لاگ ان

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

لاگ ان

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

اگر دورِ حاضر میں کسی سلسلے کو سلسلۃ الذہب کہا جائے تو حضرت مولانامفتی محمد شفیع صاحب   رحمہ اللہ کا سلسلہ اس لقب کا زیادہ حقدار ہوگا۔ اس سلسلے کی ہر ہر کڑی بذاتہ عروۃ الوثقیٰ ہے جس سے تفسیر ، حدیث ، فقہ ، فتویٰ اور خصوصا تزکیہ و تصوف کے ایسے عمدہ خزانے بر آمد ہوئے کہ جن سے ان علوم نے سالوں میں صدیوں کا سفر طے کیا۔ ان حضرات میں سے ہر ہستی بلاشبہہ جامع العلوم و الفنون ہے ۔ اس   مبارک سلسلےکا آغاز قاسم العلوم و الخیرات حضرت مولانا قاسم نانوتوی صاحب  (  رحمہ اللہ تعالیٰ ومتعنا بعلومہ و برکاتہ) سے ہوااور شیخ الہند حضرت مولانامحمودحسن دیوبندی رحمہ اللہ، حکیم الامت حضرت مولانا شیخ اشرف علی تھانوی قدس اللہ سرہ سے ہوتا ہواحضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ تک پہنچا۔ تادمِ تحریر شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہ اسی سلسلے کی عظیم یادگار ہیں۔

اس مضمون سے مفتی اعظم پاکستان کی سیرت اور ان کے علمی کارناموں کا تذکرہ مقصود ہے ۔یہ مضمون اصلاً چند علماء کی عبارات پر مشتمل ہے ۔ آپ   رحمہ اللہ  کی علمی خدمات، للہیت اور اخلاص ہی کا نتیجہ تھا کہ آپ   رحمہ اللہ  کو ’’مفتیٔ اعظم‘‘ کا لقب ملا، اس بارے میں مفتی محمد تقی صاحب مدظلہ ’’میرے والد۔ میرے شیخ‘‘ میں فرماتے ہیں :’’علومِ متداولہ میں جس علم سے حضرت والد صاحب   رحمہ اللہ   کو سب سے زیادہ شغف رہا اور جس میں اللہ تعالیٰ نے ان سے دین کی عظیم خدمت لی ، وہ علمِ فقہ ہے ۔ چنانچہ آپ  رحمہ اللہ  کی یہی حیثیت دنیا میں زیادہ معروف بھی ہوئی اور اسی بنا پر آپ کا لقب ’’مفتی اعظم‘‘ زباں زد عام ہوگیا ۔ میں نے کئی بار تحقیق کرنی چاہی کہ سب سے پہلے کن صاحب نے حضرت والد صاحب  رحمہ اللہ  کے لیے ’’مفتیٔ اعظم‘‘ کا لقب استعمال کیا تھا ۔ لیکن مجھے یہ معلوم نہیں ہوسکا ، البتہ اتنا یاد ہے کہ جب سے میں اُردو تحریر پڑھنے کے قابل ہوا اس وقت سے حضرت والد صاحب   رحمہ اللہ  کے نام آنے والے خطوط میں والد صاحب   رحمہ اللہ  کے اسمِ گرامی کے ساتھ ’’مفتی اعظم پاکستان‘‘کےالفاظ دیکھنے میں آرہے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ کسی لقب یا خطاب کے من جانب اللہ ہونے کی علامت غالباً یہی ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کی زبان پر اس طرح چڑھ جاتا ہے کہ یہ پتا نہیں چلتا کہ اس کی ابتدائی تجویز کس نے کی ؟ حضرت والد صاحب   رحمہ اللہ   کو میں نے دیکھا کہ انھوں نے اپنے بے تکلف لوگوں کو یہ الفاظ لکھنے سے بعض اوقات منع کیا ، لیکن اس کے باوجود یہ لقب پھیلتا ہی چلا گیا‘‘۔[1]

آپ  رحمہ اللہ  معقولات و منقولات کے جامع ہونے کے علی الرغم سادگی اور عاجزی و انکساری کا پیکر تھے ۔ آپ   رحمہ اللہ  کے متعلق مفتی محمد رفیع عثمانی  صاحب زید مجدہ ’’حیاتِ مفتی اعظم  رحمہ اللہ  ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ جب آپ  رحمہ اللہ  سےآپ کی سوانح لکھنے کا تذکرہ ہوا تو آپ  رحمہ اللہ  نے فرمایا :’’ہماری مثال ان حشرات الارض کی سی ہے جو روز پیدا ہوتے اور مرتے رہتے ہیں ، کسی مکھی مچھر کی سوانح کون اور کیوں لکھے ؟ ہم جیسے لوگوں کا تذکرہ اس سے زیادہ ممتاز نہیں بلکہ بزرگانِ سلف کے سوانح اور تذکروں کی قدر کم کردینے کا سبب معلوم ہوتا ہے ‘‘۔[2]

آپ  رحمہ اللہ  کے یہ الفاظ ہر اس شخص کے لیے ابد الآباد تک ذریعۂ ہدایت بنے رہیں گے جسے کسی بھی کمال کےحصول پر ’’کچھ ہونے‘‘ کا احساس ہو۔  رسول اللہ ﷺ کے مبارک قول ﴿من تواضع لله رفعه الله﴾(مشکوۃ) کے جہاں دیگر مصداق ہیں وہیں آپ   رحمہ اللہ  کی ذاتِ گرامی بھی ہے ۔

ابتدائی حالات

مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب   رحمہ اللہ  ۲۰ شعبان ۱۳۱۴ھ بہ مطابق جنوری ۱۸۹۷ء کو دیوبند میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے دادا نے محمد مبین نام رکھا لیکن جب حضرت گنگوہی   رحمہ اللہ    کو اطلاع ہوئی تو آپ  رحمہ اللہ  نے محمد شفیع نام تجویز کیا ۔[3] آپ کا سلسلۂ  نسب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے ۔ آپ  رحمہ اللہ  کے والدِ ماجد مولانا محمد یٰسین صاحب عثمانی دیوبندی  رحمہ اللہ  دار العلوم دیوبند میں فارسی کے مدرس تھے اور ایک عالم ِباعمل اور صاحبِ کمالات بزرگ تھے ۔ [4] وہ فرمایا کرتے تھے کہ:’’ہم نے دارالعلوم کا وہ وقت دیکھا ہے جس میں صدر مدرس سے لے کر ادنیٰ مدرس تک اور مہتمم سے لےکر دربان اور چپڑاسی تک سب کے سب صاحب نسبت بزرگ اور اولیاء اللہ تھے۔ دارالعلوم اس زمانے میں دن کو دارالعلوم اور رات کو خانقاہ معلوم ہوتا تھا کہ اکثر حجروں سے شب میں تلاوت اور ذکر کی آوازیں سنائی دیتی تھیں ‘‘۔[5]

حضرت مفتی اعظم   رحمہ اللہ  کے والد ماجد مولانا محمد یٰسین صاحب   رحمہ اللہ  نے طالبِ علمی کا پورا زمانہ عسرت اور تنگ دستی میں بسر کیا ۔ ایک روز آپ گرمی کی دوپہر میں دار العلوم کے اسباق سے تھک تھکا کر چھٹی کے وقت گھر پہنچے تو والدہ نے آبدیدہ ہوکر اپنے لائق فرزند سے کہا: ’’بیٹا آج تو گھر میں کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے البتہ ہماری زمین میں گندم کی فصل تیار کھڑی ہے اگر تم اس میں سے کچھ گندم کاٹ لاؤ تو میں ان کو صاف کر کے آٹا پیس کر روٹی پکادوں گی ‘‘۔  سعادت مند بیٹا محنت اور بھوک سے درماندہ اسی گرمی کی دوپہر میں اپنی زمین کی طرف چل دیا اور وہاں سے جس قدر بوجھ اٹھا سکتا تھا اتنی گندم کاٹ کر لے آیا ۔ والدہ نے اس کو کوٹ کر چھان پیس کر آٹا بنایا اور روٹی پکائی ۔ اس طرح ظہر کے وقت تک بھوک کا کچھ سامان ہوا ۔ ظہر کے بعد اپنے اسباق کےلیے چلے گئے ۔ ماں باپ اور بیٹے نے اسی فقر و فاقے میں وقت گزارا مگر تعلیم میں فرق نہ آنے دیا ۔اسی طرح کے دیگر واقعات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ آپ  رحمہ اللہ  نے ایک علمی گھرانے میں آنکھ کھولی ۔ [6]

