فتاویٰ یسئلونک
دارالافتاء، فقہ اکیڈمی
سوال:السلام علیکم!محترم جناب ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ مختلف مقاصد کے لیے یا شکرانے کے لیے محفل میلاد منعقد کرتے ہیں جس میں دوسرے لوگوں خصوصاً عورتوں اور مدارس کے بچوں کو بلا کر آیت کریمہ یا قرآن یا پھر نعتیں پڑھتے ہیں۔ اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مدارس والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اتنے قرآن ہم نے پڑھے ہوئے ہیں یہ بھی شامل کر لیں۔کیا اس طرح کی محفل منعقد کرنا جائز ہے؟
نبی اکرمﷺکی محبت ایمان کا حصہ ہے، جو نبی کریمﷺسے محبت نہیں کرتا، آپﷺکی تعلیمات پر عمل نہیں کرتا، آپﷺکے بتائے ہوئے راستے پر نہیں چلتا وہ مومن نہیں ہوسکتا۔
بخاری شریف میں ہے: ﴿عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ﴾(بخاری، کتاب الایمان، باب حب الرسولﷺمن الإيمان)ترجمہ:’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں‘‘۔
واضح رہے کہ نبی اکرمﷺنے ہی شرک و بدعت کی شدید مذمت فرمائی۔ یہاں تک کہ اپنی قبر کو عبادت گاہ بنانے سے بھی منع فرمایا۔﴿عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِﷺ قَالَ قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ﴾ (بخاری، کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ فی البیعۃ)ترجمہ:’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہودیوں کا ناس کردے کہ انھوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کوسجدہ گاہ بنالیا‘‘۔
لہذا نبی کریمﷺکی سیرت اور مدح کے نام پر جو محافل منعقد کی جاتی ہیں، ان میں جو جو منکرات ہوتے ہیں وہ ہر شخص پر عیاں ہیں، مثلاً عورتوں کا بلند آواز سے ترنم کے ساتھ نعتیں پڑھنا،1 لاؤڈ ا سپیکر کا بے دریغ استعمال کرکے اہلِ محلہ کو پریشان کرناوغیرہ۔
بخاری شریف میں ہے:﴿عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَاعَنْ النَّبِيِّﷺقَالَ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ﴾(بخاری، کتاب الایمان، باب المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده) ترجمہ:’’حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ نبیﷺسے نقل کرتے ہیں کہ آپﷺنے فرمایا (پکا) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں‘‘۔
مخصوص تاریخ میں اس محفل کا انعقاد کرنا جبکہ خاص ہیئت و صورت یا کسی خاص دن کوئی کام ضروری سمجھ کر کرنا بدعت ہے۔2اس محفل کے انعقاد اور اس میں شرکت کو لازم سمجھنا جبکہ کسی امر مستحب کو لازم سمجھ کر اس پر اصرار کرنا بھی بدعت ہے تو جو کام صحابہ وتابعین بلکہ چھٹی صدی ہجری تک مسلمانوں نے نہیں کیا ہو اس کو لازم سمجھتے ہوئے کرنا کیسا ہوگا؟3رات کو دیر تک جاگ کر لنگر کھاکر بغیر فجر کی نماز پڑھے سونا۔سنن ابی داؤد میں ہے:﴿فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لَكُمْ أَنْ لَا تُحْشَرُوا وَلَا تُعْشَرُوا وَلَا خَيْرَ فِي دِينٍ لَيْسَ فِيهِ رُكُوعٌ﴾(سنن ابی داؤد، كتاب الخراج والإمارة والفيء، باب ما جاء في خبر الطائف)ترجمہ:’’رسول اللہﷺنے فرمایایہ تو ہوسکتا ہے کہ تم جہاد کے لیے نہ نکالے جاؤ(کیونکہ اور لوگ جہاد کے واسطے موجود ہیں) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم سے زکوٰۃ نہ لی جائے(بالفعل کیونکہ ابھی ایک سال نہیں گزرا)لیکن وہ دین اچھا نہیں جس میں رکوع نہ ہو(نماز نہ ہو)‘‘۔
