہوتے ہوئے یقینا شامل مرادر ہے گا۔

شیخ عبد الكريم الخضير تفقہ فی الدین کی وضاحت میں مزید فرماتے ہیں: دین کے طالب علم کو چاہیے کہ فقہ فی الدین کے معنی معلوم کرے، فقہ فی الدین سے مراد دین کے کل ابواب اور شعبوں کا علم ہے۔ کیا یہ مناسب ہے کہ حدیث رسول پاک ﷺ ﴿من يرد الله به خيراً يفقهه في الدين﴾کے الفاظ سے شریعت کے عملی احکام مراد لیے جائیں اور دوسرے علوم دین سے صرف نظر کیا جائے؟ یقینا یہ مناسب نہیں ہے، بلکہ فقہ سے اولا مراد تو اللہ تعالیٰ  کی معرفت ہے، علماء کے نزدیک یہی الفقہ الاکبر ہے۔اس کے بعد پھر بقیہ ابواب دین بھی یقینا اس حدیث میں بیان کردہ فقاہت کا مصداق ہیں۔ اسی لیے جبریل علیہ السلام جب رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور اسلام ایمان اور احسان کے متعلق سوال جواب ہوئے تو پھر آپ ﷺ نے فرمایا تھا یہ جبریل ہیں جو تمھیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔ پس یہ تینوں امور دین میں مجتمع ہیں اور انہی کے علم کا نام فقہ فی الدین ہے۔ اور اگر ان شعبوں کے اجتماع میں خلل در آئے تو دین کے بعض شعبوں کوگرا دینے کے علاوہ اس کا کوئی مطلب نہیں لیا جا سکتا ۔ان ابواب دین میں سر فہرست تو ابواب الرقاق (زہد و تزکیہ ) ہیں اور انسان کو اس دنیا کی حقیقت سے روشناس کرانا ہے تاکہ اس میں زہد پیدا ہو،وصیت رسولﷺ ﴿كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ﴾ ’’دنیا میں اس طرح رہو کہ گویا اجنبی ہو یا راہ چلتا مسافر ‘‘؛ عمل و کردار میں ظہور پائے اور زندگی کا نقشہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی تاکیدکے مزید مطابق ہو جائے کہ ’’جب شام ہو جائے تو صبح کی امید نہ رکھو اور جب صبح ہو جائے تو شام کا انتظار مت کرو بلکہ بیماری سے پہلے کی صحت اور موت سے پہلے والی زندگی کو غنیمت سمجھتے ہوئے توشہ آخرت جمع کرنے میں لگے رہو‘‘۔ (شرح المحرر في الحديث)

عبد الرحمن بن ناصر سعدی رحمہ اللہ (المتوفى: 1376ہ) حدیث جبریل اور اس میں بیان کردہ ، دین کے تین بڑے شعبے اسلام ایمان اور احسان کا حوالہ دینے کے بعد فقہ فی الدین کی وضاحت یوں کرتے ہیں :اولاً تو عقائد اسلامی کی معرفت حاصل کرنا اور عقائد کے باب میں علماے سلف کے مذاہب کی تحقیق کرنا اور ان عقائد کو ظاہری اور باطنی طور سے اختیار کرنا فقہ فی الدین میں داخل ہے۔اسی طرح مخالفین سلف کے مذاہب کی تحقیق اور قرآن و سنت کی روشنی میں ان کی غلطی کو واضح کرنا بھی اسی علم العقیدہ کا ایک جزو لازم ہے۔اس کے بعد فقہ فی الدین میں اصطلاحی علم الفقہ، اس کے اصول و فروع عبادات معاملات اور جنایات وغیرہ کا علم حاصل کرنا بھی شامل ہے۔مزید یہ کہ تفقہ فی الدین میں ایمان کے حقائق اور سیر الی اللہ و سلوک اور اللہ کی مرضی و موافقت کو حاصل کرنا بھی شامل ہے جس پر قرآن و سنت دلالت کرتے ہیں۔ البتہ اسی کے ذیل میں وہ علوم آلیہ بھی شامل ہیں جو فقہ فی الدین میں معاون ہیں جیسے عربی زبان کے مختلف علوم وغیرہ، پس اللہ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے اسے ان علوم کی تحصیل کی توفیق دیتا ہے۔ اس حدیث کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ جو شخص ان علوم سے اعراض کرے تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ نے اس کے ساتھ خیر کا ارادہ نہیں کیا کیونکہ وہ نیکیوں اور سعادت کے حصول کے اسباب ہی سے محروم رہا ‘‘۔ (بهجة قلوب الأبرار وقرة عيون الأخيار في شرح جوامع الأخبار)