ابتدائی تعلیم 

حضرت مفتی اعظم   رحمہ اللہ  نے پانچ سال کی عمر میں حافظ محمد عظیم صاحب کے پاس دار العلوم دیوبند میں قرآن کریم کی تعلیم شروع کردی ۔ وہیں فارسی کی تمام مروجہ کتب اپنے والدِ محترم   رحمہ اللہ سے پڑھیں ۔حساب و فنون و ریاضی کی تعلیم اپنے چچا مولانا منظور احمد صاحب   رحمہ اللہ  سے حاصل کی اور ۱۶ سال کی عمر میں دار العلوم دیوبند کے درجۂ عربی میں داخل ہوئے ۔[7]

آپ کے والد بزرگوار کی خواہش تھی کہ آپ کو قرآن شریف حفظ کروائیں، کچھ پارے حفظ بھی کرلیے تھے مگر جسمانی طور پر بچپن سے کمزور تھے، حفظ کی محنت برداشت نہ ہوسکی، مگر چند پارے، جو اس وقت حفظ کر لیے تھے عمر بھر ان کو یاد رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے۔ آپ یہ پارے اکثر نفلوں اور تہجد میں پڑھا کرتے تھے۔ قرآن ِکریم کی تعلیم سے فراغت کے بعد دارالعلوم ہی میں خط و املاء کی مشق اور فارسی کی تمام مروجہ کتابوں کی تعلیم اپنے والدِ محترم سے حاصل کی، حساب ، فنون ،ریاضی، اقلیدس وغیرہ اپنے چچا جناب منشی منظور احمد صاحب   رحمہ اللہ  مدرس دارالعلوم دیوبند سے پڑھے اور فنِ تجوید اپنے عربی علوم کے رفیقِ درس جناب قاری محمد یوسف صاحب میرٹھی سےحاصل کیا۔عربی نحوو صرف اور فقہ کی ابتدائی کتابیں بھی فصول اکبری، ہدایۃ النحو اور منیۃ المصلی تک اپنے والد موصوف سے فارسی تعلیم کے ساتھ ہی پڑھ لی تھیں، اس طرح تعلیم ِقرآن کے بعد تقریباً پانچ سال فارسی، ریاضی وغیرہ کی پوری تعلیم اور عربی کی ابتدائی کتب میں صرف ہوئے۔

دار العلوم دیوبند میں 

۱۳۳۰ ھ میں جب آپ کی عمر سولہ سال تھی ، اصول فقہ اور ادب وغیرہ کی متوسط کتابیں دار العلوم دیوبند کے درجۂ عربی میں با قاعدہ داخل ہوکر شروع فرمائیں ۔آپ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی تھی اس میں ہر طرف علم و عرفان اور زہد و تقویٰ کے وہ بے مثل پہاڑ تھے جن کی رگ رگ سے علوم و معارف کے بے شمار چشمے نکل کر عالمِ اسلام کو سیراب کررہے تھے ، اس روح افزا ماحول میں آپ   رحمہ اللہ  نے جن یکتاے روزگار اساتذہ سے استفادہ کیا ، ان کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کا جنید   ، کرخی ، ابن حجر ، رازی اور غزالی بنایا تھا رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔ آپ  رحمہ اللہ  اکثر فرمایا کرتے تھے کہ :’’اگر ہم اپنے بزرگوں کے تبحرِ علمی اور باطنی کمالات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ نہ کرتے تو ہمیں اپنے قدیم اسلام، تابعین ، تبع ِتابعین کے حیرت ناک دینی کمالات کا مشاہداتی علم نہ ہوسکتا ‘‘۔[8]دار العلوم دیوبند میں آپ  رحمہ اللہ  کو جن اکابر علماء کی شفقت نصیب ہوئی ان میں حضرت شیخ الہند   رحمہ اللہ  کی ذات گرامی بھی تھی ۔ حضرت   رحمہ اللہ نے شیخ الہند   رحمہ اللہ  کے ساتھ اپنے تعلق کا تذکرہ ان الفاظ میں فرمایا ہے :’’احقر نے حضرت شیخ الہند  رحمہ اللہ    کا زمانہ پایا مگر ضابطے کا تلمذ اس لیے نہیں ہو سکا کہ میں اس وقت متوسط کتابیں پڑھتا تھا مگر حضرت قدس سرہ کے ساتھ قلبی عظمت و محبت مجھے اکثر ان کے درس بخاری میں لے جایا کرتی تھی۔ قید ِمالٹا سے پہلے دو سال تک رمضان المبارک میں حضرت ممدوح کے ساتھ شرکت کا شرف حق تعالیٰ نے عطا فرمایا۔ مالٹا سے واپسی کے بعد حضرت ہی سے بیعت و سلوک کا شرف حاصل ہوا‘‘۔

حضرت مفتی اعظم   رحمہ اللہ  کو ضابطے کا تلمذ اگرچہ شیخ الہند   رحمہ اللہ سے حاصل نہ ہو سکا لیکن اول تو  جب بھی موقع ملتا آپ  رحمہ اللہ  حضرت شیخ الہند   رحمہ اللہ کے درس بخاری میں جا بیٹھتے اور یہ جا بیٹھنا محض رسمی عقیدت کا اظہار ہی نہ تھا بلکہ آپ  رحمہ اللہ  کو حضرت شیخ الہند   رحمہ اللہ کے درسِ بخاری کی بہت سی باتیں یاد تھیں جو اکثر اپنے شاگردوں اور خدام کے سامنے بیان فرمایا کرتے ،اس کے علاوہ عصر کے بعد جب دوسرے طلبہ  اپنے اپنے درس سے فارغ ہوکر کھیل کود کا یا تفریح کا اہتمام کرتے تھے، اس وقت آپ  رحمہ اللہ  حضرت شیخ الہند قدس سرہ کی مجلس کا رخ کرتے اور روزانہ مغرب تک اس بابرکت مجلس سے فیض یاب   ہوتے تھے ۔ حضرت شیخ الہند  رحمہ اللہ   کو بھی آپ پر بے حد شفقت تھی اگر کسی روز آپ ان کی مجلس میں نہ ہوتے تو دریافت فرماتے  تھے۔ ایک مرتبہ آپ  رحمہ اللہ  کو بخار ہوا دو روز تک حاضر نہ ہو سکے تیسرے روز جب آپ پہنچے تو دیکھا کہ شیخ الہند  رحمہ اللہ  کہیں جانے کے لیے کھڑے ہیں معلوم ہوا کہ آپ ہی کے گھر جانے کا قصد فرمایا تھا ۔

حضرت مفتی اعظم   رحمہ اللہ   کو اپنے شیخ حضرت حکیم الامت تھانوی   رحمہ اللہ  سے جس قدر محبت و عقیدت تھی اور جتنا استفادہ آپ  رحمہ اللہ  نے حضرت حکیم الامت   رحمہ اللہ  سے کیا اس کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ۔حضرت مفتی اعظم   رحمہ اللہ   کا جو تعلق حضرت حکیم الامت قدس سرہ سے تھا وہ اور کسی سے نظر نہیں آتا ، یہی وجہ ہے کہ آپ   رحمہ اللہ  حضرت حکیم الامت    رحمہ اللہ کے حقیقی علمی اور روحانی جانشین تسلیم کیے گئے ہیں اور آپ کی رفعت و بلند پایہ شخصیت کا اندازہ کرنے کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ کے پیر و مرشد حضرت حکیم الامت تھانوی قدس سرہ نے متعدد بار اپنی تحریرات و تقریظات میں آپ کی علمی قابلیت و فقہی بصیرت پر مکمل اعتماد و اطمینان کااظہار فرمایا ہے اور یہ کسی معمولی شخص کی شہادت نہیں بلکہ اس شخص کی شہادت ہےجو حقیقی   معنوں میں حکیم الامت  اور مجدد اعظم تھا، مستند ہے ان کافرمایا ہوا۔حضرت مفتی اعظم   رحمہ اللہ   کی مشہور تالیف’’ سیرتِ خاتم الانبیاء ﷺ‘‘کے مطالعے کے بعد حضرت حکیم الامت قدِّس سرُّہ ایک والا نامے میں تحریر فرماتے ہیں :’’از اشرف علی عفی عنہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ، القاب اس لیے نہیں  لکھے کہ سمجھ میں نہیں آیا ،آپ کے والد ماجد صاحب   رحمہ اللہ  کے تعلقاتِ اخوت پر نظر کر کے تو عزیزم لکھنے کو جی چاہتا تھا مگر آپ کے کمالات کو دیکھ کر اس کے لکھنے کو بے ادبی سمجھا ‘‘۔عارف باللہ حضرت ڈاکٹر عبدالحی صاحب عارفی   رحمہ اللہ   فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ حضرت حکیم الامت قدس سرہ   نے فرمایا:’’مجھے اپنے  مرنے کا کوئی ڈر نہیں کیونکہ بحمداللہ چند لوگ ایسے موجود ہیں جو میرے بعد میرے خدمتِ دین کے کام کو آگے بڑھائیں گے ، اس کے بعد حضرت   رحمہ اللہ نےدو چار حضرات کے نام لیے جن میں مفتی اعظم حضرت مولانا محمد شفیع صاحب   رحمہ اللہ    کا نام منفرد تھا‘‘۔اسی طرح حضرت حکیم الامت تھانوی قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ:’’ مجھے اپنا ذوق بہت عزیز ہے اور یہ ذوق سالہا سال کے بعد مرتب ہوا ہے اور میرے ذوق و مسلک پر مفتی  محمد شفیع پورے اترتے ہیں ‘‘۔[9]