مجلس کے اختتام پر سلام میں کھڑا ہونا اس عقیدے کے ساتھ کہ نبی اکرمﷺتشریف لائے ہوئے ہیں اور ہماری نقل و حرکت کو دیکھ رہے ہیں اور ارواحِ مشائخ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ روحیں حاضر ہوتی ہیں اور احوال کو جانتی ہیں کفر ہے کیونکہ حاضر و ناظر ہونا صرف اللہ رب العزت کی صفت ہے۔4نیز آپﷺکو اپنی حیات میں اپنے لیے قیام پسند نہیں تھا تو آپﷺکی وفات کے بعد آپﷺکے ناپسندیدہ عمل کو کرنے سے آپﷺکی خوشنودی حاصل نہیں ہوسکتی۔
سنن ترمذی میں ہے: ﴿عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَمْ يَكُنْ شَخْصٌ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ وَكَانُوا إِذَا رَأَوْهُ لَمْ يَقُومُوا لِمَا يَعْلَمُونَ مِنْ كَرَاهِيَتِهِ لِذَلِكَ﴾ (سنن الترمذی، كتاب الأدب عن رسول الله ، باب ما جاء في كراهية قيام الرجل للرجل)ترجمہ:’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے لیے رسول اللہﷺسے بڑھ کر کوئی شخص محبوب نہیں تھا لیکن اس کے باوجود وہ لوگ آپﷺکو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ نبی اکرمﷺاسے پسند نہیں کرتے‘‘۔
اس موقعے پر روشنیوں اور زیبائش و آرائش کا استعمال ہوتا ہے جو کہ اسراف میں شامل ہے،5 روضۂ اطہر کی شبیہ بناکر اس کا طواف کرنا جبکہ کعبہ کے ساتھ تشبیہ دے کر کسی بھی مسجد یا مکان کا طواف کرنا ناجائز ہے اور اس میں کفر کا خطرہ ہے۔6نعتوں میں ایسا طرز اختیار کرنا کہ نعت اور گانے میں فرق باقی نہ رہے۔ البتہ حضورﷺکی سیرت کے بیانات، آپ کے ذکر خیر اور درود شریف وغیرہ پڑھنے کے لیے کسی مجلس کا انعقاد بغیر کسی دن اور وقت کے لزوم کے جائز بلکہ مستحسن ہےاور حضورﷺسے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آپﷺپر روزانہ کم از کم سو بار درود شریف پڑھا جائے۔ آپ کے اخلاقِ کریمہ اور سیرت کے بیان کے لیے بارہا مجالس کا انعقاد کیا جائے، جس میں مذکورہ بالا خرافات، بدعات، منکرات و سیئات نہ ہوں۔7
سوال: میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ میلاد منانا جائز ہے؟
جواب: نبی کریم ﷺکی پیدائش سے بڑھ کر مسلمانوں کے لیے خوشی و مسرّت کا دن کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا، نبیﷺکی ولادت بڑے سرور اور فرحت کا باعث ہے اور یہ سرور کسی وقت اور محل کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر مسلمان کے رگ و پے میں سمایا ہوا ہے ۔ابو لہب کی لونڈی ثویبہ نے جب آپﷺکی ولادت کی خبر ابو لہب کو پہنچائی تو اس کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کردیا ،مرنے کے بعد لوگوں نے ابو لہب کو خواب میں دیکھا اور اس سے حال دریافت کیا تو اس نے کہا کہ جب سے مرا ہوں عذاب میں گرفتار ہوں مگر پیرکی شب کو چونکہ میں نے میلادِ نبی کی خوشی کی تھی اس لیے عذاب میں تخفیف ہوجاتی ہے ۔