امام ملا علی القاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس حدیث میں فقہ سے مراد اصطلاحی فقہ نہیں ہے جو محض شریعت کے عملی احکام پر مشتمل ہوتی ہے بلکہ اس حدیث میں فقہ سے کل دین مراد ہے جو مشتمل ہے احکام شریعت سمیت طریقت و حقیقت پر بھی(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح)

شارحین کرام کی ان تشریحات کا حاصل یہ ہے کہ حدیث مبارکہ﴿من یرد الله به خیرا یفقهه في الدینمیں فقہ سے مراد کل علم دین ہے۔ اور یہاں لفظ فقہ اپنے قدیمی اور وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے جس کا خلاصہ یہ کہ دین میں گہری اور پختہ سمجھ کو فقہ فی الدین کہتے ہیں اور دین نام ہے اعتقادات ، اخلاقیات اور عمَلیات کا تو دین میں گہری سمجھ سے مراد ہے ، اعتقادی احکام یعنی علم کلام کا ماہر ہونا ، اور اخلاقی احکام یعنی علم تصوف کا ماہر ہونا اور عملی احکام یعنی فقہی احکام میں مہارت حاصل کرنا ،گویا فقیہ وہی ہے جو ان تینوں میں مہارت رکھتا ہو۔

فصل :فقہ کی فضیلت پرمبنی چند احادیث

حدیث زیر مطالعہ میں فقہ کی فضیلت کا بیان تو موجود ہے لیکن نبی اکرمﷺ نے دیگر فرامین میں بھی اس کی فضیلت کا ذکر کیا ہے ذیل میں ہم چند احادیث کا مطالعہ کریں گے جوایک طرف تو فقہ کی عظمت و فضیلت کو بیان کرتی ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک ،علم فقہ کے مندرجہ بالا شعبوں میں سے کسی شعبے پر بھی دلالت کرتی ہے: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:﴿خَصْلَتَانِ لَا تَجْتَمِعَانِ فِي مُنَافِقٍ، حُسْنُ سَمْتٍ، وَلَا فِقْهٌ فِي الدِّينِ﴾ ’’منافق دو صفتوں سے محروم ہی رہتا ہے نہ تو اسے حسن سَمت حاصل ہوتا ہے اور نہ فقہ فی الدین‘‘۔(سنن ترمذی) حسن سمت سے مراد حسن سیرت اور حسن اخلاق ہے، امام ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا کہ اس سے مراد نیکی کے کاموں میں رغبت کرنا اور نیک لوگوں کا سا حلیہ و اخلاق اختیار کرنا اور ساتھ ہی ساتھ ظاہری و باطنی عیوب سے اپنی حفاظت کرنا ہے۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح)

پیچھے ہم تفصیل سے سمجھ آئے کہ فقہ فی الدین کے تین میدان ہیں ایک عملی احکام کی معرفت حاصل کرنا، دوسرے اعتقادی احکام کی معرفت حاصل کرنا اور تیسرے اخلاقی احکام کی معرفت حاصل کرنا۔اب سوال ہے کہ اس حدیث میں جس فقہ کا ذکر ہے اور جو منافق کو نصیب نہیں ہوتی وہ ان تین میں سے کون سی ہے؟ محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس حدیث میں فقہ سے مراد اس کی آخری دو اقسام ہیں یعنی اعتقادات دین کی گہری سمجھ اور اخلاقی احکام و اعمال کا علم۔