آپ  رحمہ اللہ  کم سنی ہی سے محققانہ ذوق رکھتے تھے ۔طلبِ علم میں اس قدر منہمک رہتے کہ دن اکثر حصہ دار العلوم میں ہی گزرتا ۔ تکرار کی ذمے دارے بھی بخوبی ادا کرتے بلکہ دورانِ تکرار استاذ کا پورا درس بعینہٖ دہرادیتے ۔ آپ  رحمہ اللہ  کی تکرار بذاتِ خود ایک درس کی صورت اختیار کرگئی تھی۔ کبھی کبھی تو تکرار کے بعد دار العلوم میں مولسری کے درخت تلے کھلے فرش پر سورہتے اور گھر جاتے تو کبھی رات کا ایک بج جاتا کبھی دو ۔ حضرت   رحمہ اللہ  نے دار العلوم کراچی کے طلبہ کو ایک مرتبہ نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ :’’رات کو والدہ میرا انتظار کرتی تھیں کہ کھانا گرم کر کے دیں ، ان کے انتظار میں مجھے تکلیف ہوتی تھی ، بڑی منت سماجت سے اس پر  راضی کیا کہ میرا کھانا ایک جگہ رکھ دیا کریں ۔ سردیوں کی راتوں میں شوربہ اوپر سے بالکل جم جاتا اور نیچے صرف پانی رہ جاتا ۔ میں وہی کھاکر سوجایا کرتا‘‘۔

ایک مرتبہ حضرت نانوتوی   رحمہ اللہ  کے مخصوص شاگرد و مرید اور مدرسہ عبد الرب دہلی کے بانی حضرت مولانا عبد العلی صاحب دارالعلوم تشریف لائے ۔ معزز مہمان اور دوسرے اساتذۂ کرام کے ساتھ دارالعلوم کے اس وقت کے مہتمم حضرت مولانا حبیب الرحمٰن صاحب  رحمہ اللہ   کھڑے تھے ۔ قریب سے حضرت مفتی اعظم  رحمہ اللہ   بغل میں کتابیں دبائے گزرنے لگے تو مہتمم صاحب نے بلالیا اور معزز مہمان سے فرمایا :’’یہ دار العلوم کا ایسا طالبِ علم ہے کہ اسے اپنی کتابوں کے علاوہ کسی چیز کا ہوش نہیں ، نہ اپنے کپڑوں کی خبر ہے ، نہ جان کی ، کتاب کا کوئی سوال پوچھو تو محققانہ جواب دے گا ‘‘۔مولانا عبد العلی صاحب   رحمہ اللہ  نے دیکھتے ہی فرمایا :’’ یہ تو مولوی یٰسین صاحب کا لڑکا معلوم ہوتا ہے‘‘ ۔ 

ایک مرتبہ شرح جامی کا امتحان شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی  رحمہ اللہ  کے پاس تھا ۔ اس وقت تک آپ نے کوئی کتاب مولانا سے نہیں پڑھی تھی ، تحریر سے نہ پہچان سکے   ، آپ کا نہایت ممتاز اور محققانہ پرچہ دیکھ کر حیرت و مسرت ضبط نہ کرسکے ، پرچہ لے کر فوراً مہتمم صاحب کے پاس آئے اور پوچھا یہ کون طالبِ علم ہے اس نے تو اس کتاب کی شرح تصنیف کردی ہے ۔ یہ سنتے ہی مہتمم صاحب فرطِ مسرت سے امتحان گاہ تشریف لائے ، حضرت والد صاحب اس وقت کسی اور امتحان کا پرچہ لکھ رہے تھے ۔ آپ کو بلاکر تمام طلبہ کے سامنے کھڑا کیا اور آپ کے سر پر ہاتھ رکھ کر پرچے کی غیر معمولی خوبی کا اعلان فرمایا ۔

الغرض حضرت   رحمہ اللہ  اسی انہماک سے علوم و فنون کی تعلیم حاصل کرتے رہے ۔ اس دوران حضرت تھانوی   رحمہ اللہ  سے ملاقات کا سلسلہ بھی جاری رہا تآنکہ موقوف علیہ سے فراغت پاکر دورے میں داخلے کا وقت آیا ۔ یہ ۱۳۳۴ ھ کا زمانہ تھا ، آپ   رحمہ اللہ  کی دلی تمنا تھی کہ بخاری حضرت شیخ الہند   رحمہ اللہ  سے پڑھیں لیکن شیخ الہند  رحمہ اللہ    کا یہ عرصہ حجاز میں گزرا ، اس امید پر آپ   رحمہ اللہ  نے دورۂِ حدیث ملتوی فرمایا کہ اگلے سال حضرت شیخ الہند   رحمہ اللہ  سے استفادے کا شرف حاصل ہو مگر بحکمِ قضا و قدر ۱۳۳۵ھ میں حضرت شیخ الہند   رحمہ اللہ  انگریزوں کے اسیر ہوکر مالٹا جیل بھیج دیے گئے اور آپ   رحمہ اللہ   کی تمنا پوری نہ ہوسکی ۔ بالآخر آپ  رحمہ اللہ  نے   ۱۳۳۵ھ میں دورۂِ حدیث محدث العصر حضرت مولانا سید انور شاہ صاحب کاشمیری  رحمہ اللہ  کے زیرِ شفقت کیا ۔حضرت انور شاہ کاشمیری   رحمہ اللہ  کے علمی کمالات ، باطنی تقدس ، دقتِ نظر ، وسعتِ مطالعہ اور بالخصوص قوتِ حافظہ علمی حلقوں میں ضرب المثل ہیں ۔ حضرت مفتی اعظم   رحمہ اللہ   کی تصانیف میں علمی تحقیق اور وسعتِ مطالعہ کا جو رنگ نمایا ں طور پر نظر آتا ہے اس میں بڑا دخل حضرت شاہ صاحب   رحمہ اللہ  کی تعلیم و تربیت کا ہے ۔ دورۂِ حدیث مکمل کرتے ہی بعض کتب کی تدریس آپ  رحمہ اللہ  کے ذمے لگادی گئی اور اسی سال ۱۳۳۶ ھ میں آپ  رحمہ اللہ  کی شادی ہوئی۔ ۱۳۳۷ھ میں باقاعدہ مدرس مقرر ہوئے اور ۱۲ سال تک یہ خدمت انجام دی ۔ ۱۳۵۰ھ میں صدر مفتی کی حیثیت سے دار العلوم کا منصبِ فتویٰ سپرد ہوا نیز حدیث و تفسیر کی کچھ کتب زیرِ درس رہیں ، بالآخر ۱۳۶۲ھ میں تحریکِ پاکستان کی جدو جہد اور کچھ دوسرے اسباب کی وجہ سے دار العلوم دیوبند سے مستعفی ہوگئے ۔[10]