﴿قَالَ عُرْوَةُ وثُوَيْبَةُ مَوْلَاةٌ لِأَبِي لَهَبٍ كَانَ أَبُو لَهَبٍ أَعْتَقَهَا فَأَرْضَعَتْ النَّبِيَّ ﷺ فَلَمَّا مَاتَ أَبُو لَهَبٍ أُرِيَهُ بَعْضُ أَهْلِهِ بِشَرِّ حِيبَةٍ قَالَ لَهُ مَاذَا لَقِيتَ قَالَ أَبُو لَهَبٍ لَمْ أَلْقَ بَعْدَكُمْ غَيْرَ أَنِّي سُقِيتُ فِي هَذِهِ بِعَتَاقَتِي ثُوَيْبَةَ﴾ (بخاری، كتاب النکاح،باب وأمهاتكم اللاتي أرضعنكم)ترجمہ:’’ عروہ کہتے ہیں کہ ثویبہ ابولہب کی لونڈی تھی جسے ابولہب نے آزاد کردیاپھر اس نے آپ ﷺکو دودھ پلایا تھا، جب ابولہب مرگیا تو کسی گھر والے نے اس کو خواب میں برے حال میں دیکھا تو پوچھا کہ تجھ سے کیا معاملہ کیا گیا، جواب دیا جب سے تم سے جدا ہوا ہوں سخت عذاب میں مبتلا ہوں، ثویبہ کے آزاد کرنے کی وجہ سے تھوڑا سا پانی مل جاتا ہے، جس سے میری پیاس بجھ جاتی ہے ‘‘۔
جب ابو لہب جیسے کافر کے لیے میلادِ نبیﷺکی خوشی کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہوگئی تو جو کوئی امتی آپ کی ولادت کی خوشی کرے اور حسب وسعت آپ کی محبت میں خرچ کرے تو کیونکر اعلیٰ مراتب حاصل نہ کر سکےگا ۔اگر ولادت معجزات یا غزوات کا ذکر بطرز وعظ و درس بغیر پابندیِ رسوم بغیر تعیینِ ایام و بلا التزام طریقہ ٔخاص کے کرے تو ہزاروں برکتوں کا باعث ہوگا ۔لہذا نبیﷺکا ذکر ِخیر ،آپ کی سیرت کی محافل منعقد کرنا،آپ کی ولادت کی خوشی منانا ممنوع نہیں ،البتہ تعیینِ ایام ،بے جا اسراف ، پوری پوری رات محافل کا انعقاد،نمازوں سے غفلت ،مردوں عورتوں کا اختلاط،لائٹوں اور قمقموں کا انتظام ،ناچ گانا،کیک کاٹنا ،عید کی نماز پڑھنا یہ سارے امور بدعات میں سے ہیں ان سے اجتناب ضروری ہے ۔اس زمانے میں جو جشنِ عیدِ میلاد النبیﷺرائج ہے اس کا ثبوت تو نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں نہ ہی کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے اس قسم کی کوئی بات ثابت ہے ۔نیز نبی کریمﷺکا بنفس نفیس محفل میلاد میں شرکت کا اعتقاد غلط عقیدہ ہے۔8اس کے علاوہ شیرینی کی تقسیم کا لزوم9 معین مہینے کی معین تاریخ میں مجلس منعقد کرنے کا لزوم اسے بدعت بناتا ہے۔نبی اکرمﷺکا ارشاد گرامی ہے:﴿ لَا تَخْتَصُّوا لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ بِقِيَامٍ مِنْ بَيْنِ اللَّيَالِي وَلَا تَخُصُّوا يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِصِيَامٍ مِنْ بَيْنِ الْأَيَّامِ﴾ (مسلم،کتاب الصیام،باب كراهة صيام يوم الجمعة منفردا)ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ راتوں میں سے جمعے کی رات کو قیام کے ساتھ مخصوص نہ کرو اور نہ ہی دنوں میں سے جمعہ کے دن کو روزے کے ساتھ مخصوص کرو۔
اس کے علاوہ کئی امور ایسے ہیں جس کی بنا پر میلاد کی مروجہ محافل قائم کرنا بدعت ہے ۔البتہ ان خرافات کو ختم کر کے نفسِ ذکرِ رسول اللہﷺبہت ثواب کا کام ہے۔لہذا اگر کوئی شخص مروجہ میلاد کی محافل میں پائی جانے والی خرابیوں کے باعث مروجہ طریقہ پر میلاد نہیں مناتا تو وہ گناہ گار نہیں بلکہ بدعت سے بچنے کا ثواب اس کو ملے گا لیکن اس میں غلو کرتے ہوئے نفس ذکر رسول اللہﷺکو ہی ناجائز سمجھنا محرومی اور کم نصیبی کی بات ہے ۔
سوال: السلام علیکم! عید میلاد کے متعلق علماے دیوبند کیا فرماتے ہیں؟