 چونکہ فقہ میں اعتقاد کی پختہ اور گہری سمجھ بھی شامل ہے اور عقیدے کی یہی پختہ سمجھ جب حاصل ہو جائے تو انسان کے دل میں خشیت اور تقوی پیدا ہوتے ہیں پھر انسان کی زبان نیک باتوں میں اور جسم نیک کاموں میں مصروف ہو جاتا ہے۔ تو کہا جا سکتا ہے کہ منافقین معرفتِ اعتقاد یا حسنِ اعتقاد سے محروم ہوتے ہیں اور ان کی اسی محرومی کو فقہ کی محرومی سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ درحقیقت یہ فقہ کی حقیقت سے محرومی ہے۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح)

اس حدیث میں فقہ سے کیا مراد ہے یہ تو ہم نے سمجھا لیکن منافق سے کون سے منافق مراد ہے؟ملا علی القاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: وَالْمُنَافِقُ إِمَّا حَقِيقِيٌّ وَهُوَ النِّفَاقُ الِاعْتِقَادِيُّ أَوْ مَجَازِيٌّ وَهُوَ الْمُرَائِي وَهُوَ النِّفَاقُ الْعَمَلِيُّ’’اس حدیث میں منافق یا حقیقی معنوں میں ہے اور وہ منافق اعتقادی ہوتا ہے یا پھر منافقِ مجازی مراد ہے اور یہ ریاکاری کرنے والا ہوتا ہے جسے منافق عملی بھی کہتے ہیں‘‘ ۔

منافق حقیقی کی بات تو واضح ہے جب وہ نہ دین کو سچا سمجھتا ہے نہ رسول ﷺ کو دل سے نبی تسلیم کرتا ہے بلکہ وہ تو ایمان کا جھوٹا دعوے دار ہے تو پھر اس کے فقہ عملی یا اعتقادی و اخلاقی سیکھنے کا کیا سوال؟ البتہ اگر منافق سے عملی منافق مراد لیں تو بات کو تھوڑا سا سمجھنے کی ضرورت ہے۔یہ ہوسکتا ہے کہ ایک مسلمان جو اللہ تعالیٰ  ، اس کے رسول ﷺ اور دیگر ضروریات دین پر سچے دل سے ایمان و تصدیق رکھتا ہو لیکن وہ دین نہ سیکھنے کے سبب ایمان کی کمزوری ، نفسانی تقاضوں کی منہ زوری اور اخلاقی تربیت کے فقدان کا شکار ہو کر حسن سمت سے محروم ہو اور اس میں منافقوں جیسے اعمال پائے جائیں تو اس مشابہت کی وجہ سے اسے منافق کہہ دیا جاتا ہے، لیکن اس سے مراد منافق عملی ہوتا ہے۔ منافق عملی کافر نہیں ہوتا بلکہ گناہگار مسلمان حقیقی ہوتا ہے ۔ مسلمانوں والے حقوق اسے دنیا و آخرت میں حاصل رہتے ہیں البتہ نفاق عملی کی گنہگاری کی سخت سزا ملنے کا سخت خطرہ بہرحال رہتا ہے۔