تعریفی کلمات  ازحضرت شاہ صاحب 

دارالعلوم دیوبند میں آپ  رحمہ اللہ  نے امام العصر علامہ انور شاہ کاشمیری   رحمہ اللہ    کی راہنمائی میں آیتِ خاتم النبیین کی شرح عمدہ اور ادیبانہ انداز سے عربی میں تالیف فرمائی جو ’’ھدیۃ المھدیین ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی،  جس پر حضرت امام العصر  رحمہ اللہ   نے قابل ِرشک تقریظ تحریر فرمائی: ’’أما بعد : فإن صاحبنا الأ حوذي المولوي محمد شفیع الدیوبندي-و فقه الله لما یحب و یرضاه-جمع بإستدعائی رسالته، هدية المهدیین في آية خاتم النبینﷺ، جزاه الله عني و عن سائر المسلمین خیر الجزاء، أسرد فيه نحو مائة و خمسة و ستین حدیثاََ في انقطاع النبوة بعد مابعث الله نبیه محمداً مصطفاه… وهاک رسالة تفسیرية  حدیثية کلا مية فقهية و بعد ذلک کله أدبية یسري ألفاظها کسراية الروح في البدن و یقع في قلب المومن کحلاوة الإیمان ویجري في العروق کمحض اللبن ؎

هلم يَا صاحِ إِلى رَوْضَةٍ يجْلُو بِها العاني صدَا هَمِّهِ 

نَسِيمُهَا يَعْثُرُ فِي ذيلهِ وَزَهْرُهَا يضْحَك فِي كُمِّهِ ‘‘

(ہمارے رفیقِ دانشمند مولوی محمد شفیع دیوبندی نے- اللہ تعالیٰ انھیں  اپنی مرضیات کی توفیق عطافرمائے – میری فرمائش پر رسالہ ھدیۃ المھدیین فی آیۃ خاتم النبیینﷺ جمع کیا ہے،  اللہ تعالیٰ انھیں میری طرف سے اور تمام مسلمانوں کی جانب سےجزائے خیر عطا فرمائیں ،اس میں اس مضمون کی تقریباً۱۶۵حدیثیں ذکر کی ہیں کہ بعثتِ محمد یہﷺ  کے بعد نبوت ختم ہوچکی ہے ۔ یہ رسالہ تفسیری بھی ہے اور حدیثی بھی ،کلامی بھی ہےاور فقہی بھی اور ان تمام امور کے ساتھ ساتھ ادبی بھی ، جس کے الفاظ روح کی طرح بدن میں سرایت کرتے ہیں ، حلاوتِ ایمان کی طرح قلب مومن میں جا گزیں ہوتے ہیں اور خالص دُودھ کی طرح رگ وپے میں گردش کرتے ہیں ۔ ’’اے رفیق! اس گلشن کی سیر کرو ، جس سے ایک غم زدہ شخص اپنے ہموم و افکار کا زنگ دُور کرتا ہے ۔ اس کی بادِ صبا اس کے دامن سے اٹھکیلیاں کرتی ہے اور اس کی کلیاں اس کے دامن میں مسکراتی ہیں ‘‘)۔[11]

حکیم الامت  رحمہ اللہ  سے تعلق

آپ  کی حکیم الامت سے پہلی ملاقات۱۳۲۳ھ میں نو سال کی عمر میں ہوئی جب آپ   اپنے والد کے ساتھ تھانہ بھوَن گئے۔ دوسری ملاقات ۱۳۳۲ھ میں ہوئی جب آپ  کی عمر ۱۸ سال تھی۔ اس ملاقات میں آپ  حضرت حکیم الامت  رحمہ اللہ  سے مشورے کی غرض سے حاضر ہوئے کہ  حضرت گنگوہی   رحمہ اللہ     کی رائے یونانی فلسفہ پڑھنے کے حق میں نہ تھی، جبکہ حضرت نانوتوی   رحمہ اللہ  اس کے حق میں  تھے، آپ   فرمائیے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ حضرت حکیم الامت  رحمہ اللہ  نے فرمایا کہ مولانا گنگوہی  رحمہ اللہ  نے جن خدشات کی بنا پر اس سے منع فرمایا تھا آپ  ان سے محفوظ   ہیں۔ حکیم الامت  رحمہ اللہ  سے آپ  کا باقاعدہ تعلق ۱۳۴۴ھ میں ہوا، آپ   نے فرمایا کہ تمنا تو ہے کہ سلوک کے مراحل طے کروں لیکن یہ  مجاہدے اور ریاضتیں تو اقویا  ہی کے بس کی ہیں، حضرت  رحمہ اللہ  نے جواب دیا کہ’’ آپ نے کیا فرمایا! اللہ کا راستہ صرف اقویاکے لیے ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ راستہ سب کے لیے کھلا ہوا ہے، ہاں عمل کے طریقے مختلف ہیں، ہم آپ کو ایسا طریق بتائیں گے جس میں نہ قوت کی ضرورت ہوگی نہ فرصت کی‘‘۔ پھر فرمایا کہ فرائض ، واجبات اور سنن و مستحبات جو سب مسلمان ادا کرتے ہیں وہ تو اپنی جگہ ہیں البتہ آپ کو تین باتوں کی پابندی کرنی ہوگی: ایک یہ کہ تقویٰ اختیار کریں ظاہری معاملات میں بھی اور باطنی معاملات میں بھی، دوسرے لایعنی کام، کلام، مجلس  اور ملاقات سے پرہیز کریں اور تیسرے بقدرِ ہمت و فرصت کچھ تلاوتِ قرآن روز کیا کریں۔ نسخہ تو آپ کے لیے اتنا ہی ہے اگر دل چاہے اور فرصت ہوتو صبح و شام ’’سبحان اللہ، الحمد للہ، لاالہ الا اللہ‘‘سو سو مرتبہ اور استغفار و درود شریف سومرتبہ پڑھ لیا کریں۔ نمازوں کے بعد تسبیحِ فاطمہ کا التزام کریں۔

 حکیم الامت   رحمہ اللہ   کی نصیحت

حضرت مفتی اعظم  رحمہ اللہ  نے ایک مرتبہ بذریعۂ مکتوب حضرت حکیم الامت   رحمہ اللہ  سے نصیحت کی درخواست کی تو حضرت تھانوی  رحمہ اللہ  نے لکھا:’’میرے تجربے سے جو چیز سب سے زیادہ نافع ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں ایک گھڑی رہنے کا بھی بھروسہ نہیں، وہاں کے لیے تیار رہنا چاہیے(اور پھر ایک روایت درج فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے کہ جب تو صبح کرے تو اپنے نفس سے شام کی بات نہ کر اور جب تو شام کرے تو اپنے نفس سے صبح کی بات نہ کر اور اپنے آپ کو اہل ِقبور میں شمار کر)‘‘۔

خلافت سے سرفرازی

ربیع الثانی ۱۳۴۹ھ میں حضرت حکیم الامت   رحمہ اللہ  نے بذریعۂ خط آپ  رحمہ اللہ  کو اپنی خلافت اوربیعت کی اجازت  عطا کی، مکتوب یہ تھا:’’ مشفقی مولوی محمد شفیع صاحب مدرس دارالعلوم دیوبند سلمہ،السلام علیکم: بے ساختہ قلب پر وارد ہوا کہ آپ کو مع دوسرے احباب  کے بیعت و تلقین کی اجازت ہو، پس توکلاً علی اللہ اس وارد پر عمل کرنے کے لیے آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ اگر کوئی طالبِ حق آپ سے اس کی درخواست کرے تو قبول کر لیں، اس سے متعلم کے ساتھ معلم کو بھی نفع ہوتا ہے، میں بھی دعا کرتا ہوں اور اپنے خاص محبین پراس کو ظاہر بھی کر دیجیے‘‘۔

اس خط کے ملتے ہی آپ  رحمہ اللہ  تحیر میں مبتلا ہو گئے، آپ  رحمہ اللہ  کی تواضع اور انکساری نے آپ  رحمہ اللہ  کو یہ گمان بھی نہ گزرنے دیا تھا کہ کبھی یہ نوبت بھی آئے گی، چنانچہ آپ  رحمہ اللہ  نے حضرت تھانوی   رحمہ اللہ  کو جوابی خط لکھا جو حضرت مفتی اعظم  رحمہ اللہ  کی بے نفسی کی واضح دلیل ہے:’’والا نامہ گرامی صادر ہوا، دیکھ کر حیرت میں رہ گیا کہ ناکارہ و آوارہ شفیع اور بیعت کی اجازت و تلقین! صلاح کار کجا و من  خراب کجا۔ میں تو واللہ کسی بزرگ سے بیعت ہونے کا بھی سلیقہ نہیں رکھتا، سلوک کے ابتدائی مراحل سے بھی روشناس نہیں، کسی دوسرے کو کیا تلقین کروں گااور پھر ایسا کون بیوقوف ہوگا جو مجھ سے درخواستِ بیعت کرے گا، بار بار والا نامے کو دیکھتا اور اپنی سیہ کاری پر نظر کرتا ہوں تو حیرت کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ مجھ جیسے غفلت شعار سیہ کارکو اتنے بڑے منصب سے نوازنا کہیں اس منصب کی بدنامی کا سبب نہ ہو، اس خیال سے یوں جی چاہتا ہے کہ اس کی اشاعت نہ ہو تو اچھا ہے‘‘۔