علماے دیوبند کا موقف یہی ہے کہ میلاد کے موقعے پر مروجہ طرز سے عید منانا اور اسے حبِ رسولﷺکا لازمی تقاضا سمجھنا، اور پھر ستم بالائے ستم یہ کہ نہ منانے والوں کو ابلیس کہنا ایک ایسی بدعت سَیِّئَۃ ہے جو عہد ِنبوی ، عہدِ صحابہ، تابعین و تبع تابعین کہیں سے ثابت نہیں۔ حب ِرسول کا اصل تقاضا یہ ہے کہ سنت رسول کی پیروی کی جائے، یہ نہیں کہ شور شرابا، نعرے بازی ، محافلِ نعت کی آڑ میں موسیقی اوربغض افشانی کرتے رہیں۔مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہے:’’جشنِ عیدِ میلاد کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے، البتہ آنحضرت ﷺکے ذکرِ مبارک اور آپ ﷺکی سیرتِ طیبہ کو سننے اور سنانے کے لیے کوئی مجلس کسی خاص دن یا تاریخ کی قید کے بغیر منعقد کی جائے تو درست ہے بشرطیکہ اس کا مقصد آپﷺکے ذکرِ مبارک سے برکت حاصل کرنا اور سیرتِ طیبہ پر عمل کا جذبہ پیدا کرنا ہو، نام و نمود مقصود نہ ہو‘‘۔ (فتاویٰ عثمانی: 1/51)
سوال:روضۂ رسولﷺپر حاضری کے آداب اور درود و سلام پیش کرنے کا صحیح طریقہ بتا دیں اور کونسا درودسلام پڑھنا چاہیے یا جس کی فضیلت زیادہ ہو وہ بتا دیں؟
جواب:حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مدظلہ نے آپ ﷺکے روضۂ اطہر پر حاضری کے آداب ،درود و سلام پیش کرنے کے الفاظ اور طریقے اپنی کتاب ’’رفیق حج‘‘میں ذکر فرمائے ہیں وہاں تفصیل دیکھیں ۔مختصراً چند آداب اور درود وسلام کے صیغے ذکر کیے جاتے ہیں :جب آدمی مدینہ منورہ کی طرف چلے تو درود شریف کثرت سے پڑھتا رہے اور جوں جوں قریب ہوتا جائے اور زیادہ کثرت کرتا جائے ۔ مستحب یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے پہلے غسل کرے ،پاک صاف عمدہ لباس جو پاس موجود ہو پہنے ۔اگر نئے کپڑے ہوں تو بہتر ہے خوشبو لگائے ۔شہر میں داخل ہونے سے پہلے پیادہ چلے اور اس شہر کی عظمت کا خیال کرتے ہوئے نہایت خشو ع و خضوع ، تواضع، ادب اور حضور قلب کے ساتھ درود شریف پڑھتا ہوا داخل ہو اور یہ پیشِ نظر رکھے کہ یہ وہ زمین ہے جس پر جا بجا رسول اکرمﷺکے قدم مبارک لگے ہوئے ہیں۔ جب مسجدِ نبوی میں داخل ہونے لگے تو بابِ جبرئیل سے داخل ہو اور پہلے دایاں پاؤں رکھے اور درود شریف پڑھ کر اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَپڑھے، پھر پہلے ریاض الجنۃ میں آکر دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھے ۔یہ وہ جگہ ہے جو قبر شریف اور منبر شریف کے درمیان ہے۔حدیث شریف میں آتا ہے:﴿مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ﴾(بخاری، کتاب الجمعۃ، باب فضل ما بين القبر والمنبر) ترجمہ:’’ میرے گھر اور منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے‘‘۔
تحیۃ المسجد سے فارغ ہو کر اللہ تعالیٰ کا اپنی حاضری کی توفیق اور سعادت بخشی پر شکر ادا کرے اور اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کرے ۔اس کے بعد روضۂ اقدس کے پاس حاضر ہو اور سرہانے کی دیوار کے کونے میں جو ستون ہے اس سے تین چار ہاتھ کے فاصلے پر کھڑا ہو ،نہ بالکل جالیوں کے پاس جائے اور نہ ہی زیادہ دو ر اس طرح کہ رخ روضۂ اقدس کی طرف اور پشت قبلہ کی طرف ہو اور یہ تصور کرے کہ آں حضرت ﷺلحد شریف میں قبلہ کی طرف چہرہ مبارک کیے ہوئے لیٹے ہیں اور پھر نہایت ادب کے ساتھ درمیانی آواز سے، نہ بہت پکار کر اورنہ بالکل آہستہ سلام کرے یہاں چند الفاظ درود وسلام لکھے جاتے ہیں :