 اس حدیث میں ترہیب ہے اس شخص کے لیے جو دین میں فقہ سے محروم ہو اور اگر اسے حاصل کرنےکی کوشش ہی نہ کرے تو کم از کم درجے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کے اس طرز عمل میں منافقین سے مشابہت پائی جاتی ہے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا لوگوں میں عزت والے کون ہیں فرمایا: ﴿أَتْقَاهُمْ لِلَّهِ ’’اللہ سے زیادہ ڈرنے والا‘‘،لوگوں نےکہا: ہمارا مطلب یہ نہیں ہے(مطلب یہ کہ ہم خاندانی شرف کے اعتبار سے پوچھتے ہیں )، فرمایا : ﴿فَأَكْرَمُ النَّاسِ يُوسُفُ نَبِىُّ اللَّهِ ابْنُ نَبِىِّ اللَّهِ ابْنِ نَبِىِّ اللَّهِ ابْنِ خَلِيلِ اللَّهِ﴾’’لوگوں میں سب سے زیادہ عزت والے اللہ کے نبی یوسف ہیں، جو خود بھی نبی ہیں، ایک نبی کے بیٹے ہیں،ان کے داد بھی نبی ہیں  جوکہ خلیل اللہ  سیدنا ابراہیم علیہم السلام کے بیٹے ہیں‘‘، صحابہ نے عرض کیا: ہم یہ بھی نہیں پوچھ رہے، آپ ﷺ نے فرمایا:﴿فَعَنْ مَعَادِنِ الْعَرَبِ تَسْأَلُونِى، النَّاسُ مَعَادِنُ(كَمَعَادِنِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ )خِيَارُهُمْ فِى الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِى الإِسْلاَمِ إِذَا فَقِهُوا’’اچھا تم عرب خاندانوں کے بارے میں پوچھتے ہو تو جانو لوگ معدنیات کی طرح ہیں جیسے کہ سونے اور چاندی کی کانیں ہوتی ہیں پس جو لوگ ایام جاہلیت میں اچھے تھے وہی اسلام میں بھی اچھے ہوں گے بشرطیکہ دین میں سمجھ پیداکر لیں‘‘۔معدن سے مراد استعدادِ اخلاق ہےجو عطیہ خداوندی ہے پس جس طرح مختلف دھاتیں آپس میں متفاوت ہوتی ہیں بعض کی استعداد زیادہ ہوتی ہے اور بعض کی کم اسی طرح لوگ بھی مکارم اخلاق اور محاسن صفات کی استعداد و صلاحیت کے اعتبار سے متفاوت ہوتے ہیں۔بعض کی استطاعت زیادہ ہوتی ہے اور بعض کی کم۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح)

حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین میں رکھے گئے سونے چاندی کے ذخائر کی طرح انسان کی طبیعتوں میں بھی مکارم اخلاق کی صلاحیت و استعداد رکھی گئی ہے۔پس جس طرح محنت و مشقت کے ذریعے زمین کی معدنیات نکالی جاتی ہیں اسی طرح ریاضت و تزکیہ نفس کے ذریعے مکارم اخلاق کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔

اس حدیث میں بیان کردہ فقہ سے مراد فقہ اصطلاحی نہیں بلکہ علم دین میں گہری اور پختہ سمجھ مراد ہے اور علم دین سے بھی زیادہ تر اس کے پہلے دو شعبے یعنی علم العقائد اور علم الاخلاق مراد ہے۔ یعنی یہ کہ جس شخص میں نیکی کی فطری استعداد موجود ہے تو پھر وہ اعتقاد اسلام پر پختہ یقین حاصل کرے گا اور اخلاقی اصول و فروع کا علم حاصل کرے گا تو وہ اپنی شخصیت کی تکمیل کر کے بہترین لوگوں کا شرف حاصل کرے گا۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ ﴿خیارهم في الجاهلیة سے مراد امور جاہلی میں ماہر ہونا نہیں ہے۔ کیونکہ امور جاہلی کو دور جاہلی میں بھی کبھی خیر نہیں سمجھا گیا اور نبی کریم ﷺبھی اس کے لیے خیر کا لفظ استعمال نہ فرماتے بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ ایام جاہلیت میں استعداد کے حامل تھے۔ جنھوں نے اپنے فطری جوہر خیر کی محافظت کی اور اسے نابود نہیں کیا یا معروف مکارمِ اخلاق سے کسی درجے میں متصف تھے جب اسلام میں داخل ہوئے اور انھوں نے اسلام کے عقائد اور اعمال کی سچی سمجھ پیدا کر لی اور مزید اچھے اخلاقی مکارم سے بہرہ مند ہوئے تو بہترین لوگ قرار پائے۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح)

امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : الفاظ مبارک ﴿إِذَا فَقِهُوا﴾ میں اشارت پائی جاتی ہے کہ شرف اسلامی تفقہ فی الدین کے بنا مکمل نہیں ہوتا (فتح الباري شرح صحيح البخاري)اس لیے اسلام کے بارے میں اپنی دستیاب سمجھ پر قناعت کر کہ بیٹھ نہیں رہنا چاہیے بلکہ اپنی فقاہت فی الدین میں اضافے کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :﴿فَضْلُ الْعِلْمِ خَيْرٌ مِنْ فَضْلِ الْعِبَادَةِ، وَخَيْرُ دِينِكُمُ الْوَرَعُ(المعجم الأوسط و مسند البزار)’’علم میں کثرت عبادت میں کثرت سے بہتر ہے اور بہترین دینداری احتیاط و پرہیز گاری میں ہے‘‘۔بعض عبادات فرض ہیں ان کی بات نہیں ہو رہی بلکہ نفل عبادت کی بات ہو رہی ہے یعنی ایک آدمی نے ضروری اور فرض عین علم بھی حاصل کر لیا اور فرض عبادات بھی بجالا رہا ہے۔اب اضافی محنت عبادت میں کرے یا علم میں تو حدیث بتاتی ہے کہ اضافی محنت علم کی ترقی میں کرنی چاہیے، اس کی حکمت کی طرف اشارہ ﴿وَخَيْرُ دِينِكُمُ الْوَرَعُالفاظ سے کر دیا گیا۔ ورع احتیاط اور پرہیز گاری کو کہتے ہیں۔ پرہیز گاری کا ایک تعلق تو قلبی کیفیات کے ساتھ ہے کہ انسان کے دل میں جتنا خوفِ خدا ہو گا تو اتنا ہی وہ تقوی اختیار کرے گا۔تقوی کا دوسرا تعلق علم سے ہے۔ انسان کو مشتبہ اور مکروہات کا جتنا علم ہو گا اسی قدر اس کے لیے ان سےبچنے کا امکان بھی ہے۔اگر بندے کو ان چیزوں کی اصلیت کا علم نہ ہو تو خدا خوفی کے باوجود انسان کےان چیزوں میں مبتلا ہونے کا امکان رہتا ہے اسی لیے اس حدیث میں علم کو عبادت پر افضل بتایا گیا۔

ایک حدیث میں لفظ فقہ بھی آیا ہے۔﴿ أَفْضَلُ العِبَادَةِ الْفِقْهُ (طبرانی)’’ فقہ افضل عبادت ہے ‘‘۔اگرچہ یہ کمزور درجے کی روایت ہے لیکن علم کی مذکورہ فضیلت کی بنیاد مندرجہ بالا حدیث کے علاوہ سنن ترمذی کی حدیث پر بھی ہے: نبی اکرم ﷺ کے سامنے دو بندوں کا ذکر ہوا، ایک ان میں سے عالِم جبکہ دوسرا عابد تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : ﴿فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِى عَلَى أَدْنَاكُمْ’’عالم کی عابد پر فضیلت اتنی ہے جتنی میری فضیلت تم میں سے کسی عام آدمی پر ہے ‘‘۔عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺاپنے کسی حجرے سے نکلے اور مسجد میں داخل ہوئے تو آپ نے دو حلقے ملاحظہ فرمائے ایک حلقے والے قرآن کی تلاوت کر رہے تھے اور اللہ سے دعائیں مانگ رہے تھے اور دوسرے حلقے والے پڑھ پڑھا رہے تھے آپ ﷺ یہ فرما کر تعلیم و تعلم والے حلقے میں تشریف فرما ہوئے :﴿كُلٌّ عَلَى خَيْرٍ هَؤُلاَءِ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ وَيَدْعُونَ اللَّهَ فَإِنْ شَاءَ أَعْطَاهُمْ وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُمْ وَهَؤُلاَءِ يَتَعَلَّمُونَ وَيُعَلِّمُونَ وَإِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا (سنن ابن ماجه)’’دونوں ہی نیکی پر ہیں ، یہ جو ہیں یہ قرآن کی قراءت کر رہے ہیں اور اللہ سے دعائیں مانگ رہے ہیں، اگر اللہ چاہے تو عطا کرے چاہے تو نہ کرے اور یہ جو دوسرے ہیں یہ علم سیکھنے سکھانے میں مصروف جبکہ مجھے بھی تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘۔سنن دارمی کی روایت میں تعلیم و تعلم والوں کے بارے میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں:﴿وَأَمَّا هَؤُلاَءِ فَيَتَعَلَّمُونَ الْفِقْهَ وَالْعِلْمَ وَيُعَلِّمُونَ الْجَاهِلَ فَهُمْ أَفْضَلُ’’یہ جو ہیں ان میں کچھ فقہ اور علم سیکھ رہے ہیں اور دوسرے ان بے سمجھوں کو سکھا رہے ہیں پس یہ گروہ افضل ہے‘‘ ۔