ایک اور مکتوبتواضع کی انتہا

۹ رمضان المبارک ۱۳۵۰ھ کو حضرت حکیم الامت  رحمہ اللہ   کی بارگاہ میں درج ذیل مکتوب ارسال فرمایا:’’بارگاہِ سامی میں حاضر ہوکر حضرت کی جوتیوں کے طفیل سے الحمد للہ یہ تو ہوا کہ غرور سے ایک گونہ نجات ہوئی اور اپنے کچھ معائب گویا متمثل ہوکر        ؎

شرمندہ مثل زنگی آئینہ دیدہ ہوں

کی کیفیت پیدا ہوگئی اور یہ اچھی طرح واضح ہوگیا کہ تمام اہلِ خانقاہ میں سب سے زیادہ ناکارہ و آوارہ بدنام کنندۂ خانقاہ میں ہی ہوں ، کئی روز سے حزن کی کیفیت اور حسرت بڑھ رہی ہے کہ جب آفتابِ ہدایت کے مواجہہ میں بھی میری تاریکی کا یہ حال ہے تو آئندہ کیا ہوگا ‘‘۔

جواب :’’یہ استدلال متکلم فیہ ہے ، یہ ایسا استدلال ہے کہ ستارہ کہے کہ جب آفتاب کے سامنے بے نور ہوں تو شب کو کس قدر بے نور ہوں گا ۔ بعض اوقات بعض احوال کا ظہور قُرب میں نہیں ہوتا بُعد میں ہوتا ہے اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ان فکروں ہی میں نہ پڑنا چاہیے جو ہوسکے کرتا رہے نہ ہوسکے نادم رہے‘‘ ۔

سبحان اللہ! جس قدر شان وشوکت شیخ کی ہے ویسا ہی تبحر مرید کا بھی ہے، کثر الله أمثالهم۔

حکیم الامت  رحمہ اللہ    کی وفات

حکیم الامت  رحمہ اللہ   کی وفات کا واقعہ حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب  مد ظلہ بیان فرماتے ہیں کہ:’’میری عمر کا اس وقت آٹھواں سال تھا، بدھ ۱۳۶۲ھ کو صبح تقریباً نو یا دس بجے کا وقت تھا، بھائی جان جو کسی کام سے سہارنپور گئے ہوئے تھے، اچانک یہ المناک خبر لائے کہ رات حضرت  رحمہ اللہ  کا انتقال ہو گیا ۔ سنتے ہی والد صاحب  رحمہ اللہ  کا حال نا قابلِ بیان ہوگیا ، ابتداءً سکتہ سا ہوا ، چہرے کی رنگت بدل گئی پھر بے تابانہ ٹہلتے جاتے اور انا للہ و انا الیہ راجعون  پڑھتے جاتے تھے ، استغراق کا سا عالم تھا ،ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سمجھ نہیں آ رہا کیا کریں ، دیکھتے ہی دیکھتے گھر میں ہجوم ہوگیا ، پورے دیوبند میں ہلچل مچ گئی ، جس کو جو سواری ملی تھانہ بھون روانہ ہوگیا ، جسے کچھ نہ مل سکا بائیسکل پر دوڑ پڑا ۔ ایک ایک سائیکل پر کئی کئی سوار تھے ، بہت سے لوگ پیدل ہی چل پڑے ۔ والد صاحب   رحمہ اللہ  بھی چلے گئے۔تھوڑی دیر میں دیوبند پر سناٹا چھا گیا ، تمام مرد نمازِ جنازہ میں شرکت اور آخری دیدار کے لیے تھانہ بھون جاچکے تھے ۔

والد صاحب   رحمہ اللہ    کو یہ قلق ہمیشہ رہا کہ عین آخر وقت میں مجھے تھانہ بھون سے دیوبند آنا پڑگیا اور آخری لمحات میں حضرت کی نظروں کے سامنے نہ رہ سکا ۔ چنانچہ مکاتیبِ حکیم الامت   رحمہ اللہ   میں جہاں حضرت   رحمہ اللہ  کے نام اپنا آخری خط نقل کیا ہے ، اس کے حاشیے پر یہ پورا واقعہ نقل کر کے بڑی حسرت سے یہ شعر لکھا ہے کہ :

رفتم کہ خار از پا کشم ، محمل نہاں شد از نظر 

یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دور شد

(میں کارواں کے ساتھ چل رہا تھاکہ پاؤں میں کانٹا چبھ گیا،میں ٹھہرا کہ  کانٹا نکالوں اتنے میں محمل نظروں سے اوجھل ہوگیا، میں نے   ایک لحظہ غفلت برتی اور کارواں سے سو سال پیچھے رہ گیا)

اس حادثے پر آپ نے ایک اردو مرثیہ بھی کہا     ؎

وہ حکیمِ امتِ خیرُ الوریٰ قطبِ ہدیٰ                         وہ دوا  امت کے ہر بیمار کی ، ناشاد کی

صدقِ صدیقی تھا جس میں حزمِ فاروقی کے ساتھ       اک درخشاں یادگار اسلاف اور امجاد کی

مشعلِ راہِ ہدیٰ، نورِ محمد ﷺکی ضیا                          آہ وہ زندہ نشانی حضرتِ امداد   رحمہ اللہ  کی

حضرتِ اشرف علی ِتھانوی روحی فداہ                       جن سے قائم تھیں ہزاروں مسندیں ارشاد کی

ہیں سبھی اہلِ کمال و اہلِ دل مصروفِ کار                 دیکھ لو خالی پڑی ہے ہر جگہ استاد کی

کیوں نہ ہوں چشمِ فلک سے خون کے آنسو رواں         کیوں نہ ہو روئے زمیں صف ماتم و فریاد کی

خستہ حالوں کے لیے اب ہے نہیں جائے پناہ           آسماں تانبے کا ہے آج اور زمیں فولاد کی

وائے ناکامی کہ ہم جیسے تباہ و خستہ دل                      اور چھائی ہیں گھٹائیں ہر طرف الحاد کی

ناخدا گم کردہ ہے کشتی امت اے کریم                     ہے زبوں حالت ہمارے مجمع وافراد کی

المدد بہرِ حبیبِ خوب الہٰی المدد                            امتِ مرحوم پھر محتاج ہے امداد کی[12]

تحریکِ پاکستان میں مفتی اعظم   رحمہ اللہ      کا کردار 

تحریکِ پاکستان کے آغاز سے ہی بہت سے علماےکرام اس تحریک کے ساتھ وابستہ ہو گئے خصوصا مولانا شاہ اشرف علی تھانوی صاحب   رحمہ اللہ  نے پے بہ پے خطوط کے ذریعے قائد اعظم اور دیگر لیگی رہنماوں کی  اصلاح کا کام انجام دیا ، اسی ضمن میں ایک دفعہ مولانا تھانوی   رحمہ اللہ  کو یہ گمان گزرا کہ قائد اعظم دین کو سیاست سے الگ سمجھتے ہیں چنانچہ آپ نے اس نظریے کی اصلاح کے لیے ایک سہ رکنی وفد قائد اعظم کی خدمت میں بھیجا جو مولانا ظفر احمد   عثمانی   رحمہ اللہ ، مولانا شبیر احمد عثمانی   رحمہ اللہ اور مفتی محمد شفیع صاحب   رحمہ اللہ  پر مشتمل تھا۔ اس ملاقات میں ابتداءً قائد اعظم اپنے مقدمے پر مصر رہے لیکن اڑھائی گھنٹے کی گفتگو کے بعد قائد اعظم کے اس اعتراف پر مجلس ختم ہوئی کہ :’’دنیا کے کسی مذہب میں سیاست مذہب سے الگ ہو یا نہ ہو میری سمجھ میں اب خوب آگیا کہ اسلام میں سیاست مذہب سے الگ نہیں بلکہ مذہب کے تابع ہے ‘‘۔