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ الله،اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حَبِیْبَ الله ،اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا خَلِیْلَ الله،اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا خَیْرَ خَلْقِ الله، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا صَفْوَۃَ الله،اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا خِیَرَۃَ الله،اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا سَیِّدَ الْمُرْسَلِیْنَ ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا إِمَامَ الْمُتَّقِیْنَ ،اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَنْ أَرْسَلَهُ اللهُ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْنَ ،اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا شَفِیْعَ الْمُذْنِبِیْنَ ،اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مُبَشِّرَ الْمُحْسِنِیْنَ (غنیة الناسک فی بغیة المناسک لمحمد حسن شاه المهاجر المکي،ص:387،ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیة)
درودِابراہیمی کا ورد رکھےا ور مسنون اعمال کی پابندی، کثرتِ تلاوت کا اہتمام اور توبہ و استغفار کرے۔
سوال:جناب محترم! کیا ’’یا رسول اللہ‘‘ کہنا صحیح ہے؟ برائے مہربانی میں یہ جاننا چاہتا ہوں کیونکہ میں نے سنا ہے کہ یہ الفاظ کہنا درست نہیں ہے۔ جزاک اللہ
جواب: یارسول اللہ کسی درود وغیرہ کے ساتھ اس نیت سے کہنا کہ ملائکہ اس درود کو حضورﷺتک پہنچادیں، جائز ہے۔حدیث مبارکہ ہے: ﴿عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِي السَّلَامَ﴾ (سنن النسائی،کتاب السھو،باب السلام علی النبیﷺ)ترجمہ:عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: بلاشبہہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے زمین میں گھومتے رہتے ہیں اور میری امت کا سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں۔ شعب الایمان میں ہے:﴿مَنْ صَلَّى عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ نَائِيًا أُبْلِغْتُهُ﴾(شعب الایمان،تعظیم النبیﷺواجلالہترجمہ:’’جو مجھ پر میری قبر کے پاس درود بھیجتا ہے میں اس کو سنتا ہوں اور جو دور سے مجھ پر درود بھیجتا ہے، وہ مجھ تک پہنچادیا جاتا ہے‘‘۔ لیکن یہ عقیدہ رکھنا کہ حضورﷺحاضر و ناظر ہیں، ہر جگہ سے یا رسول اللہ پکارنے والے کی پکار کو سن کر از خود سن لیتے ہیں، درست نہیں، کیونکہ حاضر و ناظر ہونا صرف اللہ کی صفت ہے۔ لہٰذا ترک میں احتیاط ہے۔
امداد الفتاویٰ میں ہے:سوال:دلائل الخیرات کی حزبِ ششم یوم ِشنبہ میں جو یہ عبارت واقع ہے’’یا حبیبنا یا سیدنا محمدرسول اللهﷺ‘‘اس کا پڑھنا جب کہ قاری روضۂ مبارک پر حاضر نہ ہوکیسا ہے؟
جواب: ایسے صیغے بہ نیت تبلیغِ ملائکہ جائز ہیں مگر میں نے احتیاط کی ہے کیونکہ عوام میں مفاسد ہوگئے ہیں۔(امداد الفتاویٰ از حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ،جلد5،ص407،بعنوان صیغۂ خطاب سے درود شریف کا جواز مع تاویل، طباعت:مکتبہ دارالعلوم کراچی)
حوالہ جات:
1۔نغمة المرأة عورة ، وتعلمها القرآن من المرأة أحب قال عليه الصلاة والسلام(التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء( فلا يحسن أن يسمعها الرجل (ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب فی ستر العورۃ)