 ابو موسى الاشعری رضی اللہ عنہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی الله عنہ کے پاس عشاکے بعد آئے تو حضرت عمر  رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: اس وقت آپ کیسےآئے؟ کہنے لگے میں آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ سے کچھ باتیں کروں، انھوں نے حیرت سے کہا: اس وقت؟ ابو موسی رضی اللہ عنہ نے کہا: ﴿إنه فقه بات تو فقہ کی ہے پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیٹھ گئے اور ان کی طویل بات چیت ہوئی پھر ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا ﴿الصلاة يا أمير المؤمنين﴾ اے امیر المومنین نماز(تہجد ) ؟ انھوں نے فرمایا ﴿إِنَّا فِي صَلاَةٍ﴾ہم نماز ہی میں تھے‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبہ )﴿ فَقِيهٌ وَاحِدٌ أَشَدُّ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ (سنن ترمذي، سنن ابن ماجه)’’شیطان پر ایک ہزار عابد کے مقابلے میں ایک اکیلا فقیہ زیادہ بھاری ہے‘‘۔حدیث مبارکہ میں شیطان کے مقابلے پر سختی میں ایک فقیہ کو ہزار عابد پر فوقیت دی گئی ہے۔پہلے تو یہ جاننا چاہیے کہ مذکورہ فوقیت ابتدائی فقہ پر حاصل نہیں ہے اس لیے کہ ابتدائی درجے کا علم فقہ تو ہر عابد بھی ضرور رکھتا ہے بلکہ اس حدیث میں فقیہ سے مراد ماہر فقہ ہے جو فقہ کا تفصیلی و تکمیلی علم رکھتا ہے۔

فقیہ کی عابد پر فضیلت اس لیے ہےکہ فقیہ شیطانی اغوا و و ساوس کا داؤ چلنے نہیں دیتا ۔شیطان لوگوں کو شر کا حکم دیتا ہے تو فقیہ لوگوں کو اس کے برعکس خیر کا حکم دیتا ہے۔ شیطان جب بھی لوگوں کے اغوا کے لیے ہواے نفسانی کا دروازہ کھولتا ہے یا لوگوں کے دلوں میں شہوات کو مزین کر کے دکھاتا ہے تو عار ف و فقیہ اپنے تابع مریدین و سالکین کے سامنے شیطانی چالوں کا پردہ چاک کر کے شیطانی راستوں کو بند کر دیتا ہے اور شیطان کو ناکام و نامراد کر دیتا ہے، جبکہ جو محض عابد ہوں وہ اپنی عبادت میں مگن تو رہتے ہیں لیکن لوگوں کی اصلاح نہیں کر سکتے بلکہ کبھی تو خود بھی شیطان سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔تو فقیہ کامل لوگوں کو صراط مستقیم پر چلا کر انھیں شیطانی راستوں سے بچاتا ہے (مرقاۃ المفاتیح) اسی لیے حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ فرماتے ہیں:﴿اَلْفُقَهَاءُ قَادَةٌ، وَمُجَالَسَتُهُمْ زِيَادَةٌ’’فقہاء تو قائد و رہنما ہیں اور ان کی مجالست ، نیکی میں بڑھوتری کا باعث ہے‘‘۔(مجمع الزوائد )