جوں جوں پاکستان کا مطالبہ زور پکڑتا گیا   اکابر علماءِ دیوبند اس معاملے میں دو گروہوں میں منقسم ہوتے چلے گئے ۔ ایک گروہ کانگریس کے ساتھ تھا جو متحدہ ہندوستان کا حامی تھا جبکہ دوسرا گروہ جس میں مذکورہ تین علماء وغیرہم شامل تھے ، ان علماء کو مولانا تھانوی  رحمہ اللہ  کی تائید حاصل تھی ۔ جب یہ اختلاف زیادہ بڑھ گیا تو ۱۶  ربیع الاول۱۳۶۲ھ کے دن علامہ شبیر احمد عثمانی   رحمہ اللہ    کی معیت میں کئی علماء نے دارالعلوم سے استعفیٰ دے دیا ۔ اس استعفے کے وقت آپ   رحمہ اللہ  کا مشاہرہ ۶۵ روپے تھا۔ استعفے کے بعد آپ  رحمہ اللہ (مفتی اعظم ) تھا نہ بھون حاضر ہوئے تو آپ   رحمہ اللہ    کو دیکھتے ہی حضرت تھانوی   رحمہ اللہ  نے دیوان الحماسہ کا ایک مصرع کچھ تصرف کر کے اس طرح پڑھا :أَضَاعُوْکَ وَأَي فَتًی أَضَاعُوْا (لوگوں نے تجھے اپنے ہاتھ سے کھودیا اور وہ کیسے عظیم انسان کو کھو بیٹھے )۔

جب کانگریس اور لیگی نظریوں کا اختلاف زبان زدِ عام ہوا اور دونوں طرف  سےمخلص اور امت کے خیر خواہ علماء  نے برملا اپنی اپنی جماعت کے موقف کی تائید شروع کی  تو حضرت مفتی اعظم  رحمہ اللہ  نے ۱۳۶۴ھ   بمطابق ۱۹۴۵ء  میں ایک مستقل رسالہ ’’ کانگریس اور مسلم لیگ کے متعلق شرعی فیصلہ‘‘ تصنیف فرمایا۔ اسی طرح مولانا تھانوی  رحمہ اللہ  کے دس رسائل، متفرق مضامین اور ملفوظات و مکتوبات کا ایک مجموعہ مرتب کر کے کتابی شکل میں ’’افاداتِ اشرفیہ در مسائلِ سیاسیہ‘‘کے نام سے شائع فرمایا۔ اسی طرح ۱۹۴۵ء کے انتخابات سے قبل آپ  رحمہ اللہ  کے ایک فتوے نے مسلم لیگ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا جس میں کانگریس کو ووٹ دینے کی شرعی قباحتیں دلائل کے ساتھ درج تھیں،اس فتوے کو پوسٹروں کی صورت میں متعدد جگہ چسپاں کیا گیا۔ اسی سال جمعیت علماءِ اسلام کا قیام بھی عمل میں آیا۔ یکم ربیع الاول۱۳۶۶ھ بمطابق ۲۴ جنوری ۱۹۴۷ء  کو جمعیت علماءِ اسلام کی ایک عظیم الشان کانفرنس  حیدرآباد،سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت آپ  رحمہ اللہ  نے فرمائی۔ اس موقع آپ  رحمہ اللہ  نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس کے متعلق مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب زید مجدہ فرماتے ہیں:’’یہ خطبہ سیاست کے اسلامی اصولوں کا بے نظیر مرقع ہے، اس میں آپ  رحمہ اللہ  نے سیاسی قیادت کے شرعی اصول، غیر شرعی امیر کی اطاعت کی شرعی حدود وغیرہ پر سیر حاصل گفتگو فرمائی‘‘۔۹ جون ۱۹۴۷ء کو قائدِ اعظم نے مرکزی اسمبلی کے تمام مسلم ارکان کا اجلاس دہلی میں طلب کیا،اگر چہ علامہ شبیر احمد عثمانی  رحمہ اللہ  اور حضرت مفتی اعظم  رحمہ اللہ  اسمبلی کے رکن نہ تھے مگر خصوصی دعوت پر اس اجلاس میں شریک ہوئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور رسول اللہ ﷺ کے خصوصی فیض سے لیگی کارکنان اور جمعیت علماءِ اسلام کی کوششیں رنگ لائیں اور  ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے وجود میں آیا۔[13]

ہجرت

دیوبند سے کراچی ہجرت کے متعلق فرماتے ہیں :’’۲۰ جمادی الثانیہ ۱۳۶۷ھ یکم مئی ۱۹۴۸ء میری عمر میں عظیم انقلاب کا دن تھا جس میں وطنِ مالوف مرکزِ علوم دیوبند کو خیر باد کہہ کر صرف چھوٹے بچوں اور ان کی والدہ کو ساتھ لے کر پاکستان کا رخ کیا ۔ والدہ محترمہ اکثر اولاد اور سب عزیزوں اور گھر بار کو چھوڑنے کا دل گداز منظر اور جس طرف جارہا ہوں وہاں ایک غریب الوطن کی حیثیت سے وقت گزارنے کی مشکلات کے ساتھ ایک نئی اسلامی حکومت کا وجود اور اس میں دینی رجحانات کے بروئے کار آنے کی خوش کن امیدوں کے ملے جلے تصورات میں غلطاں و پیچاں ۔ دہلی اور چند مقامات پر اُترتے ہوئے ۲۶ جمادی الثانیہ ۱۳۶۷ھ  ۶ مئی ۱۹۴۸ ء کو اللہ تعالیٰ نے حدودِ پاکستان میں پہنچادیا اور کراچی غیر اختیاری طور پر اپنا وطن بن گیا ‘‘۔[14]

ملفوظات وواقعات 

حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مد ظلہ نے آپ رحمہ اللہ   کے ملفوظات پر مشتمل ایک رسالہ ترتیب دیا ہے، آپ فرماتے ہیں:

’’والد صاحب  رحمہ اللہ  اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے گھر میں ہم سے فرمانے لگے کہ قرآن مجید میں یہ ارشاد ہے کہ اگر والدین بوڑھے ہوجائیں تو ان کے سامنے اُف نہ کہو، نہ انھیں جھڑکو ، بلکہ ادب سے پیش آؤ ۔ قرآن مجید نے یہ کیوں کہا  ’’اگر والدین بوڑھے ہوجائیں ، تو فلاں فلاں سلوک نہ کرو‘‘  کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ماں باپ جوان ہوں تو انھیں اُف کہنا اور انھیں جھڑکنا جائز ہے ، یا ان کے ساتھ تعظیم کا معاملہ نہ کرنا جائز ہے ؟ ایسا ہر گز نہیں بلکہ جوانی میں ان کا احترام کرنا اور ان کے متعلق ان سارے اَحکام پر عمل ضروری ہے ۔ ماں باپ بوڑھے ہوں یا جوان، ان کی تعظیم و تکریم بھی واجب ہے اور ان کے ساتھ کوئی ایسی بات کرنا جائز نہیں جن سے ان کو ناحق ادنیٰ تکلیف یا ناگواری پہنچے ۔ جب یہ بات ہے تو پھر قرآن مجید میں بوڑھے ہونے کا ذکر کیوں کیا گیا ؟   اس کا جواب خود دیتے ہوئے فرمایا کہ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ والدین کے سامنے اُف کرنے یا بدتمیزی کرنے کا اندیشہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب والدین بوڑھے ہوچکے ہوں ، جب وہ باپ جوان ہو تو پھر کسی بیٹے کی کیا ہمت ہے کہ اُسے جھڑک دے ، باپ جوتا اُٹھا کر ایسی پٹائی کرے گا کہ وہ ہمیشہ کے لیے یادرکھے گا، یا گھر سے نکال دے گا ۔ غرضیکہ جوانی میں باپ کے سامنے بدتمیزی کر نہیں سکتا ، جھڑکنا چاہے تو جھڑک نہیں سکتا ، کبھی اس کی جرات اس وقت ہوگی جب والدین بوڑھے ہوچکے ہوں گے ، اس وقت خطرہ ہے کہ بیٹے کہ ذہن میں یہ خناس پیدا ہوجائے کہ اب تو میں ان کو پال رہا ہوں اس لیے یہ فرمایا کہ اگر بڑھاپا آجائے تو یہ یہ کام کرو، اس کا یہ مطلب نہیں کہ جوانی میں بدتمیزی کرنا جائزہے ۔