2۔من البدع المنكرة ما يفعل في كثير من البلدان من إيقاد القناديل الكثيرة العظيمة السرف في ليال معروفة من السنة كليلة النصف من شعبان فيحصل بذلك مفاسد كثيرة منها مضاهاة المجوس في الاعتناء بالنار في الإكثار منها ومنها إضاعة المال في غير وجهه(تنقیح الفتاوی الحامدیۃ، مسائل وفوائد شتى من الحظر والإباحة وغير ذلك، فائدة من البدع المنكرة)
3۔قال الطيبي وفيه أن من أصر على أمر مندوب وجعله عزما ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال فكيف من أصر على بدعة أو منكر(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الصلاۃ، باب الدعاء فی التشہد)
4۔من قال أرواح المشايخ حاضرة تعلم يكفر(البحر الرائق، کتاب السیر، باب احکام المرتدین)
ونظير ذلك فعل كثير عند ذكر مولده ﷺووضع أمه له من القيام وهو أيضاً بدعة لم يرد فيه شيء(الفتاوی الحدیثیة، ص112، مطبع:قدیمی)
5۔صرح أئمتنا الأعلام رضي الله تعالى عنهم بأنه لا يجوز أن يزاد على سراج المسجد سواء كان في شهر رمضان أو غيره لأن فيه إسرافا كما في الذخيرة وغيرها(تنقیح الفتاوی الحامدیۃ، مسائل وفوائد شتى من الحظر والإباحة وغير ذلك، فائدة من البدع المنكرة)
6۔قوله ( بل يكره في الصحيح ) وظاهر كلامهم أنها تحريمية لأن الوقوف عهد قربة بمكان مخصوص فلم يجز فعله في غيره كالطواف ونحوه ألا ترى أنه لا يجوز الطواف حول مسجد أو بيت سوى الكعبة تشبها كما في غاية البيان وفي الكافي من طاف بمسجد سوى الكعبة يخشى عليه الكفر(حاشیۃ الطحطاوی، کتاب الصلاۃ، باب احکام العیدین)
7۔لا بأس بالجلوس للوعظ إذا أراد به وجه الله تعالى(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الکراہیۃ، الباب الخامس في آداب المسجد۔۔۔)
(ب)الموالد والأذكار التي تفعل عندنا أكثرها مشتمل على خير ، كصدقة ، وذكر ، وصلاة وسلام على رسول اللهﷺومدحه ، وعلى شرّ بل شرور لو لم يكن منها إلا رؤية النساء للرجال الأجانب ، وبعضها ليس فيها شرّ لكنه قليل نادر ، ولا شكّ أن القسم الأول ممنوع للقاعدة المشهورة المقررة أنَّ درء المفاسد مقدَّم على جلب المصالح ، فمن عَلِم وقوع شيء من الشرّ فيما يفعله من ذلك فهو عاص آثم ، وبفرض أنه عمل في ذلك خيراً ، فربما خَيْرُهُ لا يساوي شَرَّه ألا ترى أن الشارعﷺاكتفى من الخير بما تيسر وفَطَم عن جميع أنواع الشر حيث قال : ( إذا أمرتكم بأمر فأتوا منه ما استطعتم ، وإذا نَهيتكم عن شيء فاجتنبوه ) فتأمله تعلم ما قررته من أن الشرَّ وإن قلّ لا يُرَّخصُ في شيء منه ، والخير يكتفى منه بما تيسر . والقسم الثاني سنَّة تشمله الأحاديث الواردة في الأذكار المخصوصة والعامة .كقوله ﷺ: ( لا يقعد قوم يذكرون الله تعالى إلا حفَّتهم الملائكةُ ، وغَشِيَتْهُم الرحمة ، ونزلت عليهم السكينة ، وذكرهم الله تعالى فيمن عنده ) رواه مسلم. وروى أيضاً أنهﷺقال لقوم جلسوا يذكرون الله تعالى ويحمدونه على أن هداهم للإسلام ( أتاني جبريل عليه الصلاة والسلام فأخبرني أن الله تعالى يُباهي بكم الملائكة ) وفي الحديثين أوضح دليل على فضل الاجتماع على الخير والجلوس له(الفتاوی الحدیثیة، ص112، مطبع: قدیمی)
8۔من قال أرواح المشايخ حاضرة تعلم يكفر(البحر الرائق،کتاب السیر، باب أحكام المرتدين)
9۔كل مباح يؤدي إليه فمكروه (الدر المختار،کتاب الصلاۃ،باب سجود التلاوۃ)۔