ان تشریحات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس حدیث میں فقیہ سے مراد وہ علمی شخصیت ہے جو احکام کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کا بھی ماہر ہو جو لوگوں کے اعمال ظاہری کے ساتھ ان کی باطنی کیفیات سے واقف اور اصلاح کا سامان کر سکتا ہو اور یہی جامع شخصیت ہے جو شیطان پر ہزار عابد سے بھاری ہے۔ اسی لیے محقق صوفیا ےکرام ہمیشہ تصوف و احسان و اصلا ح کے ساتھ ، علم دین و فقہ پر بھی زور دیتے آئے ہیں تاکہ طریقت و شریعت دونوں کا التزام کیا جا سکے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے القول الجمیل کی نویں فصل کے چند صفحات میں عالم ربانی کی خصوصیات بیان کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے، وہ تفسیر ، فقہ ، حدیث اور سلوک کا جاننے والا ہو ، اپنے متعلقین کو اشغال طریقت کی تلقین کے ساتھ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور وعظ کرتا ہو۔ اس کے بعد حضرت لکھتے ہیں کہ یہی اشخاص ہیں جو نبیوں کے وارث ہیں یہی لوگ ملکوت آسمانی میں عظیم الشان ہیں جن کے لیے کل خلق اور مچھلیاں تک دعا کرتی ہیں۔اس کی صحبت کو اکسیر اعظم سمجھنا چاہیے اور اس سےمحروم نہ رہنا چاہیے۔ شاہ صاحب علیہ الرحمہ نے یہ نصیحت کی ہے۔بعد ازاں یہ وصیت ہے کہ صحبت اختیار نہ کرے صوفیان جاہل اور جاہلان عبادت شعار کی اور نہ ہی فقیہوں کی جو زاہد خشک ہیں اور نہ ہی محدثین ظاہری کی جو فقہ سے عداوت رکھتے ہیں‘‘۔ (القول الجمیل ص: ۱۵۸)

 نبی اکرم ﷺنے اپنی ساتھ بھیجی گئی ہدایت اور علم کی مثال میں تین قسم کے لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:﴿إِنَّ مَثَلَ مَا بَعَثَنِيَ اللهُ بِهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنَ الْهُدَى، وَالْعِلْمِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَصَابَ أَرْضًا، فَكَانَتْ مِنْهَا طَائِفَةٌ طَيِّبَةٌ، قَبِلَتِ الْمَاءَ فَأَنْبَتَتِ الْكَلَأَ وَالْعُشْبَ الْكَثِيرَ، وَكَانَ مِنْهَا أَجَادِبُ أَمْسَكَتِ الْمَاءَ، فَنَفَعَ اللهُ بِهَا النَّاسَ، فَشَرِبُوا مِنْهَا وَسَقَوْا وَرَعَوْا، وَأَصَابَ طَائِفَةً مِنْهَا أُخْرَى، إِنَّمَا هِيَ قِيعَانٌ لَا تُمْسِكُ مَاءً، وَلَا تُنْبِتُ كَلَأً، فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِي دِينِ اللهِ، وَنَفَعَهُ بِمَا بَعَثَنِيَ اللهُ بِهِ، فَعَلِمَ وَعَلَّمَ، وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ بِذَلِكَ رَأْسًا، وَلَمْ يَقْبَلْ هُدَى اللهِ الَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ (مسلم) ’’بے شک جس ہدایت اور علم کے ساتھ اللہ نے مجھے مبعوث کیاجیسا کہ بارش کی مثال ہے کہ وہ بارش کسی زمین پر برسی، پس کچھ زمین تو ایسی زرخیز تھی کہ اس نے پانی کو جذب کیا اور اس سے سبزا ، اور جڑی بوٹیاں نکلیں (مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے تعلیمات محمدی کے مطابق خود کو بنایا سنوارا اور اپنے عمل میں لائے)پھر اس زمین میں سے کچھ زمین نشیبی تھی جس نے( پھل بوٹے نکالنے کے ساتھ ساتھ ) پانی کو اپنے اندر جمع بھی کر لیا تو اللہ نے اس پانی کے ذریعے سے لوگوں کو فائدہ دیا ،انھوں نے خود بھی پیا اور اپنے جانوروں کو بھی کھلایا پلایا ،اور یہ بارش ایک دوسری قسم کی زمین پر بھی برسی جو چٹیل تھی ،نہ تو اس نے پانی کو اپنے میں جمع کیا اور نہ ہی سبزہ اگایا ،پس اسی طرح کی مثال کہ جس نے دین میں سمجھ پیدا کی اور میرے ساتھ نازل کی گئی ہدایت سے فائدہ ا ٹھایا ،خود بھی علم حاصل کیا اور دوسروں کو بھی علم سکھایا، اور ان لوگوں کی مثال بھی اسی میں ہے جنھوں نے میری طرف سر اٹھا کر بھی نہ دیکھا اور میرے ساتھ نازل کی گئی اللہ کی ہدایت کو قبول نہیں کیا‘‘۔