ایک مرتبہ میرے والد ماجد حضرت مولانا شفیع صاحب قدس اللہ سرہ نے ہم سب بھائیوں کو جمع کیا اور فرمایا: آج تم سب بڑے خوش ہو اور فرصت میں ہو ، لہٰذا آج تمھیں ایک فائدے کی بات بتاتا ہوں ، جو اب سے پہلے میرے اور اللہ کے درمیان راز تھا ، میں اب بھی یہ راز   نہ کھولتا مگر میں تمھیں اس وجہ سے بتا رہا ہوں کہ تمھارے فائدے کے لیے ضروری ہے ۔ میں تمھارے اندر ایک کوتاہی دیکھتا ہوں ، جب تمہاری والدہ تمھیں سودا سلف وغیرہ منگوانے کے لیے بھیجتی ہیں تو تم ایک دوسرے پر ٹال دیتے ہو اور شاید سودا لانے میں اپنی توہین سمجھتے ہو ۔ میں کافی دِنون سے اس فکر میں تھا کہ کوئی مناسب موقع میسر آئے تاکہ تمھیں سمجھا سکوں ۔ آج الحمداللہ ! خوشی کا موقع ہے ، فرصت کا وقت مل گیا ہے اس لیے تمھیں اپنا راز بتا رہوں ۔ پھر والد صاحب  رحمہ اللہ   نے اپنا قیامِ پاکستان سے پہلے دیوبند کا ایک واقعہ سنایا : ’’ایک دن میں فجر کی نماز کے لیے گھر سے نکلا اور ہندوؤں کی بستی سے گزر کر مسجد جانے لگا تو راستے میں ایک کنویں کےپاس ایک بوڑھی عورت کو دیکھتا جو کنویں سے پانی بھر کر لارہی تھی ، اور گھڑے کے وزن کی وجہ سے مشکل سے چل رہی تھی ، اُس عورت نے تھک کر گھڑا زمین پر رکھا اور سانس لینے لگی ، مجھے اُس پر ترس آیا ، میں اُس بوڑھی عورت کے پاس گیا اور اُس سے کہا: اماں!  لاؤ تمھارا گھڑا میں اُٹھا دیتا ہوں ، میں نے جب اُٹھایا تو اس کا وزن بہت زیادہ تھا ، میں نے اتنا وزن شاید پہلے کبھی اٹھایا نہیں تھا ،لیکن میں نے اُس بوڑھی عورت سے کہا تم آگے چلو اور مجھے راستہ بتاؤ ، وہ غریبوں کے ایک قریبی محلے پہنچ کر چھوٹے سے ایک کچے پکے مکان کے پاس جاکر رُکی ، یہ اُس کا گھر تھا ، اس نے کہا کہ بیٹا ! یہیں رکھ دو  ۔ میں واپس آنے لگا تو اُس غریب خاتون نے زور زور سے مجھے دُعائیں دینا شروع کردیں اور وہ آواز مجھے دُور تک سنائی دیتی رہی ۔ میں نے سوچا یہ تو بڑا سستا سودا ہے  ، اتنے سے کام پر ایک ضعیف خاتون کے دِل سے نکلی ہوئی دُعائیں مل رہی ہیں ۔ چنانچہ اگلے دن میں نماز سے ذرا پہلے نکل گیا ، جب کنویں کے پاس پہنچا تو اس بڑھیانے پانی نکالنے کے لیے کنویں میں ڈول ڈالا ہوا تھا ، میں نے کہا : اماں !تم ہٹ جاؤ میں پانی نکال دیتا ہوں،  چنانچہ میں نے ڈول بھرکے پانی کا گھڑا سرپر رکھ کر اُس کے گھر پہنچادیا ۔ اُس بوڑھی عورت نے راستے میں بھی دُعائیں دیں اور پہنچ کر بھی پھر میں نے روزانہ کا یہی معمول بنا لیا ، ہر روز نمازِ فجر سے پہلے جاتا اور اُس عورت کا گھڑا اُٹھا کر چھوڑ کے آتا ۔ جب تک وہ بوڑھی عورت زندہ رہی الحمد اللہ میرا یہی معمول رہا ۔ چونکہ وہ وقت صبح منہ اندھیرے کا تھا ، لہٰذا کسی شخص نے میرا یہ عمل نہیں دیکھا ، یہ راز میرے ، اُس بڑھیا کے اور اللہ رب العالمین کے درمیان تھا ، کسی اور کو اس کا علم نہیں تھا ۔

اس واقعے کے بعد حضرت والد صاحب رحمہ اللہ  نے ہمیں ایک دُوسرا واقعہ بھی سنایا اور فرمایا کہ تھا نہ بھون ایک چھوٹا سا قصبہ تھا ، اس کا اسٹیشن بھی بہت چھوٹا سا تھا ، جس پر نہ تو بجلی تھی اور نہ ہی سامان اُٹھانے والے قلی ۔ سردیوں کی ایک رات میں دیوبند سے تھا نہ بھون گیا اور اسٹیشن پر جاکر اُتر گیا ، گاڑی مجھے اُتار کر روانہ ہوگئی ، رات کا وقت تھا اور بستی کافی دُور تھی ۔ اسی سناٹے میں مجھے ایک آواز سنائی دی : قلی ، قلی ، قلی  میں سمجھ گیا کوئی نو وارِد ہےجس کو یہاں کا حال معلوم نہیں۔  اسی دوران مجھے کچھ سائے نظر آئے جن میں ایک مرد کے ساتھ کچھ خواتین بھی تھیں اور سامان بھی ، اور رات کی تاریکی اور سردی سے وہ پریشان دِکھائی دے رہے تھے،میں نے سوچا اگر میں اسی حالت میں جاکر ان کا سامان اُٹھاؤں گا تو وہ مجھے پہچان لیں گے اور سامان اُٹھانے نہیں دیں گے ۔ جب انھوں نے پھر قلی ، قلی کی آواز نکالی تو میں نے اپنی چادر اپنے منھ پر لپیٹی اور قلی کےبھیس میں اُن کے پاس جا کر کہا قلی آگیا ہے ، وہ خوش ہوئے اور ایک بھاری صندوق میرے سر پر رکھ دیا ۔ وہ ایک اور صندوق بھی رکھنے لگے ، لیکن میں نے اُن سے کہا : میں کمزور ہوں، سر پر ایک ہی صندوق رکھ سکتا ہوں کچھ سامان ہاتھ میں اُٹھالوں گا ، باقی آپ خود اُٹھالیں ۔ چنانچہ میں اپنی ٹارچ جلا کر اُن کو راستہ بتاتے ہوئے آگے آگے چلنے لگا کیونکہ اگر ٹارچ اُن کو دیتا خود آگے چلتا تو وہ مجھے پہچان جاتے ۔ آخر کار اُن کو ان کی منزل پر پہنچا کے چپکے سےغائب ہوگیا ۔ اگلے دِن اُن ہی صاحب  سےخانقاہ میں ملاقات ہوئی ، وہ میرے ساتھ عرصہ دراز سے بڑی محبت رکھتے تھے ، لیکن آج تک انھیں یہ معلوم نہ ہوسکا  کہ وہ قلی کون تھا جو پیسے لیے بغیر چلا گیا تھا ۔ 

 میرے والد صاحب رحمہ اللہ  نے ایک مرتبہ اپنا یہ واقعہ سنایا ، یہ اس زمانے کا واقعہ ہے جب ہندوستان میں انگریز کی حکومت تھی ، او رابھی تک پاکستان نہیں بنا تھا ۔ فرمایا کہ : ایک مرتبہ میں ریل میں سفر کررہا تھا، رات بھر کا سفر تھا اور رش بھی بہت تھا ، میرے برابر ایک بوڑھا بنیا آکر بیٹھ گیا ۔ بوڑھا بھی تھا ، کافر بھی تھا اور کافر بھی ہندو ۔ ہندوؤں کی مسلمان دُشمنی بہت پُرانی اور مشہور ہے ۔ تھوڑی دیر میں جب گاڑی چل پڑی تو اس کو نیند آگئی تو اس نے اپنا سر میرے کندھے پر ٹیک دیا ، اب مجھ پر دُہری مشکل پڑگئی ، ایک تو خود جاگنے کی اور دُوسرے یہ کہ کہیں اس کی نیند خراب نہ ہوجائے ۔ چنانچہ میں ساکت اور ساکن بیٹھا رہا ، بالکل ہلا جلا نہیں ، نجانے کتنے گھنٹے میں نے اس طرح گزارے ۔

حضرت والد صاحب رحمہ اللہ نے تقریبا ہر بیان میں یہی فرمایا کہ بھائی اپنے بچوں میں ، اولاد میں جس کو اللہ نے ایک سے زیادہ بیٹے دیے ہیں ، وہ ایک بیٹا اللہ کے راستے میں نکالے ، اس کو عالمِ دین بنائے ،ہندوستان پاکستان کے مدارس میں بھیج کر ان کو ماہر عالم دِ ین بنائے تاکہ وہ یہاں آکر دِ ین کا کام کریں ۔ اور ساتھ ساتھ یہ بھی فرماتے تھے کہ یاد رکھیں ! جو صاحب اپنے ایک سے زیادہ بیٹوں میں سے ایک کو دین کے کام کے لیے نکالیں وہ باقیوں کو ، ظاہر ہے کہ اپنے کاروبار میں لگائیں گے ، تو جتنا حصہ اُن بیٹوں کو دیں جو کاروبار  میں کام کررہے ہوں ، اتنا ہی حصہ اُس بیٹے کو بھی دیں جس کو علمِ دِین میں لگایا ہوا ہے ۔ 

حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب  رحمہ اللہ   بڑے مہربان اور شفیق باپ تھے ۔ وہ فقیہ الملت اور ولی اللہ تھے۔ میں نے اُن سے دنیا کے لیے دُعا کی درخواست نہیں کی تھی ، بلکہ حج کے لیے کی تھی ، اس پر حضرت والد صاحب  رحمہ اللہ  نے فرمایا کہ میں تمہارے لیے حج کی دُعائیں نہیں کروں گا ! اور یہ بات سنجیدہ ہوکر فرمائی ، مذاق میں نہیں فرمائی ۔ میں نے ڈرتے ڈرتے وجہ پوچھی ، تووہ فرمانے لگے کہ تمھیں حج کا شوق نہیں ہے ۔ میں نے کہا کہ مجھے تو حج کرنے کا بہت شوق ہے ، جب میں آپ سے حج کے حالات سنتا ہوں تو تنہائی میں روتا ہوں ۔ انھوں نے فرمایا کہ نہیں ! تمھیں  حج کا شوق نہیں ہے ، اگر تمھیں  حج کا شوق ہوتا تو تم اس کے لیے کچھ تیاری کرتے !بتاؤ تم نے کچھ تیاری کی ؟ تم نے کتنے پیسےجمع کیے؟  میں نے کہا کہ میں نے تو کوئی پیسے جمع نہیں کیے ۔ کیونکہ اس زمانے میں میری ڈیڑھ سو روپے پاکستانی تنخواہ تھی اور میری بچی بھی تھی ۔ میں ان پیسوں میں کیسے تیاری کرتا ! اس پر فرمایا : کیا تم مہینے میں ایک روپیہ بھی نہیں بچاسکتے تھے ؟ میں نے عرض کیا کہ مہینے میں ایک روپیہ تو بچا سکتا ہوں ۔ پھر فرمایا کہ بتاؤ ! تم نے کتنے جمع کیے ؟ اگر تمھیں  حج کا شوق ہوتا تو تمہاری جتنی قدرت تھی اتنے پیسے تو ضرور جمع کرتے ۔

اس کے بعد حضرت والد صاحب  رحمہ اللہ  نے ہماری سب سے بڑی بہن کا ایک واقعہ سنایا ۔ ان کی زندگی زیادہ تر غربت اور افلاس میں گزری تھی ، ان کا اڑتالیس سال کی عمر میں کراچی ہی میں انتقال ہوگیا ۔ ان کے بارے میں فرمایا کہ جب تمھاری بہن کا انتقال ہوا تو اُن کے سامان میں سے ایک بٹوا نکلا ، اُس بٹوے کے اندر پینتیس روپے تھے اور یہ پرچہ پڑا ہوا تھا کہ یہ پیسے حج کے لیے ہیں ۔ اس بچاری کو شادی کے بعد جتنے سال ملے تھے اُن میں اُس نے ایک ایک آنہ ،دو دو پیسے کر کے یہ پینتیس روپے حج کے لیے جمع کیے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے اُس پینتیس روپے میں حج کرادیا ۔ وہ اس طرح کہ حضرت والد صاحب  رحمہ اللہ  نے فرمایا کہ میں پچھلے سال جب حج کے لیے گیا تو اُس کے پینتیس روپے لے گیا تھا ، اُس کے اُوپر حج فرض تو نہیں تھالیکن اُس کو شوق تھا ، تو اُس کا نفلی حج وہیں سے بھی کرایا جاسکتا تھا ، اس لیے میں نے وہیں مکہ معظّمہ کے رہنے والے ایک آدمی کو وہ حج کے پیسے دے دیے کہ تم میری بیٹی کی طرف سے حج کرلو ، اس وقت منیٰ ، عرفات اور مزدلفہ کا خرچہ ۳۵ روپے کے اندر ہوجاتا تھا ،اس طرح اللہ پاک نے اُن کا حج کرادیا ۔[15]

جاری ہے۔۔۔



[1]    میرے والد۔میرے شیخ، مفتی محمد  تقی عثمانی، مکتبہ معارف القرآن، جنوری ۲۰۰۹ء،ص:۴۱

[2]    حیاتِ مفتی اعظم  رحمہ اللہ ، مفتی محمد رفیع عثمانی،ادارۃ المعارف کراچی،مئی ۲۰۰۵ء،ص:۱۱

[3]   حیاتِ مفتی اعظم  رحمہ اللہ ، مفتی محمد رفیع عثمانی،ادارۃ المعارف کراچی،مئی ۲۰۰۵ء،ص:۲۴

[4]   مقالاتِ مفتی اعظم  رحمہ اللہ ، محمد اکبر شاہ بخاری،دارالاشاعت کراچی،مئی ۲۰۰۵ء،ص:۸

[5]   حیاتِ مفتی اعظم  رحمہ اللہ ، مفتی محمد رفیع عثمانی،ادارۃ المعارف کراچی،مئی ۲۰۰۵ء،ص:۲۰

[6]   حیاتِ مفتی اعظم  رحمہ اللہ ، مفتی محمد رفیع عثمانی،ادارۃ المعارف کراچی،مئی ۲۰۰۵ء،ص:۱۹

[7]   مفتی اعظم  رحمہ اللہ  پاکستان کے مشہور خلفاء و تلامذہ،محمد اکبر شاہ بخاری،مکتبہ دارالعلوم کراچی،۱۴۳۱ھ،ص:۲۹

[8]   حیاتِ مفتی اعظم  رحمہ اللہ ، مفتی محمد رفیع عثمانی،ادارۃ المعارف کراچی،مئی ۲۰۰۵ء،ص:۲۷

[9]    مفتی اعظم   رحمہ اللہ  پاکستان اکابر و معاصرین کی نظر میں، محمد اکبر شاہ بخاری، ادارہ اسلامیات لاہور،ص:۱۲۲۴

[10]  حیاتِ مفتی اعظم  رحمہ اللہ ، مفتی محمد رفیع عثمانی،ادارۃ المعارف کراچی،مئی ۲۰۰۵ء،ص:۳۰۳۱/۳۸۱/۹۸/۱۲۲ 

[11]    ماہنامہ البلاغ، مفتی اعظم   رحمہ اللہ    نمبر، ص:۳۲۳۳

[12]  حیاتِ مفتی اعظم  رحمہ اللہ ، مفتی محمد رفیع عثمانی،ادارۃ المعارف کراچی،مئی ۲۰۰۵ء،ص:۳۱/۳۳/۴۶-۴۸/۷۳۷۷/۱۳۲۱۳۳

[13]  حیاتِ مفتی اعظم  رحمہ اللہ ، مفتی محمد رفیع عثمانی،ادارۃ المعارف کراچی،مئی ۲۰۰۵ء،ص:۱۲۶-۱۴۱

[14]  مقالاتِ مفتی اعظم  رحمہ اللہ ، محمد اکبر شاہ بخاری،دارالاشاعت کراچی،مئی ۲۰۰۵ء،ص:۳۲۳۴

[15]   ملفوظات وواقعات، مفتی محمد رفیع عثمانی، ادارۃ المعارف کراچی، فروری ۲۰۱۱ء،ص:۱۱/۱۵-۱۹۱/۴۴-۴۵

لرننگ پورٹل