اس حدیث میں ایک لطیف تشبیہ بیان کی گئی ہے۔یہاں علم کے لیے بارش کی مثال دی گئی کیونکہ جس طرح بارش آسمان سے اترتی ہے اسی طرح علم وحی بھی آسمان ہی سے نازل کیا جاتا ہے۔اور نبی اکرم ﷺ نے چونکہ اپنے بارے میں فرمایا کہ میں تو بانٹنے والا ہوں، پس آپ حق باری تعالیٰ  کی طرف سے اس کی مخلوق تک فیض رسانی فرمانے والے ہیں بالکل کسی بادل کی طرح جو زمین تک پانی پہنچاتا ہے۔اور لوگوں کے دل زمین کے مشابہ ہیں کہ جس طرح بارش تو ہر قسم کی زمین پر پہنچتی ہے لیکن استفادہ طیب اور زرخیز زمین ہی کرتی ہے۔ پس حدیث میں تین قسم کی زمینوں کے بیان کے ذریعے بنیادی طور پر لوگوں کی دو قسمیں بیان ہوئی ہیں۔ایک وہ جنھوں نے دین میں فقاہت حاصل کی اور ایک وہ جنھوں نے علم کی طرف سر تک نہ اٹھا کر دیکھا اور نہ ہی فقاہت حاصل کی۔ کیونکہ زمین کی پہلی قسم اور دوسری قسم ، ایک اعتبار سے ایک ہی ہیں کہ ان دونوں قسموں نے بارش سے فائدہ اٹھایا ہے۔پس اس حدیث میں بظاہر لوگوں کی دو ہی قسمیں ہیں: ایک وہ جنھوں نے علم اور احکام دین کو قبول کیا اور جنھوں نے قبول نہیں کیا، لیکن چونکہ قبول کرنے والی زمین کی قبولیت میں فرق ہے، کیونکہ ایک زمین وہ ہے جس نے پانی سے سبزہ وغیرہ اگایا جبکہ دوسری نے سبزے کے ساتھ ساتھ پانی کو دوسروں کے لیے جمع بھی کیا۔ اس لیے ان کی دو قسمیں بن گئیں، اسی طرح علم کو قبول کرنے والوں کے قبول کی کیفیت میں فرق کی وجہ سے مزید دو قسمیں بن گئیں: ایک وہ جنھوں اتنا ہی علم جمع کیا جس سے انھوں نے خود ہی فائدہ اٹھایا یعنی اپنے عمل کی حد تک ہی علم حاصل کیا اور درس و تدریس، تربیت و تزکیہ اور فتوی و ارشاد کے درجے کو نہ پہنچ سکے، جبکہ دوسرے وہ جنھوں نے علم کو اس طرح اٹھایا کہ خود عمل کے ساتھ ساتھ درس و تدریس، تربیت و تزکیہ اور فتوی و ارشاد کے درجے کو بھی پاگئے،اور تیسری قسم لوگوں کی وہ ہے جس نے علم کی طرف نظر التفات ڈالنا بھی گوارا نہ کیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تین اقسام میں دوسری یعنی درمیانی قسم کے لوگ سب سے افضل ہیں کیونکہ تمام مخلوق ان سے رزق پاتے ہیں اور یہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے والے ہیں پس یہ وہ لوگ ہیں جو خود بھی کامل ہیں اور دوسروں کو بھی درجۂ کمال تک پہنچا کر مکمل کرنے والے ہیں، علم کی طرف سر کا نہ اٹھانا یا تو اس بات سے کنایہ ہے کہ انھوں نے علم کو حاصل تو کیالیکن اس سے فائدہ نہیں اٹھایا یعنی عمل نہ کیا، یا پھر یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ دنیوی مفاد  میں لگ کر انھوں نے علم سرے سے حاصل ہی نہیں کیا، اس قسم کے لوگوں کی مثال اس زمین کی ہے جس نے نہ تو سبزا  اُگایا اور نہ ہی پانی کو جمع کیا۔(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح)

جاری ہے۔۔۔۔۔

لرننگ پورٹل